اردو
Monday 19th of August 2024
0
نفر 0

عزاداری وسیلہ ہے ہدف نہیں

عزاداری اسلام کی شاہرگ حیات ہے اور عزاداری کو خرافات اور توہمات سے بھرنے کے لئے دشمنوں کی سرمایہ کاری کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دین اسلام کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ کربلا کا واقعہ دین کی حیات نو کا وسیلہ بن گیا اور علامہ اقبال نے کہا کہ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
عزاداری وسیلہ ہے ہدف نہیں

عزاداری اسلام کی شاہرگ حیات ہے اور عزاداری کو خرافات اور توہمات سے بھرنے کے لئے دشمنوں کی سرمایہ کاری کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دین اسلام کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ کربلا کا واقعہ دین کی حیات نو کا وسیلہ بن گیا اور علامہ اقبال نے کہا کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زنده ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مگر اگر عزاداری کو ہدف اور مقصد قرار دیا جائے !

عزاداریوں کو بامقصد ہونا چاہئے؛ اگر عزاداری کا ہدف اور اس کی سمت کھو جائے تو اس کا کوئی مثبت اثر نه ہوگا حتی ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوجائیں.‎

سوال یہ ہے کہ عزاداری کا کیا ہدف ہوسکتا ہے؟ عزاداری میں ہدف کی شناخت کے لئے سب سے پہلے عزا اور مصیبت کے مالک کی فکر اور ہدف و نیت کی شناخت ضروری ہے. تا کہ اگر اس صاحب عزا کے لئے عزاداری کرنی ہو تو اسی کی فکر کے حصول کی خاطر عزاداری ترتیب دی جائے. ‎

قرآن کا فرمان ہے: "یا ایها الذین آمنوا كونوا انصار الله كما قال عیسی ابن مریم للحواریین من انصاری الی الله قال الحواریون نحن انصار الله"

(صف/ 14)

اے ایمان والو! خدا کے انصار و مددگار بنو جیسا کہ عیسی بن مریم (ع) نے حوارئین سے کہا: خدا کی جانب میرا مددگار کون ہے؟ تو حواریون نے کہا: ہم خدا کے مددگار ہیں.‎‎

آیت کا پیغام اور خدا کی بات یہ ہے کہ آؤ اور خدا کے دوست اور مددگار بنو اور خدا کے لئے کچھ کرو. اس کے بعد خداوند متعال شاہد مثال بھی لاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم حضرت عیسی (ع) کے حوارئین کی طرح بن جاؤ کہ جب حضرت عیسی نے مدد طلب کی تو وه فوراً ان کی مدد کے لئے اٹھے. ‎

یہ جو حواریون نے جواب میں کہا کہ «نحن انصار الله = ہم خدا کے مددگار ہیں» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر کی مدد ہر زمانے میں در حقیقت خدا کی مدد ہے اور اس قاعدے کے مطابق ہر زمانے میں امام کی مدد خدا ہی کی مدد ہے.

اس آیت کے علاوه امام حسین علیہ السلام کی ندا بھی عاشورا کے روز نصرت کی ندا تھی اور آپ نے فرمایا: «هل من ناصر ینصرنی = کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟». مدد طلب کرنے سے امام علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ حقیقی اسلام عملی صورت اپنائے اور ظلم و شر و فساد کی بیخ کنی ہو اور اس ہدف کا حصول دوسروں سے مدد مانگے بغیر ممکن نہیں ہے. ‎

چنانچہ خدا کی ندا کا مطلب مددگار حاصل کرنا ہے؛ تمام انبیاء اور ائمہ کی ندا بھی مددگار اور ناصر و یار و یاور کا حصول ہے. امام زمان عج کی آج کی ندا بھی وہی امام حسین علیہ السلام کی ندا ہے جو فرمایا کرتے تھے کہ «هل من ناصر ینصرنی. " ‎

اب ہم جو عزاداری کی مجالس برپا کرتے ہیں ان مجالس سے ہمارا ہدف امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد ہونی چاہئے اسی راه میں جس کا آپ (ع) نے آغاز کیا تھا. عزاداری کا مقصد و ہدف امام حسین علیہ السلام کے اهداف اور افکار کو عمل جامہ پہنانا، ہونا چاہئے. یہ مقصدیت عزاداری کی مجالس کے انعقاد میں سب سے زیاده اہمیت رکھتی ہے اور عزاداری کے مضامین اور شکل و صورت - یعنی اس کے دو دیگر پہلؤوں - کو سمت دیتی ہے اور ان پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کی کیفیت کو بدل دیتی ہے.

عزاداریوں کی یہی مقصدیت ہے جو انقلاب سے قبل انقلاب کی کامیابی کا باعث ہوئی کیونکہ لوگ دیکھ رہے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ اگر وه حسینی کام انجام دینا چاہتے ہیں تو انہیں طاغوت کے خلاف لڑنا پڑے گا. اس زمانے میں شاه اور حکومتی سرکردگان یزیدیوں کی شکل میں مجسم ہوئے تھے چنانچہ ان کے خلاف جدوجہد حسینی عمل سمجھا جاتا تھا.

لہذا، عزاداری ایک اونچے اور زیاده اہم ہدف و مقصد تک پہنچنے کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے. لیکن کئی مرتبہ عزاداری کا فلسفہ بھلادیا جاتا ہے اور عزاداری تمہید اور وسیله بننے کی بجائے ہدف و مقصد بن جاتا ہے یعنی عزاداری بذات خود مقدس ہوجاتی ہے اور عزاداری کی مجالس ہدف بن جاتی ہیں اور ایسے وقت عزاداری کا قیام صرف عزاداری کے لئے ہوتا ہے. عزاداری برائے عزاداری۔ اور یہاں عزاداری امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے مقصد سے نہیں ہوتی. (جس کی ہمیں امام حسین علیہ السلام نے دعوت دی ہے اور اس قسم کی عزاداری خطرناک ہے).

سوال: اس قسم کی عزاداری کا خطره کیا ہے؟ ‎

اہم خطره یہ ہے کہ عزادار سوچنے لگتے ہیں کہ آخری مرحلہ یہی ہے. کیونکہ عزاداری خود ہدف میں تبدیل ہوگئی ہے چنانچہ عزاداری کا قیام آخری مرحلہ تصور کیا جاتا ہے اور جب سوچتے ہیں کہ یہ انتہائی ہدف ہے تو وه پھر آگے بڑھنے کا نہیں سوچتے بلکہ عزاداری ہی میں تنوع اور رنگارنگی پیدا کردیتے ہیں اور عزاداری ارتقاء اور عمودی کمال کی بجائے سطحی اور افقی شکل میں پھیل جاتی ہے اور جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو عزاداری کی قسموں اور شکلوں میں روز بروز زیاده سے زیاده اضافہ ہوتا ہے.

اس سے قبل سینہ زنی کرتے تھے اب پاؤں اور ٹانگوں پر ماتم کرتے ہیں؛ اس سے قبل لباس پہن کر ماتم کرتے تھے اب ننگی ہوکر ماتم کرتے ہیں؛ اس سے قبل ہاتھوں سے ماتم کرتے تھے اب بلیڈوں، تلواروں، چھریوں اور قمہ کا ماتم کرتے ہیں.

جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ہے. اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ہے انسانوں کو سوچنے پر آماده نہیں کرتا بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ہے اور مشتعل کیا جاتا ہے. مجل


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment