قوانین کي رعایت ،بھائي چارگي ،مرُوّت ،ثروت اندوزي سے اجتناب ،دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالنا اور انکا احترام ،وقت کي اہمیت کا خیال رکھنا، چاہے، اپنا ہو یا دوسروں کا ، ٹریفک کے قوانین کي پابندي، مالي، تجارتي اور ان جیسے دوسرے مسائل ميں قوانین کي پیروي ، سب کے سب نظم و ضبط ميں شامل ہيں اور اسي طرح منظم ہونے کے مصادیق ميں سے ایک اہم مصداق، معاشرے ميں انجام پانے والے ہمارے کام ، افکار، عقائد اور نعروں ميں ہم آہنگي کا تعلق نظم و ضبط سے ہي ہے۔ سب سے خطرناک بے نظمي یہ ہے کہ کسي معاشرہ کي فکري اور اعتقادي بنیادیں اور وہ چیزیں کہ جن پر ايک معاشرہ ایمان اور عقیدہ رکھتا ہے، کچھ اور ہوںجبکہ معاشرے ميں انجام دئیے جانے والے کاموںکا ان افکار،عقائد اور ایمان سے کوئي تعلق نہ ہو، یہ ایک طرح کے دوغلے پن اور نفاق کو وجود ميں لانے کا باعث بنتا ہے جو بذات خود بہت خطرناک بات ہے۔
اسلام کا نعرہ لگانا اور باربار اس کي تکرار کرنا جبکہ عمل ميں اسلامي قوانین کا خیال نہ رکھنا ،انساني حقوق کو اپنے منشور کا بنیادي اور اساسي رکن قرار دینا جبکہ عمل ميں حقوق بشر کي دھجياں اڑانا (خصوصاً انساني حقوق کے دفاع کے نام پر انکي پائمالي آج کے دور ميں ايک بین الاقوامي بلا بن چکي ہے )، آزادي کے نعرے لگانا جبکہ عملاً دوسروں کي آزادي کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا ،قانون اور قانون کے مطيع و فرمانبردار ہونے جیسے مقدس ناموں سے اپني شان بڑھانا اور عملاً خود کو قانون سے ما فوق شمار کرنا، یہ سب بڑي برائی انہيں اور واضح و آشکار مصداق ہيں بے نظمي کے۔ وہ عہدیدار حضرات کہ جو اصول و قوانین وضع کرنا یا ان کا نفاذ چاہتے ہيں انھیں چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ ان قوانين کے پابند ہوں اور عوام کو بھي ان قوانین اور اجتماعي نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے۔
source : tebyan