اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

برے برتاۆ سے خدا ناراض ہو جاتا ہے

خود غرض قسم کے انسان دوسرے کے ساتھ دشمني ميں برے الفاظ کا استعمال کرکے اپنے دل کا غبار نکالنے کي کوشش کرتے ہيں جبکہ حقيقت يہ ہے کہ جس قدر لج بازي کا مظاہر کرتے ہيں اسي قدر ان پر ذہني و جسماني دباۆ بڑھتا ہے - دوسري طرف معتدل قسم کے لوگوں کي کوشش ہوتي ہے کہ غصّہ کے نتيجہ ميں عجيب قسم کے ذہني تناۆ کا شکار نہ ہوں اور وہ دل ميں کينہ نہيں رکھتے ، کسي کو لڑائي کے ليۓ مجبور نہيں کرتے ليکن اگر انہيں کوئي لڑنے کے ليۓ دعوت کرے تو اپنے
برے برتاۆ سے خدا  ناراض ہو جاتا ہے

خود غرض قسم کے انسان دوسرے کے ساتھ دشمني ميں برے الفاظ کا استعمال کرکے اپنے دل کا غبار نکالنے کي کوشش کرتے ہيں جبکہ حقيقت يہ ہے کہ جس قدر لج بازي کا مظاہر کرتے ہيں اسي قدر ان پر ذہني و جسماني  دباۆ بڑھتا ہے  - دوسري طرف معتدل قسم کے لوگوں کي کوشش ہوتي ہے کہ غصّہ کے نتيجہ ميں عجيب قسم  کے ذہني تناۆ کا شکار نہ ہوں اور  وہ دل ميں کينہ نہيں رکھتے ، کسي کو لڑائي کے ليۓ مجبور نہيں کرتے ليکن اگر انہيں کوئي لڑنے کے ليۓ دعوت کرے تو اپنے دفاع کے ليۓ جنگ کو قبول کرے کيونکہ  لڑائي  کرنے والا شخص ستم گر ہے اور ستمگر منہ کي کھاتا ہے اور  زمين بوس ہوتا ہے -

اکثر يہ ديکھا گيا ہے کہ نفس پر قابو پا لينے ، صبر اور بردباري کا نتيجہ اچھا سامنے آتا ہے کيونکہ  جہاں ممکن تھا کہ فلاں شخص معمولي سے برے سلوک کي بنا پر دشمن بن جاۓ  اچھے حسن سلوک کي  وجہ سے دوستوں کي صف  ميں شامل  ہو گيا ہے -   برے برتاۆ سے نہ صرف معاشرے کے افراد دشمن بن جاتے ہيں بلکہ خدا بھي  ناراض ہو جاتا ہے اور اسے اپني  عنايات سے محروم  کر ديتا ہے - اسلامي تعليمات کو يہ فخر حاصل ہے کہ اس کے احکامات ميں کہيں بھي دوسروں سے لڑائي جھگڑے کي کوئي گنجائش نہيں ہے کيونکہ  اسلام امن و سلامتي اور صلح پسند  دين ہے     اور اس ميں يہ طاقت ہے کہ  تمام مسائل کو واضح دلائل اور منطقي طور پر حل کر سکے -  اسلام کے ابتدائي ايام ميں نبي اکر م صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھي کبھي بھي جنگ کے ليۓ پيش قدمي نہيں کرتے تھے  اور  جنگ ميں پہل نہيں کرتے تھے بلکہ يہ دشمنان اسلام تھے جو مسلمانوں پر لشکر کشي کرتے  يا اس قدر مسلمانوں کو تنگ کرتے اور آزار پہنچاتے کہ مسلمان مجبور ہو کر جنگ کے ليۓ آمادہ ہو جاتے -

 مسلمانوں کي جنگ ميں پہل نہ کرنے اور اسے جائز نہ سمجھنے کي  وجہ يہ ہے کہ  جو کوئي  جنگ پسند ہوتا ہے اور جنگ کرکے خونريزي برپا کرتا ہے درحقيقت وہ ستم گر ہوتا ہے اور ستم گر آخر کار  تباہ برباد ہو کر مغلوب ہوتا ہے -  اس ليے اسلام کبھي بھي جنگ کرنے کا حکم نہيں ديتا ہے  کيونکہ  اسلام نہيں چاہتا کہ اس کے پيروکار ستمگر بنيں ليکن اسلام مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کا بھي  پورا حق ديتا ہے کيونکہ  جنگ طلب کرنے والوں کے مقابلے ميں اپنا دفاع نہ کرنا خوار ہونے کي دليل ہے اور اسلام نہيں چاہتا کہ اس کے پيروکار ذليل و خوار ہوں  اور دوسروں کو لوٹ مار اور قتل و غارت کي اجازت ديں -

« لاَ تَدعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَة وَإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ، فَإِنَّ الدَّاعِيَ بَاغ، وَالبَاغِيَ مَصْرُوعٌ؛

کسي کو لڑائي کي دعوت نہ دو ليکن اگر انہوں نے تجھے مقابلے کي دعوت دي تو اپنے دفاع کے ليۓ جنگ کو قبول کرو کيونکہ لڑائي کرنے والا ستمگر ہے اور ستمگر  زمين بوس  ہوتا ہے اور مغلوب ہو جاتا ہے -


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و ...
دنیا کی سخت ترین مشکل کے حل کے لیے امام رضا علیہ ...
دنیا ظہور سے قبل
ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں
اموی حکومت کا حقیقی چہرہ، امام سجاد(ع
۹؍ربیع الاول
قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام
مسلمان ایک جسم کی مانند
حضرت معصومہ(س) آئمہ معصومين(ع) کي نظر ميں

 
user comment