امام حسين(ع) اور مام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي ايک اور مشترکہ خوبي " شجاعت اور دليري " ہے - حضرت امام حسين(ع) کے يار و دوست عشق ِشهادت ميں لڑتے تھے ، وہ مرنے سے نہيں ڈرتے تھے اور دشمن کے مقابلے ميں کمزور نہيں پڑتے تھے - جس رشادت کا مظاہرہ حضرت مسلم بن عقيل (ع) نے كوفہ ميں کيا ، يا جو شجاعت اور دليري کا نمونہ حضرت ابوالفضل العباس (ع) ، حضرت قاسم (ع) اوردوسرے شھداء نے ميدان کارزار ميں پيش کيا ، وہ اس بات کي عکاسي کرتا ہے کہ وہ لوگ سب سے زيادہ شجاع اور دلير انسان تھے - ان کي شجاعت اتني انوکھي تھي کہ دشمن کا ايک کمانڈر اپنے سپاہيوں سے اس طرح فرياد سے کہتا ہے :
"اے بے عقلو ، کيا تمہيں معلوم ہے کہ کن کے ساتھ لڑ رہے ہو؟ دليراور نڈر شيروں کے ساتھ اوراس جماعت کے ساتھ جو موت بپا کرتي ہے ! ، تم ميں کوئي بھي ان کے پاس ميدان ميں چلے نہ جانا کہ اگر گئے تو مارے جاğ گے " -
ايک اور دشمن ، امام عالي مقام کے يار ودوستوں کي شجاعت اور دليري اس طرح بيان کرتا ہے :
" وہ افراد جنہوں نے ہم پر حملہ کيا ، ان کے ہاتھ تلواريں نيام سے نکالنے کے لئے ان کے دستوں پرتھے ، وہ خشم بھرے شيروں کي طرح ہمارے لشکروں پر ٹوٹ پڑيں اور انہيں داہيں باہيں کي طرف ملا ميٹ کيا اور اپنے آپ کو موت کے ميدان ميں ڈال ديا " -
امام حسين(ع) کے قيدي يار و دوستوں نے بھي ان کي شهادت کے بعد اپني شجاعت اور بہادري کے جلوے پيش کئے - امام عالي مقام کے اہل بيت (ع) اور ديگرافراد نے باوجود اس کے وہ اسير تھے ، مصيبت اورغم اپنے اوپرغالب نہيں ہونے ديا اور دشمن کے مقابلے ميں تسليم نہيں ہوگئے - انہوں نے اس طرح کا کردار نبھايا کہ دشمن ہي ان کے بدلے غصے ميں آجاتے تھے - اس بارے ميں حضرت زينب (س) کا کردار واضح اور پختہ دليل ہے اسي وجہ سے ان کي ابن زياد کے ساتھ گفتگو کے وقت ، ابن زياد نے اسے متکبرخاتون کہہ کر بلايا -
امام حسين (ع) کے اہل بيت کے سلوک کي جڑ ان کے امام کي شجاعت ، دليري اور غيرت ميں موجود تھي ؛ اس لئے کہ وہ امام عالي مقام کے ايسے يار و دوست تھے جو راہ خدا ميں آنے والي موت ، عزت و افتخار اور کاميابي سمجھتے تھے - نيز وہ " أبا الموت تخوفاني " کا نعرہ ديتے تھے - واقعہ کربلا کا ايک راوي اس طرح کہتا ہے :
" خدا کي قسم ، ميں نے کسي کو نہيں ديکھا کہ جس کے فرزندان اور خاندان اور يار و دوست مارے گئے ہوں اور لوگوں کے بڑي تعداد (فوجي لشکر) کے محاصرے ميں ہو اور وہ حسين بن علي کي طرح مضبوط دل ، ثابت قدم اور شجاع ہو - دشمنوں نے اسے محاصره کر رکھا تھا ، ليکن وہ تلوار سے ان پر حملہ کرتا تھا اور وہ سارے دائيں بائيں بھاگ جاتے تھے - شمر نے جب اس طرح کا منظر ديکھا تو اپنے سوارلشکرکو حکم ديا ، پيدل سپاہيوں کي مدد سے دوڑ کرحملہ کرے اور امام پر ہر طرف سے تيروں کي بارش برسائے " -
حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوست بھي شجاع ، دلير اور مردان ِ ميدان ہيں ؛ وہ فولاد جيسے دل کے مالک ہيں - دشمنوں کي اکثريت تعداد سے دل ميں کسي طرح کا خوف پيدا ہونے کا موقعہ نہيں ديتے ہيں اور خداوند عالم اور اپنے امام کے عشق و محبت نے ان کو ہمت و طاقت عطا کي ہے - ان کي بے نظير شجاعت ، انہيں ميدان کارزارميں کھينچ ليتي ہے - عزت نفس اور منزل کي عظمت و بلندي نے ، انہيں اونچے پہاڑ سے بھي زيادہ مضبوط بنايا ہے اور ان کے خوف کو ستمکاروں اور ظالمين کے سينوں ميں دوبرابر کيا ہے - (ہر فرد) چاليس آدميوں کي طاقت کا مالک ہے - وہ ميدان کارزار کے شير ہيں اور ان کي جانيں کانٹے دار پتھر سے بھي زيادہ مضبوط ہے !-
حضرت امام باقر(ع) ، حضرت وليعصر(عج) کے يار و دوستوں کي شجاعت اور دليري کے متعلق فرماتے ہيں :
"لَكَاَنّي اَنظُرُ اليهم مُصعِدِين مِن نجف الكوفه ثلاثُ مائه وَ بِضعهُ عشر رجلا كان قُلوبُهُم زبرَ الحديد ... يَسيرُ الرعبُ اَمامَه شهراً و خلفَهُ شهراً --- ؛ گويا کہ ميں انہيں ديکھ رہا ہوں ، تين سو اور دس اورکچھ ديگر افراد جو نجف (کوفہ) کي اونچائي پر کھڑے ہيں اور وہ فولاد جيسے دل کے مالک ہيں - انہوں نے ہرطرف سے ايک ماہ ميں طے ہونے والے راستے تک ، اپنے دشمنوں کے دلوں پر ترس و خوف کا سايہ ڈالا ہے --- !-
source : tebyan