اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حدیث غدیر

حدیث غدیر

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیتدیتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیں؛وہکبھی تو اس حدیث کی سند کوزیر سوال لاتے ہیں اور کبھی سند کو قابل قبولمانتے ہوئے، اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں ! اس حدیث کی حقیقت کو ظاہرکرنے کے لئے ضروری ہے کہ سند اور دلالت دونوں کے ہی بارے میں معتبر حوالوںکے ذریعہ بات کی جائے ۔ غدیر خم کا منظر : ۱۰ ھجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کےاعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنےکا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ( ۱) سے تینمیل کے فاصلے پر رابغ [2] نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پرجبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا [3] اے رسول! اسپیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہےاور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہآپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہنے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جوپوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوںکی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اسسے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کےسامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معینکریں؟ لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہپیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہرکا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کاایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئےایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے کجاوںسے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔

غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :

حمد وثناءاللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتےہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اسا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہیدیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اوررسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہواتمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں۔ اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نےتمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہمگواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کوپوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایکہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانیزندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اسکے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارےدرمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد،میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟ اس وقت ایک شخص کھڑاہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جسکا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرےمیری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرےجدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور اندونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اسکے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکیبغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی سے سب لوگوں سے متعرف کرایا۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کامولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “ ہاں اےلوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہواحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہحیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، [4] اے اللہتو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمنرکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پرغضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کورسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں [5] اوپر لکھے خطبہ [6] کواگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلامکی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریں گے )

حدیث غدیر کی جاودانی :

اللہ کا حکیمانہ ارادہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایکزندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اورلوگوںکے دل اس کی طرفجذب ہوتے رہیں۔اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کیکتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب، اس کو واعظ و نصیحتکی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میںبیان کر تے رہیں۔ اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبیذوق ،تخیل اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کی عظمت کو چار چاند لگائیں اورمختلف زبانوں میں مختلف انداز سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار چھوڑیں (مرحوم علامہ امینیۺ نے مختلف صدیوں میں غدیر کے سلسلہ میں کہے گئے اہماشعار کو شاعر کی زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین اسلامی منابع سے نقلکرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو کہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ،بیان کیا ہے ۔) دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسے تاریخی واقعاتہیں جو غدیر کی طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفیوں، خطیبوں، شاعروں،مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں ۔ اس حدیث کے جاودانیہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجودہیں [7] لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارویں ذیالحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاںتک کہ ابن خلکان، المستعلی بن المستنصرکے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میںعید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے ،لوگوں نے اس کی بیعتکی [8] اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں جب ذی الحجہماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میںوہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ [9] دلچسپ یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عیدغدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھےاور اہتمام کرتے تھے [10] صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دنکو عید کا دن نہیں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم ثعلبی نے بھیشب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے [11] اساسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میںہیرکھی جا چکی تھی، کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواجکو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میںان کو مبارکباد دو ۔ زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہوزبیر مہاجرین میں سے وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کےہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد دی۔ بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغربتک چلتا رہا


راویان حدیث :

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ [13] البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سےصرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہاہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افرادکا ذکر ملتا ہے ۔ دوسر صدی ، جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے اس میں ۸۹/ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سوساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اورعلماء اہل سنتکی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔ اسگروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کیسند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ عجیب بات تویہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیثالغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہوآلہ وسلم سے نقلکیا ۔ ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو۱۰۵افرادسے نقل کیا ہے ۔ ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نامسے مشہور ہے انھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔

اہل سنت کےمشہورعلماء اور حدیث غدیر :

احمد بن حنبل شیبانی ،ابن حجر عسقلانی،جزریشافعی،ابوسعید سجستانی،امیر محمد یمنی،نسائی،ابو الاعلاء ہمدانی اور ابوالعرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں [14] کے ساتھ نقل کیا ہے۔ شیعہعلماء نے بھی اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھیں ہیںاور اہل سنت کی مشہور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے ،جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف مرحوم علامہ امینیۺ کے قلم کاشاہکار ہے۔ (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہکیاگیا ہے (. بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے [15] آج میں نے تمھارےدین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئےدین اسلام کو پسند کیا ۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےتکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اورنعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سےخوشنود ہوا ۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سےنیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:” جاؤ خیمے میںجاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ہوئے مبارکبادپیش کریں۔ سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کومبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔ حسان بن ثابت نے موقع سےفائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایکقصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہےہیں : فقال لہ قم یا علی فاننی فانی رضیتک من بعدی اماما ًوہادیاً فمن کنتمولاہ فہٰذا ولیہ فکونو لہ اتباع صدق موالیا یعنی علی علیہ السلام سےفرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت وراہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔ “ جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علیمولاہیں۔ تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔ [16] یہ حدیثعلی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیلہے ۔ یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جوکہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی) [17] اور عثمان کی خلافت کےزمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔ [18] اس کےعلاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہالسلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوںکے سامنے، اسی حدیث سے استدلالکیا ۔ [19] مولیٰ سے کیا مراد ہے ؟ یہاں پر سب سے اہم مسئلہ مولیٰ کے معنیکی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواہی کا نشانہ بنی ہوئہے۔کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کیسندکے قطعی ہونے میں کوئی شک و تردید باقی نہیںرہ جاتی، لہٰذا بہانہتراشنے والے افراد اس حدیث کے معنی و مفہوم میں شک و تردید پیدا کرنے میںلگ گئے، خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں ،مگر اس میں بھی کامیاب نہہوسکے ۔ صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثرمقامات پر ایک سے زیادہ معنی نہیں دیتا اور وہ ”اولویت اور شائستگی “ہےدوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی ” سرپرستی “ ہے قرآن میں بہت سی آیات میںلفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں استعمال ہواہے ۔ قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ہوا ہے جن میں سے دسمقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ظاہر ہے کہ اللہ کی مولائیتاس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے ۔لفظ مولیٰ بہت کم مقامات پردوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنیادپر مولیٰ کے معنی میں درجہٴ اولمیں اولیٰ، ہونے میںکوئی شک و تردید نہیں کرنی چاہئے ۔حدیث غدیر میںبھیلفظ مولا اولویت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کےساتھ بہت سے ایسے قرائن و شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاںپر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے ۔ اس دعوے کے دلائل : فرض کروکہلفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں ،لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیثغدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک وشبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔


دلیل اول :

جیسا کہ ہم نے عرضکیا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لےکر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبانکے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیااور کہا : فقال لہ قم یا علی فاننی فانی رضیتک من بعدی اماما ًوہادیاً [20] یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سےفرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میںمنتخب کرلیا ہے ۔ اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہوآلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کوامامت، پیشوای ،ہدایت اور امت کیرہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اور یہ شاعر عربکے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعرحسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے، بلکہ اسکے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء وادباء تھےاور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے، انھوں نے بھی اس لفظ مو;لا سے وہیمعنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔


دوسری دلیل :

حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کےبارے میں یہ فرمایاکہ واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم [21] یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا۔ امام سے بہتر کون شخص ہے، جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمالکیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمامافراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرامعنی نہیں سمجھا ؟


تیسریدلیل :

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ “ کہنے سےپہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پرتم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰبنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اسکے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جسکا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کوملانے کا ہدف کیاہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وہی علی علیہ السلام کے لئےبھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلامامام؛نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویتکی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔ [22] اگرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا،تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ انصاف سےکتنی دور ہوئ بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسپیغام کو نظرانداکردے اور تمام قرائن کی روشنی میں آنکھیں بند کرکےگذرجائے۔


چوتھی دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلامکے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارکرایا اور فرمایا ”الست تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنة حقوالنار حق ؟ یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبودنہیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟یہ سباقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علیعلیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے لئےلوگوں کے ذہن کو آمادہ کر رہے تھے ، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت وخلافت کا اقرار دین کے ان تین اصول کی مانندہے، جن کے سب معتقد ہیں؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائےگا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟


پانچویں دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کےشروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰفاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں [23] یہ جملہ اس بات کاعکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ رحلتکے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کےعلاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔ جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کےعلاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہفصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اورکیا ہو قرینہ ہو سکتا ہے۔


چھٹی دلیل :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے ” من کنت مولاہ“ جملے کے بعد فرمایا کہ :” اللہ اکبر علیٰاکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگرمولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی،مودت ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں؟سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ہو گیا [24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟


ساتویں دلیل :

اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر وعمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سےاترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہسلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظکے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولایومولیٰ کل مومن ومؤمنة“ [25] یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہصبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔ علی علیہ السلام نےاس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پراعلان نہیں ہوا تھا، اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئینئی بات نہیں تھی ۔


آٹھویں دلیل :

اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کیدوستی مراد تھی تو اس کے لئے تویہ ضروری نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمیمیں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلہکو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پرلوگوں کوبیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا ۔ کیا قرآن نے تمام مومنین کو ایک دوسرےکا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے [26] مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میںمومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟ اور علی علیہالسلام بھی اسی مومن سماج کی ایک فرد تھے، لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلانکی الگ سے کیا ضرورت تھی؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میںدوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظاماتکی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ یقینا کوئبہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگیمیں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔ اب آپفیصلہ کریں : اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا توکیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کوکس طرح مطمئن کریںگے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگرتمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی وصحیح نتیجوں پر پہونچیں گے اور یہ کام مسلمانوںکے مختلف فرقوں میں آپسیاتحاد میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکلاختیارکر لیگا۔
تین پر معنی حدیثیں : اس مقالہ کے آخر میں تین پر معنیحدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔ الف: حق کس کے ساتھ ہے؟ زوجات پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ”علی معالحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض “ علی حق کے ساتھ ہیں اورحق علی کے ساتھ ہے ،اور یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک کہحوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔ یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہورکتابوں میں موجود ہے۔ علامہ امینی نے ان کتابوں کا ذکر ا لغدیر کی تیسریجلد میں کیا ہے [27] اہل سنت کے مشہور مفسر قران، فخر رازی نے تفسیر کبیرمیں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ ” حضرت علی علیہ السلام بسم اللہکو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میںعلی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیلپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:” اللہمادرلحق مع علی حیث دار“ اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑے [28] قابلتوجہ ہے یہ حدیث جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکزہے ۔ پیمان برا دری : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کےایک مشہور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کیا ہے :” آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بینابی بکر و عمر، وفالان و فلان ، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بیناصحابک و لم تواخ بینی وبین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمانت اخی فی الدنیا والآخرة “ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا ،ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایااور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔اسی وقت حضرت علی علیہالسلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی آپ نے سب کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی کابھائی نہیں بنایا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” آپ دنیا وآخرت میں میرے بھائی ہیں “ اسی سے ملتا جلتا مضمون اہل سنت کی کتابوں میں۴۹جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔ [29] کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیا ن بھائ کا رشتہ اس بات کی دلیل نہیں ہےکہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟ کیا افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کےپاس جانا چاہئے؟ نجات کا تنہا ذریعہ : ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کرکہا کہ جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لےکہ میں ابوذر ہوں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہےکہ انھوں نے فرمایا : ” مثل اہلبیتی فیکم مصل سفینة نوح، من رکبہا نجیٰومن تخلف عنہا غرق “ تمھارے درمیان میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح جیسیہے، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائ اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔ [30] جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا، اس دن نوح علیہالسلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا ۔یہاںتک کہ وہاونچا پہاڑبھی ،جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ہواتھا نجاتنہ دے سکا۔ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق،ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہونے کے علاوہ نجات کاکوئی دوسرا راستہ ہے؟

حوالہ جات

 

[1] یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاںسے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔
[2] رابغ اب بھی مکہ اورمدینہ کے بیچ میں واقع ہے۔
[3] سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷
[4] پیغمبر اسلام صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعدمیں کوئی مغالطہ نہ ہو۔
[5] یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یافقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے ۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶( ب) تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷ ، ۲۰۸ ، ۴۴۸ ( ج)خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ ( د)المجملکبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ ( ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳۲ص/ ۱۳۵ ( ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ ( ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱( ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴ ،اور دیگر کتب۔
[6] اسخطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکیا ہے ۔جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱ ، ص/ ۸۴ ، ۸۸ ، ۱۱۸ ، ۱۱۹ ، ۱۵۲ ، ۳۳۲ ، ۲۸۱ ، ۳۳۱ ،اور۳۷۰( ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱ ،ص/ ۵۵ ، ۵۸ ( ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوریج/ ۳ ص/ ۱۱۸ ، ۶۱۳( ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ ( ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ ( و) تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴ ،اوردیگر کتب۔
[7] سورہ مائدہ آیہ/ ۳ ، ۶۷
[8] وفایة الآیان ۶۰/۱
[9] وفایةالآیان ج/ ۲ ص/ ۲۲۳
[10] ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵ ،الغدیر/ ۱ ،ص/ ۲۶۷
11] ثمار القبول اعیان/ ۱۱
[12] عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہلسنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶ ،ص/ ۱۰۴ ( ب) البدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ ( ج)الفصولالمہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ ( د)فرائد السمطین ،ج/ ۱ ،/ ۷۱ ،اسی طرح ابوبکر ،عمر،عثمان ،طلحہ و زبیرکی مبارکبادی کا ماجرا بھی بہت سی دوسر ی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسےمناقب علی بن ابی طالب ،تالیف :احمدبن محمد طبری ،الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰
[13] اس اہم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے
[14] سندوں کا یہ مجموعہ الغدیرکی پہلی جلد میں موجود ہے جو اہل سنت کی مشہور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے ۔
[15] سورہٴ مائدہ آیہ/ ۳
[16] حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئےہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی ،ص/ ۱۳۵ ،مقتل الحسین خوارزمی،ج/ ۱ ،ص/ ۴۷ ،فرائد السمطین ج/ ۱ ،ص/ ۷۳ و ۷۴ ،النور المشتعل ،ص/ ۵۶،المناقب کوثر ج/ ۱ ،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲
[17] یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں” مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمیحنفی ص/ ۲۱۷ ،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸ ،الدر النظیم ابن حاتم شامی،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵ ، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲ ، شرحنہج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱ ، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳ ،ص/ ۳۵،تفسیر طبری ج/ ۳ ص/ ۴۱۸ ،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment