اس دعوے کی دلیلیں:
فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک و شبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔
پہلی دلیل:
جیسے کہ ہم نے کہا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا:
فقال لہ قم یا علی فاننی
فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً
یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی(ع) ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔
جیسا کہ ظاہر ہے شاعر نے لفظ مولا کو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام میں استعمال کیاتھا امام، پیشوا،ہدای اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اس صورت میں کہ یہ شاعر ،عرب کے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء ،ادباء اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔
دوسری دلیل:
حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ :
واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم
یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔
امام سے بہتر کون شخص ہے جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہیں سمجھا تھا ؟
تیسری دلیل:
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ “ کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں، ان دو جملوں کو آپس میںملانے سے کیا ہدف ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اورہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے ،وہی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام ،نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔
اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی،یہ انصاف سے کتنی گری ہوئی بات ہے کہ انسا ن ان تمام قرائن کی روشنی میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ا س پیغام کو نظراندازکرتے ہوئے آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
چوتھی دلیل:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارلیا اور فرمایا ”الست تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنۃ حق والنار حق ؟
یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟ان سب کا اقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کریں تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں ک ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصولوں کی مانندہے جن کا سب اقرار کرتے ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی کیا ایسا نہیں ہے ؟
گل
پانچویں دلیل:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ کے شروع میں اپنی رحلت کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں یہ جملہ اس بات کی حکایت کررہاہے کہ پیغمبر یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کریں اور اپنی رحلت کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پرکریںاور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔
جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی رابطہ ٹوٹ جائے گا جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں مسئلہ ولایت کے لئے اس سے روشن تر اور کیا قرینہ ہو سکتا ہے ۔
چھٹی دلیل:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ “ جملے کے بعد فرمایا کہ :” اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں ؟
سب سے روشن بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی علیہ السلام کی ولایت سے راضی ہو گیا[24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟
ساتویں دلیل:
اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنۃ“ یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح شام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔
علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا جس کے نتیجہ میں اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔
کیا قرآن نے تمام اہل ایمان افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے انما المومنون اخوۃ مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں متعرف نہیں کرا یا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کے ایک فرد تھے لہٰذا کیا ضرورت تھی کہ ان کی دوستی کا اعلان کیا جائے؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان انتظامات کی ضرورت نہیں تھی ،یہ کام مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا ۔یقینا کو ئی بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔
اب آپ فیصلہ کریں:
اگر ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا تو کیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریںگے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگر تمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو دل خواہ نتیجوں پر پہونچیں گے اور یہ کام مسلمانوںکے مختلف فرقوں میں آپسی اتحادکی مضبوطی کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل میں ڈھل جائے گا ۔
تین پر معنی حدیثیں:
اس مقالہ کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔
الف: حق کس کے ساتھ ہے۔
زوجات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا ”علی مع الحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض“
علی (ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ہے ۔اور یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہیں ہوسکتے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔
یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہور کتابوں میںموجودہے۔علامہ امینی نے ان کتابوں کا ذکر الغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے۔
اہل سنت کے مشہور مفسر فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ:” حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:” اللہم ادرلحق مع علی حیث دار“ اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں ۔
یہ حدیث قابل توجہ ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے ۔
source : tebyan