اردو
Thursday 21st of November 2024
0
نفر 0

مساوات کا عملی درس

آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قوم وملت کے رہبروں اور قائدوں کا صحیح معیار پر پورا نہ اترنا ہے۔ دنیا کے سیاست مدار عوام کو اپنا طرفدار بنانے کے لئے خوشنما اوردل پذیر نعروں کا سہارا لیتے ہیں اوربیچارے سادہ لوح انسان فریبی اور ڈھونگی رہنماؤں کے ڈھکوسلوں پربھروسہ کر کے ان کے لئے حکومت کے وسائل فراہم کر دیتے ہیں ۔ مگر ایک دن ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اور ان کی محبوبیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور غریب و بیکس کفِ افسوس مل کر رہ جاتا ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد وہ اپنے پامال شدہ حقوق کو وصول ک
مساوات کا عملی درس

ج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قوم وملت کے رہبروں اور قائدوں کا صحیح معیار پر پورا نہ اترنا  ہے۔  دنیا کے سیاست مدار عوام کو اپنا طرفدار بنانے کے لئے خوشنما اوردل پذیر نعروں کا سہارا لیتے ہیں اوربیچارے سادہ لوح انسان فریبی اور ڈھونگی رہنماؤں کے ڈھکوسلوں پربھروسہ کر کے ان کے لئے حکومت کے وسائل فراہم کر دیتے ہیں ۔ مگر ایک دن ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اور ان کی محبوبیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور غریب و بیکس کفِ افسوس مل کر رہ جاتا ہے۔  لیکن کیا اس کے بعد وہ اپنے پامال شدہ حقوق کو وصول کرپاتے ہیں ؟ کیا وہ بعد کے ادوارکے لئے مناسب اور لایق رہنما کا انتخاب کر پاتے ہیں ؟ نہیں! بالکل نہیں! کیوں؟ اس لئے کہ خود ان کے انتخاب میں کمی ہوتی ہے۔ سیاسی بصیرت کی کمی اور خواہشات نفسانی کی پیروی انہیں نا اہل اورنالایق افراد کو منتخب کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔

ہاں! یہ لوگ اسی وقت ایک لائق رہنما کا انتخاب کرسکیں گے جب ان میں خود اپنے لئے انسانی اور سیاسی ہمدردی محسوس ہو۔

اور وہ اپنے حق کی پوری معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی پیدا ہو گی۔ اس لئے انتخاب کے مرحلے میں قدم رکھنے سے پہلے ہرشخص کو اپنا جائزہ  لینا چاہئے کہ وہ اپنے حق کو کس قدر پہچانتا ہے؟ چونکہ بشراپنی تمام ضروریات سے آگاہ بھی نہیں ہے۔  اس لئے خالق نے اس کائنات میں ان کی ضروریات کی فراہمی کو اپنے ذمہ لیا۔ اور ان کے احتیاجات کو پورا کرنے کے لئے انواع و اقسام کی چھوٹی بڑ ی اشیاء کو وجودعطا فرمایا اس کائنات میں تمام انسانوں کی ضرورت بھر ہرقسم کی اشیاء موجودہیں ۔ بس ان کی تقسیم میں نا انصافی اور دوسروں کی حق تلفی سے بعض افراد بعض چیزوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ خداوند عالم نے اس نا انصافی کا سد باب کرنے کے لئے اپنی طرف سے رہنماؤں کو انتخاب کیا اور بندوں پر فقط  ان کی اطاعت لازم قراردی اگر بندے ان کے فرامین پر عمل پیرا رہیں تو کبھی کسی مشکل میں گرفتار نہ ہوں۔ لہٰذا انتخاب کا دروازہ تو بند ہو گیا۔ تو کیا اس زمانے میں ہمیں کسی کو منتخب نہیں کرنا چاہئے؟ ہاں ہونا تو یہی چاہئے تھا مگر زمانے کی بد نصیبی  ہے کہ اس نے اپنے خالق کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور الٰہی حکومت کے نام پراپنے ہی معیاروں پر چنے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں نظام حکومت دیدیا ورنہ جہاں تک خالق کی قدرت سے بنائی ہوئی کائنات کا وجود ہے اس کے ہرگوشے میں الٰہی نمائندہ کی سلطنت قائم ہوتی اب چونکہ ایسا نہیں ہوا تو کیا ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی؟ نہیں! بلکہ ہمارافریضہ ہے کہ ہمیں ان کی جگہ پر انہی کے جیسے افراد کو لانا چاہئے اگرسارے صفات ان جیسے نہ بھی ہوں تو کم سے کم بہت ضروری  صفات تو ان میں ہونے ہی چاہئیں جیسے صداقت، انصاف، مساوات، انسانی ہمدردی وغیرہ ان صفات کے ساتھ ایک سماج اورمعاشرہ خوشحالی کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے۔ دنیا میں وہی نمائندے محبت کا خراج وصول کرتے ہیں جوعوام کو اپنا شفاف کرداراوراپنی سچائی کا یقین دلا دیتے ہیں ۔

ہمارے سامنے انسانیت کے ایسے عظیم رہبروں کی سیرت موجود ہے جنہوں نے اپنے عمل سے قیامت تک آنے والے انسانوں کومعیاری اورخوشحال زندگی گزارنے کاسلیقہ عطا کر دیا ان میں سب کے سید و سردار، سرکار احمد مختار حضرت محمد مصطفے ٰ (ص) کی سیرت ہر بشر کے لئے سر مشق اوراسوۂ حسنہ کا حکم رکھتی ہے ۔

ہم ان کی زندگی سے مساوات کے چند عملی نمونے پیش کرتے ہیں :

مدینہ میں اسلامی حکومت کی نیوپڑ گئی اورپورے طورپرآپ کا حکم نافذہو گیاتواب آپ کوکسی کی فکر نہ ہونی چاہئے تھی مگرآپ کا معمول تھا کہ مسجد کے باہری چبوترے پرزندگی بسر کرنے والے بے سہارا لوگوں کے ساتھ روزنمازصبح کے بعد تھوڑ ی دیرکے لئے ان کی احوال پرسی کی خاطر بیٹھتے اور ان کو اپنی ہمدردی کا یقین فراہم کرتے ایک روز ایک غریب مسلمان نے حضرت سے اپنا پہلوبچانا چاہا تو آپ نے پوچھا اے بھائی! تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ اس نے عرض کی حضور میرے کپڑوں پرگرد پڑی ہوئی ہے میرے دل نے گوارہ  نہ کیا کہ آپ کے لباس کو گردآلود کروں ۔ یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے اور آپ  نے اس کے احساس ناداری کو دورکرنے کے لئے اس کے زانوں پر ہاتھ رکھا اورشفقت سے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا:’’بھائی شرم نہ کر فقیر، فقیر کے پاس بیٹھا کرتا ہے ۔‘‘

جنگ احزاب میں خندق کھودی جا رہی تھی۔ مسلمانوں پرفاقوں کا وقت تھا۔ پیٹ پر پتھر باندھ  کر بھوک کو فاقوں سے بہلایا جا رہا تھا۔ ان مشقتوں میں کائنات کا حاکم بھی برابر کا شریک تھا۔ آپ کی اکلوتی بیٹی سے آپ کی بھوک  دیکھی نہ گئی نہ جانے کس طرح ایک روٹی پکا کر لائی اوراپنے چہیتے بابا کودے گئی حضور نے اس روٹی کے بہت سے ٹکڑ ے فرمائے اوران کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا اورخود نے بھی ان کے برابر کا حصہ تناول فرمایا۔

جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں میں آپ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب بھی تھے ۔ مسلمانوں نے اوروں کی طرح ان کی مشکیں بھی خوب کس کر باندھ دی تھیں ۔ اور انھیں حضرت کے مکان کے قریب رکھا گیا تھا۔رات کوجب عباس کے کراہنے کی آوازآئی توآپ کی نیند اڑ گئی آپ نے اس آواز کا سبب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ رسّی کی سخت بندش کی وجہ سے کراہ رہے ہیں ۔ آپ نے فوراً کچھ لوگوں کو بلایا اورحکم دیا کہ سب کی رسیاں ڈھیلی کر دو ۔

جناب ابوذر غفاری کا بیان ہے کہ ایک شام کو جو میں حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کو سخت بے چین پایا میں نے سبب پوچھا تو فرمایا ’’اے ابوذر! بحق مسلمین میرے پاس تین درہم تقسیم کرنے سے رہ گئے ہیں میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ اگر رات میں مجھے موت آگئی تو مسلمانوں کا یہ حق ادا ہونے سے رہ جائے گا۔

ابوذر کہتے ہیں کہ صبح کوجب پھر حاضر ہوا تو آپ کو ہشاش بشاش پایا میں نے سبب پوچھا تو فرمایا:

’’اے ابوذر! خدا کا شکر ہے جو چیز میرے پاس امانت تھی وہ رات اپنے مستحق تک پہنچ گئی ۔

مکہ کی زندگی کس قدر دشوار تھی جہاں اغیار کے ساتھ اپنے بھی طرح طرح کی ایذائیں پہنچا رہے تھے کبھی طعنوں کے زخم تو کبھی پتھروں کی بارش کبھی غلاظت افگنی تو کبھی راہ میں کانٹے یہاں تک کہ اقتصادی و معاشرتی بائیکاٹ تک کیا گیا جس کے نتیجہ میں عزیزترین افراد کی بھوک پیاس اور فاقہ کشی دیکھنی پڑی اور اپنی شریک حیات کو چھوٹی سی بچی کے ہمراہ مصائب میں گرفتار دیکھا ایک جاہ طلب اور قدرت کے خواستگار کے لئے انتقامی کاروائی کامناسب موقع ہاتھ آنے کی دیرتھی اپنے اگلے پچھلے حساب چکتا کرا لیتا مگر رحمۃ للعالمین نے ہر مناسب موقع پر اپنی رحمدلی کا مثالی کردار پیش فرمایا چاہے جنگ کے میدان سے گرفتار شدہ سپاہی ہوں یا مکہ میں اپنے گھر کے دروازے بند کر لینے والے کفار۔ فتح مکہ کے دن آقائے دو جہان نے عام منادی کرادی تھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی سب کو امان ہے سب کے ساتھ برابری اور مساوات کا عمل اختیار کیا جائے گا۔

یہی وہ کردار ہے جودلوں پرحکمرانی کراتا ہے ، اسی مساواتی کردار کی وجہ سے کالے گورے غریب امیرآپس میں سکون واطمنان کی زندگی بسرکرتے ہیں اورتقویٰ و پارسائی کے سوا کسی چیزکو اہمیت نہیں دیتے جہاں بلال جیسا حبشی غلام اپنے اندر کسی قسم کی کمی کا احساس نہیں کرتا۔ جہاں ثروتمند ایک نادار کے آگے اکڑ تا نہیں بلکہ اس سے جھینپتا نظر آتا ہے ۔

آج دنیا میں اگر خوشحالی چاہئے تو ایسی سیرت پر عمل کرنے والے رہنماؤں کوانتخاب کیاجائے تاکہ دنیا ومکرفریب سے دور ایک سچی خوشحال زندگی سے آشنا ہو سکے .

بشکریہ فضائل ڈاٹ کام 


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دوگروہ ہیں
معاد کے لغوی معنی
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
اصالتِ روح
موت کی ماہیت
خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
خدا اور پیغمبر یہودیت کی نگاہ میں
شيطا ن کو کنکرياں مارنا

 
user comment