آپ کا مشهور و معروف لقب ”الباقر“ ھے اورآپ کو یہ لقب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عطا فرمایا تھا۔
واقعہ کربلا میں آپ کا عہد طفولیت تھا اور اپنی جوانی میں ان تمام مشکلات ومصائب میں شریک تھے جو آپ کے پدر بزرگوار امام سجاد علیہ السلام اور دوسرے علویوں پر پڑے۔ جب آپ اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد منصب امامت پر فائز هوئے تو آپ حکومت وقت سے بالکل جدا هو گئے اور کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھا چنانچہ آپ نے اپنا سارا وقت علوم دینی اور حقائق اسلام کو بیان کرنے میں صرف کردیا اور گذشتہ اموی حکومت کے زمانہ میں فقہ و حدیث جو اموی دور میں غبار آلود هو گئے تھے ان کو صاف کردیا۔
در حالیکہ آپ کا حکام زمانہ سے بالکل رابطہ نھیں تھا لیکن جب بھی انھیں کوئی مشکل اور پریشانی هوتی تھی تو ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاصر هوتے تھے، اور امام علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نھیں لیتے تھے بلکہ اُن کی مشکلات کو حل فرما دیا کردیتے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے، اسلام اور ارکان اسلامی کی حفاظت فرماتے تھے۔
جیسا کہ بعض مورخین نے لکھا ھے کہ عبد الملک بن مروان کا امام علیہ السلام سے مشورہ کے بعد ان تمام ظروف اور کپڑوں کو بند کرا دیا جن پر مصر کے بعض عیسائیوں نے سریانی زبان میں اپنا عقیدہ ”اب، ابن اور روح القدس“ چھاپ کر بازاروں میں روانہ کیا تھا۔
اسی طریقہ سے جب خلیفہ اور بادشاہ روم کے درمیان گفتگو هوئی اور خلیفہ بادشاہ روم کو کوئی مستحکم جواب نہ دے سکا، چنانچہ اس نے خلیفہ کی طرف سے بے توجھی کی خاطر سخت رویہ اختیار کیا اور اس نے درھم و دینار پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے نازیبا الفاظ لکھ کر مسلمانوں کے بازار میں بھیجے کیونکہ اس زمانہ میں درھم و دینا ر روم میں بنائے جاتے تھے۔
جب عبد الملک نے یہ حال دیکھا تو امام علیہ السلام سے مشورہ کرنے پر مجبور هوگیا اور اس سلسلہ میں آپ کوشام دعوت دی چنانچہ امام علیہ السلام نے مصلحت کے تحت اس دعوت کو قبول کیا اور آپ شام تشریف لے گئے اور جب عبد الملک نے آپ کے سامنے مشکل بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ صنعت گروں کو بلایا جائے، خلیفہ نے ان سب کو حاضر کرلیا تب امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ کس طرح درھم و دینار کا سانچہ بنائیں، کس طرح ان کی مقدار معین کی جائے اور کس طرح ان پر کچھ تحریر کیا جائے، چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طریقہ سے مسلمانوں کو رسوائی سے بچا لیا اور بادشاہ روم ناکام هوگیا.
امام علیہ السلام کے بے شمار شاگرد تھے آپ کی میراث وہ گرانبھا ذخیرہ ھے جس سے تفسیر، فقہ، حدیث، کلام اور تاریخی کتب بھری ھیں، آپ کی شھادت ذی الحجہ ۱۱۴ھ مدینہ منورہ میں هوئی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
بشکریہ صادقین ڈاٹ کام
source : tebyan