” مغربی دنیا میں دین سے فرار کے اسباب “کے تحت خدا کے بارے میں کلیسا کے نظریات کی طرف ایک ھلکا سا اشارہ کیا جا چکا ھے۔ یھاں اس نکتے کا اضافہ ضروری ھے کہ قرون وسطیٰ میں غالب نظریہ یہ تھا کہ دوسرے عوامل و اسباب کے شانہ بشانہ خدا بھی اس جھان کے نظم و نسق میں موثر ھے۔ اس زمانے کے خدا معتقد افراد جب زلزلہ، چاند گرھن، سورج گرھن، آندھی، طوفان و غیرہ کی کوئی علت تلاش نھیں کر پاتے تھے تو آخرکار ان حادثات کی علت خدا کو قرار دے دیتے تھے۔ ظاھر ھے کہ اس طرز تفکر کا نتیجھ یھی ھوتا ھے کہ خدا کو اپنے ارد گرد بکھرے ھوئے مجھولات میں تلاش کیا جائے۔ طبیعی ھے کہ جتنا ھماری معلومات میں اضافہ ھوتا جائے گا اور ھمارے مجھولات کم ھوتے جائیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کار بھی سمٹتا جائے گا اور اگر فرض کرلیں کہ کسی دن تمام مسائل و معمہ ھائے بشر حل ھوجائیں اور انسان ھر حادثہ و واقعہ کی طبیعی علت و عامل کی شناخت کرلے تو اسی دن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس دنیا سے لفظ ”خدا“ کا بھی خاتمہ ھو جائے گا۔
مذکورہ کلیسائی نظریے کی بنا پر اس کائنات کے فقط کچھ ھی موجودات ایسے ھیں جنھیں وجود خدا کی نشانیاں کھا جا سکتا ھے یعنی فقط ایسے موجودات جن کی علت ابھی تک ناشناختہ ھے۔ یہ نظریہ چونکہ ھماری اس دنیا میں موجود تھا لھٰذا کانٹ کو اعتراض کرنا پڑا:
”علم و سائنس نے خدا کو اس کے مشاغل سے جدا کرکے ایک گوشے میں قرار دے دیا ھے۔“
(نقل از شھید مطھری، مجموعہٴ آثار،ج/۱،ص/۴۸۲)
KANT کھنا یہ چاھتا ھے کہ اب تک بشریت یہ سمجھتی تھی کہ ھر حادثے کی علت خدا ھے یعنی خدا کو ایک پوشیدہ و مخفی قوت کے طور پر فرض کیا جاتاتھا جیسے ایک جادو گر اچانک کوئی فیصلہ کرے اور بغیر کسی مقدمے کے کوئی جادو کا نمونہ پیش کردے۔ مثال کے طور پر اگر اس زمانے میں کسی کو بخار ھو جاتا تھا اور اس سے سوال کیا جاتا تھا کہ بخار کیوں ھوا ھے تو جواب دیا جاتا تھا کہ خدانے اس کے اندر بخار ایجاد کردیا ھے جس کا مطلب یہ ھوتا تھا کہ اس بخار کے ایجاد ھونے میں کوئی طبیعی عامل سبب نھیں بنا ھے لیکن اب جب کہ سائنس نے یہ ثابت کردیا ھے کہ بخار کا سبب فلاں مائیکروب ھے تو ظاھر ھے کہ اب اس معلول یا بخار کی علت خدا تو نھیں ھے اور اسی طرح جس قدر مختلف اشیاء یا حادثات کی نا شناختھ علتیں اور عوامل کشف ھوتے رھیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کاربھی محدود ھوتا جائے گا۔
حقیقت یہ ھے کہ اس طرح کا نظریہ رکھنے والے افراد کے نزدیک دوسرے تمام موثر اسباب و عوامل کی طرح بھی خدا ایک سبب و علت اور اس کائنات کے اجزاء میں سے ایک جز ھے۔
شھید مرتضیٰ مطھری اس نظریہ پر تنقید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”سبحان اللہ ! کتنا غلط طرز تفکر اور کتنی گمراھی ھے اور مقام الوھیت سے لا علمی کا کیا عالم ھے ۔! یھاں تو قرآن کریم کا یہ قول نقل کرنا چاھئے کہ وما قدرو االلہ حق قدرہ
ترجمہ:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نھیں کی
خدا ،گلیلیو کے تصور میں
قرون وسطیٰ کے خاتمہ اور علوم تجربی کی چو طرفہ ترقی و پیش رفت کے بعد گلیلیو جیسا دانشمند پیدا ھوا اور اس نے خدا کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا۔
GALILIO کے مطابق یہ کائنات ایٹم ( ATOMS) کا ایک مجموعہ ھے۔ اس کائنات میں رونما ھونے والی تمام تبدیلیاں اور تغییرات ان ATOMS کی ترکیبات اورحرکات کا نتیجہ ھوتی ھیں۔ اس درمیان خدا کا دائرہ کار صرف اور صرف ATOMS کو خلق کرنا ھوتا ھے اور بس۔ قدرت خدا کے ذریعے جیسے ھی یہ کائنات خلق ھوئی ویسے ھی خدا کی ضرورت بھی ختم ھو گئی اوراب کائنات مستقل و آزادانہ طور پر رواں-دواں ھے۔
خدا کے بارے میں نیوٹن کا نظریہ
نیوٹن نے کائنات سے خدا کے رابطے کو گھڑی ساز اور گھڑی کے رابطے سے تشبیہ دی ھے۔ جس طرح گھڑی ساز کے گھڑی ایجاد کرنے کے بعد گھڑی اس سے بے نیاز ھو کر اپنا کام کرتی رھتی ھے اسی طرح یہ کائنات بھی خدا کے ذریعہ خلق کئے جانے کے بعد آزادانہ طور پررواں دواں ھے۔ نیوٹن اس نکتے کا بھی اضافہ کرتاھے اور یھیں سے اس کانظریہ GALILIO سے مختلف ھوجاتا ھے کہ خدا کبھی کبھی امور کائنات میں دخیل ھوتا اور بعض غیر مرتب اشیاء و سیاروں کو منظم و مرتب کرتا رھتا ھے۔ اس کے علاوہ خدا ھی وہ ذات ھے جو ستاروں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے میں مانع ھوتی ھے۔
اس نظریہ پر بھی قرون وسطیٰ میں موجود نظریے کا کسی حد تک اثر پڑتا نظر آتا ھے کہ خدا کے وجود کو ان موارد سے مخصوص کیا جاتا تھا جن کی علت و سبب ناشناختہ ھوتی تھی۔ بعد میں سائنس نے یہ کشف کیا کہ سیاروں کی حرکت فعلی اور ان کے کے ایک دوسرے سے نہ ٹکرانے میں براہ راست خدا کی کوئی دخالت نھیں ھے۔ جس کانتیجہ یہ ھوا کہ خدا کا دائرہ کار مزید محدود ھوگیا۔
۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے بھت سے دانشمندوں نے خدا کے بارے میں GALILIO کے نظریے کو ھی قبول کیاھے۔ ان کے نزدیک خدا نے آغاز خلقت میں اس کائنات کو خلق کیا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اب اپنی بقا کی خاطر اس کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نھیں ھے جیسے ایک عمارت اپنی تعمیر کے بعد معمار سے بے نیاز ھوجاتی ھے۔
source : tebyan