شیعہ علماء کا اعتقاد ہے کہ عمر بن خطاب خنثی تھے اور اپنے معالجہ کے لئے کوئی دوائی تلاش نہ کرسکے اور آب منی سے علاج کرتے تھے؛
ایک مختصر
خلفائے راشدین خاص کر عمر بن خطاب کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ، وہی ائمہ اطہار{ع} کا نظریہ ہے- شیعوں کی کسی معتبر احادیث کی کتاب میں ائمہ اطہار{ع} سے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی گئی ہے، جس سے معلوم ھوجائے کہ عمر بن خطاب خنثی تھے- اس قسم کی بہت سے تہمتیں شیعوں پر لگائی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں اور یہ شیعہ علماکا اعتقاد نہیں ہے-
تفصیلی جوابات
رسالت کا دور شروع ھونے اور اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ، پیغمبر اکرم {ص} کی احادیث درج اور نقل ھونے کا سلسلہ بھی شروع ھوا- پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد، اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے دوچار ھونے والے حالات کے دوران، بعض مسلمانوں نے اس گراں قیمت گنجینہ کو جمع کرنے کا اقدام کیا- اس دوران خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں کچھ خاص سیاسی حالات کے پیش نظر حدیث لکھنے کی ممانعت کی گئی- یہ ممانعت مسلمانوں کے معاشرہ کے لئے ایک نقصان شمار کی جاتی تھی- اس وقتی لیکن موثر ٹھہراو کے بعد حدیث لکھنے اور نقل کرنے کا سلسلہ پھر سے شروع ھوا- کمیت کے لحاظ سے حدیث درج و نقل کرنے کے کام کو وسعت حاصل ھونے کے نتیجہ میں ایسے محدث میدان میں آگئے جن کا دینی لحاظ سے سالم ھونا مشکوک تھا- ایسے افراد میں زیادہ تر تازہ مسلمان شدہ یہودی قابل توجہ تھے- احادیث کے بعض مجموعوں پر تھوڑا سا غور کرنے سے ان احادیث کے مجموعوں میں اسرائیلیات، جھوٹی روایات اور تحریف شدہ احادیث پائی جاسکتی ہیں- اس امر کے مختلف دلائل تھے، من جملہ تازہ مسلمان ھوئے یہودی راویوں کا وجود، جو ابھی اپنے سابقہ دین سے رابطہ بر قرار کئے ھوئے تھے اور اپنے عقیدہ کو نہیں چھوڑ پائے تھے، اس گروہ سے متعلق راویوں نے اپنی شدید اسلام دشمنی کی وجہ سے روایتوں میں ہیر پھیر، روایتیں جعل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان عقائد کی گمراہی پھیلانے کا اقدام کیا- اس کے علاوہ حدیث نقل اور درج کرنے میں منافقین، غلات، مقصرہ اور مختلف مذہبی طائفوں کے انتہا پسندوں نے روایات کی تحریف، حدیث جعل کرنے اور انھیں حدیث کی کتابوں میں داخل کرنے یا بعض احادیث [1]کو حذف کرنے میں اپنا کام انجام دیا- شیعہ، ہمیشہ مختلف مناسبتوں سے ان گمراہ کن قضایا کی طرف اشارہ کرتے، انھیں جھٹلا تے اور ان پر لعنت بھیجتے رہے ہیں-[2]
ان حالات کے دوران شیعوں اور اہل سنت نے روایات کے کچھ مجموعے مرتب کئے اگرچہ ان میں بھی مذکورہ موارد پائے جاسکتے ہیں-
یہی وجہ ہے کہ شیعوں میں ابتداء سے ہی احادیث کو نقل اور جمع کرنے کے ساتھ ساتھ حدیث شناسی کا کام بھی شروع ھوا- ائمہ اطہار{ع} اپنے مخاطبین سے مختلف مواقع پر روایات بیان فرماتے اور ان کی تفسیر پیش کرتے تھے تاکہ روایات کو انحرافات سے بچایا جائے-
۱۰اور۱۱ویں صدی ہجری میں وسیع پیمانے پر احادیث جمع کی جانے لگیں، جس کے نتیجہ میں اخباریوں کا سلسلہ شروع ھوا- لیکن اس کے ساتھ ساتھ علم رجال، درایہ اور فقہ الحدیث کی صورت میں علوم حدیث کا سلسلہ بھی منظم صورت میں ظاہر ھوا-
شیعوں کی احادیث کے مولفین نے حدیث جمع کرنے اور حدیث کی کتابیں تدوین کرنے میں بڑی کوششیں کیں تاکہ صحیح روایتوں کو جمع کریں- اس کے باوجود شیعوں نے ان تمام روایتوں کے صحیح ھونے کا کبھی دعوی نہیں کیا ہے اور نہ ایسا دعوی کرتے ہیں، اسی وجہ سے شیعہ علماء ان مجموعوں کی روایات سے استفادہ کرتے وقت علوم حدیث { علم رجال، علم درایہ اور فقہ الحدیث} کی کسوٹی پر صحیح اور غلط روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں، اور اس کے بعد ان سے استناد کرتے ہیں- اس بنا پر جو کچھ بیان کیا گیا اس کے مطابق شیعوں اور اہل سنت کی احادیث کے مجموعے اشکا لات اور اعتراضات سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے دونوں گروہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ احادیث کی صحیح کتابیں تدوین کرکے اس مشکل کو دور کریں- اس کے باوجود قابل توجہ ہے کہ ابھی بھی بعض معدود غیر صحیح روایتیں، حتی کہ شیعوں کی کتب اربعہ اور اہل سنت کی صحاح میں موجود ہیں کہ ان پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے-
اس کے نتیجہ میں کہنا چاہئے کہ:
اسلام، ہر قسم کی زیادتی کا، حتی کہ اپنے دشمنوں کے بارے میں مخالف ہے،[3] لیکن مختلف مذاہب کے افراطی اور انتہا پسند، من جملہ تشیع نما غالیوں نے، ان سفارشات پر توجہ کئے بغیر اپنے مذہب کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں-
۲-ائمہ اطہار {ع} کے زمانے میں بھی ان کے دشمنوں کے ذریعہ بعض روایتین جعل کی گئی کہ ان میں سے بعض روایتین ائمہ اطہار {ع} کے فضائل میں غلو کی صورت میں یا ان کے مخالفوں کے خلاف انتہا پسند طعنہ زنی پر مشتمل تھیں، اور اس قسم کی دونوں روایتیں عام لوگوں کے افکار کو ائمہ معصومین{ع} کے بارے میں گمراہ کرتی تھیں اور اسی وجہ سے ہمارے ائمہ معصومین {ع} ایسی روایتوں پر اعتراض کرتے تھے اور ان کی مذمت کرتے تھے-[4]
۳-شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ کسی بھی قابل اعتبار سند کے ساتھ خلیفہ دوم کے خنثی ھونے کی بات نہیں کی گئی ہے اور شیعہ علماء بھی اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں، اگر چہ بعض مصنفین شیعوں پر تہمت لگاتے ہیں، انھیں اپنی بات کو مستند طور پر پیش کرنی چاہئے-
۴-کتاب" انوار النعمانیہ" میں خلیفہ دوم کے بارے میں اہل سنت کی چند روایتیں ہیں کہ ان کے صحیح یا غلط ھونے پر تحقیق کی جانی چاہئے- ان روایتوں میں خلیفہ دوم کے خنثی ھونے کے موضوع کے بارے میں اہل سنت کی بعض شخصیتوں کے بیانات پیش کئے گئے ہیں اور مصنف نے ان کی طرف اشارہ کرکے ان کی مذمت کی ہے-[5]
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں اہل سنت کی کتابوں میں ملتی ہیں جن سے خلفاء یا بعض صحابیوں کا معیوب ھونا معلوم ھوتا ہے، ان پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے-
۵-علمائے شیعہ نے، اہل سنت کے ساتھ تاریخی اور کلامی اختلافات رکھنے کے باوجود اہل بیت{ع} کی حقانیت کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں کبھی اس قسم کے ناپسند اور غیر اخلاقی وسائل کا سہارا نہیں لیا ہے بلکہ اپنے مناقشات اور مباحث میں جدال احسن کا انتخاب کیا ہے-
۶-اگر دونوں فرقوں {شیعہ و سنی} میں ایسے افراد موجود ھوں جو کسی تحقیق کے بغیر اور غیر موثق و مجہول راویوں سے نقل کی گئی ضعیف احادیث کا سہارا لے کر، کسی بے بنیاد اور خلاف حقیقت موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کریں، تو اس امر کو شیعہ یا سنی علماء سے نسبت دے کر ان کا اعتقاد شمار نہیں کرنا چاہئے-
نتیجہ:
اگر چہ ہم نے آپ کے سوال میں پیش کئے گئے موضوع کو کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نہیں پایا، لیکن اس کے باوجود کہنا ہے کہ: ہم شیعوں کا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ جوبھی حدیث، حدیث کی کتابوں میں درج ھو، وہ صحیح ہے- جیسا کہ اشارہ کیا گیا، بہت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن کی مختلف دلائل کی وجہ سے شیعہ علماء تائید نہیں کرتے ہیں، اسی وجہ سے روایتوں کے صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے کچھ معیار مقرر کئے گئے ہیں-
[1] کشی، محمد بن عمر، رجال الكشي، ص 250 ، انتشارات دانشگاه مشهد ،مشهد مقدس، 1348 هـ .
[2] حلی، حسن بن یوسف، الخلاصة، ص 35، طبع دوم، دار الذخائر، قم ، 1411 هـ .
[3] مائده، 8.
[4] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (ع)، ج 1، ص 304، انتشارات جهان ، 1378 هـ .
[5] جزائری، سید نعمة الله، الانوار النعمانیة، ج 1، ص 52، طبع اول، دار القارئ، بیروت، 1429 هـ -
source : www.islamquest.net