چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار ديا ہے اور دونوں کو امت کے درميان حجت خدا قرار ديا ہے لہٰذا اس سے دو نتيجے نکلتے ہيں:
1- قرآن کي طرح عترت رسول (ص) کا کلام بھي حجت ہے اور تمام ديني امور خواہ وہ عقيدے سے متعلق ہوں يا فقہ سے متعلق ان سب ميں ضروري ہے کہ ان کے کلام سے
تمسک کيا جائے ،اور ان کي طرف سے دليل و رہنمائي مل جانے کے بعد ان سے روگرداني کر کے کسي اور کي طرف نہيں جانا چاہئے .
پيغمبر خدا (ص) کي وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سياسي امور کي رہبري کے مسئلہ ميں دو گروہوں ميں بٹ گئے اور ہر گروہ اپني بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دليل پيش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درميان اس مسئلہ ميں اختلاف ہے مگر اہل بيت کي علمي مرجعيت کے سلسلے ميں کوئي اختلاف نہيں کيا جاسکتا .
کيونکہ سارے مسلمان حديث ثقلين کے صحيح ہونے پر متفق ہيں اور يہ حديث عقائد اور احکام ميں قرآن اور عترت کو مرجع قرار ديتي ہے اگر امت اسلامي اس حديث پر عمل کرتي تو اس کے درميان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسيع ہوجاتا.
2- قرآن مجيد، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کي خطا اور غلطي سے محفوظ ہے يہ کيسے ممکن ہے کہ اس ميں خطا اور غلطي کا احتمال ديا جائے جبکہ خداوند کريم نے اس کي يوں توصيف کي ہے:
( لاٰيْتِيہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلاٰمِنْ خَلْفِہِ تَنزِيل مِنْ حَکِيمٍ حَمِيدٍ)
''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پيچھے سے اور يہ حکيم و حميد خدا کي طرف سے نازل ہوا ہے .''
اگر قرآن مجيد ہر قسم کي خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھي ہر قسم
کي خطا سے محفوظ ہيں کيونکہ يہ صحيح نہيں ہے کہ ايک يا کئي خطاکار افراد قرآن مجيد کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائيں- يہ حديث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کي لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہيں البتہ يہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہيں ہے کيونکہ ممکن ہے کہ کوئي معصوم ہو ليکن نبي نہ ہوجيسے حضرت مريم اس آيہء شريفہ :
(ِنَّ اï·²َ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَي نِسَائِ الْعَالَمِينَ)
(اے مريم !) خدا نے تمہيں چن ليا اور پاکيزہ بناديا ہے اور عالمين کي عورتوں ميں منتخب قرار ديا ہے -
کے مطابق گناہ سے تو پاک ہيں ليکن پيغمبر نہيں ہيں-
source : tebyan