بوڑھے نے آہ بھرکرکہا:”میراایک بھائی تھا۔بڑاپیارا ماں باپ جایا بھائی،لیکن برسوں سے وہ ایسا گم ہوا کہ معلوم نہیں جیتا ہے یا مرگیا ہے۔ میں نے ایک بارسنا تھا کہ وہ مرگیا۔ میں رصافہ (عراق کا ایک شہر)کا باشندہ ہوں۔وہاں سے آنے کے بعد میں نے بھائی کو کبھی نہیں دیکھا۔“
اتنا کہہ کربوڑھے نے آخری سانس لیا اورفوت ہو گیا۔میں نے اس کے کفن دفن کا کا انتظام کیا اوراس سے فارغ ہو کر دریائے دجلہ کے دوسرے کنارے پر جانے کے لئے گھاٹ پرپہنچا ۔پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک ملاح نے مجھ سے کہا کہ چلئے میں آپ کو دریا کے پار لے چلتا ہیں۔میں اس کی کشتی میں بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا: ”تم کہاں کے رہنے والے ہو؟‘
اس نے کہا :”رشافہ کا۔ لڑکپن ہی میں یہاں آیا تھا اور یہیں آ کر ہوش سنبھالا۔“
میں نے پوچھا: تمہارا کوئی رشتے دار نہیں؟“
اس نے کہا: ”صرف ایک بھائی تھا ، مگرسالہا سال سے اس کا کچھ پتا نہیں۔“
میں نے غور سے اس کی شکل دیکھی تو وہ مرنے والے بوڑھے جیسا دکھائی دیا ۔ میں سمجھ گیا کہ یہی اس کا بھائی ہے۔“
میں نے اس سے کہا: ”بھائی اپنی چادر کا پلو پھیلاﺅ۔ “اس نے پلو پھیلایا تو میں نے اس میں بوڑھے کے دئیے ہوئے پانچ سو دینار ڈال دئیے۔
وہ حیران رہ گیا اور پوچھا : ”یہ دینارآپ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟“ میں نے سارا قصہ اسے سنایا اور اس کو بتایا کہ یہ تمہارے مرحوم بھائی کا مال ہے اور تم ہی اس کے وارث ہو۔“
ملاح نے کہا: ”آدھے تم لے لو۔“
میں نے کہا: ”نہیں بھائی! میرا ان پر کوئی حق نہیں، یہ سارے دینار تم کو مبارک ہوں۔“ ملاح نے مجھے بہت دعائیں دیں اور دینار رکھ لئے ۔ وہاں سے آ کر میں نے شاہی دربار میں نوکری کے لئے عرضی پیش کی ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا اورعرضی پیش ہوتے ہی مجھے خزانچی مقرر کر دیا گیا۔ میں نے بڑی دیانت اور محنت سے کام کیا، یہاں تک کہ ترقی کرتے کرتے وزیرکے عہدے تک پہنچ گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کا انعام دیا کہ میں نے غریب ملاح کواس کا حق پہنچا دیا۔
ت
source : tebyan