يہ آيت کريمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حيات ميں اس دقت نازل ہوئي ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر ميں تھے اور اس کے بعد آپ نے علي (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسين (ع) کو جمع کرکے ايک خيبري چادر اوڑھادي اور بارگاہ احديت ميں عرض کي، خدايا يہي ميرے اہلبيت (ع) ہيں، تو ام سلمہ نے گذارش کي کہ حضو ر ميري جگہ کہاں ہے؟ فرمايا تم منزل خير پر ہو … يا … تمہارا انجام بخير ہے-
دوسري روايت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کي کہ کيا ميں اہلبيت (ع) ميں نہيں ہوں؟
تو فرمايا کہ تم خير پر ہو-
ايک دوسري روايت کي بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادراٹھاکر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھينچ ليا اور فرمايا کہ تم خير پر ہو-
مسلمان محدثين اورمورخين نے اس تاريخي عظيم الشان واقع کو اپني کتابوں ميں محفوظ کيا ہے اور بقول علامہ طباطبائي طاب ثراہ اس سلسلہ کي احاديث ستر سے زيادہ ہيں، جن ميں سے اہلسنت کي حديثيں شيعوں کي حديثوں کے مقابلہ ميں اکثريت ميں ہيں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعيد خدري، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پيغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علي (ع) سے تقريباً چاليس طريقوں سے نقل کي ہے جبکہ شيعہ حضرات نے امام علي (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابوليليٰ ، ابواسود دئلي ، عمر ابن ميمون اور دي اور سعد بن ابي وقاص سے تيس سے کچھ زيادہ طريقوں سے نقل کيا ہے- ( الميزان في تفسير القرآن 16 / 311)
مۆلف، عنقريب آپ ديکھيں گے کہ ان تمام احاديث کو فريقين نے امام علي (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زين العابدين (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعيد خدري ابوليليٰ انصاري، جابر بن عبداللہ انصاري، سعد بن ابي وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کيا ہے اور اس کے بعد خصوصيت کے ساتھ اہلسنت (ع) نے امام حسين (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زينب بنت ابي سلمہ ، صبيح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابي سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کيا ہے جس طرح کہ اہل تشيع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع) سے نقل کيا ہے اور ان روايات کو بھي نقل کيا ہے جن سے اہلبيت (ع) کے مفہوم کي وضاحت ہوجاتي ہے چاہے آيت تطہير کے نزول کا ذکر ہو-
مختصر يہ ہے کہ يہ واقعہ سند کے اعتبار سے يقيني ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح… بالخصوص اسلام نے اہلبيت(ع) کے موارد کي تعيين بھي کردي ہے کہ اب اس ميں کسي طرح کے شک و شبہہ کي گنجائش نہيں رہ گئي ہے اور نہ عنوان اہلبيت (ع) ميں کوئي زوجہ داخل ہوسکتي ہے اور نہ اسے مشکوک بنايا جاسکتاہے-
اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبيت (ع) کو انھيں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئي خاص دخل ہدايت امت ميں تھا اور اس کي تفصيل آئندہ صفحات ميں نظر آئيں گي-
اس کے علاوہ سورہ احزاب کي آيت 33 کا مضمون بھي ان تمام روايات کي تائيد کرتاہے جو شان نزول کے بارے ميں وارد ہوئي ہيں اور ان سے يہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتي ہے کہ اہلبيت (ع) کے مصداق کے بارے ميں شک و شبہہ کسي طرح کي علمي قدر و قيمت کے مالک نہيں ہے-
source : tebyan