اردو
Tuesday 20th of August 2024
0
نفر 0

رسول اسلام(ص) کے سبط اکبر کا قاتل کون؟

جب عالم اسلام ، معاشرتی عدالت کے علمبر دارامیر المومنین ؑ کی شہادت کے سانحہ سے دوچار ہواتو بڑے ہی پیچیدہ وقت میں امام ؑ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ،جبکہ آپؑ کا لشکر نافرمان ہو چکا تھا ،ان میں سے اکثر افراد جن
رسول اسلام(ص) کے سبط اکبر کا قاتل کون؟

جب عالم اسلام ، معاشرتی عدالت کے علمبر دارامیر المومنین ؑ کی شہادت کے سانحہ سے دوچار ہواتو بڑے ہی پیچیدہ وقت میں امام ؑ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ،جبکہ آپؑ کا لشکر نافرمان ہو چکا تھا ،ان میں سے اکثر افراد جنگ میں سستی سے کام لے رہے تھے اور اُن میں خوارج بھی تھے جنھوں نے امام امیرالمومنین ؑ پرکفر اور دین سے خارج ہونے کاالزام لگایا وہ اپنے لشکر میں جسم کھا جانے والی چیونٹی کی طرح تھے ان کو نافرمانی اور امام کی اطاعت نہ کرنے کی رغبت دلاتے تھے ۔امام حسن ؑ کیلئے سب سے المناک حادثہ آپ ؑ کے لشکر کے سپہ سالاروں کا تھا ،جن میں سر فہرست عبیداللہ بن عباس تھے ،انھوں نے اللہ ،رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ،معاویہ نے ظاہری طور پر انھیں ولایت ،طاعت اور اپنا حکم ماننے کیلئے خط تحریر کیااور اس کے ضمن میں یہ تحریر کیا کہ اگر وہ چا ہیں امام ؑ کو قتل کردیں یا گرفتار کر کے اس کے حوالہ کر دیں ۔ آپ کے چچا زاد بھا ئی عبید اللہ بن عباس نے معاویہ سے رشوت لے لی اور رات کے اندھیرے میں بڑی ذلت و خواری کے ساتھ معاویہ کے لشکر سے جا ملا ،امام حسن ؑ کے لشکر میں فتنوں کی امواج اور بے چینی چھوڑ گیا،کمزور نفس افراد کے لئے خیانت اور ضمیر فروشی کی راہ ہموار کر گیا، آپ کو اس لشکر کے حوالے کردیا جو مال و زر کے لالچ میںآپ کے ہمراہ آگیا تھا، ہر طرف سے آپؑ کو مشکلوں نے گھیر لیا،آپ ؑ کے لشکر میں بعض مارقین نے جان بوجھ کر نماز کی حالت میں آپؑ کی ران پرنیزہ مارا ،امام ؑ نے ان تمام مشکلوں میں صبر سے کام لیااور یہ مشاہدہ کیا کہ آپؑ کے سامنے ان دو راستوں کے علاوہ اورکو ئی تیسرا راستہ نہیں ہے :۱۔ اپنے اس پراکندہ لشکر کے ساتھ معاویہ سے جنگ کرتے جس سے فتح و نصرت کی کو ئی امید نہیں کی جا سکتی تھی ،اس طرح اپنی اور اپنے اہل خاندان نیز شیعوں کی جان کی بازی لگا دیتے اور اس طرح دین اور صراط مستقیم کی ہدایت کا یہ ستارہ غروب ہو جاتا کہ اگر امام اسیر کرکے معاویہ کے پاس لیجائے جاتے تو وہ آپ پر احسان رکھتا اور آپ کو آزاد کردہ قرار دیتا ،جس سے اس سے اور اس کے اہل خاندان سے آزاد کردہ کی تہمت ختم ہو جا تی ،کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) نے فتح مکہ کے دن ان لوگوں کو آزاد کیا تھا اور اس طرح بنی امیہ مضبوطی کے ساتھ اپنے پیر جما لیتے اور عام لوگوں کی نظر میں امام ؑ کی قربانی کی اس کے علاوہ کو ئی اہمیت نہ ہوتی کہ لوگ یا آپ کی تا ئید کرتے یا آپ کو برا بھلا کہتے ۔

۲۔یامعاویہ کے ساتھ صلح کرلیتے جبکہ یہ صلح آنکھ میں تنکے یا گلے میں پھنسی ہو ئی ہڈی کی طرح ہوتی ،معاویہ اور اس کی سرکشی سے چشم پو شی سے کام لیتے یا اس کے اسراراور خباثت کو اسلامی معاشرہ میں فاش کرتے ،اس کے مسلمان نہ ہونے کو بیان کرتے ، اس سے بے شرمی کا لباس دور کرتے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کی ریا ،خباثت اور زورگوئی کا انکشاف ہوجاتا ،یہ چیز واضح طور پر محقّق ہو ئی جس میں کسی طرح کاکو ئی ابہام و غموض نہیں ہے ،صلح کے بعد معاویہ نے ایک خطبہ دیاجس میں عراقیوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے اہل عراق! میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھو ، روزے رکھو، زکات دواور حج بجالاؤ، بلکہ میں نے تم سے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم کو اپنا مطیع بنا کر تم پر حکومت کروں،اور اللہ نے مجھے یہ حکومت دیدی ہے جس کے متعلق تم پر گراں گذر رہا ہے، آگاہ ہوجاؤ میں نے جو کچھ عہد و پیمان حسن بن علی (علیہما السلام )سے کئے تھے وہ سب میرے پاؤں کے نیچے ہیں ۔

کیا آپ نے اس اموی خبیث کو ملاحظہ کیا جس نے اپنی جہالت کو واضح کردیا اور اپنے تمام امور کو بیان کر دیا ؟اگر امام حسن علیہ السلام کی صلح میں یہ عظیم فائدہ نہ ہوتا جو معاویہ کی جہالت اور اس کے خبث با طنی اور سوء سریرہ پر دلالت کر تا ہے اس کی روح میں تو اسلام سما ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ رسول اسلام (ص) کے پہلے دشمن ابو سفیان کے مشابہ اور اس کی ماں ہندکے مثل تھی جس نے سید الشہدا حضرت حمزہ کا جگر نکال کر داتنوں سے چبایا تھا اور ان کو مثلہ کر دیا تھامعاویہ کو اِن دونوں سے اسلام سے دشمنی اور رسول اسلام سے بغض کرنا ورثہ میں ملاتھا۔

 بہر حال امام حسن ؑ نے صلح کا انتخاب فرمایااور شرعی طور پر آپؑ کو یہی کر نا ہی چا ہئے تھا ،اگر آپ صلح نہ فرماتے تو امت ایسی مشکلات میں گھر جا تی جن کو خدا کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ہے ۔امام حسن ؑ نے صلح نامہ میں معاویہ سے شرط کی کہ اس کا (معاویہ )کا شریعت پر کو ئی قبضہ نہ ہو اس کو امیر المومنین نہیں کہا جا ئیگا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ شرعی حا کم نہیں ہے اور نہ مو منین کا امیر ہے ، بلکہ وہ ظلم و جور کا حاکم ہے ،اسی طرح آپ نے یہ شرط کی کہ وہ کتاب و سنت کو اپنی سیاست اور سیرت میں شمار نہیں کر ے گا ،اگر آپؑ معاویہ کے مسلمان ہونے سے مطمئن ہوتے تو کیوں اس کے ساتھ یہ شرط کرتے ،اس کے علاوہ امام ؑ نے اس سے دوسری شرطیں بھی کی ہیں ۔معاویہ نے ایک شرط بھی پوری نہیں کی ،بلکہ ان کو توڑکر وعدہ خلافی کی ،اور ہم نے ان تمام شرطوں کو اپنی کتاب ’’حیاۃالامام الحسن ‘‘میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔صلح کے بعد معاویہ کی سیاست آشکار ہو گئی جو بالکل کتابِ خدا اور اس کے نبی کی سنت کے مخالف تھی ،اس نے نیک اور صالح حجر بن عدی اور عمرو بن الحمق خزاعی جیسے اصحاب کو قتل کیا ،مسلمانوں کوبے آبرو کیا ،عورتوں کو قید میں ڈالدیا ،ان کے اموال چھین لئے ،اور اپنی حکومت میں ابن عاص ابن شعبہ ،ابن ارطات ،ابن حکم ، ابن مرجانہ اور ابن سمیہ جیسے افراد سے مدد لی جس کو اس کے شرعی باپ عبید رومی کا انکار کر کے اس کے فاجر و فاسق باپ ابو سفیان سے ملحق کر دیا گیا تھا،اس طرح کے افراد کو عراق کے شیعوں پر مسلط کر دیا گیا جنھوں نے ان کوسخت عذاب دیا ،ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا ،ان کی عورتوں کو رسوا کیا،ان کے گھروں کو جلا دیا اور ان کے اموال لو ٹ لئے۔

اس (معاویہ ) کا سب سے بڑا جرم رسول اللہ (ص)کے بڑے فرزند ارجمند امام حسن ؑ کو شہید کرنا تھا ، اس نے امام حسن ؑ کو آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث سے زہر دلوایا جبکہ اس کو یہ کہہ کر بہکایا کہ میں تیری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دونگا ، امام ؑ کو روزہ کی حالت میں زہر دیدیا گیا جس سے آپ کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور آپ کچھ مدت تک زندہ رہے اور اس کے بعد آپؑ کی روح پرواز کرگئی ،یہ وہ مصائب تھے جن کا گھونٹ معاویہ نے پلایا تھا وہ معاویہ جس کو بعض صحابہ ’’کسریٰ عرب ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ،انا للّہ وانا الیہ راجعون ۔

معاویہ نے اپنے جرائم کا اختتام اپنے بیٹے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا کر کیا ،اس کی دین و دنیا میں فساد برپا کرنے کے لئے پرورش کی ،اور اس نے اُن تمام فسادات کاروز عاشورہ کربلا میں،مکہ میں اور یوم حرہ میں ارتکاب کیا اسی طرح کے اور بہت سے جرائم کا ارتکاب کیاجن کے ذریعہ مسلمانوں کو بڑے بڑے مصائب میں مبتلاکردیا جس کی و ہ تاب نہیں رکھتے ہیں۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment