کلام نور ۶۷۷
سورۂ فرقان ۱۵
آيات۶۴۔ ۶۹
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدائے عظیم کی تعظیم اور نبی اکرم اور اہل بیت مکرم علیہم السلام کی تکریم کے ساتھ تفسیر کلام نور میں یہ روح پرور گفتگو ہم سورۂ فرقان کی آیات ۶۴، ۶۵ اور ۶۶ سے شروع کررہے ہیں۔
ارشاد رب العزت ہے:
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبّہمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (64)
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جہَنَّمَ إِنَّ عَذَابہا كَانَ غَرَامًا (65)
إِنّہا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (66)
اور یہ لوگ (رحمان کے بندے) راتیں آتی ہیں تو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کی حالت میں ہی جاگ کر بسر کرتے ہیں ۔ سورۂ 25(64:77)
اور یہ وہ لوگ ہیں (جو دعا میں) کہتے ہیں پروردگارا عذاب دوزخ کا رخ ہم سے پھیر دے کیونکہ (جہنم کا عذاب) بڑا ہی سخت اور دائمی ہے۔ سورۂ 25(65:77)
بلاشبہ دوزخ بدترین جگہ اور سخت ترین ٹھکانہ ہے۔ سورۂ 25(66:77)
گفتگو رحمان کے ضمن میں رحمان کے بندوں کی چل رہی تھی، اور ان کی دو صفتیں بیان کی گئی تھیں، اب تیسری خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی عبادت اور بندگی میں خلوص پایا جاتا ہے، رات ہوتی ہے تو دوسرے لوگ سوجاتے ہیں لیکن رحمن کے بندے اپنی میٹھی نیند کی قربانی دے کر رات سجدۂ و قیام یعنی عبادت خدا میں گذاردیتے ہیں ، کچھ سجدے میں گر جاتے ہیں، اور کچھ حالت قیام میں حمد و تسبیح پروردگار انجام دیتے ہیں ، البتہ اس سے مراد ممکن ہے نماز تہجد اور شب کے نوافل ہوں، ہم جیسے مؤمن ہونے کا ادعا کرنے والے کجا جو دن کی واجب نمازیں بھی جلدی جلدی کسل مندی کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور رحمان کے بندے کجا جن کی پوری رات سجدہ و قیام میں گذرتی ہے ، چنانچہ ان میں عبادتوں کے سبب غرور و تکبر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنا محاسبہ خود کرتے ہیں اور خوف و رجا کی بنیاد پر دوزخ کے عذاب سے رہائی اور نجات کی دعا کرتے ہیں کیونکہ انھیں علم ویقین ہے کہ دوزخ بہت بری جگہ ہے، یہ دوزخیوں کا وہ دائمی ٹھکانا ہے جس کا تصور بھی مؤمنین کے لئے سخت و ناگوار ہے چنانچہ یہی حساب کتاب اور جہنم کا خوف درونی طور پر مومنین کو گناہوں سے روک دیتا ہے اور وہ نہ تو اپنے شب و روز لہو و لعب میں گذارتے اور نہ ہی اپنے فرائض کی ادائگی میں کوتاہی اور تساہلی سے کام لیتے ۔
اس کے بعد سورۂ فرقان کی ۶۷ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (67)
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب بھی مال و دولت خرچ کرتے ہیں نہ اسراف سے کام لیتے اور نہ ہی بخل و کنجوسی دکھلاتے ، افراط و تفریط کے درمیان میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتے ہیں ۔ سورۂ 25(67:77)
رحمان کے بندوں کی اخلاقی اور عبادی خصوصیت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں ان کی اقتصادی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنے اور اپنے عزیز و اقارب یا دوسرے مومنین پر جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں اس میں ہرگز اسراف یا بخل یعنی افراط و تفریط سے کام نہیں لیتے ہیں گھریلو اخراجات ہوں یا محتاجوں اور محروموں کے لئے خدا کی راہ میں کیا جانے والا خرچ وہ ہمیشہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ، نام و نمود کے لئے سب کچھ لٹاکر بیٹھ جاتے کہ بچوں کی فاقہ کشی کا تماشا دیکھیں نہ کنجوسی سے کام لے کرا پنا سب کچھ دبائے بیٹھے رہتے چاہے پڑوسیوں کے یہاں چولہا بجھا پڑا ہو ، اقتصاد میں بھی اعتدال سے کام لیتے ہیں اور متوازن زندگی بسر کرتے ہیں ، چنانچہ انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اعتدال کا حکم قرآن حکیم کی دیگر آیات میں موجود ہے کہ اس میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہئے ۔
اس کے بعد سورۂ فرقان کی ۶۸ ویں اور ۶۹ ویں آیات میں خدا فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّہ إِلہا" آَخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68)
يُضَاعَفْ لہُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامۃِ وَيَخْلُدْ فِیہ مہانًا (69)
اور (رحمان کے بندے) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار نہیں دیتے ،(یعنی شرک سے دور رہتے ہیں) اور کسی بھی انسان کی جان جس کو خدا نے محترم قرار دیا ہے (احقاق) حق کے بغیر نہیں لیتے ، اور زناکاری بھی نہیں کرتے اور جو بھی اس طرح کے اعمال انجام دےگا اپنے عمل کی سزا بھی پائے گا۔ سورۂ 25(68:77)
قیامت کے دن اس کا عذاب دو گنا بڑھا دیا جائے گا اور ذلت و خواری کے ساتھ اسی میں پڑا رہے گا۔ سورۂ 25(69:77)
ان آیات میں گویا خلاصہ کرتے ہوئے رحمان کے بندوں کی چند اہم خصوصیات بیان کردی گئی ہیں کہ وہ ہرگز شرک سے کام نہیں لیتے ، کسی بھی غیر اللہ کی عبادت و پرستش نہیں کرتے ، خدا کے سوا کسی کے بھی سامنے اپنا سر بندگی خم نہیں کرتے ، کسی بھی شخص یا کسی بھی چیز کو خدا کے برابر میں اپنا معبود قرار نہیں دیتے ، صرف اور صرف خدا پر ایمان رکھتے ہیں اسی کو پکارتے ہیں اور اسی سے توسل اور امداد طلب کرتے ہیں ، ''ایاک نعبد و ایاک نستعین'' وہ نہ تو دولت و ثروت کی پرستش کرتے اور نہ کسی سرمایہ دار اور صاحب حکومت و اقتدار کے در پر سر جھکاتے، وقت ضرورت اور بلاؤ مصیبت میں صرف اور صرف خدا پر توکل کرتے ہیں، اسی طرح رحمان کے بندے انسان کی جان کو محترم سمجھتے ہیں کسی انسان کو قتل کرنا حرام جانتے ہیں حتی کسی کے بدن کو صدمہ اور نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں سمجھتے سوائے اس کے کہ کسی سے جہاد و قتال واجب ہو ، یا خود ان پر کوئی حملہ کردے اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنائے یا کسی قاتل کا قتل، قصاص اور حد جاری کرنے کا حق دے دے ، تو عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں، اسی طرح خدا کے بندے لوگوں کی ناموس کی حرمت اور احترام کے قائل ہیں،اپنی ماں بہنوں کی عزت کی طرح دوسروں کی ماں بہنوں کے سامنے کسی بھی عورت کے ساتھ عقد شرعی کے بغیر جنسی رابطہ قائم نہیں کرتے اور اپنا دامن عفت زنا کاری اور اذیت رسانی سے داغدار نہیں ہونے دیتے در اصل زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے درمیان زناکاری جائز اور رائج تھی اور اسلام نے دعوت اسلام کے روز اول سے ہی اس عمل کو ناجائز اور حرام قرار دے دیا حتی اسلام نے نامحرم کی طرف شہوت کی نگاہ سے دیکھنا ، چھونا اور ہاتھ ملانا بھی حرام قرار دیا ہے اور اسی لئے اسلام میں حجاب اور پردہ داری پر تاکید کی گئی ہے کہ ناجائز تعلقات کا ہر طرح سے سد باب ہوجائے چنانچہ اللہ کے بندے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس نے بھی اس طرح کے اعمال کئے وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوگا اور آخرت میں بھی سخت عذاب سے روبرو ہونا پڑے گا۔ ظاہر ہے شرک ، قتل اور زنا یہ تینوں جرائم جن کا یہاں ذکر ہوا ہے اسلام میں گناہ کبیرہ شمار ہوتے ہیں ، اور ان سب کا عذاب بہت سخت ہے اور قیامت میں ان کا عذاب دوبرابر کردیا جائے گا ، لہذا ان سے پرہیز واجب و لازم ہے ۔
معلوم ہوا:
راتیں صرف سونے اور آرام کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ خدا والوں کے لئے اپنے خالق و پروردگار سے راز و نیاز اور دعاؤ مناجات کا یہ بہترین وقت ہے ۔خدا کے بندے ہر وقت اور ہر حال میں قیامت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور عذاب جہنم سے نجات کی دعائیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ دنیوی زندگی اور روزمرہ کے مسائل کا جب وہ محاسبہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو دیکھ کر جہنم کا خوف بڑھ جاتا ہے اور خودبخود بارگاہ معبود میں ان کے ہاتھ بلند ہوجاتے ہیں ۔عبادتوں میں نماز اور خاص طور پر نماز شب کی تاکید خود کو معاشرے سے الگ تھلگ کرلینے کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ رحمان کے بندے دن میں بندگان خدا کے ساتھ تواضع اور خاکساری کے ساتھ رہتے ہیں ، محرومو ں اور مجبوروں کی مدد کرتے ہیں اور رات کو سجدے اور قیام میں مشغول نظر آتے ہیں ۔فضول خرچی یا اسراف جائز نہیں ہے، حتی راہ خدا میں انفاق کرتے ہوئے بھی میانہ روی کا قرآن نے حکم دیا ہے ۔رحمان کے بندے بخیل اور کنجوس بھی نہیں ہوتے ، معاشرے کے ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہیں۔شرک ، قتل اور زنا کی مانند گناہان کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔اسلام میں ہر شخص کی جان محترم ہے لیکن جو لوگ دوسروں کا خون ناحق بہاتے ہیں اور معاشرے کا امن و تحفظ درہم و برہم کرتے ہیں ان کا خون مباح ہوجاتا ہے اور حدو قصاص جائز ہے۔
source : abna