امام حسن عسکری{ع} کی تفسیر، حضرت{ع} سے منسوب تفسیر ہے کہ بعض علماء کئی وجوہات کی بنا پر اس انتساب کو قطعی اور حتمی نہیں جانتے ہیں۔ اس تفسیر میں، سورہ "فاتحہ الکتاب" {حمد}، سورہ "بقر" کی آیت نمبر282 تک روایی صورت میں تفسیر کی گئی ہے کہ قرآنی علوم کی اصطلاح میں اسے تفسیر "ماثور" کہتے ہیں۔
بہرحال، امام حسن عسکری نے "الحمد للہ رب العالمین" کی تفسیر میں، خدا کی بے شمار نعمتوں کے لحاظ سے اس کی ستائش ،مخلوقات کی حمایت اور امام علی{ع} کی امامت و ولایت کو قبول کرنے کی وجہ سے شیعوں کی برتری کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان نعمتوں کے پیش نظر خداوندمتعال کی ستائش کرتے ہوئے کہنا چاہئیے: "الحمد للہ رب العالمین"۔
امام حسن عسکری{ع} کی تفسیر، حضرت{ع} سے منسوب تفسیر ہے کہ بعض علماء کئی وجوہات کی بنا پراس انتساب کو قطعی اور حتمی نہیں جانتے ہیں[1]۔ اس تفسیر میں، سورہ "فاتحہ الکتاب" {حمد}، سورہ "بقر" کی آیت نمبر282 تک روایی صورت میں تفسیر کی گئی ہے کہ قرآنی علوم کی اصطلاح میں اسے تفسیر "ماثور" کہتے ہیں[2]۔
بہرحال ، آیہ "الحمد للہ رب العالمین" کےبارے میں امام حسن عسکری {ع} کی تفسیر کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
"الحمد للہ" یعنی، خداوندمتعال نے جو نعمتیں اپنے بندوں کو عطا کی ہیں، ان میں سے بعض کو اجمالی طور پر پہچنوایا ہے، اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ خدا کے بندے تفصیلی صورت میں ان سب نعمتوں کو پہچاننے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کیونکہ اس کی نعمتیں بے شمار ہیں، اس لیے انہیں پہچانا نہیں جا سکتا ہے؛ اس لحاظ سے ان سے فرمایا ہے کہ کہو: "الحمد للہ"[3]
اس کے بعد حضرت{ع} "رب العالمین" کی تفسیر و توضیح میں حسب ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ پروردگارعالم، اپنی تمام مخلوقات کو رزق عطا کرتا ہے، ان کی حمایت سے رکھوالی کرتا ہے، ان پر مسلط ہے، اپنی مصلحت کی بنیاد پر تدبیر کرتا ہے، اور وہ حقیقت میں اپنے بندوں کے حق میں روف و رحیم ہے[4]۔
۲۔ تمام مخلوقات کا رزق معلوم اور تقسیم شدہ ہے، انسان، دنیا میں جس طریقے اور دین پر عمل کرنا چاہے اور جس حالت میں بھی ہو ، اسے رزق ملتا رہتا ہے۔ انسان اور اس کے رزق کے درمیان ایک پردہ اور رکاوٹ ہے، جبکہ رزق اس کا طالب اور ڈھونڈنے والا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی اپنے رزق کی تلاش و کوشش میں کوتاہی کرے تو خود رزق اس کی تلاش و کوشش کرتا ہے، جس طرح موت ، اس کے پیچھے آتی ہے[5]۔
۳۔ شیعوں کو ان کو عطا کی گئی برتری اور فضیلت کے لیے خدا کا شکرگزار رہنا چاہئیے[6]۔ اس سلسلہ میں خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ{ع} سے مخاطب ہوکر، پیغمبراسلام{ص} کی دوسرے انبیاء{ع} پر برتری اور امت پیغمبر{ص} کی دوسرے انبیاء{ع} کی امتوں پر برتری کی توصیف کی ہے اور امت محمدی کی طرف مخاطب ہو کر فرماتا ہے: " اے امت محمد؛ یقین جاننا کہ ، آپ پر میری قضا {و قدر} ، یوں ہے کہ میری رحمت، غضب سے اور میری عفو و بخشش ، میرے عذاب سے آگے ہے؛ پس،میں، دعا کرنے سے پہلے تمہاری دعا کو قبول کرتا ہوں اور مجھ سے درخواست کرنے سے پہلے تمہیں عطا کرتا ہوں، اگر تم میں سے کوئی "لا إله الّا اللَّه وحده لا شريك له و أنّ محمّدا عبده و رسوله " کی گواہی دے کر میری ملاقات کے لیے آئے اور اپنے گفتار و کردار میں سچا ہو؛ { یعنی جو کچھ کہتا ہے اسے جانتا اور اس پر عمل کرتا ہے} اور گواہی دے کہ علی بن ابیطالب، محمد{ص} کے بھائی اور آپ {ص} کے بعد آپ{ص} کے وصی و ولی ہیں[7]، تو میں اسے بہشت میں داخل کروں گا۔[8]"
۴۔ پس ان تمام نعمتوں کی وجہ سے شکر و ثنا بجا لاتے ہوئے کہنا چاہیے: " الحمد للہ رب العالمین"[9]
[1]. اس تفسیر کی سند کی بحث کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے ملاحظہ ہو: علوی مهر، حسین، آشنایی با تاریخ تفسیر و مفسران، ص 191 – 198، نشر مركزجهانى علوم اسلامى ، قم، طبع اول، 1384ھ ش.
[2]. ملاحظہ ہو: مؤدب ، سيد رضا، روشهای تفسیر قرآن، ص 167 – 169، نشر اشراق، قم، طبع اول، 1380ھ ش.
[3]. التفسير المنسوب إلى الإمام الحسن العسكری(ع)، ص 30، نشر مدرسه امام مهدى (عج)، قم،طبع اول، 1409ھ.
[4]. ایضاً.
[5]. ایضاً، ص 31.
[6]. ایضاً.
[7]. ضمیر «ولیّه» در عبارت «مَنْ لَقِيَنِي مِنْكُمْ بِشَهَادَةِ... أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخُوهُ- وَ وَصِيُّهُ مِنْ بَعْدِهِ وَ وَلِيُّه» میں «مَن» بر کی ضمیر «محمّد»؛ کی طرف پلٹتی ہے:اس لحاظ سے اس کے معنی یہ ہیں: امام علی{ع} اس کے ولی ہیں جس نے انہیں پیغمبر{ص} کے بھائی اور وصی ہونے کی گواہی دی ہے۔.
[8]. ایضاً، ص 33.
[9]. ایضاً.