اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

جناب زينبِ کبريٰ کا خطبہ دربارِ يزيد ميں

زينب ہجومِ عام سے کرنے لگي خطاب باطل کا کھل رہا ہے بھرم، شام آگئي بسم اللہ الرحمن الرحيم - سب تعريفيں اس خدا کے لئے ہيں جو کائنات کا پروردگار ہے- اور خدا کي رحمتيں نازل ہوں پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر اور ان کي پاکيزہ عترت و اہل بيت پر- اما بعد! بالاخر برا ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے دامن حيات کو برائيوں کي سياہي سے داغدار کر کے اپنے خدا کي آيات کي تکذيب کي اور آيات پروردگار کا مذاق اڑايا-اے يزيد! کيا تو سمجھتا ہے کہ تو
جناب زينبِ کبريٰ کا خطبہ دربارِ يزيد ميں

زينب ہجومِ عام سے کرنے لگي خطاب

باطل کا کھل رہا ہے بھرم، شام آگئي

بسم اللہ الرحمن الرحيم - سب تعريفيں اس خدا کے لئے ہيں جو کائنات کا پروردگار ہے- اور خدا کي رحمتيں نازل ہوں پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر اور ان کي پاکيزہ عترت و اہل بيت پر- اما بعد! بالاخر برا ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے دامن حيات کو برائيوں کي سياہي سے داغدار کر کے اپنے خدا کي آيات کي تکذيب کي اور آيات پروردگار کا مذاق اڑايا-اے يزيد! کيا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمين کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئيے ہيں اور کيا آلِ رسول (ص) کو رسيوں اور زنجيروں ميں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کي بارگاہ ميں سرفراز اور رسوا ہوئے ہيں- کيا تيرے خيال ميں ہم مظلوم ہو کر ذليل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے- کيا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کي بارگاہ ميں تجھے شان و مقام حاصل ہو گيا ہے- آج تو اپني ظاہري فتح کي خوشي ميں سرمست ہے اور ناک بھوں چڑھاتا ہوا مسرت و شاد ماني سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے- اور زمامداري کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشي و سرور کا جشن منانے ميں مشغول ہے-

اپني غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے -

کيا تو نے خدا کا يہ فرمان بھلا ديا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے يہ خيال نہ کريں کہ ہم نے جو انہيں مہلت دي ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے- بلکہ ہم نے اس لئے ڈھيل دے رکھي ہے کہ جي بھر کر اپنے گناہوں ميں اضافہ کر ليں-اور ان کے لئے خوفناک عذاب معين و مقرر کيا جا چکا ہے-

اے طلقاء کے بيٹے (آزاد کردہ غلاموں کي اولاد) کيا يہ تيرا انصاف ہے کہ تو نے اپني مستورات اور لونڈيوں کو چادر اور چار ديواري کا تحفظ فراہم کر کے پردے ميں رکھا ہوا ہے- جبکہ رسول زاديوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے-تو نے مخدرات عصمت کي چادريں لوٹ ليںاور ان کي بے حرمتي کا مرتکب ہوا- تيرے حکم پر اشقياء نے رسول زاديوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرايا- تيرے حکم پر دشمنان خدا اہل بيت رسول (ص) کي پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم ميں لے آئے-اورلوگ رسول زاديوں کے کھلے سر ديکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہيں- اور دور و نزديک کے رہنے والے سب لوگ ان کي طرف نظريں اٹھا اٹھا کر ديکھ رہے ہيں- اور ہر شريف و کمينے کي نگاہيں ان پاک بي بيوں کے ننگے سروں پر جمي ہيں-

آج رسول زاديوں کے ساتھ ہمدردي کرنے والا کوئي نہيں ہے-

آج ان قيدي مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہيں ہيں جو اِن کي سرپرستي کريں-

آج آلِ محمد کا معين و مددگار کوئي نہيں ہے-

اس شخص سے بھلائي کي توقع ہي کيا ہو سکتي ہے جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہو جس کي بزرگ خاتون (يزيد کي دادي) نے پاکيزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک ديا-

اور اس شخص سے انصاف کي کيا اميد ہو سکتي ہے جس کا گوشت پوست شہيدوں کے خون سے بنا ہو-

وہ شخص کس طرح ہم اہل بيت پر مظالم ڈھانے ميں کمي کر

سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کينے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہميں ديکھتا ہے-

اے يزيد ! کيا تجھے شرم نہيں آتي کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دينے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا يہ کہہ رہا ہے کہ ميرے اسلاف اگر موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائيں ديتے ہوئے کہتے کہ اے يزيد تيرے ہاتھ شل نہ ہوں-

اے يزيد ! کيا تجھے حيا نہيں آتي کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسين ابن علي (ع) کے دندان مبارک پر چھڑي مار کر ان کي بے ادبي کر رہا ہے-

اے يزيد تو کيوں نہ خوش ہو اور فخر و مباہات کے قصيدے پڑھے کيونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذريعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر ديا ہے-اور شجرہ طيبہ کي جڑيں کاٹنے کے گھناۆنے جرم کا مرتکب ہوا ہے-

تو نے اولاد رسول (ص) کے خون ميں اپنے ہاتھ رنگين کئے ہيں-

تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تيغ کيا ہے- جن کي عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمين کے گوشے گوشے کو منور کيے ہوئے ہيں-

آج تو آلِ رسول (ص) کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہيں اپني فتح کے گيت سنانے ميں منہمک ہے-

تو عنقريب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ مل جائے گا- اور اُس واقت اپني گفتار و کردار پر پشيمان ہو کر يہ آرزو کرے گا کہ کاش ميرے ہاتھ شل ہو جاتے اور ميري زبان بولنے سے عاجز ہوتي-اور ميں نے جو کچھ کيا اور کہا اس سے ميں باز رہتا-

اس کے بعد حضرت زينب نے آسمان کي طرف منہ کر بارگاہِ الٰہي ميں عرض کي !

اے ہمارے کردگارِ حق تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہميں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنت البقیع اور ا س میں د فن اسلامی شخصیات
واقعہ قرطاس
عام الحزن
حضرت ام کلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ...
حضرت مسلم(ع) کون تھے؟
حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
میثاقِ مدینہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
حق کیا هے اور کس طرح حق کی پیروی کی جا سکتی هے؟
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ

 
user comment