انسان کے ذہن میں جب بھی کسی واقعہ کے سلسلہ سے سوال اٹھے کہ ایسا کیوں ہوا تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ یہی کیوں وہ چابی ہے جو مختلف واقعات کے اسباب و علل کے دروازوں کو کھولتی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حادثہ محض حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی فکر کارفرما تھی۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بکھرے ہوئے واقعات پر یوں تو بہت سے بزرگ علماء، دانشوروں اور اسکالرز نے اظہار خیال کیا ہے لیکن ائمہ طاہرین علھیم السلام کی زندگی کو ۲۵۰ سالہ انسان کی زندگی کے اعتبار سے دیکھتے ہوئے ایک ہی زنجیر کے حلقوں کی صورت ہر امام کی زندگی کو جس رخ سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیش کیا وہ بے نظیر ہے ، گرچہ اس سے ملتی جلتی گفتگو شہید صدر علیہ الرحمہ کی بھی ملتی ہے لیکن جس منظم انداز میں تاریخی حوادث کے گوشوں کو آیت اللہ خامنہ ای نے ایک مجاہدانہ حیات کے خط سے جوڑا ہے اسکی نظیر نہیں چنانچہ امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں مختلف پراکندہ واقعات کا باہمی تعلق کیا ہے اور آپ کی سیاسی حکمت عملی کیا تھی آپ کا تصور امامت کیاتھا اور ہم امام کاظم علیہ السلا م کے تصور امامت سے کتنا دور ہیں اس بات کو مختصر سی اس تحریر میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
امام کاظم علیہ السلام کا تصور امامت اور آپ کے بعض شیعہ کہلانے والوں کا تصور امامت
رہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے تصور امامت کو واضح کرتے ہوئے موجودہ دور میں ان لوگوں کی فکر پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں جو امامت و ولایت کے غلط تصور کی بنا پر دشمنوں کے جال میں پھنسے ہوئے انحطاط و انجماد نا تراشیدہ اصنام کی صورت قوم و مذہب کی ذلت کا سبب بن رہے ہیں آپ فرماتے ہیں :
“ایسے بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے امام کاظم علیہ السلام کی ہارون سے چغلی کی تاکہ امام علیہ السلام کو زندان میں ڈالا جا سکے ،چنانچہ ایک شخص آکر ہارون سے امام علیہ السلام کی سعایت کرتا ہے اور کہتا ہے ، کیا زمین میں تو خلیفہ جمع ہو گئے ہیں اور کیا خراج دو الگ الگ خیلفاوں کے لئے وصول کیا جاتا ہے ، ہارون نے کہا میرے علاوہ اور کون ہے جس کے لئَے یہ کام ہوتا ہو ، جواب دیا گیا خراسان ، ہرات اور دیگر جگہوں سے لوگ اپنے خمس کے اموال و پیسوں کو امام کاظم علیہ السلام کے لئے لے کر جاتے ہیں ، یہاں پر آپ غور کریں امامت کا معاملہ تھا اور اسی راہ میں ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام شہید ہوئے یا انہیں زندان میں ڈال دیا گیا ، امامت کا تصور کیا ہے ؟ کیا امامت بس یہی ہے کہ مسئلہ بیان کر دیا جائے اور دنیا کو کوئی اور ادارہ کرے کیا امامت کے معنی شیعت میں اور مسلمانوں کے یہاں یہی ہیں ؟ کوئی مسلمان بھی ایسے تصور امامت کا قائل نہیں ہے پھر ہم اور آپ شیعہ ہوتے ہوئے کیونکر ایسے تصور امامت کو قبول کر سکتے ہیں ؟ امام صادق علیہ السلام امامت کے ہاتھوں میں زمام امور آنے کو لیکر سرگرم عمل تھے یعنی دین و دنیا کی حاکمت امامت کے ہاتھوں میں لینے کے لئے آپ نے کوئی دقیقہ فروگزا ر نہ کیا لیکن حالات و شرائط منطبق نہ ہو سکے ، لیکن ایسا نہیں تھا کہ آپ نے اپنے حق سے صرف نظر کر لیا ہو آپ کا دعوی اپنی جگہ قائم تھا اور اسی دعوای امامت کی بنیاد پر ان عظیم ہستیوں کو شہید کیا گیا ،یہی دین کی حاکمیت کے معنی ہیں جنکے لئے پیغمبروں نے جہاد کیا ، اور ائمہ طاہرین علیھم السلام نے قربانی دی ، ۔۔۔ کیا ممکن ہے کہ ایک شخص کہے میں دیندار تو ہوں میں ایک عالم دین ہوں لیکن اس دعوے کے باوجود خود کو دین کا سپاہی تسلیم نہ کرے ، کیا ایسا ممکن ہے ؟ جو بھی دینداری کا دعوی کرتا ہے و دین کے دعوے کے ساتھ دین کی بنیادوں پر مشتمل دینی حکومت کو اپنا نہ سمجھتا ہو اسکے دفاع کرنے کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص جھوٹا ہے اسے دین سے لگاو نہیں ہے جب ہم کہتے ہیں وہ جھوٹا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے وہ خلاف واقع ہے اورغلط راستے پر چل پڑا ہے ،حقیقت کے برخلاف چل رہا ہے لیکن سمجھنے کوتیار نہیں ہے البتہ یہاں بعض ایسے افراد ہیں جو اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں انکی تشخیص ہی دوسری ہے اور وہ اس بات ہی کا انکار کرتے ہیں کہ دین کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کوئی منصوبہ بندی موجود ہے[۱]”
امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے پراکندہ واقعات اور انکا باہمی تعلق
شک نہیں کہ ہر انسان کی کتاب زندگی میں ہر ایک ورق پر ایک داستان رقم ہوتی ہے ، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دن کچھ خاص واقعہ نہ ہوا ہو تو کتاب زندگی کا صفحہ خالی ہو اور کسی دن کئی کئی حوادث رونما ہوں تو ایک ہی صفحے پر کئی واقعات درج ہوں گرچہ کتاب زندگی کا کوئی ورق خالی نہیں رہتا ہمارے حوادث کو دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کو ہم یاد کے لائق سمجھتے ہیں تو محفوظ رکھتے ہیں اور کچھ کو مٹا دیتے ہیں یا قابل اعتنا نہیں سمجھتے لیکن اتنا ضرور ہے ہر انسان کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے جسکے حصول کے لئے جب انسان بڑھتا ہے تو مختلف حوادث سامنے آتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ مقصد تک پہنچنے کی لگن میں انسان نے کن کن پر خار وادیوں کو طے کیا ہے کبھی یہ واقعات بہت منسجم ہوتے ہیں کبھی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بھی ہمیں مختلف واقعات نظر آتے ہیں جنہیں رہبر انقلاب اسلامی نے ایک زندگی کے خط سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
“امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی زندگی سے جڑے سے مختلف اور ایک دوسرے سے لا تعلق واقعات سے گفتگو اور آپکی علمی ، معنوی و قدسی زندگی پر زور دینا اور اسی پر توجہ کرنا نیز آپ کے خاندان سے متعلق واقعات اور آپ کے اصحاب و شاگردوں سے جڑے مسائل کو پیش کرنا ، علمی اور کلامی مباحثوں کو پیش کرنا یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں اگر امام کاظم علیہ السلام کے ۳۵ سالہ دور امامت میں آپ کے مجاہدانہ خط پر توجہ کئے بغیر پیش کیا جائے تو یہ ساری باتیں ناقص و ناتمام رہ جائیں گی ، امام علیہ السلام کی زندگی کی مجاہدانہ روش اور آپ کی دائمی جہادی زندگی کے خط کی تشریح و وضاحت آپکی با فیض زندگی کو ایکد دوسرے سے جوڑ دیتی ہے اور آپکی زندگی کی ایک واضح اور مکمل تصویر سامنے آتی ہے اور ایک خاص ایسے زاویہ کے تحت گزرنے والی زندگی کی تصویر کو پیش کرتی ہے جس میں ہر حاثہ اورواقعہ اور جس کے اندر پائی جانے والی ہر حرکت با معنی ہوتی ہے کیوں امام صادق علیہ السلام مفضل سے فرماتے ہیں اس نوجوان کی امامت کی بات بس مورد اعتماد افراد سے کہو [۲]عبد الرحمن بن حجاج سے صراحت کے بجائے اشارہ و کنایہ میں فرماتے ہیں زرہ انکے اوپر پوری آتی ہے[۳] یا اپنے نزدیک دوستوں جیسے “صفوان جمال ” سے سے علامت اور نشانیوں کے ذریعہ تعارف کراتے ہیں[۴]،آخر کیوں اپنے وصیت نامہ میں اپنے فرزند کا نام چار لوگوں کے ذکر کے بعد لاتے ہیں اور اس میں بھی پہلا نام منصور عباسی کا ہے پھر حاکم مدینہ اور اس کے بعد دو خواتین کا نام ہے[۵] ، اور اس طرح ان ناموں کو ذکر کرتے ہیں کہ آپکی شہادت کے بعد شیعوں کے بزرگ عمائدین اس بات کو نہیں جانتے کہ آپ کا جانشین یہی بیس سال کا جوان ہے ؟”[۶]
آخر کیوں؟
انسان کے ذہن میں جب بھی کسی واقعہ کے سلسلہ سے سوال اٹھے کہ ایسا کیوں ہوا تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ یہی کیوں وہ چابی ہے جو مختلف واقعات کے اسباب و علل کے دروازوں کو کھولتی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حادثہ محض حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی فکر کارفرما تھی امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مراحل میں بارہا یہ سوال کھڑا ہوتا ہے امام علیہ السلام نے ایسا کیوں کیا رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلہ سے فرماتے ہیں :
“کیوں ہارون سے گفتگو میں جب وہ خراج کے وصولنے اور دو خیلفہ ہونے[۷] کی بات کرتا ہے تو امام کاظم علیہ اسلام نرم لہجہ اختیار کرتے ہیں اوراس بات کا انکار نرم زبان میں کرتے ہیں اور اسکے بعد حسن بن عبد اللہ نامی ایک مرد زاہد سے خطاب میں کیوں معرفت امام کی بات کرتے ہیں اور خود کو مفترض الطاعہ کی حیثیت کے پیش کرتے ہیں یعنی اس مقام کا حامل جس پر عباسی خلیفہ نے قبضہ کیا ہوا تھا کیوں امام کاظم علیہ السلام علی ابن یقطین کو جو کہ ہاروں کی مشینری میں ایک بلند پایہ مقام کے حامل تھے اور امام کے چاہنے والوں میں تھے تقیہ کی سفارش کرتے ہیں لیکن صفوان بن جمال کی اسی ہارون کی خدمت کے سلسلہ سے ملامت کرتے ہیں اور خلیفہ وقت سے رابطہ منقطع کر لینے کی دعوت دیتے ہیں کس طرح اور کن وسائل کے تحت آپ اسلام کے وسیع قلمرو کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرتے ہیں جس سے سب چین کی سرحدوں تک جڑے رہیں ؟
کیوں منصور ، مہدی ، ہارون ، ہادی ، یہ سب کے سب اپنے اپنے دور اقتدار کے مخلتف زمانوں میں امام کاظم علیہ السلام کو قتل کرنے اور زندان میں ڈالنے کے درپے رہتے ہیں اور کیوں جیسا کہ بعض روایات بیان کرتی ہیں امام علیہ السلام کو ۳۵ سال کے دور امامت میں ایک دور مخفیانہ طور پر گزارنا پڑتا ہے کیوں آپ مخفیانہ طرز حیات اختیار کر کے شام اور بعض طبرستان کے علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کی جانب سے آپ کو تلاش کیا جاتا ہے اور وہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں جبکہ آپ اپنے دوستوں سے فرماتے ہیں کہ اگر خیلفہ میرے بارے میں تم سے کچھ پوچھے تو اس سے کہہ دینا کہ ہم انہیں نہیں جاتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں ۔
کیوں یارون ایک سفر حج کے دوران آپکی از حد تجلیل و تکریم کرتا ہے اور ایک دوسرے سفر میں آ پکو زندان میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے ،کیوں آپ ہارون کی خلافت کے ابتدائی ایام میں جبکہ اس نے ملائم و نرم رویہ اختیار کیا ہوا تھا اور درگزشت سے کام لے رہا تھا اس نے علویوں کو بھی قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد کر دیا تھا اس دور میں ان تمام چیزوں کے باوجود جب فدک کی بات آتی ہے تو اس طرح فدک کو بیان کرتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک پر منطبق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ خلیفہ حضرت کی خدمت میں تعریض کی صورت کہتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو آپ اٹھیں اور میری جگہ سنبھال لیں ، آخر کیوں اسی خلیفہ کا یہ نرم رویہ چند سالوں میں اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام کو خطرناک زندان میں ڈال دیتا ہے اور سالوں سال زندان میں محبوس کرنے کے بعد اس پر بھی راضی نہیں رہتا اور زندان میں رہنا بھی گوارا نہیں کرتا اور امام علیہ السلام کو سفاکانہ طور پرمسموم کر کے شہید کر دیتا ہے “[۸]
یہ سب کے سب اور ایسے ہی سیکڑوں قابل توجہ پر معنی حوادث جو ظاہری طور پر ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے سے متضاد بھی نظر آتے ہیں انہیں حوادث کو جب ہم امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے مجاہدانہ خط کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تو سب کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے سب کے معنی پتہ چل جاتے ہیں سبکا رابطہ پتہ چل جاتا ہے اور یہ وہ خط ہے جسے ہم امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے آغاز سے لیکر آپکی شہادت تک دیکھتے ہیں کہ یہی خط جاری و ساری ہے ، یہ وہ خط ِ جہاد ہے جو ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کے ڈھائی سو سالہ مجاہدانہ دور حیات میں مختلف شکلوں میں مستمر نظر آتا ہے اسکا ہدف اول درجے پر حقیقی اسلام کی وضاحت اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر نیز اسلامی معرفت کی ایک روشن و واضح تصویر بیان کرنا ہے ، اور دوسرے درجے اسلامی سماج میں مسئلہ امامت اور معاشرہ میں سیاسی حاکمیت کے مفہوم کو واضح کرنا ہے اور تیسرے درجہ میں اس بات کی کوشش کرنا ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جس میں حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے ہدف کو متحقق کیا جا سکے ، یعنی عدل و انصاف کا قیام اور اللہ کے دشمنوں کو حکومت سے ہٹا کر زندگی کو خلفاء اللہ کے حوالے کرنا[۹]” ۔
امام کاظم علیہ السلام اور زندان سے حرکت و قیام کا پیغام
یقینا امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کو ایک خطِ واحد سے جوڑ کر ہم اس رخ سے دیکھیں کہ جس میں امام علیہ السلام مختلف انداز سے ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کو حرارت بخشتے ہو بلند ہدف کے حصول کے لئے بڑھتے رہو ہیجان عمل کی آگ ہرگز ٹھنڈی نہ ہو ورنہ ہدف تک رسائی مشکل ہو جائے گی اگر ہم آپ کی زندگی کو دائرہ توحید میں اس انداز سے بڑھتے دیکھیں تو نہ صرف آپ کی زندگی میں مخلتف سرگرمیوں اور آپ کی جانب سے امت کی ہدایت کی حکمت عملی کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ محض آپ کی زندگی ہی نہیں آپکا زندان میں ہونا بھی ہمارے لئے ایک پیغام ہوگا آگے بڑھنے کا پیغام ظلم سے مقابلہ کا پیغام رہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے زندان میں جانے کو بھی اسی رخ سے دیکھتے ہیں:
“امام کاظم علیہ السلام کی شخصیت زندان میں رہتے ہوئے بھی ایک مشعل فروزاں کی حیثیت رکھتی ہےجو اپنی تمام سمتوں کو روشن کئے ہوئے ہے ، آپ ملاحظہ کریں یہی حق ہے ، اسلامی فکر کی سمت اور قرآنی بنیادوں پر اسلامی جہاد کا تصور
ایسی ہی حرکت اور ایسی ہی سمت پر مبتنی ہے یہ وہ حرکت ہے جو جس میں کبھی توقف نہیں ہے حتی سخت ترین شرائط میں بھی یہاں انجماد کاتصور نہیں” ۔[۱۰]
شک نہیں کہ امام علیہ السلام کی زندگی کو اس رخ سے دیکھا جائے جو رہبر انقلاب اسلامی نے بیان کیا ہے تو ہم آج کی اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور مختلف دشواریوں اور مشکلوں کے باجود اپنا اور اپنی قوم کا سر بلند کر سکتے ہیں ،اس لئے کہ ہمارے ائمہ طاہرین کا پیغام ہے خود زندان میں چلے جاو لیکن قوم کو غلامی کے زندان سے نکال کر آزاد کر دو اور امام کاظم علیہ السلا م زندان میں رہتے ہوئے قوم کو آزاد کرانے والی ایک ایسی شخصیت ہے جسے ہمیشہ ایسے امام کی صورت دنیا سلام کرتی رہے گی جس نے زندان میں رہتے ہوئے قوم کا وقا ر بلند کیا جو زندان میں ضرور تھا لیکن اسکی روح آزاد تھی اور اسی آزاد روح نے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی جسے اکیسویں صدی کے عظیم انقلاب کے طور پر دنیامیں جانا جاتا ہے ۔
خیبر تجزیاتی ویب گاہ
حواشی:
[۱] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476
[۲] ۔كُنْتُ عِنْدَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَدَخَلَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ ع وَ هُوَ غُلَامٌ فَقَالَ اسْتَوْصِ بِهِ وَ ضَعْ أَمْرَهُ عِنْدَ مِنْ تَثِقُ بِهِ مِنْ أَصْحَابِك »
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ ح۴ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۶ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۱۹ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۷،ح۱۳
[۳] ۔سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ فِی السَّنَةِ الَّتِی أُخِذَ فِيهَا أَبُو الْحَسَنِ الْمَاضِی ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ صَارَ فِی يَدِ هَذَا وَ مَا نَدْرِی إِلَى مَا يَصِيرُ فَهَلْ بَلَغَكَ عَنْهُ فِی أَحَدٍ مِنْ وُلْدِهِ شَيْ ءٌ فَقَالَ لِی مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَداً يَسْأَلُنِی عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ دَخَلْتُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ فِی مَنْزِلِهِ فَإِذَا هُوَ فِی بَيْتٍ كَذَا فِی دَارِهِ فِی مَسْجِدٍ لَهُ وَ هُوَ يَدْعُو وَ عَلَى يَمِينِهِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ع يُؤَمِّنُ عَلَى دُعَائِهِ فَقُلْتُ لَهُ جَعَلَنِيَ اللَّهُ فِدَاكَ قَدْ عَرَفْتَ انْقِطَاعِی إِلَيْكَ وَ خِدْمَتِی لَكَ فَمَنْ وَلِيُّ النَّاسِ بَعْدَكَ فَقَالَ إِنَّ مُوسَى قَدْ لَبِسَ الدِّرْعَ وَ سَاوَى عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ لَا أَحْتَاجُ بَعْدَ هَذَا إِلَى شَيْ ء»
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ح۳ كشف الغمه ،محدث اربلی :ج ۲،ص ۲۲۰ بحارالانوار، علامه مجلسی : ج ۴۸، ص ۱۷،ح ۱۷
[۴] ۔ قَالَ لَهُ مَنْصُورُ بْنُ حَازِمٍ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی إِنَّ الْأَنْفُسَ يُغْدَى عَلَيْهَا وَ يُرَاحُ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَمَنْ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَهُوَ صَاحِبُكُمْ وَ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ أَبِی الْحَسَنِ ع الْأَيْمَنِ فِی مَا أَعْلَمُ وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ خُمَاسِيٌّ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ جَالِسٌ مَعَنَا»
الكافی،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۹ ح۶ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۸ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۲۰ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۸،ح۲۰
[۵] ۔ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ فِی جَوْفِ اللَّيْلِ فَأَتَيْتُهُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ وَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَمْعَةٌ وَ فِی يَدِهِ كِتَابٌ قَالَ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ رَمَى بِالْكِتَابِ إِلَيَّ وَ هُوَ يَبْكِی فَقَالَ لِی هَذَا كِتَابُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ يُخْبِرُنَا أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَدْ مَاتَ فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ ثَلَاثاً وَ أَيْنَ مِثْلُ جَعْفَرٍ ثُمَّ قَالَ لِيَ اكْتُبْ قَالَ فَكَتَبْتُ صَدْرَ الْكِتَابِ ثُمَّ قَالَ اكْتُبْ إِنْ كَانَ أَوْصَى إِلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ فَقَدِّمْهُ وَ اضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْجَوَابُ أَنَّهُ قَدْ أَوْصَى إِلَى خَمْسَةٍ وَاحِدُهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَ عَبْدُ اللَّهِ وَ مُوسَى وَ حَمِيدَة »
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۱۰ ح ۱۳ اعلام الوری ،شیخ طبرسی: ص۲۹۹ بحار الأنوار،علامه مجلسی : ج ۴۷ ،ص۳،ح ۸
[۶] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476
[۷] ۔لَمَّا أُدْخِلْتُ عَلَى الرَّشِيدِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ يَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ خَلِيفَتَانِ يَجِي ءُ إِلَيْهِمَا الْخَرَاجُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَ إِثْمِكَ فَتَقْبَلَ الْبَاطِلَ مِنْ أَعْدَائِنَا عَلَيْنَا فَقَدْ عَلِمْتَ بِأَنَّهُ قَدْ كُذِبَ عَلَيْنَا مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ مَا عِلْمُ ذَلِكَ عِنْدَك… »
عیون اخبارالرضا، شیخ صدوق ج۱ ص ۸۱ ح ۹ إحتجاج،شیخ طبرسی: ج ۲ ، ص ۳۸۹ ،ح۲۷۱ بحارالانوار،علامه مجلسی : ج ۴۸ ، ص ۱۲۵ ،ح ۲
[۸] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476
[۹] ۔ http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476