اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

کیا امام حسن مجتبىٰ (ع) نے بهت سارى عورتوں سے ازدواج کر کے انھیںطلاق دیا هے؟

کیا امام حسن مجتبىٰ (ع) نے بهت سارى عورتوں سے ازدواج کر کے انھیںطلاق دیا هے؟

افسوس کے ساتھـ کهنا پڑتا هے که اسلام کے حدیثى منابع کى بڑى آفتوں میں سے ایک آفت ، خودغرض ایجنٹوں کے توسط سے صیحح احادیث کے درمیان جعلى اور جھوتے احادیث درج کرنا هےـ امام حسن مجتبى علیه اسلام،دوسرے معصوم امام هیں اور آپ(ع) ان شخصیتوں میں سے هیں که افسوس که حدیث جعل کرنے والوں اور جھوٹے افراد نے حدیث کے روپ میں ان پر ناروا اتهامات لگائے هیں ـ من جمله آپ(ع) کے بارے میں ایسى روایتیں جعل کى گئى هیں که جن کا معنى ازدواج کى کثرت اور زیاده طلاق دینا هےـ

افسوس کا مقام هے که ان روایتوں کو شیعوں کى احادیث اور تاریخ کى کتابوں اوراهل سنت کى تاریخ کى کتابوں میں درج کیا گیا هےـ لیکن خوش قسمتى سے تاریخى اور عقیدتى لحاظ سے بهت سے شواهد موجود هیں ، جن سے ان روایتوں کا جعلی هونا واضح اور ثابت هو جاتا هےـ

تفصیلی جوابات

افسوس کا مقام هے که اسلام کے حدیثى منابع کو درپیش بڑى آفتوں میں سے ایک آفت ، احادیث جعل کرکے انھیں صیحح احادیث کے بیچ میں درج کرنا هےـ اس کام کے پیچھے سیاسى اورمذهبى وغیره عوامل تھے اور کبھى یه کام اموى اور عباسى حکام کے منفور شخصیتوں کو صیحح دکھانے کى غرض سے اور کبھى قابل قدر شخصیتوں کو مسخ کرکے پیش کرنے کى غرض سے آنجام پاتا تھاـ اس لئےجعلى احادیث کے درمیان میں سے صیحح احادیث کو تشخیص دینا بهت هى اهم لیکن مشکل کام هےـ

امام حسن مجتبى علیه اسلام ایک ایسى شخصیت هیں ، جو مسموم اور جعلى احادیث کے حملوں کا نشانه قرار پائے هیں ، لیکن خوش قسمتى سے احمق دشمنوں نے اب کى بار ان پر تعدد ازدواج اور زیاده اطلاق دینے کى تهمت لگائى هےـ یه ایک ایسا اتهام هے جس کا امام حسن مجتبى علیئه سلام جیسى شخصیت کے بارے میں بے بنیاد هونا مکمل طور پر واضح هےـ

اس قسم کى بعض روایتوں میں آیا هے که امام على (ع) نے اس مرد کو، جو اپنى بیٹى کے بارے میں حسن(ع) ، حسین(ع) اور عبدالله بن جعفر سے خواستگارى کے سلسله میں مشورت کرنے کے لئے آپ(ع) کى خدمت میں آیا تھا، کو فرمایا:" جان لو که حسن(ع) زیاده طلاق دیتا هےـ اپنى بیٹى کو حسیں (ع) کے ساتھـ ازدواج کرنا کیونکه وه تیرى بیٹى کے لئے بهتر هےـ"[1]

ایک اور روایت میں آیا هے که امام صادق علیه اسلام نے فرمایا: " حسن بن على(ع) نے پچاس بیویوں کو طلاق دى هے، یهاں تک حضرت على علیه اسلام کوفه میں کھڑے هوئے اور فرمایا:" اے کوفیو! حسن کو اپنى بیٹى نه دینا کیونکه وه زیاده طلاق دیتا هے"ـ ایک شخص اٹھا اور کها :" خدا کى قسم هم ایسا هى کریں گے، کیونکه وه رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور فاطمه زهراء(س) کے فرزند هیں، اگر چاهے اپنى بیوى کو رکھے اور اگر نه چاهے تو اسے طلاق دےـ"[2]

ایک اور روایت میں آیا هے که امام باقر علیه اسلام نے فرما یا:" على (ع) نے کو فیواں سے مخاطب هو کر فرمایا: حسن(ع) کو کوئى عورت نه دے کیونکه وه زیاده طلاق دیتا هےـ"[3]

اهل سنت کى بعض تاریخى کتابوں ، جیسے انساب الا شریف ،[4] قوت القلوب،[5] احیاء العلوم[6] اورابن ابى الحدید معتزلى[7] کى شرح ، نهج البلاغه وغیره میں بھى یهى مطالب تکرار هوئے هیںـ چونکه کهاوت هے که جھوٹ جتنا بڑا هو اسے قبول کرنا آسان تر هوتا هے، بعض جعلیات میں حضرت (ع) کى طلاق شده بیویوں کى تعداد کو تین سو تک پهنچا دیا گیا هے[8]، که یه سب روایتیں ضعیف ، فاقد اعتبار اور عقل و منطق کے خلاف هیںـ

بهت سے تاریخى اور اعتقادى شواهد موجود هیں جو مزکوره روایتوں کے صحح نه هونے کى دلالت پیش کرتے هیں، جن میں سے چند ایک کى طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:

1ـ حضرت امام حسن مجتبى علیه اسلام دوسرى یا تیسرى هجرى میں 15 رمضان المبارک کو پیدا هوئے هیں اور 28 سفر49 هجرى کو شهید هوئے هیںـ آپ(ع) کى عمر شریف 46 یا 47 سال سے یاده نهیں تھى ـ با لفرض اگر حضرت(ع) کى پهلى شادى بیس سال کى عمرمیں انجام پائى هو تو آپ(ع) کے والد گرامى کى شهادت کے سال 40 هجرى یعنى 18 یا17 سال کى مدت میں یه شادیاں اور طلاق واقع هوئے هونے چاهئےـ جبکه امام حسن مجتبى علیه اسلام نے اپنے والد گرامى کے پانچ ساله حکومت کے دوران تمام تین جنگوں یعنى جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نهروان میں معلانه طور پر شرکت کى هے اور اس کے پیش نظر که حضرت (ع) نے بیس بار مدینه سے پیدل جاکر حج کے فرائض انجام دئے هیں، تو یه کیسے ممکن هے که ان کے پاس اتنى شادیاں کرنے کى فرصت پیدا هوتى ـ اس لحاظ سے اس قسم کى روایتوں کو قبول کرنا ایک نا معقول امر هےـ

2ـ اکثر روایتیں ، جو احادیث کى کتابوں میں نقل هوئى هیں امام صادق علیه اسلام سے منقول هیںـ یعنى یه مطلب امام حسن مجتبى علیه اسلام کے زمانه کے ایک سوسال بعد پیش کیا جاتا هے، کیونکه امام جعفرصادق علیه اسلام کى شهادت 148 هجرى میں اور حضرت امام مجتبىٰ علیه اسلام کى شهادت 48 هجرى میں واقع هوئى هےـ اگر حقیقت میں یه روایتیں حضرت امام صادق(ع)سے هوں، تو سوچنے کا مقام هے که حضرت امام صادق(ع)ایک صدى گزرنے کے بعد ان روایتوں کو بیان کرنے میں کیا مقصد رکھتے تھے؟ کیا وه حضرت امام حسن مجتبىٰ علیه اسلام کے خاندانى بحران کو طشت از جام کرنا چاهتے تھے؟! تعجب کى بات هے که یه مطلب اسى زمانه میں ، اهل بیت اطهار علیهم اسلام کے جانى دشمن منصور دوانقى کى زبان پر جارى هوتے هیںـ مشهور مورخ مسعودى نے اپنى کتاب "مروج الزهب" میں، خراسانیوں کے ایک اجتماع میں منصور دوانقى کى ایک تقریر کو یوں نقل کیا هے:" خدا کى قسم هم نے فرزندان ابوطالب کو خلافت کرنے سے کبھى نهیں روکا هے اور کسى صورت میں ان پر اعتراض نهیں کیا هے ، یهاں تک که على بن ابیطالب نے خلافت کو اپنے هاتھوں میں لے لیا اور جب حکومت کرنے میں کامیاب نه هوئے تو حکمیت کے سامنے هتھیارڈال دئے ـ لوگوں میں اختلاف پیدا هوا چه مى گوئیاں هونے لگیں ، یهاں تک که ایک گروه نے ان پر حمله کیا اور انھیں قتل کر ڈالاـ ان کے بعد ، حسن بن على اٹھے ـ وه ایسے شخص نهیں تھے که اگر کوئى مال پیش کیا جاتا، تو اسے لیتےـ معاویه نے جالبازى اور حلیه سے انھیں اپنا ولى عهد بنایاـ اور اس کے بعد انھیں معزول کیا ـ انهوں نے عورتوں کى طرف رخ کیاـ کوئى ایسا دن نهیں تھا جب وه ازدواج نه کرتے یا طلاق نه دیتے ـ یهاں تک که بستر پر اس دنیا سے چلے گئےـ"[9]

3ـ اگر یه بات حقیقت هوتى ، تو ان کے جانى دشمنوں اور بهانه تلاش کرنے والوں کو آپ(ع) کى زندگى کے دوران اس پر اعتراض کرنا چاهئے تھا، جبکه وه آپ(ع) کے بارے میں معمولى چیزوں ، یهاں تک که آپ(ع) کے لباس کے رنگ پر بھى اعتراض کرتے تھےـ اگر یه بات صیحح هوتى تو دشمنوں کے لئے ایک بڑا بهانه اور نقطه ضعف هاتھـ آتا اور ضرور اس پر انگلى اٹھا تے ـ لیکن اس زمانے کے بارے میں ایسى کوئى گزارش نقل نهیں کى گئى هےـ

4ـ تاریخ کى کتابوں میں امام حسن مجتبى علیه اسلام کى بیویوں، فرزندوں اور دامادوں کى جو تعداد نقل کى گئى هے، وه حضرت (ع) کى بیویوں کى اس تعداد سے سازگار نهیں هےـ آپ کے زیاده سے زیاده فرزندوں کى تعداد 22 اور کم سے کم 12 بتائى گئى هے آپ کى بیویوں کے طور پر صرف 13 نام ذکر هوئے هیں لیکن ان میں سے تین بیویون کے حالات کے علاوه کسى کى تفصیلات معلوم نهیں هیںـ اس کے علاوه تاریخ کى کتابوں میں آپ(ع) کے تین داماد وں کے علاوه کسى کا ذکر نهیں هوا هےـ[10]

5ـ طلاق کے قبیح هونے کے بارے میں بهت سى روایتیں دلالت کرتى هیںـ یه روایتیں شیعوں اور اهل سنت کى حدیث کى کتابوں میں مکرر طورپر نقل هوئى هیںـ رسول خدا صلى الله علیه وآله وسلم نے فرمایا:" خدا کے پاس حلال کاموں میں سب سے قابل نفرت کام طلاق هےـ"[11] امام صادق علیه اسلام نے فرمایا:" شادى کرنى چاهئے لیکن طلاق نهیں دینا نهیں ، کیونکه طلاق عرش الهىٰ کو هلاکر رکھتا هےـ"[12]اس کے علاوه حضرت امام صادق علیه اسلام اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے هیں:" خدا وند متعالى اس شخص کو دشمن رکھتا هے جو زیاده طلاق دیتا هو اور جنسى لذت کے تنوع کے پیچھے جاتا هو"[13]

اس کے پیش نظر کیا ممکن هے که ایک معصوم امام مکرر طور پر ایسا کام انجام دے اور ان کے والد بھى انھیں اس کام سے نه روک سکیں !!

6ـ امام حسن مجتبى علیه اسلام اپنے زمانے کے عابد تریں اور زاهد ترین انسان تھےـ[14] وه هر وقت اس طرح اپنے پروردگار سے رازو نیاز کرتے تھے:" میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کا احساس کرتا هوں که میں اس حالت میں اس کى ملاقات کروں جبکه میں اس کے گھر کى طرف پیدل نه گیا هوںـ"[15] آپ(ع) بیس بار مدینه سے پیدل حج پر چلے گئے اور حج کے اعمال بجا لائے هیں، یه کیسے ممکن هے که آپ(ع) اس قسم کے اعمال کے مرتکب هو چکے هو گے؟

7ـ مطلاق " زیاده طلاق دینے " کى صفت جاهلیت کے زمانے میں بھى قابل مذمت تھىـ جب حضرت خدیجه سلام الله علیها نے اپنے چچا زاد بھائى ورقه سے اپنے خواستگاروں کے بارے میں صلاح مشوره کیا که ان میں سے کس کو مثبت جواب دیں گیں، تو ورقه نے جواب میں کها : شیبه کافى بدگمان شخص هے، اور عقبه بوڑھا هے، ابو جهل ایک متکبر اور بخیل شخص هے اور صلت ایک مطلاق(زیاده طلاق دینے والا) هےـ اس وقت حضرت خدیجه سلام الله علیها نے کها:" ان پر خداکى نفرین هو ، کیا تم جانتے هو که کسى اور مرد نے میرى خواستگارى کى هے؟

قابل غور بات هے، یه کیسے ممکن هے که جو خصلت زمانه جاهلیت میں بھى قابل مذت تھى اور اس زمانے کی عورتیں حاضر نهیں تھیں که کسى "مطلاق"( زیاده طلاق دینے والے ) کے ساتھـ شادى کریں، اور حضرت على علیه اسلام نے اپنے ایک زاهد و متقى فرزند کے بارے میں ایسى توصیف کى هوگى؟ اور ایک معصوم امام اس قسم کى ناپسند خصلت سے آلوده هو جائے جو خدا کے غضب کا سبب بنتى هو؟!

یه چند ثبوت تھے جو ان روایتوں کے بے بنیاد هونے کى دلالت پیش کرتے هیںـ

اس بنا پر ان ضعیف مضامین اور جعلى روایتوں کو ایک ایسى شخصیت کے بارے میں قبول نهیں کیا جاسکتا هے، جن کى متعدد روایات کے مطابق پیغمبراسلام صلى الله علیه وآله وسلم نے تعریف و تمجید کى هوـ[16]

مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کا مطالعه کیا جاسکتا هے:

1ـ حیاۃ الا مام الحسن (ع) تالیف :باقر شریف القرشى ج2،ص457ـ472 (دارالکتب العمیه)

2ـ"نظام حقوق زن در اسلام"، تالیف : شهید مطهرى،ص306ـ309 (انتشارات صدرا)

3ـ"زندگى امام حسن(ع) تالیف : مهدى پیشوائى،ص31ـ39(انتشارات جوان)

4ـ" الامام المجتبى" تالیف: حسن المصطفوى، ص228ـ234 (مکتبالمصطفوى)

5ـ"ازگوشه وکنار تاریخ" تالیف: سید على شفیعى،ص88(کتاب خنه صدرا)

6ـ "زندگانى امام مجتبىٰ(ع)" تالیف: سید هاشم رسولى محلاتى،ص469ـ484 (دفتر نشر فرهنگ اسلامى)

7ـ "حقائق و پنهان" تالیف: احمد زمانى،331ـ354 (انتشارات دفتر تبلیغات اسلامى)[17]


[1] البرقی محاسن،ج2 ،ص601.

[2] الکافی،ج6،ص56،ح5و4

[3] دعائم الاسلام،ج2،ص257،ح980

[4] انساب الاشراف، ج3،ص25.

[5] قوت القلوب،ج2،ص246.

[6] محجھ البیضا،ج3،ص69.

[7] شرح نھج البلاغه،ج3، ص 69.

[8] ملاحظه هو; قوت القلوب ابوطالب مکی.

[9] مروج الزھب،3 ص 300.

[10] حیاۃ الامام الحسن(ع) ،ج 2، ص463ـ469 و ص457.

[11] سنن ابی داود،ج2 ، ص632، ح2178.

[12] وسائل الشیعه ،ج15، ص268; مکارم الاخلاق، ص225 :تزوجوا و لا تطلقوافان الطلاق یھتز منه العرش.

[13] وسائل الشیعه ،ج15،ص 267،ح3، ان الله عزوجل یبغض کل مطلاق و ذواق.

[14] فراید السمطین ،ج2، ص68: بحارلانوار،ج 16، ص 60.

[15] بحارالانوار،ج43، ص399،انی لاستحیی من ربى ان القاه ولم امش الی بیته ، فمشی عشرین مرۃ من المدینۃ على رجلیه.

16 مقاله : تاملى دراحادیت کثرت طلاق ، مھدی مھریزى ، مجله پیام زن ، تیر 77 ، شماره 76.

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام موسیٰ کاظم کی ماں حضرت حمیدہ
امام کاظم علیہ السلام کی مجاہدانہ زندگی کے ...
تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا
امام رضا (ع) کی حدیث سلسلۃ الذہب کا مختصر تعارف
تشیع عصرامام باقر اور امام صادق علیہما السّلام ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
امام حسن علیہ السلام کے واقعات بھی واقعات کربلا ...
رسول خدا (ص) کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ
روایت" ۔۔۔ لو لا فاطمۃ لما خلقتکما " کی سند ...
قرآن کی نظر میں جوان

 
user comment