غیبت کا سب سے بڑا نقصان تو یھی ھے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ھے ۔ جو لوگ غیبت کے عادی ھو گئے ھیں انھوں نے اپنی فکری موز ونیت و نظم اخلاقی کو کھو دیا ھے، یہ لوگ عیوب کو اور رازوں کو ظاھر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ھیں ۔
غیبت بزرگترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ھے اور انسان کے پاک وصاف خصائل و ملکات کو بھت جلد کمزور کر دیتی ھے بلکہ یہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے دل میں فضیلتوں کی رگوں کو جلا دیتی ھے اور نا پید کر دیتی ھے ۔ مختصر یہ کہ یہ بری عادت روشن افکار کو بدل کر اس کے ذھن کے سامنے فھم و تعقل کے دریچوں کو بند کر دیتی ھے ۔
اگر آپ معاشرے کو گھری نظر سے دیکھیں تو اس غیبت نے پیکر اجتماع پر ضرب کاری لگا کر اس کو مجروح کر دیا ھے اور معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھاوا دیا ھے ۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ھو گئی ھے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ھے اس کی شھرت کو داغدار بنا دیا ھے ۔ اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ھے جو بھرنے والا نھیں ھے ۔
بڑے افسوس کے ساتھ ھم کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاھئے کہ آج غیبت کا بازار ھر جگہ گرم ھے ۔ اور اس نے ھر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ھے جس طرح گیتی کے حادثات باھم مرتبط ھوتے ھیں ۔ اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ھو جائے تو وہ ھر طبقہ میں سرایت کر جاتا ھے ۔ غیبت کی وسعت دامانی کی وجہ سے لوگوں کے افق افکار پر مایوسی و بد بینی کی روح سایہ فگن ھو چکی ھے ۔ آپسی اعتماد ختم ھو گیا ھے اس لئے جب تک اچھے صفات و روح یگانگت کا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص کا تحقق نا ممکن ھے ۔ جس معاشرے میں اخلاق پسندیدہ کا وجود نہ ھو وہ حیات کی نعمتوں سے محروم رھتا ھے ۔
source : tebyan