انسا نوں کے معاد کے سلسلہ میں سورہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۱ اور سورہ قصص کی آیت نمبر۲۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ: اس وقت کوئی شخص کسی دوسرے سے مدد کی درخواست اور سوال نہیں کرے گا{ لا یسئلون} لیکن سورہ صافات کی آیت نمبر ۲۷ اور ۵۰ میں اور سورہ طور کی آیت نمبر ۲۵ میں اعلا ن کیا گیا ہے کہ ان میں سے بعض افراد ایک دوسرے سے سوال کرکے مدد کی درخواست کرتے ہیں {یتسائلون}، اس تناقض کو کیسے برطرف کیا جاسکتا ہے؟
ایک مختصر
قر آن مجید کیآ یات میں عام طور پر اور مذکورہ آیات میں خاص طور پر کسی قسم کا تناقض اور تضاد نہیں پایا جاتا ہے،کیونکہ جن آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اس دن کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مدد کی درخواست اور سوال نہیں کرے گا، قیامت کے ابتدائی مراحل کی طرف اشارہ ہے اور یہ اس دن کی حیرت اور وحشت کی شدت کی وجہ سے ہے اور اسی شدت اور خوف و وحشت اور پریشانی کا سبب ھوگا کہ اس دن انسان ایک دوسرے سے بھاگ رہے ھوں گے اور ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے ھوں گے- اس دن، انسان ایسے خوف و وحشت سے دوچار ھوگا کہ حساب و کتاب :اور الہی سزا کے بارے میں ڈر کی وجہ سے ایک دوسرے سے کسی صورت میں سوال نہیں کرے گا، لیکن جہاں پر انسانوں کے ایک دوسرے سے سوال کرنے کی بات کہی گئی ہے:" واقبل بعضھم علی بعض یتسائلون"، یہ بہشت اور جہنم میں قیام پانے کے بعد کی بات ہے- اس بنا پر ان آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ مطابق کرنے اور ان پرغور فکر کرنے سے معلوم ھوگا کہ، ان کے درمیان کسی قسم کا تعارض نہیں پایا جاتا ہے-
تفصیلی جوابات
اس سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ: قرآن مجید کی آیات میں جو یہ ظاہری تناقض پایا جاتا ہے، اس پر تھوڑی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے سے وہ تناقض بر طرف ھوتا ہے اور جس طرح قرآ ن مجید کے معجزہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی آیہ شریفہ دوسری کسی آیت کی نفی نہیں کرتی ہے اور یہ اس جاوید اور لافانی کتاب کے معجزات میں سے ایک ہے- یہ سوال اور ظاہری تناقض ، قرآن مجید کے مفسرین کے ذہنوں میں بھی پیدا ھوا ہے اور تفسیر کی کتابوں میں اس پر بحث کی گئی ہے- قرآن مجید کی بعض ایات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قیامت برپا ھونے کے بعد لوگ ایک دوسرے سے سوال کریں گے، جیسے سورہ صافات کی آیت نمبر ۲۷ میں مجرموں کو دوزخ میں ڈالتے وقت ارشاد ھوتا ہے:" واقبل بعضھم علی بعض یتسائلون"، " اور ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے { سرزنش آمیز} سوال کر رہے ہیں-"
اور اسی سورہ کی آیت نمبر ۵۰ میں بہشتیوں کی بات کرتے ھوئے اور دوسرے سے مخاطب ھو کر { دنیا کے اپنے دوستوں کے بارے میں، جوگمراہی کی وجہ سے راہ حق سے ہٹ کردوزخ میں گئے ہیں} سوال کرتے ہیں:" فا قبل بعضھم علی بعض یتسائلون-"
اس کے مانند معنی، سورہ طور کی آیت نمبر ۲۵ میں بھی آئے ہیں- اس وقت سوال یہ ہے کہ یہ آیات مذ کورہ آیت { سورہ مومنون کی آیت نمبر۱۰۱} سے کیسے موافق ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ" قیامت میں ایک دوسرے سے سوال نہیں کیا جاتا ہے؟
تمہید کے طور پر کہنا چاہئیے کہ: لغت کی کتابوں میں، " یتسائلون" کو"مادہ سوال" سے ایک دوسرے سے سوال کرنے کے معنی میں بھی لیا گیا ہے اور مدد کی درخواست کرنے کے معنی کے طور پر بھی لیا گیا ہے-[1]
قرآن مجید کی آیات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے اور سوال نہ کرنے کا مسئلہ سوال کے عنوان سے چھ آیتوں میں ذکر ھوا ہے کہ ان میں سے دو جگہوں پرلفظ " لا یتسا ئلون" [2]، یعنی سوال و درخواست نہ کرنے کے معنی میں آیا ہے اور چار جگہوں پر لفظ " یتسا ئلون" [3]یعنی مادہ سوال سے آیا ہے اور اس کے معنی ایک دوسرے سے سوال کرنا ہے-
جاننا چاہئیے کہ ان آیات میں کسی قسم کا تناقض و تضاد نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ جن آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اس دن کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے سوال اور مدد کی درخواست نہیں کرتا ہے، وہ قیامت کے ابتدائی مراحل کی طرف اشارہ ہے اور یہ اس دن کی شدید حیرت و وحشت کی وجہ سے ہے اور اسی شدید وحشت اور پریشانی کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے ہیں- اس دن انسان اس قدر خوف و وحشت سے دوچار ھوں گے کہ حساب و کتاب اور الہی عذاب کی شدت کے ڈرسے ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں ہرگز سوال نہیں کریں گے، وہ دن ایک ایسا دن ہے کہ ماں اپنے شیر خوار بچے کو بھول جائے گی، اور بھائی اپنے بھائی کو بھول جاتا ہے- انسان مست جیسے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ وہ مست نہیں ھوتے ہیں، چنانچہ سورہ حج کی ابتداء میں ارشاد ھوتا ہے:" جس دن تم دیکھو گے کہ دودھ پلانے والی عورتیں اپنے د ودھ پیتے بچوں سے غافل ھو جائیں گی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل کو گرا دیں گی اور لوگ نشہ کی حالت میں نظرآئیں گے حالانکہ وہ بد مست نہیں ھوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ھوگا-"[4]اس مسئلہ کی ایک سادہ مثال سے عکاسی کی جاسکتی ہے- جب بھیڑیئے، گوسفندوں کے ایک ریوڑ پر حملہ ور ھوتے ہیں، تو ان میں ایسی وہشت پھیل جاتی ہے کہ بھیڑایک دوسرے سے جدا ھوکر اس طرح پراگندہ ھو جاتے ہیں کہ ہر بھیڑ صرف اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں ھوتا ہے- - - قیامت کے دن صور پھونکے جانے کے بعد انسانوں کی بھی یہی حالت ھوگی اور ہر فرد اپنے اعمال سے دو چار ھوگا اور اپنے آپ کو بچانے کی فکرمیں ھوگا - بہ الفاظ دیگر، اضطراب اور خوف وہراس انھیں اس قدر پریشان کرے گا کہ وہ ایک دوسرے کو بالکل بھول جائیں گے- لہذا ان کے ذہنوں سے رشتہ داری اور جان پہچان جیسی چیزیں زائل ھوجائیں گی-
لیکن جہاں پر انسانوں کے ایک دوسرے سے سوا ل کرنے کی بات ہے، وہاں پر قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" واقبل بعضھم علی بعض یتسائلون- - -" یہ سوال و جواب اور گفتگوانسا نوں کے بہشت اور جہنم میں قیام کرنے کے بعد انجام پاتی ہے، قرآن مجید کی آیات کے مطابق خدا کے نیک بندے، بہشت کی معنوی اور مادی نعمتوں سے مالا مال ھوں گے اور بہشت کے تختوں پر تکیہ لگا کر اپنے دوست و احباب کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کرنے میں مشغول ھوں گے ، ان میں سے کچھ لوگوں کو اچانک اپنے گزشتہ حالات اور دنیوی دوستوں کی یاد آئے گی، وہی دوست جنھوں نے اپنے راستہ کو جدا کیا ہے اور بہشتیوں میں شامل نہیں ہیں، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا انجام کہاں تک پہنچا- اس لئے ان میں بعض دوسروں کی طرف رخ کرکے سوال کرتے ہیں :" فا قبل بعضھم علی بعض یتسا ئلون-"[5]
اسی طرح جہنمی بھی ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں، جیسا کہ سورہ صافات کی آیت نمبر ۲۷ میں مجرمین کے دوزخ میں داخل ھوتے وقت ان کی باہمی گفتگو کے بارے میں ارشاد ھوتا ہے :" واقبل بعضھم علی بعض یتسا ئلون" " اور ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے {سرزنش آمیز} سوال کر رہے ہیں-" ہر ایک اپنے گناہ کودوسرے کے سر تھوپ دیتا ہے، اپنے سر پرستوں اور پیشوا وں کو قصور وار قرار دیتے ہیں اور پیشوا اپنے پیرووں کو قصوروارقرار دیتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں: " وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں :" و اقبل بعضھم علی بعض یتسا ئلون" سورہ صافات کی ۶۲ سے۶۴ تک کی آیات بھی اسی مسئلہ کی حقیقت پیش کرتی ہیں:" وہ کہتے ہیں: ہم کیوں ان لوگوں کو یہاں پر{ دوزخ کی آگ میں} نہیں دیکھتے ہیں جنھیں ہم اشرار میں سے جانتے تھے- - - یہ دو زخیوں کی مخاصمانہ گفتگو کی ایک حقیقت ہے-"
اسی سلسلہ میں کچھ آیات پائی جاتی ہیں کہ جو یہ بتاتی ہیں کہ بہشتیوں اور جہنمیوں کے درمیان بھی گفتگو کا رابطہ بر قرار ہے، جہاں پر یہ ارشاد ھوتا ہے: " فی جنات یتسائلون عن المجرمین ما سالکم فی سقر، قالوا لم نک من المصلین- - - [6] وہ بہشت کے باغات میں ہیں اور مجرموں سے سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنم میں پہنچا دیا ہے؟ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں نہیں تھے- اس بنا پر ان آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھنے اور ان پر غور و خوض کرنے سے معلوم ھو گا کہ ان کے درمیان کسی قسم کا تعارض نہیں پایا جاتا ہے- البتہ، ان آیات کو آپس میں جمع کرنے کے سلسلہ میں کچھ دوسرے نظریات بھی بیان کئے گئے ہیں، من جملہ یہ کہ سورہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۱ میں قیامت کے بارے میں دو مظاہر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حسب و نسب کا بیکار ھونا ہے، کیونکہ اس دنیا کی رشتہ داریاں اور قبیلہ داریاں جو لوگوں کی زندگی کے نظام پر حاکم ہیں، اس امر کا سبب بنتی ہیں کہ مجرم افراد بہت سی سزاوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ھوتے ہیں اور یا اپنی مشکلات کو حل کرنے میں اپنے رشتہ داروں سے مدد پہنچ جاتی ہے- لیکن قیامت میں صرف انسان اور اس کے اعمال ھوتے ہیں اور کوئی شخص حتی کہ اپنے بھائی، فرز ند اور باپ کا بھی دفاع نہیں کرسکتا ہے اور اس کی سزاکو بدل نہیں سکتاہے - اس بنا پر، جملہ " ولا یتسا ئلون" کے یہ معنی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مدد کی درخواست نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں یہ درخواست کسی صورت میں ان کے لئے فائدہ بخش نہیں ہے[7] لیکن اس کے علاوہ دوسری گفتگو ممکن ہے-
خلاصہ:
مذ کورہ آیات کے مضمون پر دقت و غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ھوگا، کیونکہ مذ کورہ آیات سے ثابت ھوتا ہے کہ ایک دوسرے سے سوال کرنا بہشت اور جہنم میں داخل ھونے کے بعد یا بہشت و جہنم میں داخل ھونے کے ابتدا ئی مرحلہ میں انجام پاتا ہے، جبکہ ایک دوسرے سے سوال نہ کرنا قیامت کے ابتدائی مراحل سے متعلق ہے، جس میں لوگ خوف و ہراس اور پریشا نیوں سے دو چار ھوتے ہیں اور ایک دوسرے کو بالکل فرا موش کردیتے ہیں اور یا بعض افراد کے اعتقاد کے مطابق، قیامت کے دن سوال نہ کرنا، درخواست نہ کرنے کے معنی میں ہے، نہ کہ دوسری گفتگووں کے بارے میں -
[1] ابن منظور، لسلن العرب، واژه سئل؛ ....
[2] مؤمنون، 101؛ قصص، 66.
[3] صافات، 27، 50؛ طور، 25؛ مثر،40.
[4] حج، 2. "يَوْمَ تَرَوْنَها تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذاتِ حَمْلٍ حَمْلَها وَ تَرَى النَّاسَ سُكارى وَ ما هُمْ بِسُكارى ...".
[5] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 19، ص 61، دار الكتب الإسلامية، تهران ، 1374 ھ ش
[6] مدثر، 40- 43.
[7] تفسير نمونه، ج 14، ص 327.
source : www.islamquest.net