اللہ تعالي نے اپنے آخري نبي حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر نازل کي گئي کتاب قرآن مجيد ميں انسان کے ليۓ زندگي گزارنے کے تمام رہنما اصول بتا ديۓ ہيں - يہ کتاب انسان کے ليۓ ايک مکمل دستور الحيات ہے جس ميں انسان کي ہدايت کے ليۓ ہر موضوع پر بحث کي گئي ہے - گويا قرآنِ حکيم کا بنيادي مقصد انسان کے فکر ونظر اور عمل وکردارکي صحيح سمت متعين کرنا ہے- قرآن نے اللہ پر ايمان، اْس کي وحدانيت کے اقرار ، رسالت کي ضرورت واہميت ، قيامت اور حشر ونشر کے واقع ہونے کي معقوليت اور دوسرے اعتقادي امور کو باور کرانے کے لئے اس تمام کائنات ہي کو ايک بڑي نشاني اورواضح دليل کے طور پرپيش کيا ہے - واقعي جو بھي انسان بغير کسي تعصب ،زمين ، آسمان ، چاند،سورج ، ستارے اور اس تمام کہکشاني نظام پر غوروفکر کرے گا وہ ضرور ان ميں کائنات کي عظيم الشان نشانيوں کو ديکھے گا -
علامہ اقبال نے بھي ''خطبات ''ميں مدلل طور پر قرآن حکيم کي عملي اور عقلي نوعيت کي طرف اشارہ کرکے قرآني آيات بينات ہي کے حوالے سے بے شمار نشانيوں کي نشاندہي کي ہے-اسي لئے عقل وتدبر رکھنے والے لوگ قرآني آيات مبارکہ کے مطابق ہميشہ ان نشانيوں کو ديکھ کر بے ساختہ پکاراْٹھتے ہيں -
ترجمہ: اے ہمارے رب! آپ نے يہ ساري کائنات فضول پيدا نہيں کي ہے -
علامہ اقبال اپني فکر کے مطابق اس آيت کي توضيح کرتے ہوئے خطبات ميں بيان کرتے ہيں کہ دنيا ميں وسعت اور بڑھنے کي صلاحيت موجود ہے بلکہ ہم کائنات ميں اہم تبديلياں بھي ديکھتے رہتے ہيں اور ليل ونہار کي حرکت کے ساتھ ہم زمانہ کا خاموش اْتار چڑھاؤ کا بھي مشاہدہ کرتے رہتے ہيں - يہ سب اللہ تعاليٰ کي بڑي نشانياں ہيں -اسي قرآني حقيت کو اْجاگر کرنے کے لئے علامہ نے اپنے بليغ شاعرانہ پيرائے ميں بھي ''روح ارضي آدم کا استقبال کرتي ہے '' کے عنوان سے کہا ہے
کھول آنکھ ،زميں ديکھ ، فلک ديکھ ،فضا ديکھ!
مشرق سے اْبھرتے ہوئے سورج کو ذرا ديکھ!
اس جلوہ بے پردہ کو پردوں ميں چھپا ديکھ!
ايام جدائي کے ستم ديکھ ، جفا ديکھ!
بے تاب نہ ہو ،معرکہ بيم و رجا ديکھ!
ہيں تيرے تصرف ميں يہ بادل ، يہ گٹھائيں!
يہ گنبد افلاک ، يہ خاموش فضائيں
يہ کوہ ، يہ صحرا ، يہ سمندر ، يہ ہوائيں
source : tebyan