''بادشاہ حبشہ نجاشی'' کا پیغام لیکر ایک وفد حضور اکرم (ص) کی خدمت میں شہر مدینہ آیا۔ دنیا کے اطراف و اکناف میں موجود اکثر سلاطین کی طرح نجاشی بھی حبشہ کا غیر مسلم بادشاہ تھا۔ جب یہ وفد حضور کی خدمت میں پہنچا تو آپ (ص) بنفس نفیس اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور ان کے استقبال اور مہمان نوازی میں مصروف ہوگئے۔ اصحاب نے کہا کہ یا رسول اللہ (ص) ! ہماری موجودگی میں آپ کیوں زحمت فرما رہے ہیں؟ آپ تشریف فرما رکہیے، ہم ان کا استقبال کرنے کے لئے کافی ہیں۔ فرمایا : ''نہیں! جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ کی جانب گئے تھے تو وہاں کے بادشاہ نے اُن کا حد درجہ احترام و استقبال کیا تھا لہٰذا میں بھی وہی سلوک کرنا چاہتا ہوں۔''
اسے کہتے ہیں حق شناسی اور فرض شناسی۔ حضور (ص) کی زندگی میں اس طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔
اسلامی حکومت کے دوران ایک عورت آنحضرت (ص) کے حضور میں شرفیاب ہوئی۔ اصحاب نے دیکھا کہ آنحضرت (ص) اس کے ساتھ بہت محبت و مہربانی کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ اس کی اور اس کے اہل خواندان کی مزاج پرسی کر رہے ہیں۔ جب وہ عورت چلی گئی تو آپ (ص) نے اصحاب کے تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایا: ''خدیجہ کے زمانہ میں جب مکہ میں مسلمانوں کے لئے گھٹن کا ماحول تھا، یہ عورت ہمارے گھر آمد و رفت رکھتی تھی۔''
ظاہر ہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب رسول (ص) کے چاہنے والے محاصرہ میں تھے جس کی بنیاد پر نہ کوئی آپ (ص) کے بیت الشرف پر حاضر ہوپاتا تھا، نہ آپۖکی زوجہ حضرت خدیجہ کے پاس کوئی عورت آپاتی تھی لیکن وہ عورت اس دور میں بھی آپ کے بیت الشرف میں آمد و رفت رکھتی تھی۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور نہیں کہ وہ مسلمان تھی، مگر رسول اکرم (ص) نے صرف اس لئے کہ ماضی کے اس دور میں بھی وہ آپ (ص) اور آپ کی زوجہ حضرت خدیجہ کے لئے مہربان تھی، برسوں گزرنے کے بعد بھی اس کے حق کا لحاظ رکھا۔
source : tebyan