سعودی اخبار ’’الریاض‘‘ نے اپنے تازہ شمارے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کی علماء کمیٹی نے ایرانی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی کی بنائی ہوئی فلم محمد رسول اللہ (ص) کو مقام نبوت کے لیے توہین آمیز قرار دیا ہے اور مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ اس فلم کو دیکھنے سے برائت اختیار کریں۔
ادھر مصر کے جامعہ الازہر میں بھی کچھ لوگوں نے اس فلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دکھائے جانے پر بے کار کے اعتراض کیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس فلم کو دیکھا ہی نہیں ،اور ان کا دعوی اس فلم کی فضا سے بالکل مربوط نہیں ہے ،وہ صرف اپنی تخیل پردازی کی بنا پر اتنی تندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔البتہ معمول کے مطابق بہت سارے افراد کے سامنے اس فلم کے جھوٹے مناظر بنا کر پیش کیے گئے ہیں اور ان کو عجیب و غریب باتیں بتائی گئی ہیں ۔ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ جب وہ اس فیلم کو دیکھیں گے تو اس کے بارے میں کچھ لوگوں کے نظریات بدل جائیں گے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی فلم رلیز ہوتے ہی مغربی ذرائع کی طرف سے جو اس فلم کی مخالفت ہو رہی ہے اس کے دو محور ہیں ،اور یہ دونوں محور ایرانی سینما کی تاریخ میں جو سب سے بڑا کارنامہ ہوا ہے اس کی مخالفت کے اصلی وجوہات پر پردہ ڈالنے کا بہانہ ہیں ۔
مجیدی نے کس کے کھیل کو بگاڑا ہے ؟
مجید مجیدی کی تازترین شاہکار کے سرکاری اجرا کو ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ یہ دنیا کے اخبار کی سرخیوں پر چھا گئی ہے ۔کچھ مونٹریل فیسٹیول میں جو اس کا افتتاحیہ ہوا ہے اس کی خبروں کو نشر کر رہے ہیں ۔کچھ نے بائیکاٹ کا طریقہ اختیار کیا ہے ،اور وہ بھی اس فیلم کا بائیکاٹ کہ جس کے بارے میں پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ یہ عالم اسلام کے سینما میں نئے سال کا سب سے بڑا دھماکہ ہے ۔بعض دوسروں نے دوسرا ہی راستہ اپنایا ہے اور وہ اس پر تنقید اور اس کی مخالفت میں قلم فرسائی کر رہے ہیں ۔ یہ آخری طریقہ اس گروہ نے اختیار کیا ہے جو اس فیلم کے مخالف اصلی ذرائع ابلاغ کا گروہ ہے ۔
سب سے اہم مطالب جو اس فیلم (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بارے میں اب تک ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئے ہیں وہ دو محوروں پر استوار ہیں :
پہلا محور یہ ہے کہ اس فیلم کے بنانے پر بھاری رقم خرچ ہوئی ہے ،مغربی ایسی حالت میں اس ڈھنڈورے کو پیٹ رہے ہیں کہ جب ہالیوڈ میں بننے والی فیلموں پر جتنا پیسہ لگتا ہے یہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے یا اس جیسی کسی ایک فیلم کے پروجیکٹ کے برابر ہے ۔
دوسرا محور :جامعہ الازہر مصر میں کچھ لوگوں نے اس فیلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دکھائے جانے پر بے کار کے اعتراض کیے ہیں ،جن کو یہ ذرائع ابلاغ بڑھاوا دے رہے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس فیلم کو دیکھا ہی نہیں ،اور ان کا دعوی اس فیلم کی فضا سے بالکل مربوط نہیں ہے ،وہ صرف اپنی تخیل پردازی کی بنا پر اتنی تندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔البتہ معمول کے مطابق بہت سارے افراد کے سامنے اس فیلم کے جھوٹے مناظر بنا کر پیش کیے گئے ہیں اور ان کو عجیب و غریب باتیں بتائی گئی ہیں ۔ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ جب وہ اس فیلم کو دیکھیں گے تو اس کے بارے میں کچھ لوگوں کے نظریات بدل جائیں گے ۔
ایسا لگتا ہے کہ مغربی ذرائع کی اصلی مشکل وہ نہیں ہے جو وہ دکھا رہے ہیں ،بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے جسے وہ بتا نہیں رہے ہیں ،ان کے لیے مشکل ہے لیکن ان کی کوشش یہ ہے کہ اس طرح کے بے کار کے بہانے بنا کر اور ایسے اعتراضات پیش کر کے کہ جو کھوکھلے ہیں وہ اس ایرانی ثقافتی اسلامی اثر پر انگلی اٹھا سکیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی اصلی وجہ کیا ہے ؟
حضرت آمنہ (سلام اللہ علیہا) اور حضرت حلیمہ (سلام اللہ علیہا) کے اس فیلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ مہربانی کے مناظر
اس سوال کا جواب ان لوگوں کے لیے جو اس فیلم کو دیکھ رہے ہوں گے زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔مجیدی کی اس فیلم میں جو ہنر مندانہ مناظر پیش کیے گئے ہیں وہ مغربی ذرائع ابلاغ کی اس فیلم کی مخالفت کی اصلی وجہ ہیں جس کی دو آسان سی دلیلیں ہیں :
پہلی دلیل ،دین اسلام میں جو انسانیات ، کرامات اور مہربانی اور اخلاقیات ہیں ان کی منظر کشی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالمین کے لیے رحمت ہونے کی ماہیت کو پیش کیا جانا ہے کہ جو اس فیلم میں موجود ہے ۔وہ بھی ٹھیک ایسے دنوں میں کہ جب ہالیوڈ سینما اور مغربی ذرائع اسلام کی غیر واقعی اور خشونت آمیز اور انتہا پسند تصویر پیش کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ہالیوڈ کی فیلموں میں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں لگاتار ،دہشت گردی ، خود کش اور انسانیت کے خلاف حملوں ، قتل و غارت گری ، اور یرغمال بنانے جیسے مسائل کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے ،اور اس کے ثبوت میں وہ اپنے بنائے ہوئے انتہا پسند گروہوں کو کہ جو ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہیں پیش کرنے سے بالکل بھی دریغ نہیں کرتے ۔ غیر سرکاری تنظیمیں بنانا اور خود ساختہ حکومتیں تشکیل دینا دنیا کے لوگوں کی رائے عامہ کو حقیقی اسلام سے منحرف کرنے کا صہیونیوں کا طریقہ کار رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس روش کے بارے میں کافی بحث ہو چکی ہے اور اس کے لیے اس سے زیادہ تحلیل اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی فیلم بنانا جمہوری اسلامی کا سب سے عاقلانہ اقدام تھا کہ جو مجید مجیدی کی کوشش سے ایسے وقت میں ملتوں کو ہوشیار کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہوا کہ جب دولت اسلامی عراق و شامات( داعش) نامی خونخوار ٹولہ اور تکفیری، ذرائع ابلاغ کے پاس اسلام سے متنفر کرنے اور خوف زدہ کرنے کا سب سے پسندیدہ ذریعہ ہیں ۔
محسن تنابندہ کے کردار کے مناظر کہ جس کو یہودیوں کے معبد کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی فیلم کی مخالفت کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے ان کے اسلام سے خوف زدہ کرنے کے منصوبے کا کھیل بگاڑ دیا ہے اور جو انہوں نے اسلام کی الٹی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی تھی اس پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے :
دوسری دلیل ،ان کی مخالفت کی وجہ وہ مختلف تفسیر ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۴۰۰ سال بعد تاریخ اسلام کی پیش کی ہے ،یہ وہ تفسیر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت رسول اللہ علیہم السلام پر جو کچھ بیتا تھا اور اس کے بارے میں جو ابہام تھا اور کسی نے اس کو دور نہیں کیا تھا اس کو دور کرتی ہے ۔انتہا پسند یہودی کہ جن کو آج ان کے عجیب و غریب رجحانات کی وجہ سے صہیونی کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دشمنی کا باعث اور بانی ہونے کے سلسلے میں کبھی بھی اتنا غور و خوض نہیں کیا گیا تھا۔
کبھی بھی یہ سوال اور موضوع نہیں اٹھایا گیا کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی مار ڈالا گیا ؟ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت آمنہ کے تندرست اور سالم ہونے کے باوجود ایام طفولت میں ہی ان سے جدا ہونا پڑا ؟ اگر ان کی سلامتی کے بارے میں شک تھا بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دایہ کی ضرورت تھی تو کیوں اس دایہ نے ماں کے ساتھ رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیکھ ریکھ نہیں کی ؟ کیوں فرزند کو ماں سے اس وقت الگ ہونا پڑا کہ جب ماں کو اس سے والہانہ محبت تھی اور وہاں جا کر رہنا پڑا کہ جس جگہ کی کسی کو خبر نہیں تھی ؟ یہ سوال ہمیشہ اسلامی منبروں سے اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن اس بار مجیدی نے فریاد بلند کی ہے اور اس کو زبان زد ہر خاص و عام کر دیا ہے ۔ اس نے بڑی شہامت کے ساتھ میر باقری جیسے محقق کے ساتھ مل کر شیعوں اور سنیوں کے مآخذ سے دلایل اکٹھے کر کے یہودیوں کی اس سازش کو طشت از بام کیا ہے کہ جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو روکنے کے لیے رچی تھی ۔
تاریخ کے صفحات میں اس کے بارے میں بہت ساری دلیلیں موجود ہیں ،جن کو یہودی کبھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگیں۔ اب مجیدی نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور صحیح نشانہ لگایا ہے اور یہ ان کی اس تازہ ترین تخلیق پر مغربی ذرائع ابلاغ کے حملے کی اہم ترین وجہ ہے ۔کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے اصلی اسپانسر ہمیشہ صہیونی نظریات کے حامل یہودی رہے ہیں ۔ مجیدی نے دنیا کے لوگوں کے اذہان کو اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کو انتہا پسند یہودیوں کے مکارانہ رویے سے کہ جس کو اسلام کی مخالفت میں انہوں نے اپنا رکھا ہے کہ جو اصل میں صہیونی ہیں آگاہ کیا ہے شاید محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی فیلم کی یہی مستند روایت مغربی ذرائع کو مجبور کرے گی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اسلام کو پہچاننے کے لیے با مقصد منصوبہ بندی سے کام لیں ۔اور یہی دلیل مسلمانوں کو دشمنوں کے فرقہ وارانہ دعووں کی طرف متوجہ کرے گی اور ان کو یہ بتائے گی کہ مسلمانوں کا اصلی دشمن کون ہے ؟ بعید نہیں ہے کہ عالم اسلام سے منسوب کچھ افراد جو اس فیلم کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی مخالفت بناوٹی اور کسی کی سفارش کی بنا پر ہو ۔
source : abna