اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

کردار معاویہ کی چند جھلکیاں

حضرت علی علیہ السلام کے طرز زندگی کے بعد ہمیں اس بات کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے حریفوں کے کردار کا تذکرہ کریں کیونکہ "تعرف الاشیاء باضدادھا "چیزوں کی پہچان ا ن کے متضاد سے ہوتی ہے ۔ اسی قاعدہ کے پیش
کردار معاویہ کی چند جھلکیاں

حضرت علی علیہ السلام کے طرز زندگی کے بعد ہمیں اس بات کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے حریفوں کے کردار کا تذکرہ کریں کیونکہ "تعرف الاشیاء باضدادھا "چیزوں کی پہچان ا ن کے متضاد سے ہوتی ہے ۔
اسی قاعدہ کے پیش نظر ہم امیر المومینین کے بد ترین مخالف کے کردار کی تھوڑی جھلکیاں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ اگر شب تاریک کی ہولناکی نہ ہو تو روز روشن کی عظمت واضح نہیں ہوسکتی اور اگر کسی نے تپتی ہوئی دھوپ کو سرے سے دیکھا ہی نہ ہو تو اس کے لئے نخلستان کی ٹھنڈی چھاؤں کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل ہوجائے گا ۔
اسی طرح سے جس کو ابو جہل کی خباثت کا علم نہ ہو اسے محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ سلم رافت کا صحیح علم نہ ہوسکے گا اور جب تک کردار معاویہ پیش نظر نہ ہو اس وقت تک علی علیہ السلام کی عدالت اجتماعی کی قدر منزلت کاپتہ نہیں لگ سکے گا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ علی کا معاویہ سے موازنہ کرنا ضدین کے مابین موازنہ قرار پاتا ہے اور حضرت علی (ع) اور معاویہ کے کردار میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔
مختصر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی جس قدر عدل اجتماعی کے لئے وقف تھی ۔ویسے ہی معاویہ کی پوری زندگی بے اصولی اور لوٹ مار اور بے گناہوں کے قتل عام کے لئے وقف تھی ۔ حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحیح جانشین تھے ۔ اسی طرح سے معاویہ اپنے باپ کے کردار وفضائل کا صحیح جانشین تھا ۔حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ بنت اسد (رض) اور حضرت خدیجہ (رض) کی صفات جمیلہ کے وارث تھے جبکہ معاویہ اپنی ماں ہند جگر خوار کی خوانخوار عادات کا وارث تھا ۔
معاویہ نے مکر وفریب سے اپنا مقصد کیا اور امت اسلامیہ آج تک اس کے منحوس اثرات سے نجات حاصل نہیں کرسکی ۔
معاویہ نے قبائلی عصبیتوں کو ازسرنو زندہ کیا اور مجرمانہ ذہنیت کو جلا بخشی جس کے شعلوں کی تپش آج بھی امت اسلامیہ اپنے بدن میں محسوس کررہی ہے ۔ ہم نے اس فعل میں اس کے کردار کی چند جھلکنا پیش کی ہیں تاکہ انصاف پسند اذہان علی علیہ السلام اور معاویہ کی سیاست کے فرق کو سمجھ سکیں
وبضدّھا تتبین الاشیاء

حضرت حجر بن عدی کا المیہ
مورخ ابن اثیر تاریخ کامل لکھتے ہیں :-
51 ہجری میں حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا ۔ اور اس کا سبب یہ کہ معاویہ نے 41 ہجری میں مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور اسے ہدایت کی کہ :- " میں تجھے بہت سی نصتیںہں کرنا چاہتا تھا لیکن تیری فہم وفراست پر اعتماد کرتے ہوئے میں زیادہ نصحیتیں نہیں کروں گا لیکن ایک چیز کی خصوصی طور پر تجھے نصیحت کرتا ہوں ۔ علی کی مذمت اور سبّ وشتم سے کبھی باز نہ آنا اور عثمان کے لئے دعا ئے خیر کو کبھی ترک نہ کرنا اور علی کے دوستوں پر ہیشہا تشدد کرنا اور عثمان کے دوستوں کو اپنا مقرب بنانا اور انہیں عطیات سے نوازنا "
مغیرہ نے معاویہ کے حکم پر پورا عمل کیا وہ ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کرتا تھا اور حضرت حجر بن عدی اسے برملا ٹوک کر کہتے تھے کہ لعنت اور مذمت کا حق دار تو اور تیرا امیر ہے اور جس کی تم مذمت کررہے ہو وہ فضل وشرف کا مالک ہے ۔مغیرہ نے حجر بن عدی اور اس کے دوستوں کے وظائف بند کردئیے حضرت حجر کہا کرتے تھے کہ بندہ خدا ! تم نے ہمارے عطیات ناحق روک دئیے ہیں تمہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہمارے عطیات بحال کرو ۔
مغیرہ مرگیا اور اس کی جگہ زیاد بن ابیہ کوفہ کا گورنر مقرر ہوا ۔ زیادہ نے بھی معاویہ اور مغیرہ کی سنت پر مکمل عمل کیا اور وہ بد بخت امیرالمومنین علیہ السلام پر سبّ وشتم کرتا تھا ۔ حجر بن عدی ہمیشہ حق کا دفاع کرتے تھے ۔زیاد نے حجر بن عدی اور ان کے بارہ ساتھوئں کو گرفتار کرکے زندان بھیج دیا اور ان کے خلاف ان کے "جرائم" کی تفصیل لکھی اور چار گواہوں کے دستخط لئے اور حضرت حجر بن عدی کی مخالفت میں جن افراد نے دستخط کئے تھے ان میں طلحہ بن عبیداللہ اکے دو بیٹے استحاق اور موسی اور زبیر کا بیٹا منذرعماد بن عقبہ بن ابی معیط سر فہرست تھے پھر زیادہ نے قیدیوں کو وائل بن حجر الحضرمی اور کثیر بن شہاب کے حوالے کرکے انہیں شام بھیجا۔
زیاد کے دونوں معتمد قیدیوں کو لے کر شام کی طرف چل پڑے جب "مقام غریین" پر یہ قافلہ پہنچا تو شریح بن بانی ان سے ملا اور وائل کو خط لکھ کر دیا کہ یہ خط معاویہ تک پہنچا دینا ۔ قیدیوں کا قافلہ شام سے باہر" مرج عذرا" کے مقام پر پہنچا تو قیدیون کو وہاں ٹھہرایا گاع اور وائل اور کثیر زیاد کا خط لے کر معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ کو زیاد کا خط دیا جس میں زیاد نے تحریر کیا تھا کہ حجر بن عدی اور اس کے ساتھی آپ کے شدید دشمن ہیں اور ابو تراب کے خیر خواہ ہیں اور حکومت کے کسی فرمان کو خاطر میں نہیں لاتے یہ لوگ کوفہ کی سرزمین کو آپ کے لئے تلخ بنانا چاہتے ہیں لہذا آپ جو مناسب سمجھیں انہیں سزا دیں تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہوسکے ۔اس کے بعد وائل نے شریح بن ہانی کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے زیاد نے اپنے محضر نامہ میں میری گواہی بھی لکھی ہے اور حجر کے متعلق میری گواہی یہ ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں اور حج وعمرہ کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔ اس کا خون اور مال تم پر حرام ہے ۔
زیادنے جن محبان علی کو گرفتار کیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں
(1):- حجر بن عدی کندی (2):- ارقم بن عبداللہ کندی (3):- شریک بن شداد حضرمی (4):- صیفی بن فسیل شیبانی (5):- قبیصہ بن صنیع عبسی (6):- کریم بن عفیف خثمی (7):- عاصم بن عوف بجلی (8) :- ورقا بن سمی بجلی (9):- کدام بن حسان عنزی (10):- عبدالرحمن بن حسان غزی (11):- محرر بن شہاب تمیمی (12:- عبداللہ بن حویہ سعدی ۔
درج بالا بارہ افراد کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد دو افراد عتبہ بن اخمس سعد بن بکر اور سعد بن نمران ہمدانی کو گرفتار کرے کے شام بھیجا گیا تو اس طرح سے ان مظلوموں کی تعداد چودہ ہوگئی ۔
حضرت حجر بن عدی کے واقعہ کو مورخ طبری نے یوں نقل کیا ہے :-
قیس بن عباد شیبانی زیاد کے پاس آیا اور کہا ہماری قوم بنی ہمام میں ایک شخص بنام صیفی بن فسیل اصحاب حجر کا سرگروہ ہے اور آپ کا شدید ترین دشمن ہے ۔زیاہ نے اسے بلایا ۔جب وہ آیا تو زیاد نے اس سے کہا کہ "دشمن خدا تو ابو تراب کے متعلق کیا کہتا ہے "؟
اس نے کہا کہ میں ابو تراب نام کے کسی شخص کو نہیں پہنچاتا ۔
زیاد نے کہا!کیا تو علی ابن ابی طالب کو بھی نہیں پہچانتا ؟
صیفی نے کہا:- جی ہاں میں انہیں پہچانتا ہوں ۔زیاد نے کہا ! وہی ابو تراب ہے ۔
صیفی نے کہا!ہرگز نہیں وہ حسن اور حسین کے والد ہیں ۔
پولیس افسر نے کہا کہ امیر اسے ابو تراب کہتا ہے اور تو اسے والد حسنین کہتا ہے؟ حضرت صیفی نے کہا کہ تیرا کیا خیال ہے اگر امیر جھوٹ بولے تو میں بھی اسی کی طرح جھوٹ بولنا شروع کردوں ؟
زیاد نے کہا ! تم جرم پر جرم کررہے ہو ۔میرا عصا لایا جائے ۔
جب عصا لایا گیا تو زیاد نے ان سے کہا کہ اب بتاؤ ابو تراب کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہو؟
صیفی نے فرمایا ! میں ان کے متعلق یہی کہوں گا کہ وہ اللہ کے صالح ترین بندوں میں سے تھے ۔
یہ سن کر زیادہ نے انہیں بے تحاشہ مارا اور انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب زیاد ظلم کرکے تھک گیا تو پھر حضرت صیفی سے پوچھا کہ تم اب علی کے متعلق کیاکہتے ہو؟
انہوں نے فرمایا ! اگرمیرے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردئیے جائں تو بھی میں ان کے متعلق وہی کہوں گا جو اس سے پہلے کہہ چکا ہوں ۔ زیاد نے کہا تم باز آجاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا ۔
حضرت صیفی نے فرمایا کہ اس ذریعہ سے مجھے درجہ شہادت نصیب ہوگا اور ہمیشہ کی بد بختی تیرے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی ۔
زیاد نے انہیں قید کرنے کا حکم کردیا ۔چنانچہ انہیں زنجیر پہنا کر زندان بھیج دیا گیا ۔بعد از اں زیاد نے حضرت حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف فرد جرم کی تیار کی اور ان مظلوم بے گناہ افراد کے خلاف حضرت علی علیہ السلام کے بدترین دشمنوں کے اپنے دستخط ثبت کئے ۔ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ " میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے اور لوگوں کو امیر المومنین معاویہ کی بیعت توڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو ابو تراب کی محبت کی دعوت دی ہے ۔
زیادہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی افراد بھی اسی طرح کی گواہی تحریر کریں ۔میری کوشش ہے کہ اس خائن احمق کی زندگی کا چراغ بجھا دوں ۔
عناق بن شر جیل بن ابی دہم التمیمی نے کہا کہ میری گواہی بھی ثبت کرو ۔مگر زیاد نے کہا ! نہیں ہم گواہی کے لئے قریش کے خاندان سے ابتدا کریں گے اور اس کے ساتھ ان معززین کی گواہی درج کریں گے جنہیں معاویہ پہچانتا ہو ۔
چنانچہ زیاد کے کہنے پر اسحاق بن طلحہ بن عبیداللہ اور موسی بن طلحہ اور اسماعیل بن طلحہ اور منذر بن زبیر اور عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط ،عبدالرحمان بن ہناد ،عمربن سعد بن ابی وقاص ،عامر بن سعود بن امیہ ،محرز بن ربیعہ بن عبدالعزی ابن عبدالشمس ،عبیداللہ بن مسلم حضرمی ، عناق بن وقاص حارثی نے دستخط کئے
ان کے علاوہ زیاد نے شریح قاضی اور شریح بن ہانی حارثی کی گواہی بھی لکھی قاضی شریح کہتا ہے تھا کہ زیاد نے مجھ سے حجر کے متعلق پوچھا تو میں نے کہا تھا کہ وہ قائم اللیل اور صائم النہار ہے ۔
شریح بن ہانی حارثی کو علم ہوا کہ محضر نامہ میں میری بھی گواہی شامل ہے تو وہ زیاد کے پاس آیا اور اسے ملامت کی اور کہا کہ تو نے میری اجازت اور علم کے بغیر میری گواہی تحریر کردی ہے میں دنیا وآخرت میں اس گواہی سے بری ہوں ۔ پھروہ قیدیوں کے تعاقب میں آیا اور وائل بن حجر کو خط لکھ دیا کہ میرا یہ خط معاویہ تک ضرور پہچانا ۔اس نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ نے حجر بن عدی کے خلاف میری گواہی بھی درج کی ہے تو معلوم ہو کہ حجر کے متعلق میری گواہی یہ کہ وہ نماز پڑھتا ہے ،زکواۃ دیتا ہے ، حج وعمرہ بجا لاتا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے ، اس کی جان ومال انتہائی محترم ہے ۔
قیدیوں کو دمشق کے قریب "مرج عذرا " میں ٹھہرا یا گیا اور معاویہ کے حکم سے ان میں سے چھ افراد کو قتل کردیاگیا ۔ ان شہیدان راہ حق کے نام یہ ہیں –
(1):- حجربن عدی رضی اللہ عنہ (2):- شریک بن شداد حضرمی (3):- صیفی بن فسیل شیبانی (4):- قبیصہ بن ضبیعہ عبسی(5):- محرز بن شہاب السعدی (6):- کدام بن حیان الغزی رضی اللہ عنھم اجمعین ۔
اس کے علاوہ عبدالرحمن بن حسان عنزی کو دوبارہ زیاد کےپاس بھیجا گیا اور معاویہ نے زیاد کو لکھا کہ اسے بد ترین موت سے ہمکنار کرو ۔زیاد نے انہیں زندہ دفن کرادیا (1)۔

خدا کی رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
حضرت حجر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر ہند بنت زید نے یہ مرثیہ پڑھا تھا :-
ترفع ایھا القمر المنیر ۔۔۔ تبصر ھل تری حجر الیسیر
یسیر الی معاویۃ بن حرب ۔۔۔ لیقتلہ کما زعم الامیر
الا یا حجر حجر بن عدی ۔۔۔ ترفتک السلامۃ والسرور
یری قتل الخیار علیہ حقا ۔۔۔ لہ شر امتہ وزیر
"اے قمر منیر! دیکھو تو سہی حجر جارہا ہے ۔حجر معاویہ بن حرب کے پاس جارہا ہے ۔امیر زیاد کہتا ہے کہ معاویہ اسے قتل کرےگا ، اے حجر بن عدی !تجھے ہمیشہ سلامتی اور خوشیاں نصیب ہوں ،معاویہ شریف لوگوں کو قتل کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے اور امت کا بد ترین شخص اس کا وزیر ہے ۔"
ڈاکٹر طہ حسین لکھتے ہیں :-
ایک مسلمان حاکم نے اس گناہ کامباح اور اس بدعت کو حلال سمجھا اپنے لئے کہ ایسے لوگوں کو موت کی سزا دیدے جس کے خون کی اللہ نے حفاظت چاہی تھی اور پھر موت کا حکم بھی حاکم نے ملزموں کو بلا دیکھے اور ان کی کچھ سنے اور ان کو اپنے دفاع کا کچھ حق دیئے بغیر دیدیا ۔حالانکہ انہوں نے باربار مطلع کیا کہ انہوں نے حاکم کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا ۔
اس سانحہ نے دور دور کے مسلمانوں کے دل ہلادیئے ۔حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اس جماعت کو شام بھیجا جا رہا ہے تو انہوں نے عبدالرحمن بن حارث ابن ہشام کو معاویہ کے پاس بھیجا کہ ان کے بارے میں اس سے گفتگو کریں ۔ لیکن جب عبدالرحمن پہنچے تو یہ جماعت شہید ہوچکی تھی ۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر کو جب اس دردناک واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے عمامہ سر سے اتارکر لوگوں سے اپنا رخ پھیر لیا اور رونے لگے اور لوگوں نے ان کے رونے کی آواز سنی ۔
حجر کا قتل ایک سانحہ ہے ۔ اس دور کے بزرگوں میں سے کسی نے اس بات پر شک نہیں کیا کہ کہ یہ قتل اسلام کی دیوار میں ایک شگاف تھا اور معاویہ کو بھی اس کا اعتراف تھا چنانچہ وہ اسے اپنے آخری دنوں تک حجر کو نہ بھول سکا اور مرض الموت میں سب سے زیادہ اسے یاد کیا ۔مورخوں اور راویوں کا بیان ہے کہ معاویہ مرض الموت میں کہتا تھا :-حجر تو نے میری آخرت خراب کردی ۔ ابن عدی کے ساتھ میرا حساب بہت لمبا ہے ۔"(2)

غدر معاویہ کے دیگر نمونے
معاویہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے انسانی قدروں کو پامال کرنےمیں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا ۔
اس نے حضرت مالک اشتر کے متعلق سنا کہ حضرت علی نے انہیں محمد بن ابی بکر کی جگہ مصر کا گورنر مقررکیا ہے تو اس نے ایک زمین دار سے ‎سازش کی کہ اگر تو نے مصر پہنچنے سے پہلے مالک کو قتل کردیا تو تیری زمین کا خراج نہیں لیا جائے گا ۔
چنانچہ جب حضرت مالک اس علاقے سے گزرے تو اس نے انہیں طعام کی دعوت دی اور شہد میں زہر ملا کر انہیں پیش کیا ۔جس کی وجہ سے حضرت ومالک شہید ہوگئے۔
اس واقعہ کے بعد معاویہ اور عمرو بن العاص کہا کرتے تھے کہ شہد بھی اللہ کا لشکر ہے ۔امام حسن مجتبی علیہ السلام سے معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور حضرت حسن عیہ السلام کی زوجہ جعدہ بنت اشعث سے ساز باز کی کہ اگر وہ انہیں زہر دے کر شہید کردے تو اسے گراں قدر انعام دیاجائے گا اور اس کی شادی یزید سے کی جائے گی ۔
امام حسن علیہ السلام کی بیوی نے معاویہ کی انگیخت پر انہیں زہر دیا جس کی وجہ سے وہ شہید ہوئے ۔
مورخ مسعودی لکھتے ہیں کہ ابن عباس کسی کام سے شام گئے ہوئے تھے اور مسجد میں بیٹھے تھے کہ معاویہ کے قصر خضرا ء
سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی ۔آواز سن کر معاویہ فاختہ بنت قرظہ نے پوچھا کہ آپ کو کونسی خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ جس کی وجہ سے تم نے تکبیر کہی ہے ؟ تو معاویہ نے کہا ! حسن کی موت کی اطلا ع ملی ہے ۔ اسی لئے میں نے باآواز بلند تکبیر کہی ہے ۔(3)

زیاد بن ابیہ کا الحاق
زیاد ایک ذہین اور ہوشیار شخص تھا ۔ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں ان کا عامل تھا ۔ معاویہ اپنی شاطرانہ سیاست کے لئے زیاد کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا اور اس نے زیاد کو خط لکھا کہ تم حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ کر میرے پاس آجاؤ کیونکہ تم میرے باپ ابو سفیان کے نطفہ سے پیدا ہوئے ہو ۔
زیاد کے نسب نامہ میں اس کی ولدیت کا خانہ خالی تھا ۔اسی لئے لوگ اسے زیاد بن ابیہ ۔یعنی زیاد جو اپنے باپ کا بیٹا ہے ، کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام کو جب معاویہ کی اس مکاری کا علم ہوا تو انہوں نے زیاد کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے لکھا ۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ تمہاری طرف خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا اور تمہاری دھار کو کند کرنا چاہا ہے ۔ تم اس سے ہوشیار رہو کیونکہ وہ شیطان ہے جو مومن کے آگے پیچھے اور داہنی بائیں جانب سے آتا ہے تاکہ اسے غافل پاکر اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی عقل پر چھاپہ مارے ۔واقعہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب کے زمانہ میں ابو سفیان کے منہ سے بے سوچے سمجھے ایک بات نکل گئی تھی جو شیطان وسوسوں مںہ سے ایک وسوسہ تھی ۔ جس سے نہ نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ وارث ہونے کا حق پہنچتا ہے ۔ جو شخص اس بات کا سہارا لے کر بیٹھے وہ ایسا ہے جیسے بزم مے نوشی میں مبتلا بن بلائے آنے والا کہ اسے دھکے دے کر باہر کیا جاتا ہے یا زین فرس میں لٹکے ہوئے اس پیالے کی مانند جو ادھر سے ادھر تھرکتا رہتا ہے (4)۔
مسعودی ذکر کرتے ہیں کہ :-
40 ہجری میں معاویہ نے زیاد کو اپن بھائی بنا لیا اور گواہی کے لئے زیاد بن اسماء مالک بن ربیعہ اور منذر بن عوام نے معاویہ کے دربار میں زیاد کے سامنے گواہی دی کہ ہم نے ابو سفیان کی زبانی سنا تھا کہ زیاد نے میرے نطفہ سے جنم لیا ہے ۔اور ان کے بعد ابومریم سلولی نے درج ذیل گواہی دی کہ زیاد کی ماں حرث بن کلدہ کی کنیز تھی اور عبید نامی ایک شخص کے نکاح میں تھی طائف کے محلہ "حارۃ البغایا" میں بدنام زندگی گزار تی تھی اور اخلاق باختہ لوگ وہاں آیا جایا کرتے تھے اور ایک دفعہ ابو سفیان ہماری سرائے میں آکر ٹھہرا اور میں اس دور میں مے خانہ کا ساقی تھا ۔ ابو سفیان نے مجھ سے فرمائش کی کہ میرے لئے کوئی عورت تلاش کرکے لے آؤ ۔
میں نے بہت ڈھونڈھا مگر حارث کی کنیز سمیہ کے علاوہ مجھے کوئی عورت دستیاب نہ ہوتی ۔ تو میں نے ابو سفارن کو بتایا کہ ایک کالی بھجنگ عورت کے علاوہ مجھے کوئی دوسری عورت نہیں ملی ۔ تو ابو سفیان نے کہا ٹھیک ہے وہی عورت ہی تم لاؤ ۔
چنانچہ میں اس رات سمیہ کو لے کر ابو سفیان کے پاس گیا اور اسی رات کے نطفہ سے زیادکی پیدائش ہوئی ۔ اسی لئے میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ معاویہ کا بھائی ہے ۔ اس وقت سمیہ کی مالکہ صفیہ کے بھائی یونس بن عبید نے کھڑے ہو کر کہا ۔
معاویہ ! اللہ اور رسول کا فیصلہ ہے کہ " بچہ اسی کا ہے جس کے گھر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں " اور تو فیصلہ کررہا ہے کہ بیٹا زانی کا ہے ۔یہ صریحا کتاب خدا کی مخالفت ہے ۔عبدالرحمن بن ام الحکم نے اس واقعہ کو دیکھ کریہ شعر کہے تھے :-
الا بلغ معاویہ بن حرب ۔۔۔ مغلغۃ من الرجل الیمانی
اتغضب ان یقال ابوک عف--- وترضی ان یقال ابوک زانی
فاشھد ان رحمک من زیاد ۔۔۔ کرحم الفیل من ولد الاتان
" ایک یمنی آدمی کا پیغام معاویہ بن حرب کو پہنچادو ۔ کیا تم اس بات پر غصّہ ہوتے ہو کہ تمہارے باپ کو پاک باز کہا جائے اور اس پر خوش ہوتے ہو کہ اسے زانی کہا جائے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا زیاد سے وہی رشتہ ہے جو ہاتھی کا گدھی کے بچے سے ہوتا ہے ۔"
ابن ابی الحدید نے اپنے نے اپنے شیخ ابو عثمان کی زبانی ایک خوبصورت واقعہ لکھا ہے :
"جب زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا اور تازہ تازہ ابو سفیان کا بیٹا بنا تھا اس دور میں زیاد کا گزر ایک محفل سے ہوا جس میں ایک فصیح وبلیغ نابینا ابو العریان العددی بیٹھا تھا ۔ ابو العریان نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ گزرے ہیں ؟
تو لوگوں نے اسے بتایا زیاد بن ابی سفیان اپنے مصاحبین کے ساتھ گزرا ہے ۔ تو اس نے کہا ! اللہ کی قسم ابو سفیان نے تو یزید ،معاویہ ،عتبہ، عنبہ ،حنظلہ اور محمد چھوڑے ہیں ۔ یہ زیاد کہاں سے آگیا ؟
اس کی یہی بات زیاد تک پہنچی تو زیاد ناراض ہوا ۔کسی مصاحب نے اسے مشورہ دیاکہ تم اسے ‎سزا نہ دو بلکہ اس کا منہ دولت سے بند کردو۔
زیاد نے دوسو دینار اس کے پاس روانہ کئے ۔ دوسرے دن زیاد اپنے مصاحبین سمیت وہاں سے گزرا اور اہل محفل کو سلام کیا ۔
نابینا ابو العریان اسلام کی آواز سن کر رونے لگا۔ لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ! زیاد کی آواز بالکل ابو سفیان جیسی ہے (5)۔
حسن بصری کہا کرتے تھے کہ معاویہ میں چار صفات ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے اس میں ایک بھی ہوتی تو بھی تباہی کے لئے کافی تھی ۔
1:- امت کے دنیا طلب جہال کو ساتھ ملاکر اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ اس وقت صاحب علم و فضل صحابہ موجود تھے ۔
2:- اپنے شرابی بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا جو کہ ریشم پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا ۔
3:- زیاد کو اپنا بھائی بنایا ۔ جب کہ رسول خدا کا فرمان ہے کہ لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔
4:- حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا (6)۔

اقوال معاویہ
معاویہ نے اپنی مرض موت میں یزید کو بلایا اور کہا کہ دیکھو میں نے تمہارے لئے زمین ہموار کردی ہے ار سرکشان عرب وعجم کی گردنوں کو تمہارے لئے جھکا دیا ہے اور میں نے تیرے لئے وہ کچھ کیا جو کوئی باپ بھی اپنے بیٹے کے لئے نہیں کرسکتا ۔مجھے اندیشہ ہے کہ امر خلافت کے لئے قریش کے یہ چار افراد حسین بن علی ۔عبداللہ بن عمر ،عبدالرحمن بن ابو بکر اور عبداللہ بن زبیر تیری مخالفت کریں گے ۔
ابن عمر سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اگر باقی لوگ بیعت کرلیں گے تو وہ بھی تیری بیعت کرے گا ۔
حسین بن علی کو عراق کے لوگ اس کے گھر سے نکالیں گے اور تجھے ان سے جنگ کرنا پڑے گی ۔
عبد الرحمن بن ابو بکر کی ذاتی رائے نہیں ہے وہ وہی کچھ کرے گا جو اس کے دوست کریں گے ، وہ لہو ولعب اور عورتوں کا دلدادہ ہے ۔ لیکن ابن زبیر سے بچنا وہ شیر کی طرح تجھ پر حملہ کرے گا اور لومڑی کی طرح تجھے چال بازی کرے گا ۔ اگر تم اس پر قابو پاؤ تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردینا (7)۔
2:- طبری نے مختلف اسناد سے ابو مسعودہ فرازی کی روایت نقل کی ہے کہ :- معاویہ نے مجھ سے کہا :- ابن مسعدہ ! اللہ ابو بکر پر رحم کرے نہ تو اس نے دناب کو طلب کیا اور نہ ہی دنیا نے اسے طلب کیا اور ابن حنتمہ کو دنیا نے چاہا لیکن اس نے دنیا کو نہ چاہا ۔عثمان نے دنیا طلب کی اور دنیا نے عثمان کو طلب کیا اور جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہم تو دنیا میں لوٹ پوٹ چکے ہیں ۔
3:- جب معاویہ کی سازش سے حضرت مالک اشتر شیدا ہوگئے تو معاویہ نے کہا! علی کے دو بازو تھے ایک ( عمّار یاسر) کو میں نے صفین میں کاٹ دیا اور دوسرے بازو کو میں نے آج کاٹ ڈالا ہے ۔
4:-معاویہ کو رسولخدا (ص) نے بد دعا دی تھی کہ اللہ اس کے شکم کو نہ بھرے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بد دعا نے پورا اثر دکھایا تھا ۔ چنانچہ معاویہ دن میں سات مرتبہ کھانا کھاتا تھا اور کہتا تھا کہ خدا کی قسم پیٹ نہیں بھرا البتہ میں کھاتے کھاتے تھک گیا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- تاریخ طبری ۔جلد ششم –ص 155
(2):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 243
(3):- مروج الذہب ومعادن الجوہر ۔جلد دوم ۔ص 307
(4):- نہج البلاغہ مکتوب 44
(5):- شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص 68
(6):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 248
(7):-الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ ص 259-260


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وحدت و اتحاد کے بارے میں امام علی﴿ع﴾ کا نظریہ ...
اسلام اور مغربی زندگی میں فرق
الکافی
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
لالچي بوڑھا اور ہارون الرّشيد
بعثت پیغمبراسلام(ص)
اندازِ خطبہ فدک
کربلا کے متعلق تحقيقي مواد اور مدارس کي ذمہ داري
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
مجلس شوری کا تجزیہ

 
user comment