صول دین کے برعکس ""فروع دين "" (عمل سے تعلق رکھنے والے احکام اور قوانين) ميں يہ واجب نہيں ہے کہ ہر مسلمان ان کو سوچ بچار اور دليلوں سے سمجھے بلکہ (جب کوئي بات دين کي طے کي ہوئي اور لازمي باتوں مثلاً نماز، روزہ اور زکات وغيرہ کے وجوب ميں سے نہ ہو تو) مندرجہ ذيل تين طريقوں ميں سے کسي ايک طريقے کو اختيار کرلينے کي آزادي ہے
1-اجتہاد کا درجہ اور اس درجے کي لياقت حاصل کرکے دليل اور مباحثے کے ذريعے سے ان احکام تک پہنچے-
2-اپنے اعمال ميں احتياط کے مطابق چلے اس طرح کي احتياط کے موارد سے واقف ہو مثلاً تمام مجتہدوں کے فتوے جمع کرکے جس بات پر اسے يقين ہوجائے اس کا فرض ہے کہ اسے انجام دے(1)
3-ايسے مجتہد کي تقليد کرے جو جامع الشرائط ہو يعني عاقل و عادل ہو اور گناہوں سے بچتا ہو- اپنے دين کي حفاظت کرتا ہو، نفساني خواہشات کي مخالفت کرتا ہو اور اپنے مولا (خدا) کا حکم ماننے والا ہو-
اگر کوئي شخص نہ مجتہد ہو نہ احتياط پر عمل کرتا ہو اور نہ کسي جامع الشرائط مجتہد کي تقليد ميں ہو تو اس کي تمام عبادتيں ارکات جائيں گي اور قبول نہيں ہوں گي چاہے اس نے اپني پوري عمر عبادت اور نماز روزے ميں گزاري ہو بجز اس صورت کے کہ اس کے پچھلے اعمال اس مجتہد
کے فتوے کے مطابق ہوں جس کي وہ بعد ميں تقليد کر ليتا ہے اور اس نے ان (اعمال عبادت ) کے انجام ديتے وقت واقعي قصد قربت (خدا کے ليے اعمال کي انجام دہي) کا خيال کيا ہو-
حوالہ:
(1) اگر مجتہدوں کے فتووں ميں اختلاف پايا جائے يعني بعض کسي عمل کو واجب جانتے ہوں اور بعض مستحب تو احتياط يہ ہے کہ اس عمل کو بجا لايا جائے ليکن اگر بعض کہيں کہ فلاں عمل مکروہ ہے اور بعض کہيں کہ حرام ہے تو احتياط يہ ہے کہ اس عمل کو انجام نہ ديا جائے- مزيد برآں اگر بعض مجتہدين کسي عمل کو واجب کہيں اوربعض حرام کہيں تو اس صورت ميں چونکہ احتياط ممکن نہيں ہے - اور کسي عمل کے کرنے يا نہ کرنے سے فرض کي ادائيگي کا يقين حاصل نہيں ہوگا لہذا ايسي صورت ميں اجتہاد يا تقليد کرنا واجب ہے-
source : tebyan