کہتے ہيں کہ ايک دن ہارون الرّشيد نے اپنے مصاحبوں اور درباريوں سے کہا : ميرا دل چاہتا ہے کہ کسي ايسے شخص کي زيارت کروں جسے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زيارت کا شرف نصيب ہوا ہو اور نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس نے کوئي حديث سني ہو تاکہ وہ شخص بلاواسطہ اس حديث کو ميرے ليۓ نقل کرے -
چونکہ ہارون الرّشيد کي خلافت ہجرت کے ايک سو ستر سال بعد وجود ميں آئي تھي اس ليۓ اس لمبے عرصے ميں نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دور کا کوئي بھي شخص زندہ باقي نہيں رہا تھا اور اگر کوئي زندہ بھي ہوا تو شاذ و نادر ہي ہو گا - ہارون کے ملازمين ايسے شخص کو تلاش کرنے ليۓ اطراف ميں نکل پڑے - ايک نہايت ضعيف ، کمزور بوڑھے آدمي کے علاوہ کوئي بھي ايسا شخص انہيں نہ ملا - اس بوڑھے شخص کي حالت بھي ايسي تھي کہ ظاہرا ہڈيوں کا ڈھانچہ تھا جس ميں بس سانس باقي تھا -
اس بوڑھے کو ايک جھولے ميں ڈال کر نہايت احتياط کے ساتھ ہارون کے دربار ميں لايا گيا اور ہارون کے سامنے پيش کر ديا گيا - ہارون کو بہت خوشي ہوئي کہ اس کي خواہش پوري ہو گئي اور اس نے ايسا شخص ديکھ ليا جس نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زيارت کي اور ان سے حديث سني ہے -
ہارون نے کہا : اے بوڑھے مرد ! کيا تم نے خود نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو ديکھا ہے ؟
بوڑھے نے جواب ديا : ہاں
ہارون نے کہا : کب ديکھا ہے ؟
بوڑھے نے جواب ديا : ميں بچہ تھا ، ايک دن ميرے باپ نے ميرا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت ميں لے گيا - اس دن کے علاوہ ان کي وفات تک مجھے دوبارہ ان کے پاس جانے کا موقع نہيں ملا -
ہارون بولا : يہ بتاؤ کيا تم نے اس دن نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے کوئي بات سني يا نہيں ؟
بوڑھے شخص نے جواب ديا : جي ہاں ميں نے اس دن نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے يہ سنا - فرمايا کہ
يَشِيبُ ابْنُ ءَادَمَ وَ تَشُبُّ مَعَهُ خَصْلَتَانِ: الْحِرْصُ وَ طُولُ الامَلِ [1]
" انسان کا بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور جيسے جيسے وہ بڑھاپے کي طرف جاتا ہے اس کے متوازي اس ميں دو خصلتيں جوان ہو جاتي ہيں - ايک حرص اور دوسري لمبي خواہش "
ہارون بےحد خوش ہوا کہ اس نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت صرف ايک ہي واسطے سے سني ہے - ہارون نے حکم ديا کہ اشرفيوں کي ايک تھيلي انعام کے طور پر اس ضعيف بوڑھے کو دي جاۓ اور اسے باہر چھوڑ آؤ -
جيسے ہي بوڑھے شخص کو دربار کے احاطے سے باہر لے جانا چاہا تو بوڑھا نحيف سي آواز ميں چلايا کہ مجھے ہارون کے پاس واپس لے جاؤ -
اس سے کہا گيا کہ ايسا نہيں ہو سکتا
بوڑھے نے جواب ديا : اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہے - ميں ہارون سے ايک سوال پوچھ لوں پھر باہر جاğ -
بوڑھے شخص کے جھولے کو دوبارہ ہارون کے پاس لايا گيا -
ہارون نے کہا " کيا بات ہے ؟
بوڑھے شخص نے عرض کيا : ميرا ايک سوال ہے -
ہارون نے کہا : بولو
بوڑھے شخص نے کہا : اے بادشاہ سلامت ! يہ بتائيں کہ يہ انعام جو آج آپ نے مجھے عنايت کيا ہے صرف اس سال کے ليۓ ہے يا ہر سال عنايت کيا جاۓ گا ؟
ہارون الرّشيد بے ساختہ زور سے ہنسا اور تعجب سے بولا :
صَدَقَ رَسُولُ اللَهِ صَلَّي اللَهُ عَلَيْهِ وَءَالِهِ؛ يَشِيبُ ابْنُ ءَادَمَ وَ تَشِبُّ مَعَهُ خَصْلَتَانِ: الْحِرْصُ وَ طُولُ الامَلِ!«
رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے صحيح فرمايا کہ جيسے جيسے فرزند آدم بڑھاپے اور فرسودگي کي طرف جاتا ہے دو خصلتيں حرص اور لمبي آرزو اس ميں جوان ہو جاتي ہيں -
اس بوڑھے شخص ميں جان موجود نہيں اور ميرا نہيں خيال کہ دربار کے دروازے تک يہ زندہ بچے - اب بھي کہتا ہے کہ کيا يہ انعام صرف اس سال کے ليۓ مخصوص ہے يا ہر سال ملے گا - مال کي حرص اور لمبي خواہش اسے يہاں تک لے آئي ہے کہ پھر بھي اپنے ليۓ لمبي عمر کي پيش بيني کر رہا ہے اور مزيد انعام کي تلاش ميں ہے -
بےشک يہ انساني نفس کي ادب الہي کے متعلق تربيت ميں کمي کا نتيجہ ہے کہ حرص اور خواہش اس کے وجود ميں وسيع پيمانے پر موجود رہتي ہے اور اس ميں بڑے پيمانے پر بے انتہا اضافہ ہو جاتا ہے-
ليکن وہ لوگ جو ابدي اور ازلي منبع پر ايمان کے ساتھ حضرت ذوالجلال و الاکرام کے جاوداني وجود کي طرف رحجان رکھتے ہوۓ اس جہان ميں زندگي بسر کرتے ہيں اور دل کل و ہميشگي سے لگاتے ہيں اور طبيعتا نيک اعمال کے ساتھ اپني زندگي کو عدل و انصاف کي بنياد پر بسر کرتے ہيں - ايسے لوگوں کي جزا خدا کے پاس ہوتي ہے اور ہميشہ تسلسل کے ساتھ وہ اس سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہيں -
«إِلَّا الَّذِينَ ءَامَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّـالِحَـاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ» [2]
سوائے ان لوگوں کے جو ايمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے، ان کے ليے نہ ختم ہونے والا اجر ہے -
ايسي جزا جس کي کوئي حد اور حساب نہيں ہے اور بھشت جاوداں اور عالم ابديت ميں بہترين معنوي اور حقيقي نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے -
فَأُولَـئِِک يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ [3]
ايسے لوگ جنت ميں داخل ہونگے جس ميں انہيں بےشمار رزق ملے گا -
اور ان کي روزي ان کے پروردگار کي طرف سے انہيں صبح و شام ملتي رہے گي -
وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُکرَةً وَ عَشِيًّا [4]
اور وہاں انہيں صبح و شام رزق ملا کرے گا -
مآخذ :
1- جامي کي کتاب «اربعين» مطبوعہ آستان قدس رضوي، صفحہ 22، ميں روايت کے الفاظ کچھ يوں ہيں: يَشيبُ ابْنُ ءَادَمَ وَ يَشِبُّ فِيهِ خَصْلَتانِ: الْحِرصُ وَ طولُ الامَلِ. اور ورّام ابن أبي فراس کے مجموعے «تنبيه الخَواطر و نُزهة النَّواظر» طبع سنگي، ص 204 پر روايت کے الفاظ يہ ہيں: «وَ قالَ صَلَّي اللَهُ عَلَيْهِ وَ ءَالِهِ: يَهْرَمُ ابْنُ ءَادَمَ وَ تَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتانِ (خَصْلَتانِ ـ خ. ل) الْحِرْصُ وَ طولُ الامَلِ».
اور «خصال شيخ صدوق» مطبوعہ اسلاميہ سنہ 1389، ج 1، باب دوئم صفحہ 73 پر شيخ صدوق اپني سند سے روايت کرتے ہيں: «إنَّ النَّبيَّ صَلَّي اللَهُ عَلَيْهِ وَءَالِهِ وَ سلَّمَ قالَ: يَهْلِک ـ أوْ قالَ: يَهْرَمُ ـ ابْنُ ءَادَمَ وَ يَبْقَي مِنْهُ اثْنَتانِ: الْحِرْصُ وَ الامَلُ». اور شيخ دوسري سند سے أنس ہي کے حوالے سے رسول خدا صلّي اللہ عليہ وآلہ وسلّم سے روايت کرتے ہيں: «يَهْرَمُ ابْنُ ءَادَمَ وَ يَشِبُّ مِنْهُ اثْنانِ: الْحِرْصُ عَلَي الْمالِ وَ الْحِرْصُ عَلَي الْعُمْرِ». اس روايت ميں مال کي لالچ اور طول عمر کي لالچ کا اضافہ ہے اور مؤخرالذکر دو روايتيں محدث نوري نے «مستدرک وسآئل الشّيعة» از طبع سنگي، ج 2، ص 335 پر اپني متصل سند سے «خصال» سے نقل کي ہيں-
2- سورہ انشقاق آيت 25- ترجمہ: مگر جو ايمان لائے اور جنہوں نے نيک اعمال کئے،ان کے ليۓ کبھي ختم نہ ہونے والا اجر ہے -
3- سورہ غافر/ مؤمن، آيت 40- ترجمہ: يہ لوگ بہشت ميں داخل ہوں گے وہاں بے اندازہ انہيں رزق عطا ہو گا-
4 ـ سورہ مريم آيت 62- ترجمہ: اور ان کے ليے ان کي مقررہ روزي ہے وہاں صبح اور شام-
source : tebyan