ایران میں عید نوروز کو قومی تہوار اور زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے پر بہار کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے، اور عید طبیعت سمجھا جاتا ہے جن میں تمام مکاتب فکر شامل نظر آتے ہیں، طبیعت میں آنے والی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو بہار انسان کے مزاج میں خوشی کی کیفیت لاتی ہے، ہر شی تروتازہ اور ہری بھری ہوجاتی ہے، بلبلوں کا چہچہانا بہار کی آمد کی خبر دیتا ہے، پس انسانی فطرت میں خوشی کی لہر کا اظہار نوروز ہے جبکہ ہندوستان اور پاکستان میں بعض شیعہ مکتب فکر کے سادہ لوح افراد اسکو مذہبی تہوار سمجھتے ہیں، جبکہ بعض شدت پسند، تنگ نظر، عادت سے عاجز، نام نہاد اسلامی ٹھیکیدار اسکو بدعت، کفر اور دیگر تمغوں سے نوازتے ہیں۔
ہمدان یونیورسٹی کے استاد محترم امامی فر صاحب نے ایک محقق کے عنوان سے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی جسے اردو میں ترجمہ کر کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے امید ہے یہ مقالہ قارئین کی معلومات میں اضافہ اور حقیقی مطلب تک پہچنے کے لئے مفید ہوگا۔
سب سے پہلے ہم اس پہلو پر گفتگو کرتے ہیں کہ خود عید کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
ہم ایک عام قانون کی طرف اشارہ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم اور ملت کسی اہم واقعہ یا حادثہ جو انکے لیئے اہمیت کا حامل ہو بعنوان آغاز سال قرار دیتے ہیں، اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور اسکو ایک Event قرار دیتے ہیں، بعنوان مثال عیسائی حضرت عیسی کی پیدائش کے دن کو سال کا آغاز قرار دیتے ہیں، مسلمان ہجرت پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آغاز اسلامی سال قرار دیتے ہیں اور ایرانی شمسی نظام یعنی مین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال آغاز شمار کرتے ہیں، ایرانی اس آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں جیسے تاجیکستان، افغانستان، آذربائیجان، اور ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو Event کے طور پر مناتے ہیں۔
مشہور تاریخ دان یعقوبی رقم فرماتے ہیں کہ: انکے سال کا پہلا دن نوروز کے نام سے ہے ، جس میں آب نیسان بھی برستا ہے یہ اس وقت ہے جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور یہ دن ایرانیوں کے لئے بڑی عید ہے۔ البتہ اس بات کو ایرانیوں کا حسن سلیقہ سمجھنا چاہیے کہ بہار کو سال کےآغاز کے لئے انتخاب کیا جس میں نباتات دوبارہ تروتازہ ہوتے ہیں اور ہریالی کا آغا ہوتا ہے، جس طرح کچھ ممالک عیسوی سال کو جشن کے طور پر مناتے ہیں۔
نوروز کے بارے میں اسلام کی نظر کیا ہے؟
کسی بات کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام میں دو طرح کے احکامات ہوتے ہیں:
احکام تاسیسی: ان احکام کو کہا جاتا ہے اسلام سے پہلے نہیں تھے یعنی لوگوں کا اس سے پہلے سابقہ نہیں تھا اور اسلام نے آکر انہیں بنیادی شک عطا کی ہے۔
احکام امضائی: ان احکام کو کہا جاتا ہے جو اسلام سے پہلے تھے یعنی لوگ اس کو انجام دیتے تھے اور کسی اسلامی قانون کے مخالف نہیں تھے اور اسلام نے یا تو انکو مورد تائید قرار دیا اس لئے بہت سے احکام، مختلف ادیان میں یا حد اقل فطرت انسانی میں ایک جیسے ہیں او اسلام نے مختلف کلچرز ، مختلف علوم، آداب و رسوم کے سامنے ان اصل قوانین کی پیروی کی ہے۔
جس زمانے میں اسلام نے فتوحات کے ذریعہ پھیلنا شروع کیا اس وقت مختلف قومی ثقافتوں اور رسم و رواج سے سامنا ہوا ،اسلام اِن موارد سے دو طرح پیش آیا: وہ آداب و رسوم جو اسلامی اہداف اور اصول کے مخالف تھے ان سے شدت کے ساتھ پیش آیا۔
وہ آداب و رسوم جو اسلامی اہداف و اصول کے برخلاف نہیں تھے اور نہ ہیں اس صورت میں یا اسکی تائید کی یا انکے مقابلے میں مخالفانہ رویہ اختیار نہیں کیا یعنی خاموشی اختیار کی۔
نوروز بھی ان قواعد اور قانون کلی سے خالی نہیں، نوروز کے مثبت پہلو بھی تھے اور منفی بھی، صلہ رحمی، دوسروں کو تحفے دینا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ وہ امور تھے جو مثبت اور اسلام میں قابل تحسین ہیں اور خود ہر ایک موضوع پر احادیث نبوی ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کو رغبت دلائی گئی ہے ۔ کچھ منفی پہلو بھی ہیں جیسے علم کی کمی کی بنا پر اس کو مذہبی تہوار سمجھنا، بعض لوگوں کا اسراف کرنا ، اس دن گناہوں کا ارتکاب کرنا جیسے موسیقی وغیرہ جو ہر وقت اور ہر موقعہ پر حرام ہیں اور کوئی مسلمان ان امور کو انجام دینے کی اجازت نہیں دے گا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر یا قوم و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔
کیا نوروز کا تعلق کسی ایک مکتب فکر سے ہے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعاً نوروز کسی ایک مکتب فکر کی عید ہے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اور اس موضوع پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اس تہوار کا مذہب اور کسی عقیدے یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران جہاں اس عید کا آغاز ہوا، وہاں اس وقت بھی شیعہ اور سنی سب مل کر نوروز کو قومی عید کے طور پر مناتے ہیں، ایران کے علاوہ دوسرے ملکوں جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان، آذربائیجان جن میں اکثریت اہل سنت کی ہے وہ بھی عید نوروز کو روایتی طور پر مناتے ہیں ان کے لئے ہم کیا رائے قائم کرسکتے ہیں؟ اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بالکل اس تہوار کو نہیں منایا جاتا جبکہ دونوں مکتب فکر وہاں زندگی گزارتے ہیں جیسے کویت، لبنان اور عراق وغیرہ لہذا کسی خاص گروہ سے نسبت دینے کا یہ مطلب ہے کہ دشمن اس موضوع کے ذریعے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے، اوراب دشمن کا نیا طریقہ اسلامی لباس اور لبادہ میں نام نہاد مفتیوں کے فتووں کے ذریعے مسلمانوں میں دوری ایجاد کرنا ہے، لیکن الحمدللہ اب تمام مسلمان ان بیوقوف شدت پسند مولویوں کو جانتے ہیں جو دشمن کے آلہ کار ہیں اور خصوصا پاکستان میں سرگرم عمل ہیں تاکہ اس اسلامی ملک میں بدامنی ایجاد کرکے کافروں کو بہانہ فراہم کریں۔
مذہبی تہوار یا رسوم ہر مکتب فکر میں ہر جگہ مشترکہ طور پر منائی جاتی ہیں جیسے شیعہ اثنا عشری دنیا کے جس خطہ میں ہو امام حسین ؑ کا غم یا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے دن کو مناتے ہیں۔
امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے نوروز کو مجوسیوں کی سنت اور اسکے احیاء کو حرام قرار دیا۔ دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ عراق میں میں امیر المومنین حضرت علی ؑ کے لئے فالودہ لایا گیا۔ امام ؑ نے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ کہا گیا نوروز کی مناسبت سے ہے۔ امام ؑ نے فرمایا ہمارے لئے ہر دن نوروز ہے یہ نوروز سے متعلق امام علی ؑ کی بے اعتنائی کی دلیل ہے یعنی امام علیؑ کی نظر میں دوسرے دنوں اور اس نوروز میں کوئی فرق نہیں۔
اسی طرح دوسری روایات میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے نوروز کے دن تحفے لینے کے بارے میں سوال کیا گیا: امام ؑ نے سوال کیا کیا تحفہ دینے والا اور لینے والا دونوں نماز پڑھتے ہیں؟ جواب دیا گیا: جی ہاں، امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: پھر کوئی اشکال نہیں۔ اس حدیث سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ امام ؑ نوروز کو کوئی مذہبی حیثیت نہیں دے رہے بلکہ انکی نظر میں اہمیت ایمان کی ہے اور اسکی پہچان نماز سے ہوتی ہے۔
لیکن ہمیں عملی طور پر یہ نظر آتا ہے کہ کچھ لوگ نوروز کو مذہبی رنگ دیتے نظر آتے ہیں اور اسکو مقدس مانتے ہیں اسکی کیا وجہ ہے؟ تحقیق سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایک روایت ملتی ہے جو معلیٰ بن خنیس نے امام جعفر صادق ؑ سے نقل کی ہے امام ؑ نے اس دن کچھ حادثات کو ذکر کیا ہے جو اتفاقی طور پر نوروز سے مل گئے۔
پھر بھی بطور یقینی اسکو نوروز کی اہمیت پر حمل نہیں کرسکتے اسلئے کہ سال شمسی و قمری دونوں مطابق نہیں ہیں بلکہ کبھی ممکن ہے شب قدر ونوروز سے مل جائے اور کبھی کوئی اور اہم واقعہ جیسا کہ سال دھم ہجری میں 18 ذی الحجہ نوروز کے دن سے مل گئی یا ایک دو دن آگے پیچھے آئی کے شاید شیعوں کی توجہ نوروز کی طرف اس روایت کی وجہ سے ہو ، لیکن حقیقت میں شیعہ یوم غدیر کی اہمیت کے قائل ہیں نہ کہ نوروز کے ، اور ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث معلی میں جن واقعات کا ذکر ہوا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، شاید امامؑ کا ان امور سے متعلق ذکر کرنے کا ہدف لوگوں کے ذہنوں کو نورو ز سے دور کرنا اور دوسرے حوادث الہی کی جانب اشارہ کرنا ہے جو اس دن واقع ہوئے ہیں، کیونکہ امام ؑ عباسی خلفاء کے زمانے میں رہتے تھے جو ایرانیوں سے گہرے مراسم رکھتےتھے، جہاں تک اس دن غسل یا کوئی مستحب عبادی عمل بیان ہوا ہے تو اسکی بھی شاید یہی وجہ نوروز کا رخ موڑنا ہو۔
اسلام کے بعد نوروز کو اہمیت اور رواج دینے والے کون تھے؟
سب سے زیادہ بنو امیہ اور عباسی خلفاء نے اس دن کو رواج دینے میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ نوروز کے اہم رسم و رواج میں حکمرانوں کو تحفے دینا تھا اور دو سرے ایرانیوں سے بہتر مراسم حکمرانوں کی طاقت اور حمایت کے لئے بھی ضروری تھے ۔ بنی امیہ کے بعد بنی عباس کے خلفاء جو ایرانیوں کی مدد سے خلافت و حکومت پر پہنچے اور انکی حکومت میں ایرانی وزراء بھی تھے ایرانیوں سے حمایت کے اظہار کے لئے نوروز میں مکمل آزادی دی جاتی تاکہ ایرانیوں کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں، عباسیوں کی مرکزی حکومت کی کمزور ہونے کے بعد اسلامی ممالک کے ارد گرد مختلف ریاستیں قائم ہوئیں جن میں صفاری، سامانی، آل بویہ، غزنوی، سلجوقی، خوارزمی وغیرہ کی حکومتیں شامل تھیں یہ تمام کے تمام مذہب اور عقیدے کے اعتبار سے اپنے آپ کو بغداد کے حاکم اور خلیفہ کا تابع مانتی تھیں لیکن ہر حال میں ملی تعصب اور ایرانی ہونے کو مورد توجہ قرار دیتی تھیں اور ایرانی آثار اور سنتوں کی بھرپور کوشش کرتی تھیں جن میں سے ایک سنت عید نوروز ہے۔
شاہ جلال الدین ملکشاہ کے زمانے میں سلجوقی بادشاہ تھا عید نوروز کو سال کا آغاز قر ار دیا اور اس نے رسمی طور پر شمسی سال کو حکومتی سال قرار دیا ان حکومتوں میں سب سے زیادہ صفوی حکومت نے فارسی زبان اور انکے آئین کو زندہ کرنے رکھنے کی کوشش کی اسکے بعد ایرانی مقتدری جیسے سامانی جو ایران کے پرانی ثقافت، خراسان کی وجہ سے وجود میں آئے تھے انہوں نے بھی بہت سی پرانی سنتوں کو زندہ اور رائج کیا نوروز کو رائج کرنے کی دوسری وجہ آئین کی تدوین اور لوگوں سے خراج لینے کا مسئلہ ہے، خلفاء آئین اور قانون ایرانیوں سے لیتے تھے اصطخری کہتا ہے کہ ایرانی خلافت کے آئین کو وجود میں لانے والے ہیں اور ان حکومتوں کی آئینی اور سیاسی نظام میں تر قی ایرانیوں کی وجہ سے تھی۔ اور کیونکہ ایرانیوں کے آئین کی اصل کو ساسانیوں سے لیا گیا ہے لہذا مجبور تھے کہ ان تمام کاموں کو انجام دیں جو ان قوانین میں موجود تھے۔ ایران میں سال کا آغاز شمسی سال سے ہوتا تھا اور تمام امور کا آغازاسی دن سے ہوتا اور اسی طرح کھیتی باڑی کا آغاز اسی مہینہ سے ہوتا تھا لہذا حکومتی عہدیدار نوروز کو بہت اہمیت دیتے تھے ابوریحان بیرونی اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ: یہی شمسی سال ایران کے تحت رہنے والے اسلامی ممالک میں استعمال ہونے لگا اور فارسی نام اور مہینہ بھی انہی کے حساب سے گنے جانے لگے۔ نوروز کے زندہ رہنے کی تیسری وجہ کچھ افراد اور گروہ تھے جو مستقیماً اسلامی اور عربی ثقافت سے مقابلہ کرنے کے لئے یہ کام کرتے تھے یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے رہنے والی ایرانی رسم و رواج کو رائج کرکے لوگوں کو اسلامی ثقافت سے دور کیا جائے اور انکی توجہ اسلام سے پہلے والی رسوم کی طرف مشغول رکھی جائے مقامی حکومت کا وجود جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے اور کچھ انقلاب جیسے "باب خردمین" اور "نھضت شعوبیہ " کا نام ان سلسلوں میں شامل ہے نمونہ کے طور رپر بے دین شہنشاہ رضا شاہ کے 2500 سالہ شہنشاہی جشن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بھی بہت سے لوگ مومن مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر ایرانی متعصب افراد جن میں زرتشت اور یہودی وغیرہ شامل ہیں یہ کوشش کررہے ہیں کہ سیزدہ بدر اور چہار شنبہ سوری جیسی رسموں کو باقی رکھا جائے اسلام مخالف میڈیا بھی (جیسے امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل) اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کرکے ان تہواروں کو رواج دینے کے لیئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن اب باشعور مسلمان تبلیغاتی جنگ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
مجوسی کون ہیں؟
(إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ الَّذینَ هادُوا وَ الصَّابِئینَ وَ النَّصارى وَ الْمَجُوسَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللَّهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلى کُلِّ شَیْءٍ شَهیدٌ (الحج/17)
لفط مجوس قرآن میں ایک مرتبہ ذکر ہوا ہے، اور آیت میں مجوس کو ایمان والوں کی صف میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مقابل میں دوسرا گروہ مشرکین کا بیان ہوا، ایسا آیت کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجوس اہل کتاب تھے اور اہل دین و آئین الہی تھے جسکی وجہ سے انکو ایمان والوں کی صف میں شمار کیاگیا ہے، اسلامی روایات میں مجوسیوں کو انبیاء کا پیروکار قرار دیا گیا ہے اور بعد میں یہ الہی تعلیمات سے شرک و انحراف کا شکار ہوگئے۔
مکہ کے مشرکین نے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تقاضا کیا کہ ان سے جزیہ لے کر انہیں بت پرستی کی اجازت دے دیں پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ نہیں لیتا؟ مشرکین نے جوابی خط لکھا اور کہا: آپ کس طرح یہ کہتے ہیں جبکہ آپ نے منطقہ ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ان المجوس کان لهم نبى فقتلوه و کتاب احرقوه
مجوسیوں کے پاس خدا کا نبی بھیجا گیا انہوں نے نبی کو شہید کردیا اور آسمانی کتاب کو جلادیا، ایک اور اصبغ ابن نباتہ حضرت علی ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: سَلُونِی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِی، مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ میں تم سے رخصت ہوجاؤں:
فَقَامَ إِلَیْهِ الْأَشْعَثُ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ کَیْفَ تُؤْخَذُ الْجِزْیَةُ مِنَ الْمَجُوسِ وَ لَمْ یُنْزَلْ عَلَیْهِمْ کِتَابٌ وَ لَمْ یُبْعَثْ إِلَیْهِمْ نَبِیٌّ فَقَالَ بَلَى یَا أَشْعَثُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ کِتَاباً وَ بَعَثَ إِلَیْهِمْ نَبِیّا، اشعث ابن قیس کھڑا ہوا اور کہا مجوسیوں سے کس طرح جزیہ وصول کیا جاسکتا ہے جبکہ ان پر نہ ہی نبی آیا اور نہ ہی کوئی کتاب؟
حضرت علی ؑ نے جواب دیا: خدا نے ان پر نبی بھی بھیجا اور کتاب بھی، اسی طرح ایک حدیث میں امام سجاد، علی ابن الحسین ؑ سے ملتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ ع أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ سَنُّوا بِهِمْ سُنَّةَ أَهْلِ الْکِتَابِ یَعْنِی الْمَجُوسَ
پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ان (مجوسیوں) سے اہل کتاب کے قانون کے مطابق رویہ رکھو۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا کہ ایرانی جو مجوسی تھے دراصل دین الہی نبی اور کتاب کا حامل تھے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ان میں انحرافات پیدا ہوئے اور آتش پرست بن گئے، لہذا انکے عقائد اور رسوم کے مطالعے کے وقت اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے۔
نوروز کی حقیقت کیا ہے؟
نوروز سے متعلق کئی اقوال تاریخ میں ملتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہم اس تحریر کے اختصار کے خاطر صرف انکے بارے میں اشارے کررہے ہیں:
ایرانی آئین کی کتاب میں یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ اس تہوار کو وہ دن مانتے ہیں جس دن "اھورا مزدا" (دنیا کے خدا) کو پیدا کیا اس دن کو اسی وجہ سے مبارک مانتے ہیں ایرانی بادشاہ بھی اس دن کو متبرک سمجھتے ہیں اور اپنی مسند نشینی کا آغاز اسی دن سے کرتے تھے۔ زرتشت کو کتاب اور احادیث کی روشنی میں اہل کتاب میں سے مانا گیا ہے اور بعید نہیں کہ نوروز انکے اصل اعتقادات میں سے ہو یعنی قرآن کی زبان میں ایام اللہ ہو اور زمانے کے بدلنے کے ساتھ تحریفات کردیا گیا ہو جس طرح تاریخ میں ملتا ہے کہ کعبہ توحید پرستوں کی عبادت کا مرکز تھا لیکن دور دراز کے رہنے والوں کی لئے مشقت کا سبب ہونے کی بنا پر لوگ وہاں سے پتھر لے جاتے اور اپنے اپنے علاقوں میں انکی پرستش شروع کردی گئی اور یہیں سے شرک اور بت پرستوں کی بنیاد پڑی۔
اس سلسلے میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا گیا ہے: إِنَّ رَبَّکُمُ اللَّهُ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّهارَ یَطْلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتٍ بِأَمْرِهِ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ تَبارَکَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمینَ (اعراف/54)
ترجمہ: بیشک تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔۔۔۔ اسی طرح سے توریت میں بھی آسمان اور زمین کی خلقت کے سلسلے میں چھ دن کا ذکر ملتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوروز بھی چھ دن پر مشتمل ہوتی ہے، لہذا ممکن ہے کہ اس دین الہی میں آسمان اور زمین کی خلقت کو ایک Event کے طور پر منایا جاتا ہو اور زمانہ گزرنے کے ساتھ اس میں تحریف ہوگئی ہو۔
یاقوت حموی نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں: حمدان بن سحت جرجانی نے کہا کہ ہم عید نوروز میں ذوالریاستین (فضل بن سہل) کی محفل میں تھے کہ عمر بن رستمی (جو عباسی خلیفہ مامون کا کمانڈر تھا) نجومیوں سے عید نوروز کے بارے میں سوال کیا: کہا گیا: پرانے زمانے دجلہ میں کے آس پاس ایک قوم وبا ئی مرض کا شکار ہوگئی گرچہ انہوں نے اس علاقے سے کوچ کرلیا لیکن مرض کی وجہ سے وہ گویا وہ مرگئے ،خداوند عالم نے اول فروردین (شمسی مہینہ) میں بارش نازل کی جس کی وجہ سے انہیں نئی زندگی نصیب ہوئی اسی مناسبت نے مقامی بادشاہ نے اس دن کا نام نوروز رکھ دیا، جب عباسی خلیفہ مامون کو اس بات کی خبر دی گئی تو اس نے کہا یہ مطلب قرآن میں بھی موجود ہے، اور اس آیت کی تلاوت کی: أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذینَ خَرَجُوا مِنْ دِیارِهِمْ وَ هُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْیاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لا یَشْکُرُونَ.
بطور اختصار نوروز کے متعلق جو اطلاعات تاریخ سے ملتی ہیں ان سے کسی یقینی نظریہ کا حصول ممکن نہیں اور قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ:
انَّ الظَنَّ لا یُغۡنِی مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئاً ، آج کل جس تہوار کو نوروز کے نام سے منایا جاتا ہے گرچہ اس کا آغاز ایرانی قدیم مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس زمانے میں اسکو بہار کے آغاز میں ملی Event کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کسی مذہبی عید کے طور پر اور نہ ہی کوئی ایسے خلاف شریعت امور اس خوشی میں دیکھنے میں ملتے ہیں جس کے خلاف کوئی شرعی دلیل ہو۔
والله اعلم بحقیقة الامور وصلی الله علی محمدوآله واصحابه المنتجبین والسلام علی من اتبع الهدی
تالیف : علی امامی فر استاد ہمدان یونیورسٹی ایران
ترجمہ: سید ارتضی حسن رضوی