بھشت سے آدم کے ھبوط ( سقوط) کا کیا معنی ھے؟
ایک مختصر
"ھبوط" کا معنی کسی بلندی سے سقوط اور نیچے گرنا ھے اور صعود ( اوپر چڑھنے) کا مخالف ھے اور یھ لفظ کبھی کسی مکان میںحلول کے معنی میںبھی استعمال ھوتا ھے۔
آدم کے سقوط کی بحث اور مرحلھ اول میں اس سقوط کا معنی اس نکتھ سے وابستھ ھے کھ جس بھشت میں حضرت آدم علیھ السلام سکونت کرتے تھے اس کا معنی کیا ھے ، کیا یھ بھشت ایک دنیوی بھشت تھی یا اخروی ؟ اس سلسلھ میںجو مسلم امر ھے وه یھ ھے کھ وه بھشت ابدی نھیں تھی اس لحاظ سے سقوط ، ایک مقامی سقوط ھے ، یعنی آدم کے سقوط سے مراد انھیں بھشت سے نکال باھر کرنا اور بھشتی (دنیوی بھشت ) زندگی سے محروم ھونا زمین پر ساکن ھونا اور رنج و مصیبت سے بھری زندگی بسر کرنا ھے۔ اس کے بارے میںقرآن مجید کی متعدد آیات میںاشاره کیا گیا ھے ۔
تفصیلی جوابات
لغت میں "ھبوط" کا معنی کسی بلند جگھ سے پست جگھ کی طرف سقوط کرنا ھے اور "صعود" اوپر چڑھنا اس کا مقابل ھے[1]۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میںحضرت آدم کے بھشت سے نکالے جانے اور زمین پر ان کی سکونت کو ھبوط سے تعبیر کیا گیا ھے :
۱۔ "و قلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الی حین" یعنی "ھم نے کھ کھ اب تم سب زمین پر اترجاؤ وھاں تم میں ایک سے دوسرے کی دشمنی ھوگی اور ایک مدت تک ٹھکانا اور سامان زندگانی ھے"۔[2]
۲۔ 'قلنا اھبطوا منھا جمیعا فما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون" ، یعنی " اور ھم نے یھ بھی کھا کھ یھاں سے اتر پڑو پھر اگر ھماری طرف سے ھدایت آجائے تو جو بھی اس کا اتباع کرلے گا اس کےلئے نھ کوئی خوف ھوگا نھ حزن۔[3]
۳۔ قال اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الی حین ، یعنی ، ارشاد ھوا کھ تم سب زمین میں اتر جاؤ اور سب ایک دوسرے کے دشمن ھو ، زمین میں تمھارے لئے ایک مدت تک ٹھکانا اور سامان زندگانی ھے [4]
اس کے علاوه قرآن مجید میںلفظ ھبوط کسی جگھ (شھر ) میں حلول اور مستقر ھونے کے معنی میںاستعمال ھوا۔ ھے حضرت موسی علیھ السلام اور بنی اسرائیل کے قصھ کے سلسلھ میںقرآن مجید کھتا ھے :" قال أتستبدلون الذین ھو ادنی بالذی ھو خیرا اھبطوا مصرا فان لکم ما سألتم ۔۔۔" یعنی حضرت موسی علیھ السلام نے کھا: کیا بھترین نعمتوں کے بدلے معمولی نعمت لینا چاھتے ھو تو جاؤ کسی شھر میں اتر پڑو وھاں یھ سب کچھه مل جائے گا"[5]
حضرت آدم علیھ السلام کے ھبوط کی بحث اور اس ھبوط کا معنی ، پھلے مرحلھ میںاس نکتھ سے وابستھ ھے کھ جس بھشت میں حضرت آدم علیھ السلام سکونت کرتے تھے اس کا ھم کیا معنی و مراد لین کیا یھ ایک دنیوی بھشت تھی (زمینی یا برزخی ) یا اخروی؟ جو کچھه مسلم ھے ، وه یھ ھے کھ یھ بھشت ابدی نھیں تھی ، اس بناء پر ھبوط ( سقوط) مقامی ھبوط ھے۔ بھر حال مفسرین اور فلاسفھ کے درمیان یھ بحث بھی چھڑ گئی ھے اور ان میںسے ھر ایک نے اس سلسلھ میں اپنے نظریات اور احتمالات بیان کئے ھیں ھم یھاں پر صرف چند مفسرین کا نظریھ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ھیں:
مرحوم طبرسی ، تفسیر مجمع البیان میںفرماتے ھیں : ھبوط نزول اور وقوع یکساں ھیں ( ان کا ایک ھی معنی ھے ) یعنی : بلندی سے نیچے کی طرف حرکت کرنا۔۔۔۔ اور کبھی لفظ ھبوط ، کسی جگھ داخل ھونے کے معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے ، جیسے اس آیھ شریفھ میں ھے: " اھطبوا مصرا" یعنی شھر میںداخل ھو جایئے[6] ۔۔۔
علامھ طباطبائی اس سلسلھ میںفرماتے ھیں : " ھبوط کا معنی بھشت سے نکلنا ، زمین میںسکونت کرنا اور با مشقت دنیوی زندگی میںداخل ھونا ھے۔ آیھ شریفھ :" قلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الی حین۔۔۔" اور اس کے بعد والی آیت :" قال فیھا تحیون و فیھا تموتون و منھا تخرجون ۔۔۔" کا بظاھر معنی یھ ھے کھ ھبوط کے بعد والی زندگی اور ھبوط سے پھلی والی زندگی ( بھشت کی زندگی ) میںفرق ھے ۔ ھبوط کے بعد والی زندگی سختیوں اور مشکلات پر مشتمل ھے ، لیکن بھشت میں ایک آسمانی زندگی تھی جس میںبھوک ، پیاس اور مشکلات نھیں تھے۔
وه کھتے ھیں : حضرت آدم علیھ السلام کی بھشت آسمان پر تھی ، اگرچھ وه اخری اور ابدی بھشت نھیں تھی ( جس میںداخل ھونے والا باھر نکالا نھین جاتا ھے )
جی هاں ! یهاں پر یھ سوال پیدا ھوتا ھے کھ آسمان کا معنی کیاھے ؟ اور آسمانی بھشت کا کیا معنی ھے؟[7]
علامھ طباطبائی ایک دوسری جگھ پر اس سلسلھ میںفرماتے ھیں :" : حضرت آدم علیھ السلام کی بھشت دنیوی بھشت تھی ، اس سے مراد یھ ھے کھ وه برزخی بھشت تھی ، جو ابدی بھشت کے علاوه ھے[8] ۔
وه آیھ شریفھ :" قال فاھبط منھا فما یکون لک ان تتکبر فیھا فاخرج انک من الصاغرین[9] " میں شیطان کے سجده نھ کرنے کے بعد اس کو ملائکھ کی جماعت سے ھبوط اور خارج کیا جانا بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
جملھ "فاخرج انک من الصاغرین جملھ "فاھبط منھا" کیلئے تاکید ھے یعنی ھبوط ھی خروج ھے اور خروج کے ساتھه اس کا فرق صرف اتنا ھے کھ ھبوط ایک مقام سے نکل کر نچلے درجھ پر نزول کرنا ھے اور یھی معنی اس امر کی دلیل ھے کھ ھبوط کا مقصود ایک بلند جگھ سے نیچے گرنا نھیں ھے بلکھ ایک بلند مقام سے نیچے آنا ھے۔
اور یھ ھمارے دعوای کی تائید ھے کھ ھم نے کھا کھ "منھا" و "فیھا" کی ضمیر منزلت کی طرف پلٹتی ھے نھ کھ آسمان یا بھشت کی طرف ۔ اور جنھوں نے ضمیر کے مرجع کو آسمان یا بھشت جانا ھے تو شائد ان کا مقصد بھی وھی منزلت ھو اس لئے اس آیھ شریفھ کا معنی یھ ھے کھ خداوند متعال نے فرمایا : چونکھ جب میں نے تجھے سجده کرنے کا حکم دیا تو نے سجده نھیں کیا ، اس لئے اس جرم میں تجھے اپنے مقام سے تنزل کرنا ھوگا ، کیونکھ تیرا مقام ، خضوع اور فرمانبرداری کا مقام تھا اور تجھے ایسے مقام پر تکبر نھیں کرنا چاھئے تھا ، پس باھر جا کھ تو ذلیل ھونے والوں میںسے ھے[10] ایک دوسری جگھ علامھ ایک اھم نکتھ کی طرف اشاره کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
"ھبوط" کا امر ایک تکوینی ( تکلیف تکوینی) امر ھے جو بھشت میں سکونت اور غلطی کے مرتکب ھونے کے بعد واقع ھوا ھے پس اس الھی ممانعت کی مخالفت کرنا اور درخت کے نزدیک جانا کسی دین سے مربوط نھیں تھا اور اس میں کسی قسم کی تکلیف الھی نھیں تھی ، لھذا ، اس کے مطابق نھ کوئی گناه عبودیت ھوا اور نھ نافرمانیٔ مولا کی معصیت واقع ھوئی [11]
المیزان کے بیان کی وضاحت میں کھنا چاھئے : مخصوص درخت ( الشجره) کے نزدیک جانے کی ممانعت کا نھی ارشادی تھی جیسے کھ طبیب مریض سے کھتا ھے : اگر یھ غذا کھاؤ گے تو فلاں بیماری میںمبتلا ھوجاؤ گے ۔ یھاں پر بھی خداوند متعال نے فرمایاھے کھ : اس درخت کے قریب نھ جانا اور اس کا میوه نھ کھانا کیونکھ اگر درخت کا میوه کھا لو گے تو اس کا نتیجھ بھشت سے خارج ھونا ھے۔
علامھ طباطائی کے اس کلام سے ھبوط کے معنی و مراد اور اس کی علت واضح ھوجاتی ھے۔
آیت اللھ جوادی آملی برزخ کو آدم و حواعلیهما السلام کے مسکن کے طورپر قبول کرتے ھوئے فرماتے ھیں : : حضرت آدم علیھ السلام ماورائے فطرت کے مقام سے فطری مقام میںمنتقل ھوئے ھیں ، اس قسم کی تبدیلی وھی وجودی اور مکانی تبدیلی ھے جیسے کھ خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کی ھدایت کیلئے قرآن مجید کا نزول ، نھ کھ بدنی و مکانی سقوط اس کے علاوه چونکھ ھبوط : حضرت آدم علیھ السلام کی توبھ سے وابستھ تھا ، اسی لئے اسے ھبوط ولایت وخلافت سے یاد کیا جاتا ھے[12]۔
ابلیس کا ھبوط، منزلت سے سقوط تها ، لیکن ھبوط آدم علیھ السلام ان کے اکرام کی حفاظت کے ساتھه زمین میںداخل ھونا تھا ، یعنی : حضرت آدم علیھ السلام اور ابلیس کے لئے زمین پر سکونت مشترک تھی لیکن ابلیس اپنے سابقھ درجھ کو کھودینے کے بعد زمین میںداخل ھوا اور حضرت آدم علیھ السلام اپنے پھلے والے رتبھ کی حفاظت کے ساتھ زمین پر ساکن ھوئے[13] ۔
اس لئے شیطان دو قسم کے ھبوط سے دوچار ھوا:
۱۔ فرشتوں کے مقام و منزلت سے سقوط جس سے وه : حضرت آدم علیھ السلام کیلئے سجده کرنے سے انکار کرنے کے سبب دوچار ھوا جس کے نتیجھ میں اسے بھشت کے بلند مقام سے ھبوط کرنا پڑا ۔ آیھ :" قال فاھبط منھا فما یکون لک ان تتکبر فیھا فاخرج انک من الصاغرین[14] " اسی کی طرف اشاره کرتی ھے
۲۔ بھشت میںایک وقتی مسکن سے سقوط ، جھاں پر وه : حضرت آدم علیھ السلام و حوا علیھا السلام کو ورغلانے کیلئے داخل ھوا تھا اور شیطان کا یھ سقوط : حضرت آدم علیھ السلام اور حضرت حوا علیھا السلام کو بھکانے کے بعد ان کے ساتھه یقینی ھوا [15]
تفسیر نمونھ یھ سوال پیش کرکے کھ : حضرت آدم علیھ السلام کی بھشت کونسی بھشت تھی ؟ جواب میں لکھتا ھے : اگرچھ بعض اسے پاک و نیک انسانوں کی بھشت موعود جانتے ھیں ، لیکن بظاھر یھ وه بھشت نھیں تھی ، بلکھ زمین پر موجود نعمتوں سے بھرے روح افزا باغات میںسے ایک سر سبز باغ تھا کیونکھ اول یھ کھ بھشت موعود ایک ابدی نعمت ھے جس کے ابدی ھونے کے بارے میں قرآن مجید کی بھت سی آیات میں اشاره ھوا ھے اور وهاں سے نکل جانا ممکن نھیں ھے ، دوسر ایھ کھ ابلیس جیسے ( گناھوں سے آلوده اور بے ایمان کیلئے اس بھشت میں داخل ھونا ممکن نھیں ھے، کیوں کھ وھاں پر نھ شیطانی وسوسے ھیں اور نھ خدا کی نافرمانی ھے ، تیسرا یھ کھ اھل بیت علیھم السلام سے ھم تک پھنچی بعض روایتوں میں یھ موضوع صراحت کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔
حدیث کے راویوں میںسے ایک راوی کھتا ھے : میں نے : حضرت آدم علیھ السلام کی بھشت کے بارے میںحضرت امام جعفر صادق علیھ السلام سے پوچھا ، امام علیھ السلام نے جواب میں فرمایا : "دنیا کے باغات میںسے ایک باغ تھا ، جس پر سورج اور چاند چمکتے تھے اور اگر یھ بھشت جاوید ھوتی تو : حضرت آدم علیھ السلام ھرگز اس سے باھر نھیں کئے جاتے "[16]
اس طرح واضح ھوتا ھے کھ : حضرت آدم علیھ السلام کا زمین پر ھبوط اور نزول کرنا مقام و منزلت کا سقوط ھے یعنی وه اپنے بلند مقام اور سرسبز بھشت سے نیچے اتر گئے بعد روایتون میںاس بھشت کے آسمان پر واقع ھونے کی طرف بھی اشاره ھوا ھے ، لیکن ممکن ھے کھ اس قسم کی روایات میںلفظ سماء (آسمان ) بلند مقام کی طرف اشاره ھونھ کھ کسی بلند جگھ کی طرف ۔
بھر حال بھت سے ایسے شواھد ملتے ھیں جن سے معلوم ھوتا ھے کھ یھ بھشت وه بھشت نھیں، کوئی دوسری جگھ ھے کیوں کھ وه بھشت ( بھشت موعود) انسان کے سفر کی آخری منزل ھے اور یھ (بھشت ) اس کے سفر کا آغاز تھا یھ انسان کے اعمال اورپروگرام کا مقدمھ ھے اور وه اس کے اعمال اورپروگرام کا نتیجھ ھے[17]
اسی تفسیر میںایک دوسری جگھ پر فرمایا ھے :" لغت میں ھبوط کا معنی مجبورا نیچے اترنا ھے ، جیسے کسی بلندی سے پتھر کا گر جانا ، جب یھ لفط انسان کے بارے میں استعمال ھوتا ھے تو نیچے گرادینے کے معنی میںمجازی طور پر استعمال ھوتا ھے چونکھ : حضرت آدم علیھ السلام کو زمین پر زدنگی کرنے کیلئے پیدا کیا گای تھا اور بھشت بهی اسی زمین کا ایک سر سبز اور نعمتوں سے بهرا ھو علاقھ تھا اس لئے : حضرت آدم علیھ السلام کا سقوط اور نزول مقام و منزلت کا نزول تها نھ مکانی ، یعنی خداوند متعال نے انھیں ترک اولی کے سبب تنزل کیا اور بھشت کی ساری نعمتوں سے محروم کرکے دنیوی رنج و آلام سے دوچار کیا[18]،[19]
[1] انجیل ، ، العین ، ج ۴ ص ۴۴ ، ص ۴۴ ، لسان العرب ج ۷ ص ۴۲۱ ، مجمع البیان ج ۴ ص ۲۷۹
[2] سوره بقری / ۳۶۔
[3] سوره بقره / ۳۸
[4] اعراف / ۲۴
[5] سوره بقره ۶۱
[6] البتھ حضرت آدم اور حوا علیما السلام کا بھشت سے اخراج اور زمین پر اں کے نزول میںسزا کا پھلو نھیں تھا ، کیونکھ ھمارے پاس دلیل موجو ھے کھ انبیائے الھی کسی صورت میں قبیح اور برے کام کے مرتکب نھیں ھوتے ھیں اور جو شخص سزا اور عذاب کو انبیاء پر جائز جان لے ، اس نے ان کے حق میںظلم کیا ھے اور خداوند متعال پر سب سے بڑی تھمت لگائی ھے ۔۔۔ بیشک خداوند متعال نے حضرت آدم علیھ السلام کو بھشت سے نکال دیا کھ ، ممنوعھ درخت کا میوه کھانے سے مصلحت بدل گئی اور حکمت و تدبیر الھی کے تقاضا کے مطابق انھین زمیںپر لایا گیا تا کھ وه زمین کی سختیون اور مشکلات سے دوچار ھوجائین (مجمع البیان ج ۱ ص ۱۹۶ ، ۱۹۷)
[7] المیزان ، ج۱ ش ۱۳۵ ، تترجمھ المیزان ج ۱ص ۲۰۸
[8] ترجمھ المیزان ج ۱ ص ۲۱۳۔
[9] سوره طھ / ۱۱۷۔
[10] ترجمھ المیزان ج ۸ ص ۳۵
[11] ترجمھ المیزان ج ۸ ص ۳۵
[12] تفسیر تسنیم ج ۳ / ص ۳۸۳
[13] تفسیر تسنیم ج ۳ / ص ۳۷۴ و ۴۰۸ ، ۴۶۶۔
[14] سوره طھ / ۱۱۷
[15] تفسیر تسنیم ج ۳ / ص ۳۷۱ ، ۳۷۵۔
[16] تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۶۲
[17] تفسیر نمونھ ج ۱ ص ۱۸۷
[18] تفسیر نمونھ ج ۱۳ ، ص ۳۳۳ ،
[19] ملاحظھ ھو عنوان ، بھشت آدم ، سوال نمبر ۲۷۳ ، (سائٹ : ۱۱۳)
source : www.islamquest.net