اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

افسوس کہ علی(ع) کو کوئی پہچان نہ سکا

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام وہ ناشناختہ گوہر ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا۔ رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ
افسوس کہ علی(ع) کو کوئی پہچان نہ سکا

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام وہ ناشناختہ گوہر ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا۔ رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ ’’یا علی میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے اللہ کو نہیں پہچانا اور تمہارے اور اللہ کے علاوہ کسی نے مجھے نہیں پہچانا اور میرے اور اللہ کے علاوہ کسی نے تمہیں نہیں پہچانا ‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات ناشناختہ اس دنیا سے اٹھ گئی۔
رسول اسلام (ص) نے اپنی زندگی کے قدم قدم پر آپ کی شخصیت کو پہچنوانے کی کوشش کی، ہر زاویے اور ہر رخ سے آپ کے فضائل بیان کئے لیکن مسلمانوں نے سنی ان سنی کر دی اور اس گوہر نایاب کو نہ کماحقہ پہچان سکے اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
اسی سلسلے میں ’’ابنا‘‘ نے حجۃ الاسلام و المسلمین محمد جعفر مروجی طبسی سے گفتگو کی ہے جنہوں نے اہل بیت اطہار(ع) کے بارے میں انسائکلوپیڈیا تحریر کیا ہے کہ مولائے کائنات کی ذات والا صفات کو زبان رسالت سے پہچنوائیں اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ ہٹائیں۔
موصوف سے اس موضوع پر کی گئی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:


علی آغوش رسالت کے پروردہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے آغوش رسالت میں تربیت حاصل کی۔ بچپن سے ہی آپ خانہ رسالت میں مشرف ہوئے اور اس طرح رسول خدا کے ساتھ ساتھ رہے جیسے اوٹنی کا بچہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ امیر المومنین علی علیہ السلام، رسول خدا کے اہم ترین شاگرد بھی ہیں۔
عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت کو اگر پیغمبر اکرم (ص) کی نگاہ سے دیکھا جائے تو دو زاویوں سے انہیں مورد تحقیق قرار دیا جا سکتا ہے ایک دنیوی مقام کے رخ سے اور دوسرے اخروی مقام و منزلت کے زاوئے سے۔ میرے نزدیک دوسرے رخ یعنی عالم آخرت اور قیامت میں آپ کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو کرنا دنیوی مقام سے زیادہ اہم ہے۔



امیر المومنین کا دنیوی مقام، پیغمبر اکرم کی نگاہ میں
شیعہ سنی کتابوں میں اس بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں لیکن ہم یہاں پر صرف ایک روایت بیان کرتے ہیں:
ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بھنا ہوا کبوتر لے کر حاضر ہوا اور آپ کو تناول فرمانے کے لیے کہا۔ لیکن پیغمبر نے اسے تناول نہیں فرمایا بلکہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: «اللَّهُمَّ ائْتِنِی بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَیْکَ وَ إِلَیَّ یَأْکُلُ مَعِی مِنْ‌ هَذَا الطَّائِر» خدایا اپنی محبوب ترین مخلوق کو میرے پاس بھیج تاکہ میرے ساتھ وہ اس پرندے کو تناول کرے۔ اسی اثنا امیر المومنین (ع) نے پیغمبر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انس بن مالک جو پیغمبر اکرم کے ایک صحابی ہیں اس دن پیغمبر اکرم کے گھر کے خادم ہونے کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے جونہی دیکھا کہ علی(ع) دروازے پر ہیں تو انہوں نے حسادت کی وجہ سے دروازہ بند کر دیا اور علی علیہ السلام کو خانہ پیغمبر میں داخل نہیں ہونے دیا!
شیعہ راویوں کا کہنا ہے یہ واقعہ تین بار اور سنی راویوں کا کہنا ہے کہ چار بار تکرار ہوا یعنی چار مرتبہ رسول خدا(ص) نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: خدایا! ایسی مخلوق کو میرے پاس یہ غذا تناول کرنے کے لیے بھیج جو تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو۔ اور ہر مرتبہ علی علیہ السلام ہی دروازے پر آئے اور انس بن مالک نے انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
اس روایت میں جو اہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:’’ خدایا جو محبوب ترین انسان ہو اسے بھیج‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امیر المومنین خدا اور رسول کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
لہذا اگر امیر المومنین خدا کی محبوب ترین مخلوق ہیں، پیغمبر کے نزدیک محبوب ترین انسان ہیں تو بعد رسول، امت کی رہبری کا حق بھی انہیں کو حاصل ہونا چاہیے۔
اس روایت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس رابطے کو سمجھیں کہ محبوب ترین انسان کا امت کی رہبری سے کیا رابطہ ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو، رسول کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو لیکن جب رسول کی جانشینی اور امت کی رہبری اور امامت کی باری آئے تو اسے پیچھے ہٹا دیا جائے! ایسا نہیں ہو سکتا۔


امیرالمومنین کا اخروی مقام پیغمبر اکرم کی نگاہ میں
آپ جانتے ہیں کہ عالم آخرت عالم برزخ سے الگ ہے۔ عالم دنیا اور عالم برزخ کے بعد سب سے اہم عالم، عالم آخرت ہے۔ قرآن کریم سورہ حج کے ابتدا میں عالم آخرت کے بارے میں فرماتا ہے: ’’وَتَرَى النَّاسَ سُکَارَى وَمَا هُم بِسُکَارَى‘‘  قیامت کے دن گویا آپ دیکھیں گے کہ سب لوگ مستی میں ہوں گے جبکہ مستی کا نام و نشان نہیں ہو گا۔ اس کے بعد خود قرآن اس کے جواب میں فرماتا ہے: «وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِیدٌ ؛  چونکہ اللہ کا عذاب شدید ہو گا۔ قرآن کریم عذاب الہی کو مستی سے تعبیر کر رہا ہے۔ یہ قیامت کا منظر ہو گا۔
احمد بن حنبل( متوفیٰ ۲۴۱ ھ ق) جو مکتب حنبلی کے بانی ہیں ایک حیران کن روایت پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں یہ وہ روایت ہے کہ عقل بشری جس کے معنی نہیں سمجھ سکتی۔
ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «علی قسیم الجنة و النار» ظاہری معنی اس روایت کے یہی ہیں کہ علی جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں یعنی قیامت کے دن جہاں ہر انسان پریشاں حال میں ہو گا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہو گا وہاں علی علیہ السلام کو خداوند عالم یہ ذمہ داری عطا کرے گا کہ وہ جنتیوں کو جنت میں بھیجیں اور جہمنیوں کو جہنم میں۔ یعنی آپ ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں قیامت کے ہولناک منظر ہو اور علی (ع) کے مقام و منزلت کو۔


’’علی قسیم الجنۃ و النار‘‘ روایت کی قیمت
اگر تمام احادیث جو رسول گرامی سے علی علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کو ترازو کے ایک پلے اور اس حدیث کو دوسرے پلے میں رکھا جائے تو یہ حدیث دوسری تمام حدیثوں کی برابری کرے گی۔
لیکن اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ یہ حدیث کیا کہنا چاہتی ہے؟ یہ واقعہ کیسے رخ پائے گا؟ یہ کون سا مقام اور کون سی منزلت ہے جو اللہ، علی علیہ السلام کو دے گا؟ کیوں علی علیہ السلام جہمنیوں کو جنتیوں سے الگ کریں گے؟ کروڑوں انسان ابتدائے خلقت سے اب تک دنیا میں آئے اور گئے اور کتنے کروڑ اور آئیں گے اور جائیں گے؟ صرف اللہ جانتا ہے۔ علی کیسے سب کے بارے میں جانتے ہیں سب کے اعمال سے آشنا ہیں کہ ان کے جہنمی اور جنتی ہونے کا فیصلہ کریں گے؟
احمد بن حنبل اس روایت کو صحیح روایات میں شمار کرتے ہیں اور یہ اہم بات ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حق نہیں رکھتا اس روایت کو جھٹلائے۔
لیکن افسوس کہ علی بن ابی طالب جیسی شخصیت، ایسا گوہر عالمتاب ناشناختہ رہ گیا اور ناشناختہ رہے گا جب تک کہ حوض کوثر پر پیغمبر اکرم پر وارد نہ ہو جائے۔


امیر المومنین(ع) کی فضیلت میں اہل سنت سے مروی ایک اور روایت
پھر احمد بن حنبل نے کتاب فضائل الصحابہ، جلد ۲، صفحہ ۸۲۱ پر معروف صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری رضوان اللہ علیہ سے نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: میں نے جنت کے دروازے پر دیکھا کہ لکھا ہوا ہے: لا اله الا الله و محمداً رسول‌الله و علی أخوه رسول‌الله».
پیغمبر اکرم (ص) نے اس روایت میں تین نکتے بیان کئے ہیں؛ ایک اللہ کی وحدانیت، دوسرا پیغمبر کی رسالت اور ان کا نام اور تیسرا علی علیہ السلام کا نام۔ یعنی یہ مولائے کائنات کے لیے کتنے فخر کی بات ہے کہ ان کا نام دربہشت پر اللہ اور اس کے رسول کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔
یہ وہ فضائل ہیں جو لوگوں کے لئے بیان ہونا چاہئے تاکہ لوگ مقام علی(ع) سے آگاہ ہو سکیں۔


اہل سنت کی نگاہ میں امیر المومنین کے بارے میں نازل شدہ قرآن کی آیتیں
ابن حجر جو شافعی مذہب ہیں اپنی کتاب الصواعق المحرقہ کے صفحہ نمبر ۱۷۰ میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ۳۰۰ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔
یہ بات معمولی بات نہیں ہے چونکہ اہلسنت کی ایک اہم شخصیت کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ یعنی اگر ہم چاہیں کہ امیر المومنین کو قرآن کے ذریعے پہچانیں تو ہمیں سالہا سال قرآنی آیات پر تحقیقات کرنا ہوں گی اور ان میں موجود امیر المومنین کے بارے میں نکات پر گفتگو کرنا ہو گی۔


حضرت علی (ع) کے بارے میں ایک آیت
اہل سنت کے اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ سورہ مبارکہ بقرہ کی ۲۰۷ ویں آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ ؛ علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
تاریخ میں جب اس آیت کی شان نزول پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین مکہ نے پیغمبر اکرم کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ شیخ مفید (متوفیٰ ۴۱۳ ھ ق) اپنی کتاب الارشاد میں بیان کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ رات کے عالم میں پیغمبر اکرم کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کر ڈالیں حضرت جبرئیل رسول خدا کے پاس آئے اور انہیں اس منصوبے کی خبر دی۔
اس کے بعد رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو طلب کیا اور انہیں یہ واقعہ سنایا۔ اور اس کے بعد ان سے پوچھا کہ کیا آپ حاضر ہیں آج رات میری جگہ میرے بستر پر سو جائیں؟ یہاں پر امیر المومنین کے جواب پر غور کریں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا: یا رسول اللہ اگر میں آج رات آپ کے بستر پر سو جاوں تو ممکن ہے مشرکین میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ اگر چہ یہ چیز یقینی تھی۔ بلکہ فرمایا: یا رسول اللہ اگر میں آپ کے بستر پر سو جاوں تو آپ جان بچ جائے گی؟ تو رسول خدا فرماتے ہیں: ہاں بچ جائے گی۔ تو تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے سجدہ شکر بجا لایا کہ ان کی وجہ سے رسول خدا کی جان بچ رہی ہے۔
اہم نکتہ اس روایت میں یہ ہے کہ حضرت علی نے اپنی جان کے بچنے کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ رسول خدا کی جان محفوظ رکھنے کی فکر کر رہے ہیں۔ لہذا یہ ماننا پڑے گا یہ دین جو آج ہمارے اور آپ کے پاس ہے یہ علی علیہ السلام کی اس ایک شب کی قربانی اور بستر رسول پر سونے کا نتیجہ ہے۔
شیخ مفید اس تاریخی واقعے کے بیان کرنے کے بعد ایک جملہ لکھتے ہیں کہ جسے سونے کے پانی سے لکھ کر دیوار پر لٹکانا چاہیے اس جملے کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس رات علی علیہ السلام بستر رسول پر نہ سوتے تو رسول کی رسالت، نبی کی نبوت اور دین کی تبلیغ سب ختم ہو جاتا۔ اور یہ علی تھے جنہوں نے رسول کی رسالت اور نبی کی نبوت کو بچایا۔ لیکن افسوس کہ مسلمان، علی علیہ السلام کی اس قربانی کی عظمت کو نہیں سمجھ سکے


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک نظر
عظمت و منزلت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ...
کیا اس کلام کی سند روایت پر مبنی کوئی ضمانت ہے جس ...
حضرات ائمه عليهم السلام
حسین(ع) سب کا
امام علی النقی علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں امام عصر (عج) کی ...

 
user comment