درحقیقت جناب زہراٴ اور حضرت علیٴ کو دنیاوی مال و متاع سے تہی دستکرنا تھا تاکہ وہ بے دست و پا ہوجائیں اور نئی حکومت کے لئے کسی قسم کاخطرہ نہ بن سکیں اور ان کی حکومت اطمینانِ خاطر کے ساتھ اپنی جڑوں کومضبوط کرسکے۔
عوام کو بھی لوگوں کے باطن کا علم نہیں ہوتا، وہ توبظاہر یہی دیکھتے ہیںکہ نئی حکومت متعدد مسائل سے دوچار ہے اور اسے مالیتعاون کی اشد ضرورت ہے اور دوسری طرف حضرت علیٴ و زہراٴ کا خاندان ایکزاہد، قناعت پسند اور محنتی خاندان ہے کہ جنہیں مالِ دنیا سے جیبوں کوبھرنے کی نہ صرف یہ کہ کوئی آرزو نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے بیزار ہی ہیں۔
جناب زہراٴ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے اسلام کی خاطر سب سےزیادہ قربانیاں دی ہیں۔ طبیعی طور پر لوگوں کو یہی توقع ہوتی ہے کہ اب بھیویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قربانیاں دیں گے اور نہ صرف یہ کہ نئیحکومت سے کسی مال کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اپنا مال بھی ماضی کی طرحبلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں گے اور اسلامی نظامکو انحطاط سے بچانے اور سامراجی اور طاقتور حکومتوں کو مدینہ پر حملہ کرنےسے روکنے کے لئے خلیفہ کی مدد بھی کریں گے۔ اس صورتحال میں اگر وہانحرافات کو بیان کرنا چاہیں تو اس پر کوئی توجہ نہ دے گا اور ان کی باتوںکو دوسرے معاملات پر حمل کیا جائے گا خصوصاً اگر پروپیگنڈہ مشنری دوسروںکے ہاتھوں میں ہو۔
ایسی فضا میں صراطِ مستقیم سے حکومتی انحراف کوبیان کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کیونکہ عوام نہ صرف یہ کہ تشخیص نہیں دےسکتے کہ حکومت صراطِ مستقیم سے منحرف ہوچکی ہے بلکہ وہ تو حاکم کی مخالفتکو زمینی حالات سے ناواقفیت، روم و ایران کی سلطنتوں کی سازشوں سے غفلتاور موقع پرست نومسلموں کی موقع پرستی سے چشم پوشی اور منافقوں کی ریشہدوانیوں سے لاپرواہی شمار کرتے ہیں۔
لہذ اجناب فاطمہٴ جو کہ اس فضا کوتوڑنا چاہتی ہیں' کے لئے ضروری تھا کہ سب سے پہلے اپنا علمی و ادراکیمقام، عقل و درایت اور اپنے جذبات پر کنٹرول کی صلاحیت کو لوگوں کے سامنےثابت کریں۔ موجودہ اور گذشتہ حالات کو عقل و درایت کے ساتھ لوگوں کوبتائیں تاکہ کوئی ان پر زمینی حالات سے بے خبری کی تہمت نہ لگا سکے۔ توحیدو نبوت وغیرہ کی وضاحت کریں اور اپنا مقصد بیان کریں تاکہ لوگ آپ کو دنیاپرست نہ سمجھیں۔ اسی کے ضمن میں انحرافات کا بھی ذکر کریں اور اس پر اصرارکریں تاکہ لوگ اس جانب متوجہ ہوجائیں۔
لہذا مسجد کی جانب جانے کیآپٴ کی کیفیت مخصوص تھی۔ لباس کا انداز، مسجد میں داخلے کی کیفیت، آپٴ کیگریہ و زاری، آپٴ کے خطبہ کا انداز، ان سب میں ایک خاص روش نظر آتی ہےتاکہ اس ایک خطبے کے ذریعے وہ عظیم مقصد حاصل ہو جائے جو آپٴ کے پیشِ نظرتھا۔ اگرچہ اس زمانے میں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے لیکن وقت گذرنے کے ساتھساتھ بی بیٴ کی سچائی اور حاکموں کا انحراف ثابت ہوگیا۔
آپٴ نے اس وقار کے ساتھ راستہ طے کیا کہ لوگوں نے کہا: آپٴ کا چلنا رسولاللہ ۰ کی چال سے کسی طرح کم نہ تھا۔ گویا یہ نبی اکرم۰ تھے جو پورے وقارکے ساتھ، کسی اضطراب کے بغیر اور بھرپور اطمینان کے ساتھ قدم اٹھا رہےتھے۔ جب آپٴ مسجد میں پہنچیں تو وہاں خلیفہ وقت مسلمان مہاجرین و انصار کےدرمیان موجود تھے۔ بی بی زہراٴ تنہا وہاں نہیں پہنچیں کہ جس سے آپٴ کا یہعمل ایک جذباتی عمل محسوس ہو بلکہ خاندان کی بعض عورتوں کے ساتھ مسجد میںداخل ہوئیں ۔ آپٴ کا لباس اتنا لمبا تھا کہ پیر بھی چھپے ہوئے تھے یہاں تککہ چلتے ہوئے دامن قدموں تلے آجاتا تھا۔
اس طرح چلنے کا مقصد یہ تھاکہ آپٴ یہ بتا دیں کہ آپٴ کا نکلنا او رمسجدمیں آنا بابا کی جدائی کےہیجان اور جذبات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ شعور و آگہی کے ساتھ اور ایکخاص مقصد کے تحت ہے اور کسی اہم بات کے بیان کے لئے آپٴ تشریف لائی ہیں۔
طبیعی طور پر غمزدہ لوگوں نے جب بی بی فاطمہٴ اور دوسری عورتوں کو مسجدمیں آتے ہوئے دیکھا تو ان کے لئے ایک مخصوص جگہ خالی کردی اور سفید پردہتان دیا تاکہ عورتیں غم منا سکیں۔ لیکن مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیداہوا کہ یہ کونسا وقت ہے کہ جب بی بی فاطمہٴ مسجدمیں تشریف لائی ہیں؟ کیابابا کی وفات کا غم آپٴ کو یہاں کھینچ لایا ہے؟ کیا بابا کا کوئی واقعہ یاکوئی جملہ آپٴ کو یاد آگیا ہے؟ آپٴ کیوں خاموشی سے، کسی شور و فغاں کےبغیر حتی کہ جذبات و احساسات کی شدت اور گریہ و زاری کے بغیر جو کہ عامطور پر تمام عورتوں کا خاصہ ہے، مسجد میں آئی ہیں ؟ اتنے وقار کے ساتھاپنے بابا کے سے انداز میں کیوں تشریف لائی ہیں؟
پردہ تان دیئے جانے کے بعد یکایک بی بی نے جانسوز آہ بھری، جس سے پوریمسجد آہ و فغاں سے لرز اٹھی۔ سب لوگ بے اختیار رونے لگے۔ اس کے بعد آپٴ نےکچھ دیر سکوت اختیار کیا یہاں تک کہ لوگ خاموش ہوگئے اس کے بعد آپٴ نےخطبے کا آغاز کیا۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ بی بی نے مسجد میں داخلہوتے وقت گریہ کیوں نہیں کیا؟ پردہ ڈالتے وقت آپٴ کیوں خاموش تھیں؟ اوردرد بھری آہ بھرنے کے بعد آپٴ خاموش کیوں ہوگئیں؟ جب کہ مہاجرین و انصاراس وقت گریہ کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ عورتوں کی طبیعت نازک ہوتی ہے اور ایکعورت کو تو دوسروں سے زیادہ گریہ کرنا چاہئے جب کہ آپٴ تو آنحضور۰ کی دخترتھیں لہذا آپٴ کا گریہ تو سب سے زیادہ اور سب سے طویل تر ہونا چاہئے تھا۔پھر کیوں آپٴ نے یکایک خاموشی اختیار کرلی اور اس کے بعد کافی دیر تک سکوتاختیار کیا یہاں تک کہ دوسرے لوگ خاموش ہوگئے؟ یہ سب کس لئے تھا؟
ایسامعلوم ہوتا ہے کہ بی بی فاطمہٴ اپنی اس متوازن چال ڈھال اور اختیاری گریہو سکوت کے ذریعے سے جذبات پر اپنے کنٹرول کی نشاندہی کرنا چاہتی ہیں اوربتانا چاہتی ہیں کہ اگرچہ آپٴ نے ایسے عظیم باپ کو کھویا ہے جس کے غم میںپوری کائنات نوحہ کناں ہے، حالانکہ خود آپٴ ہی دوسری جگہ فرماتی ہیں کہ ''مجھ پر زمانے نے ایسے ستم ڈھائے ہیں کہ اگر روشن دنوں پر پڑتے تو وہسیاہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے''، اگرچہ کہ آپٴ ایک عورت ہیں اور مشکلات ومصائب کو برداشت کرنا عورتوں کے لئے زیادہ دشوار ہے، اور یہ کہ گریہ وزاری اختیاری نہیں ہوتا لیکن وہ چاہتی ہیں کہ شجاعت، شہامت اور اپنے جذباتپر کنٹرول کا مظاہرہ کریں اور بتا دیں کہ ہم سب غمزدہ ہیں لیکن میں ایکلمحے میں رو سکتی ہوں اور اگلے لمحے میں سکوت اختیار کر سکتی ہوں۔ میںپورے وقار اور شان کے ساتھ قدم اٹھا سکتی ہوں اور جب دوسرے لوگوں کا گریہپورے عروج پر ہو تو میں خاموش ہو سکتی ہوں۔
اس کے بعد آپٴ نے خطبے کا آغاز کیا۔ لیکن ایسا خطبہ کہ جو گریہ و اشک کےساتھ نہیں ہے۔ ایسا خطبہ کہ جس میں آواز میں اضطراب نہیں ہے بلکہ پاٹ داراور مضبوط ہے۔ استعمال ہونے والے الفاظ کا لہجہ جوشیلے انداز کی غمازیکرتا ہے۔ عام طورپر جب کوئی سوز و گداز کے ساتھ خطبہ دینا چاہے تو ایسےکلمات کا انتخاب کرتا ہے جس کے حروف کھینچے جاسکیں مثلاً ایسے کلمات جو''ین'' یا ''ون'' پر ختم ہو رہے ہوں۔ مثال کے طور پر ''الحمد للّٰه ربالعالمین، باری ئ الخلائق اجمعین، مالک یوم الدین، مبیر الظالمین'' تاکہاگر کہیں آواز بھرا جائے اور آنسو اس کے گلے میں رکاوٹ پیدا کردیں تو وہحروف مد ('و' اور 'ی' ) کو کھینچ کر اس کی تلافی کر سکے۔ اور اگر کسی کومعلوم نہ ہو کہ آگے اس کی کیا کیفیت ہوگی تو وہ بھی احتیاطاً ایسے ہیکلمات کا انتخاب کرتا ہے لیکن جناب زہرائے مرضیہ نے ایسے کلمات کا انتخابکیا کہ جس میں معمولی سی لرزش اور اضطراب کا اثر بھی واضح نظر آتا ہے۔چنانچہ بلند آواز سے فرمایا:
الحمد للّٰه عليٰ ما الهمْ، و له الشکرعليٰ ما انعمْ، و الثنائ بما قدّمْ، من عموم نعمة ابتدآها، و سبوغ آلائاسدادها، و تمام مِنن اولاها، جمّ عن الاحصائ عددها و نآيٰ عن الجزائامدها و تفاوت عن الادراک ابدُها، و ندبهم لاستزادتها بالشکر لاتصالها واستحمد الی الخلائق باجزالها و ثنيٰ بالندب اليٰ امثالها۔۔۔
ان الفاظکے معانی کی گہرائیاں جاننے کے لئے شرح کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے فی الوقتہمارا مقصد کلمات کی ہم آہنگی ، ان کی ترتیب اور ان کے آخری حروف ہیں کہجن پر یہ کلمات ختم ہوتے ہیں۔ ہر قاری ان کلمات کو روتے ہوئے، بھرائی ہوئیاور گلوگیر آواز میں خود پڑھ کر دیکھ سکتا ہے کہ یہ کلمات ان حالتوں میںپڑھنے کے لئے نہیں ہیں۔ لہذا قطعاً بی بی زہراٴ اس خطاب کے وقت گریہ وزاری نہیں کر رہی تھیں بلکہ ایک شعلہ بیاں، پُرجوش اور فصیح و بلیغ مقررکی طرح ان کلمات اور ان جملوں کو پے در پے بلند آواز سے ادا کر رہی تھیں۔
بہت جلد قوم کے بزرگ، صاحبانِ علم و دانش اور جو لوگ اجتماعی اور روحیمعاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے، وہ سمجھ گئے کہ بی بی ایک عام شخصیت نہیںہیں؛ یہ وہ غمزدہ عورت نہیں ہیں جسے باپ کی موت نے بدحواس کر دیا ہو اوروہ اپنے آپ پر قابو نہ پارہی ہو اور خود کو رونے سے نہ روک سکتی ہو بلکہیہ وہ خاتون ہیں جو شعوری طور پر ایسے کلمات کا انتخاب کرتی ہیں جو جوش وخروش کی حالت میں انسانی ذہن سے ابھرتے ہیں۔ آپٴ کے خطاب کو ایک دانشوراور صاحبِ حکمت انسان کا کلام سمجھنا چاہئے اور انہیں دل و جان سے سماعتکرنا چاہئے۔
جناب زہراٴ نے ان حرکات و سکنات کے ذریعے اور فراز و نشیبکو اختیار کر کے ابتدائ ہی میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ خاندانی جذبات واحساسات نہیں تھے جو انہیں مسجد میں کھینچ لائے ہوں اور انہیں خطبہ دینےپر مجبور کر دیا ہو، بلکہ اس سے اہم کوئی اور مقصد ہے جس کا بیان ہوناضروری ہے۔ آپٴ کا مسجد میں داخل ہونے کا انداز اور خطبہ شروع کرنے کاطریقہ اور ابتدائی کلمات نے اس طرح سب کو فریفتہ کرلیا ہے کہ ابن ابیالحدید معتزلی نے اپنی شرحِ نہج البلاغہ میں حضرت علیٴ کے خط نمبر ٤٥ کیشرح میں، جو آپٴ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا اور اس میں فدک کا ذکر آیاہے، بی بی کے خطبے کا کچھ حصہ نقل کیا ہے اور اس سے پہلے آپٴ کے مسجد میںداخل ہونے کا انداز، گریہ و زاری، سکوت و ابتدائی کلمات کا ذکر کیا ہے اوراس کے بعد فدک کے بارے میں امامٴ کے جملات کی تشریح کی ہے۔
ابن ابیالحدید کا ان چیزوں کو بیان کرنا یہ بتاتا ہے کہ یہ باتیں اس کی نظر میںبھی بہت اہمیت کی حامل ہیں بصورتِ دیگر وہ ان مقدمات کا ذکر نہ کرتا اوربراہِ راست فدک سے متعلق گفتگو کو نقل کرتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہادیبوں اور دانشوروں کی نگاہ سے بی بی کا ان حرکات و سکنات سے جو مقصد تھاوہ پوشیدہ نہیں رہا ہے اگرچہ عوام الناس اس وقت آپٴ کے مقصد کو نہ سمجھپائی ہو۔ بنابریں، جناب فاطمہٴ نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرلیاہے اور وہ یہ تھا کہ اپنی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالیں اورانحرافاتِ دربار سے پردہ اٹھائیں۔
چونکہ فی الوقت ہم جناب زہراٴ کے خطبے کی شرح نہیں کرنا چاہتے اور ہمارینگاہ اس خطبے کے فلسفے اور مقصد کی طرف مرکوز ہیں اور ہم یہ بیان کرناچاہتے ہیں کہ بی بی نے اس خطبے کے ذریعے اپنی شناخت کروائی اور اپنے علم وشعور اور مہارت کو ثابت کیا اور واضح کیا کہ رسول اللہ ۰ کا یہ فرمانا کہ''فاطمة بضعة مِنّی'' یا ''فداها ابوها'' رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں تھابلکہ آپٴ کی ذات ایک ایسا گوہر گرانمایہ تھی جسے کسی نے نہ پہچانا اور اسخطبے میں صرف اس کا ایک پہلو سامنے آیا ہے اور یہ کلام آپٴ کے نور کی ایکمعمولی تجلی گاہ بن گیا ہے، اس لئے ہم اس خطبے کے ضمنی پہلووں کی طرف توجہدیں گے۔
یہ خطبہ تقریباً ١٢٠ سطروں پر مشتمل ہے جس کا دس فیصد حمدباری تعاليٰ، دس فیصد توصیفِ رسالت مآب۰، پانچ فیصد توصیفِ قرآن، تقریباًدس فیصد فلسفہ احکام کا بیان ہے۔ اس حصے میں دین اسلام کے ٢٠ بنیادیموضوعات اور ارکانِ اسلام کی حکمت اور ان کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔ اس کے دسفیصد حصے کو رسول اللہ ۰ کے کاموں سے مختص کیا ہے تاکہ یہ بتائیں کہ لوگوںکو کہاں سے کہاں پہنچایا اور پانچ فیصد میں حضرت علیٴ کی قربانیوں کاتذکرہ ہے جب کہ دوسرے لوگ تن آسانی میں مشغول تھے۔ یہاں تک خطبہ نصفہوجاتا ہے۔
یہاں سے بی بی معاشرے کے انحرافات کا ذکر چھیڑتی ہیں اورشیطان کی سازشوں نیز انحرافات کے تلخ اثرات کا بیان کرتی ہیں جس سے لوگجلد دوچار ہونے والے ہیں۔ یہ بھی خطبے کا دس فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعد فدککا بیان شروع کرتی ہیں جس میں دلائل ہیں اور قرآن مجید کی پانچ آیتوں کےساتھ یہ حصہ بھی دس فیصد ہو جاتا ہے۔
بالفاظِ دیگر اس خطبے میں فدک پراپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے نصف حصہ مختص فرمایا جس میں حمدِ خدا اورتوصیفِ نبی۰ بھی شامل ہے۔ شاید بی بی کو یہ برحق توقع تھی کہ خطبے کے اتنےحصے سے حاکم اپنی غلطی کو سمجھ لے اور خود کو اس مقام سے ہٹا لے جس کاپہلا ہی قدم غلط اٹھا تھا یا مسلمان اس کو برطرف کرنے کا سوچیں لیکن جبآپٴ نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا تو اگلی تیس سطروں میں انصار سے خطاب کیاجس میں ان کی قربانیوں اور اسلام میں ان کا سابقہ دہرایا اور ان سے کہا کہوہ اٹھ کھڑے ہوں اور جو ظلم آپٴ پر ہوا ہے اس کا دفاع کریں۔ لیکن ایسا بھینہیں ہوا اور وہ بی بی پر ہونے والے ظلم کے خلاف مہرِ سکوت توڑنے پر بھیرضامند نہ ہوئے۔ اور اس طرح خطبے کا دوسرا نصف حصہ بھی پورا ہوا۔
شایدیا حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے کے بہت سے لوگ بی بی فاطمہزہراٴ کے کلمات کے استعمال پر دقتِ نظر سے غافل تھے اور اسے ایک اتفاقسمجھ رہے تھے لیکن آج جب اس خطبے کی تحریر اپنے سامنے رکھتے ہیں تو اسخطبے میں پوری تدبیر اور تنظیم نظر آتی ہے کہ آپٴ ایک چوتھائی حصے کو اپنےحق کے دفاع اور موجودہ حالات کی وضاحت طلبی کے لئے کافی سمجھتی تھیں لیکنجب کوئی اثر نہ ہوا تو سب لوگوں کو اور خصوصاً انصار کو موردِ عتاب قراردیا اور اپنے کلام کا تازیانہ ان کے ذہن و فکر پر برسایا اور بتایا کہاسلام کی نئی حکومت کی حفاظت کا کام اسی سوسائٹی میں موجود ایک فرد پر ظلمکر کے انجام نہیں دیا جاسکتا اور ایسی اسلامی حکومت پر دل کو مطمئن نہیںکیا جاسکتا کہ جس میں ایک شخصیت (بنامِ فاطمہٴ) پر ظلم ہوا اور دوسرےخاموش رہے اور یہ خاموشی اس لئے نہیں تھی کہ اس میں مصلحت اور خدا کیخوشنودی کے طالب تھے بلکہ یہ ان کی تن آسانی اور موقع پرستی تھی۔ ہاں جبکسی سوسائٹی میں حضرت زہراٴ و امام علیٴ جیسی مشہور شخصیات پر ظلم ہوتارہے جو کہ ایثار و قربانی اور قیام و استقامت کا مظہر ہیں، تو مسلمہ طورپر دوسروں پر ظلم ہوگا اور ایسے معاشرے کو خدا کا پسندیدہ اور رسول۰ کےلئے قابلِ قبول سوسائٹی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگرچہ جناب زہراٴ کی مدد کے لئے کوئی نہیں اٹھا اور ان کے کلمہ حق کو یاورو انصار نصیب نہیں ہوئے اور حاکمِ وقت نے بظاہر تسلیم کرتے ہوئے یہ خطاعام مسلمانوں کے سر ڈال دی اور انہیں بھی اپنے ساتھ شریک گردانا اور جنابزہراٴ کا احترام بجا لاکر معاملات و حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکنجو کچھ معلوم ہونا چاہئے تھا وہ ہوگیا۔ جو بات بی بی کی تقریر سے روزِروشن کی طرح عیاں تھی، وہ یہ تھی کہ فدک کو جناب فاطمہٴ کے قبضے سے چھینناقرآن مجید کی پانچ آیتوں کی صریح مخالفت ہے۔ اگر کوئی حاکم اپنی حکومت کےابتدائی ایام میں، جو کہ سنہری ایام ہیں اور رسول اللہ ۰ کی وفات کو بھیزیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اور سب لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ موت کا ذائقہ ہرایک کو چکھنا ہے اور اس کے باوجود قرآن کی اس طرح مخالفت کرے اور جب سب سےپہلا مظلوم اتنی مشہور، ایثارگر اور رسول اللہ ۰ کی اکلوتی اولاد ہو ، توایسی حکومت مضبوط ہوجانے کے بعد اور اپنے جڑیں مضبوط کر لینے کے بعد عاماور غیر معروف لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے گی۔۔ ؟! اور جب قرآن کیمحکم اور واضح آیات کی جو کہ امہات کتاب ہیں، عمداً یا سہواً مخالفت کیجائے تو پھر کتاب خدا میں سے اور کیا رہ جائے گا۔۔؟!
اگر مخاطب نےکلامِ کی گہرائی کو سمجھ لیا ہوتا اور دل میں اخلاص ہوتا تو فوراً کنارہکشی اختیار کر لی جاتی اور اگر لوگ آپٴ کی گفتگو کی حقیقت کو جان لیتے توخود قدم اٹھاتے۔ جناب زہراٴ کو بھی اسی بات کا انتظار تھا چنانچہ جب گھرواپس لوٹیں تو حضرت علیٴ سے فرمایا: میں اس حال میں گھر سے نکلی تھی کہ''خرجت کاظمۃ و عدتُ راغمۃ'' ۔
بنابریں جناب زہراٴ کی جو تعریف جوابمیں کی گئی اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہئے کہ پہلے تو بی بی سے اشارتاً کہاکہ آپ کے بابا کافروں پر سخت اور مومنوں پر رحیم تھے لہذا آپ کو بھی ہم پررحیم ہونا چاہئے اور شمشیر زبان کو دشمن پر چلانا چاہئے نیز یہ کہ بی بیکا عمل رسول اللہ ۰ کے عمل سے (نعوذ باللہ) مختلف تھا۔ اور اس کے بعد آپکی تعریف کرنا شروع کی کہ آپ تو صدیقہ ہیں، حق اور جنت کی جانب ہماریراہنما ہیں، آپ کی عقل و دانش کسی پر پوشیدہ نہیں وغیرہ۔
پھر اس سوالکے جواب میں کہ اگر ایسا ہے تو میرا حق کیوں غصب کیا ہے؟ فدک کے بارے میںمیری بات کو اہمیت کیوں نہیں دی جارہی؟ اور فرمانِ خدا و رسول۰ جو کہ بہشتکی طرف راہنما ہیں، کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟ یہ کہا:خدا کی قسم میں نےرسول۰ کی رائے سے تجاوز نہیں کیا ہے۔ جو کچھ کیا وہ انہی کی اجازت سے تھا۔اور قافلہ سالار کبھی اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ میں خدا کو گواہٹھہراتا ہوں اور اس کی گواہی کافی ہے کہ میں نے رسول خدا کو سنا کہ آپ نےفرمایا: ''ہم گروہِ انبیائ سونا چاندی، گھر اور زمین وراثت نہیں چھوڑتےبلکہ صرف کتاب، حکمت، علم اور نبوت کی میراث چھوڑتے ہیں اور جو کچھ ہمارےبعد باقی بچے وہ ہمارے بعد آنے والے ولی امر کے اختیار میں ہوتا ہے وہ جسطرح مصلحت سمجھے تصرف کر سکتا ہے۔''
اس حدیث کو جناب زہراٴ نے قرآنیآیات کی مدد سے غلط ثابت کر دیا تھا لیکن اس کے ذریعے سے وہ چاہتے تھے کہفدک کے ملکیتِ فاطمہٴ میں ہونے کا انکار کریں اور پھر قسم بھی کھائی اورخدا کو گواہ بھی ٹھہرایا تاکہ مسجد میں موجود لوگ جو کہ یقینا بی بی کےخطبے کے زیرِ اثر تھے، انہیں اپنی جانب مائل کر لیا جائے اور وہ جان لیںکہ دین کے خلاف کوئی کام انجام نہیں پایا ہے اور فدک کی قرقی رسولِ اکرم۰کے حکم اور ان کی حدیث کے مطابق ہے۔
اس کے بعد فدک کے استعمال کا ذکرکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بھی مسلمانوں کے اجماع کے مطابق ہے کہ اسےباطل کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے بلکہ کافروں اور مرتدوں کے خلاف استعمالکر رہے ہیں۔
اس موقع پر جناب صدیقہٴ نے ایک ''سبحان اللہ'' کہہ کرتمام باتوں پر پانی پھیر دیا اور فرمایا: سبحان اللہ! میرے بابا رسول اللہنے کتاب خدا سے کبھی منہ نہیں موڑا اور نہ وہ اس کے احکام کے مخالف تھے۔
سبحان اللہ کا جملہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی بہت بے تکی تہمتکسی پر لگائے جس کے غلط ہونے کا سب کو اچھی طرح علم ہو۔ گویا یہ تہمت خداپر بھی جاتی ہو کہ اس نے ایسے غلط انسان کو پیدا کر کے کوئی معیوب کام کیاہے۔
بہرصورت بی بی فاطمہٴ نے ایک سبحان اللہ کہہ کر سب کو یہ جتا دیاکہ یہ سب باتیں غیرحقیقی ہیں اور پھر اپنی بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کیارسول اللہ ۰ کلامِ الہی کے برخلاف حکم دیں گے؟! کیا وہ احکامِ الہی سےروگرداں تھے؟!
اس کے بعد دوبارہ اور مزید تاکید کے ساتھ اور قرآنی آیات کی تلاوت کر کے حاکم کی دلیلوں کو باطل ثابت کرتی ہیں۔
اس مرتبہ وہ یہ کہہ کر کہ ''خدا، رسول۰ اور ان کی بیٹی سچ فرماتی ہیں'' انکی تعریف کرتا ہے لیکن اپنے تمام اعمال کا گناہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئےکہتا ہے: یہ مسلمان میرے اورآپ کے درمیان فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے حکومتمیرے کاندھوں پر ڈالی ہے اور میں نے ان کے اتفاق اور اجماع سے فدک پر قبضہکیا ہے۔
اس موقع پر آخری اتمامِ حجت کے لئے بی بی نے عام مسلمانوں سےخطاب کیا اور باطل امور کی قبولیت اور حق سے چشم پوشی نیز قرآن پر تدبر نہکرنے پر ان کی مذمت کی اور جب دیکھا کہ وہ کسی صورت بھی اپنے عمل سےدستبردار ہونے پر تیار نہیں ہیں اور کسی بھی وجہ سے ان کے حق کا دفاع نہیںکرنا چاہتے تو پدر بزرگوار کی قبر کی طرف رُخ کیا اور چند اشعار پڑھ کرمقامِ اہلبیتٴ اور مخالفوں کی بدعتوں کو طشت از بام کرنے کے بعد مسجد سےباہر نکل گئیں۔
source : alhassanain