تھامس مور نے اپني کتاب "يوٹوپيا" سنہ 1516 ميں شائع کي اور گرد و پيش کے حالات سے متاثر ہوکر آئيڈيل معاشرے کي تشکيل کے لئے تجويز دي کہ خصوصي ملکيت، انحصار پسندي اور ستمگر قوانين اور فوجي طاقت کو منسوخ ہونا چاہئے- (3)
جيسا کہ معلوم ہوتا ہے کہ يوٹوپيا اور آئيڈيل معاشرے کے حامي ظلم اور عدم مساوات کي نفي کے قائل ہيں ليکن ہر ايک نے اپنے ارد گرد کے حالات اور عصري تقاضوں کے پيش نظر اس مسئلے کو ايک خاص زاويئے سے ديکھا ہے-
مثال کے طور پر افلاطون ـ جو عدل کے موضوع پر زيادہ تاکيد کرتا ہے ـ نے مدينہ فاضلہ کو تين طبقات ميں تقسيم کيا ہے:
قائدين و سرپرست؛
سپاہي؛ اور
عوامل-
وہ سياست کو سرپرستوں کا موروثي حق سمجھتا ہے اور کہتا ہے: حکام کو حکماء اور فلاسفہ ميں سے ہونا چاہئے اور اشراف کي حکومت کا کوئي مخالف نہيں ہونا چاہئے- افلاطون کے خيال ميں عدل مساوات کے مترادف نہيں ہے بلکہ عدل سے مراد يہ ہے کہ ہر شخص اپنے کام سے کام رکھيں اور دوسروں کے کام ميں مداخلت نہ کرے- (4)
يوٹوپيا کے منصوبہ سازوں کي آراء کا مطالعہ کرکے ايک خيالي شہر کي خصوصيات کو شايد يوں ترسيم کيا جاسکے:
1- توقف:
يعني يوٹوپيا رکنے اور تاريخ کي حرکت کے اختتام کا نقطہ ہے کيونکہ انساني معاشري فردي اور اجتماعي حوالے سے کمال اور فلاح و رستگاري تک پہنچتا ہے کيونکہ يوٹوپيا ايک معاشرے کے کمال مطلق کي تصوير ہے- (5)
2- مساوات:
آئيڈيل معاشرے کے زيادہ تر نظريات ميں مساوات ايک مسلمہ اصول ہے، افلاطون مساوات کو اپني آئيڈيل حکومت کي انتہا سمجھتا ہے (6) تھامس مور اور دوسري مغربي يوٹوپياز ميں بھي برابري اور مساوات اصول کي حيثيت رکھتي ہے- (7)
3- ہمآہنگي:
يوٹوپيا کے نظريات ميں ہمآہنگي مساوات پر بھي مقدم ہے- (8)
اب جبکہ ہم اختصار کے ساتھ يوٹوپيا کے مفکرين اور نظريات سے روشناس ہوئے ہيں تو اب ديکھنا يہ ہے کہ حضرت مہدي (عج) کا آئيڈيل معاشرہ کيسا ہے؟ موعود اسلام کا مدينہ فاضلہ ـ جس کے قيام کا وعدہ قرآن اور حديث ميں ديا گيا ہے ـ ان خيالي شہروں اور معاشروں سے مختلف ہے کيونکہ اسلامي مدينہ فاضلہ کي خصوصيات ـ جو ظہور مہدي (عج) کے بعد معرض وجود ميں آئے گا ـ کچھ ايسي ہيں جو اس کو دوسرے مدينہ ہائے فاضلہ سے ممتاز کرتي ہيں-
..................
3- حجت الله اصيل، آرمانشهر در انديشة ايراني، ص 28-
4- رادمنش، عزت الله، قرآن، جامعه شناسي، اتوپيا، ص 403-
5- اصيل حجت الله، آرمانشهر در انديشه ايراني، ص 32-
6- وہي ماخذ-
7- وہي ماخذ ص 33-
8- وہي ماخذ-