اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

قرآن فھمي

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيْمِ سُوْرۃ اَنْزَلْنَا ھَا وَفَرَضْنَا ھَا وَاَنْزَلْنَا فِيْھَآ اٰيَاتٍمبِيّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ-اَلزَّانِيَۃ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائيۃ جَلْدَۃ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَۃ فِيْ دِيْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنتُمْ تُۆمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْھَدْ عَذَابَھُ مَا طَآئِفَۃ مِّنَ الْمُۆمِنِيْنَ اَلزَّانِيْ لاَيَنْکِحُ اِلاَّ زَانِيَۃ اَوْمُشْرِکَۃ وَّالزَّانِييۃ لاَ يَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّم
قرآن فھمي

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيْمِ

سُوْرۃ اَنْزَلْنَا ھَا وَفَرَضْنَا ھَا وَاَنْزَلْنَا فِيْھَآ اٰيَاتٍمبِيّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ-اَلزَّانِيَۃ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائيۃ جَلْدَۃ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَۃ فِيْ دِيْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنتُمْ تُۆمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْھَدْ عَذَابَھُ مَا طَآئِفَۃ مِّنَ الْمُۆمِنِيْنَ اَلزَّانِيْ لاَيَنْکِحُ اِلاَّ زَانِيَۃ اَوْمُشْرِکَۃ وَّالزَّانِييۃ لاَ يَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَي الْمُۆْمِنِيْنَ- (سُورۂ نُور، آيت 1 تا 3)

اللہ تعاليٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت ميں واضح آيات نازل کي ہيں تاکہ تمہاري ياددہاني ہو جائے اور تم بيدار و آگاہ ہو جاۆ- اس سورت کے آغاز ميں يہ جو فرمايا جا رہا ہے: ’’يہ ايک سورت ہے جسے ہم نے نازل کيا ہے‘‘ تو قرآن مجيد ميں فقط يہي ايک سورت ہے جس کا آغاز اس آيت سے ہوا ہے جبکہ دوسري بہت سي سورتوں کا آغاز اس آيت ’’ہم نے کتاب نازل کي‘‘ سے ہوا ہے- يعني ان آيات ميں تمام قرآن کي طرف اشارہ کيا گيا ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت ميں بيان کردہ مفاہيم و مطالب کي جانب خدا کي خصوصي توجہ ہے- آپ سورت کے معني کو جانتے ہيں- قرآني آيات کا وہ مجموعہ جو ايک ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہو کر دوسري ’’بسم اللہ‘‘ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہيں- قرآن کا شمار ان کتابوں ميں ہوتا ہے جن ميں فصل، باب اور حصے نہيں ہوتے- قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہي تقسيم کيا گيا ہے- ہر سورت کا آغاز ايک ’’بسم اللہ‘‘ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز ميں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کي علامت ہے کہ پہلي صورت ختم ہو گئي ہے- کہتے ہيں کہ لفظ ’’سورۃ‘‘ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ’’سور‘‘ مشتق ہوا ہے- شہروں کے گرد بنائي جانے والي فصيل جو شہروں کو گھيرے رہتي، وہ ايک ديوار کي صورت ميں ہوتي اور پورے شہر يا قصبہ يا ديہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتي تھي- اسے عربي زبان ميں ’’سور‘‘ کہا جاتا تھا- ’’سورہ البلد‘‘ ايک بلند ديوار ہوتي جسے کسي شہر کے گرد بناتے تھے- گويا ہر سورت ايک حصار کے اندر واقع ہے- اسي لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے- پيغمبرِ اکرم نے بنفس نفيس قرآن کو سورتوں ميں تقسيم کيا ہے- ايسا نہيں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں ميں تقسيم کيا ہو، بلکہ شروع سے ہي قرآن سورتوں کي صورت ميں نازل ہوا-

اس سورت کي پہلي آيت خصوصاً سورۃ انزلنا ھا‘‘ اور ا س کے بعد کے الفاظ ’’فرضناھا‘‘ اس مطلب کو ادا کر رہے ہيں کہ عفت و پاکدامني سے متعلق مسائل بہت اہميت کے حامل ہيں، يعني دورِ حاضر کے انسان کي سوچ کے بالکل برعکس جو جنسي تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہيں کم اہميت شمار کرنے کي سمت بڑھ رہا ہے- اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادي رکھا ہوا ہے اور وہ اپني اصطلاح ميں ’’جنسي آزادي‘‘ کي جانب گامزن ہے- قرآن پاکدامني کے حريموں، بے عفتي کي سزاۆں کے عنوان سے جو مسائل بيان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ايسي پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کي سزاۆں کے عنوان سے بيان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتيں لگائي گئي ہوں اور جو احکام وہ شادي کرنے کي ترغيب دينے کے باب ميں بيان کرتا ہے، الغرض پاکدامني سے مربوط مسائل کے بارے ميں اسلام جو کچھ بيان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ يہ مسائل بہت زيادہ اہميت کے حامل ہيں- يہ مسائل بہت ضروري ہيں- انہيں کم اہم نہيں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کي آفتوں ميں سے ايک آفت يہي ہے کہ پاکدامني کے اصول اور جنسي امور ميں تقويٰ کو زيادہ اہميت نہيں دي جاتي جسے ہم بعد ميں بيان کريں گے-

’’سُوْرَۃ اَنْزَلْنَا ھَا‘‘ يہ ايک سورت ہے جسے ہم نے نازل کيا ہے اور اس ميں بيان شدہ احکام کي مراعات کو واجب قرار ديا ہے، يعني ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہيں- انہيں کم اہم نہيں سمجھتے- ’’وَاَنْزَلْنَا فِيھَآ اٰيَاتٍ مبيِّنَاتٍ‘‘ اور ہم نے اس سورت ميں واضح آيات نازل کي ہيں- اس آيت ميں جو لفظ ’’آيات‘‘ آيا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کي تمام آيات مراد ہوں، يا جيسا کہ علامہ طباطبائي نے تفسيرالميزان ميں تحرير کيا ہے، ان سے مراد وہ آيات ہيں جو اس سورت کے وسط ميں واقع ہيں اور حقيقت ميں يہ آيات اس سورہ کي ريڑھ کي ہڈي کي حيثيت رکھتي ہيں- اس سورت کي دوسري آيات جنسي آداب و اخلاق کے متعلق ہيں جبکہ وہ آيات اصولِ عقائد کے متعلق ہيں- ہم ان کے درميان پائي جانے والي مناسبت کو بعد ميں بيان کريں گے- بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کو نازل کيا ہے اور اس ميں بيان کردہ احکام جو کہ جنسي اخلاق و آداب کے متعلق ہيں، لازم قرار ديئے ہيں-

انسان کي آگاہي و بيداري کي خاطر ہم نے اس ميں واضح آيات نازل کي ہيں، ’’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ تاکہ تمہاري ياددہاني ہو جائے- تم آگاہي حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاۆ-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا

 
user comment