مهر بانی کر کے قرآن مجید کی آیات سے استعفاده کر کے واضح طور پر " مسلمان" کے معنی بیان کیجئے-
ایک مختصر
قرآن مجید کی اصطلاح میں ،مسلمان، خداوند متعال کے فر مان ، اور هر قسم کے شرک سے پاک مکمل توحید کے سامنے مکمل طور پر تسلیم هو نے کے معنی میں هے اور یهی وجه هے که قرآن مجید حضرت ابراھیم علیه السلام کو مسلمان کے عنوان سے معرفی کر تا هے-
چونکه خدا کے حضور ، دین، اسلام هے " ان الدین عندالله الاسلام " اس لئے جن لوگوں نے خدا کے دین کو اپنے زمانه میں قبول کیا هو گا اور الهی احکام کے پابند هوں گے، وه مسلمان هیں-
یعنی قرآن مجید کے مطابق آسمانی ادیان کے تمام پیرو کار اپنے زمانه میں مسلمان تھے اور اس طرح عیسائی اور یهودی وغیره، نئے دین کے آنے سے پهلےان کا دین منسوخ نه هو نے تک مسلمان تھے ، کیونکه وه پرور دگار عالم کے حضور تسلیم هوئے تھے اور اگر انھیں یهودی یا عیسائی کها جاتا تھا وه ان کے پیغمبروں کی وجه سے تھاورنه جس طرح هم نے بیان کیا تمام الهی ادیان پر " اسلام" لا گو هو تا هے اور وه صرف شریعت میں فرق رکھتے هیں-
البته آج " مسلمان دین خاتم کے پیرٶں پر لاگو هو تا هے ، کیونکه انهوں نے دین اسلام کو قبول کر کے اور تمام انبیاء اور آسمانی شریعتوں پر اعتقاد رکھـ کر خدا کے حضور تسلیم هو نے کا اعلان کیا هے- اس معنی کے مطابق اس وقت دوسرے ادیان کے پیرو ٶں کو مسلمان نهیں کها جاتا هے، کیونکه انهوں نے آخری دین کو قبول نه کر کے خدا کے حضور تسلیم هو نے سے نا فر مانی کی هے اور مسلمان کے وصف اور تسلیم هو نے سے محروم هو چکے هیں-
البته حقیقی مسلان وه هے جو احکام و دستورات الهی کا قول و فعل سے تسلیم هو، یعنی زبان سے بھی خدا کی وحدا نیت اور انبیاء علیهم السلام اور خاتم الانبیاء صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا اقرار کر ے اور عمل سے بھی دینی احکام اور دستورات ، من جمله دوسروں کے حقوق کی رعایت کرے جیسے اجتماعی قو انین او ر نماز وروزه وغیره جیسے انفرادی احکام کاپابند هو – قرآن مجید میں حقیقی مسلمان کو مومن کے نام سے یاد کیاگیا هے-
تفصیلی جوابات
قرآن مجید کی لغت میں مسلمانوں کے معنی واضح هو نے کے لئے ضروری هے که پهلے اسلام کے معنی کی تحقیق کی جائے-
لفظ " اسلام" س ل م" کے باب افعال کا مصدر هے اور اس کے معنی صحیح، عافیت اور هر قسم کے عیب و نقص اور برائی سے پاک هو نا هے اور باب افعال میں اس کے حسب ذیل معانی هیں :
کسی قسم کے اعتراض کے بغیر امر و نهی کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا-[1]
قرآن مجید نے بھی اسی وسیع معنی میں " اسلام " کو استعمال کیا هے ، جهاں پر فر ماتا هے: " جو بھی زمین وآسمان میں هیں یا وه تمام مخلوقات جو زمین و آسمان میں هیں ، وه مسلمان هیں اور خدا کے فر مان کے سامنے تکو یناً یا تشریعاً [2]( اختیاری یا اجباری ) تسلیم هیں-"
لیکن" اسلام انسان کا خدا کے لئے رام هو نے کا وصف هے اور خدا کی طرف سے هر دستور کو چون وچرا کے بغیر قبول کر نا هے خواه وه تکوینی هو جسے قضاوقدر یا تشریعی، جیسے اوامر و نواهی وغیره-[3]
ااس بناپر، اسلام ، ایمان واحسان جیسے اوصاف کے ضمن میں ایک مستقل مفهوم کا حامل ایک خاص وصف هے-
اصطلاح کے طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی الله علیه وآله وسلم کی شریعت کو اسلام کها جاتا هے –[4]
اسلام کے اصطلاحی معنی اور لغوی معنی کے در میان رابطه یه هے که دین اسلام خدا کے احکام اور دستورات کے مقابل بے چون و چرا اطاعت ، فرمانبرداری اور تسلیم محض هے-[5]
قرآن مجید کی لغت میں ، لفظ مسلمان صرف پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے سلسله میں استعمال نهیں هوا هے ، بلکه اسلام وسیع معنی ( لغوی معنی) میں خدا کے فرمان کے سامنے تسلیم محض اور هر قسم کے شرک دو گانگی پرستی سے مکمل اور خالص توحید هے اور اسی وجه سے قرآن مجید میں حضرت ابراھیم علیه السلام کو مسلمان کے عنوان سے پهچنوایا گیا هے-[6]
اور اگر خدا وند متعال پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے ارشاد فر ماتا هے : " آپ کهئے که مجھے حکم دیا گیا هے میں سب سے پهلا اطاعت گزار هوں"[7]
تویهاں پر سب سے پهلا مسلمان ( اطاعت گزار) اپنی امت میں خدا کے حضور تسلیم محض کے معنی میں هے ( یعنی اصطلاحی معنی میں هے) ورنه اس میں کوئی شک نهیں که پچھلےانبیاء اور ان کے پیرو بھی مسلمان تھے اور خداکے حکم کے سامنے تسلیم هو تے تھے-
بهر حال ، جو کچھـ سوره آل عمران کی آیت نمبر ٨٥( اور جو اسلام کے علاوه کوئی بهی دین تلاش کرے گا تو وه دین اس سے قبول نه کیا جائے گا) اور اسی طرح سوره مائده کی آیت نمبر ٣( آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا هے اور اپنی نعمتون کو تمام کر دیا هے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیده بنا دیا هے)میں استفاده هوا هے وهاں پر " مسلمان" دین اسلام کے پیرو پر اطلاق هوا هے،کیونکه انهوں نے دین اسلام کو قبول کر کے اور تمام انبیاء علیهم السلام اور ادیان آسمانی پر ایمان لا کر خدا کے حضور تسلیم هو نے کا اعلان کیا هے – اس معنی کے مطابق اس وقت دوسرے ادیان کے پیرٶں کو مسلمان نهیں کها جاسکتا هے، کیونکه انهوں نے آخری دین الهی کو قبول نه کر کے خدا کے حضور تسلیم هو نے میں نافرمانی کی هے اور مسلمانی اور تسلیم هونے کی صفت سے محروم هو چکے هیں- لهذا خاص معنی میں مسلمان ان کو کها جاتا هے ، جو خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا اقرار کر تے هوں گے ، اگر چه بهت سے دینی احکام اور دستورات کے پابند نه هوں – یه معنی سوره حجرات کی آیت نمبر ١ سے بھی معلوم هو تا هے – جهاں پر اعراب میں سے کچھـ لوگ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں آگئے تاکه آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم پر منت رکھیں ، اور انهوں نے کها : هم نے ایمان لایا هے اور مومن هو چکے هیں – خدا وند متعال کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم پر وحی نازل هوئی که انهیں کهدو که تم لوگوں نے ایمان نهیں لایا هے – بلکه انھیں کهنا چاهئے که هم نے اسلام لایا هے اور مسلمان وه هے جو دینی احکام کے سامنے زبان ، عقیده اور عملاً تسلیم هو جائے، یعنی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام صلی الله کی رسالت کا زبانی بھی اقرار کرے اورعمل میں بھی خدا کے اوامر ونواهی کی اطاعت کرے-
حقیقی مسلمان وه هے جو دینی احکام، من جمله اجتماعی قوانین، جیسے حق الناس ،شهری حقوق وغیره اور انفرادی احکام جیسے: نماز ، روزه وغیره کا پابند هو-
[1] - النکت والعیون،(تفسیر ماوردی)، ج١ص٣٧٩-٣٨٠-
[2] - تفسیر نمونه،ج٢،ص٦٤٣-
[3] - طباطبائی ،محمد حسین ، المیزان(ترجمه)،ج١،ص٤٥٤-
[4] - الوجوه والنظائر،ج١،ص٢٤٨-
[5] - مبادی الاسلام،ص٧-
[6] - سوره آل عمران،٦٧-
[7] - سوره انعام ١٤-