اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

امام حسین علیہ السلام کی تحریک؛انقلاب یا صلح؟عماد الدّین باقی کے نظریے کا تنقیدی جائزہ(حصہ دوم)

امام حسین علیہ السلام کی تحریک؛انقلاب یا صلح؟عماد الدّین باقی کے نظریے کا تنقیدی جائزہ(حصہ دوم)

دوسرا مرحلہ: استاد عماد الدّین باقی کی تحقیق پر اشکالات و اعتراضات

اس مختصر خطاب کے دوسرے مرحلے میں ہم اس نظریے کا جواب دیں گے کہ جس کا بعض نے دفاع کرنے اور اس کی ترویج کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے اپنا نظریہ بنا لیا ہے۔ ابتدا میں اس پوری بحث پر ایک عمومی اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے بعض ثقافتی تحریکوں کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ہمیں ہر طرح کے طاقت کے استعمال کی فکر سے دوری اختیار کرنا چاہئیے ؟!اسلامی دنیا کے عمومی ثقافتی ماحول پر ایک فضا چھائی ہوئی ہے جو ہمیشہ طاقت کا استعمال ترک کرنے اور اس سے رہائی کی طرف دعوت دیتی ہے، اسلامی میراث کی اس طرح تصویر کشی کی جاتی ہے کہ یہ طاقت کے استعمال پر مبنی میراث ہے اور ہمیں اس سے ہر صورت میں چھٹکارا پانا ہے اس کا پہلا ذریعہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کا اس طرح مطالعہ کریں کہ یہ طاقت کے استعمال سے عاری تاریخ ہے اور یہ کہ نبی ص اور امام علی علیہ السلام  نے اپنی جنگوں میں جو کچھ کیا وہ طاقت کا استعمال نہیںتھا اور یہ کہ امام حسین علیہ السلام  نے اپنی تحریک میں جو کچھ انجام دیا اس میں طاقت کے استعمال نام کی کوئی چیز نہیں تھی، پس مفکّرین اور علما کا بہت بڑا طبقہ طاقت استعمال نہ کرنے پر مُصرّ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا کو بڑے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں اور ان مسائل کی تحقیق کرنے والے پر اس کے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ہر اس سرچشمے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے طاقت کا استعمالپھوٹتا ہے یا جس کی وجہ سے طاقت کا استعمالپوری امّت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔
لہٰذا انہوں نے اپنے تاریخ کے مطالعے کو اس اسلوب میں ڈھال لیا۔ امام حسین علیہ السلام  کی داستان ان موارد میں سے ایک ہے؛ یعنی چونکہ امام حسین علیہ السلام  کا واقعہ تشیّع کی ثقافت میں طاقت کے استعمال پر مبنی انقلاب کی بنیاد بنتا ہے لہٰذا ان کی خواہش یہ ہے کہ اس کے سرچشمے کو بالکل ہی خشک کر دیا جائے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس انقلاب کا کوئی سرچشمہ نہیں ہے۔ اسی لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اور سیاسی سرگرمیوں کے دوران طاقت کے استعمالسے دور رہیں۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ ان محترم محقّقین میں سے بعض جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں (اور شاید ان کے مخالفین کو بھی یہ مسئلہ ہو) تو وہ زمانہ حاضر کی مشکلات کو بھی خود تاریخ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، میں جلدی جلدی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں:


أ۔ جب انہیں کئی اسلامی ملکوں میں سرگرم اسلامی تحریکوں سے مسئلہ ہوتا ہے اور دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی ممالک میں اسلامی تحریک کی بنیاد پردہ ہے تو حجاب کے تفکّر کو ختم کرنے کا مطلب اسلامی تحریک کے سیاسی وجود کو کمزور کرنا ہو گا، لہٰذا ان میں سے بعض واشگاف الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ پردہ تو اسلامی تحریک کا پیش کردہ ایک سیاسی منشور ہے اور اس کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے۔


ب۔ جب انہیں فقیہ کی حکومت سے مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ اختلاف رکھنے والے اس مکتبہ فکر کے ساتھ حساب برابر کرنے کی خاطر امامت کے تفکّر کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے جیسا کہ بعض محقّقین کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ انہوں نے نیابت امام علیہ السلام  کے تفکّر کو جڑ سے اکھیڑنے کیلئے امامت کے تفکر کا ہی قلع قمع کر دیا۔


ج۔ جب انہیں دینی مرجعیت کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اس موضوع کے سلسلے میں دوسرے فریق کے کردار کو بے اثر کرنے کی غرض سے مسئلہ اجتہاد و تقلید میں نظر ثانی کرنے لگتا ہے۔
بلا شبہہ ہمارے بعض محترم محقّقین کو دینی حکومت اور سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی نفوذ کے حامل انقلابی دینی طرز تفکّر کے ساتھ مسئلہ ہے لہٰذا انہوں نے اس موجودہ زمانے میں اس سیاسی اور اسلامی تحریک  کے شرعی جواز کے ایک اہم ترین سرچشمے (یعنی انقلابی طرز تفکّر) کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ٹھان لی ہے کیونکہ انہیں احساس ہو چکا ہے کہ موجودہ اسلامی سیاسی تحریک کا سرچشمہ مزاحمت، ٹکراؤ، انقلاب، قربانی اور خون دینا ہے لہٰذا کوشش یہ ہے کہ تاریخ، دینی تفکّر یا دینی مسائل میں نظر ثانی کر کے اس اسلامی سیاسی منشور کا قلع قمع کر دیا جائے اور پھر اس کے ذریعے اس دینی تفکّر سے استفادہ کرنے والے گروہ کے ساتھ بھی حساب صاف کیا جائے۔ [3]
اور یہ موضوع انتہائی اہم موضوعات میں سے ہے کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان میں سے بعض افکار نے سیاسی تنازعات کے تناظر میں جنم لیا اور ان سیاسی تنازعات کی وجہ سے مخالفین کے کام کی مشروعیت کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن واضح ہے  کہ صرف اس بنیاد پر ان افکار کو غیر مشروع قرار نہیں دیا جا سکتا اور امور کا مطالعہ کرنے میں انہیں نادرست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (یہ نتیجہ ان افکار کے جواز کو منسوخ نہیں کر رہا اور نہ ہی امور کے مطالعے میں انہیں غیر صائب قرار دے رہا ہے چونکہ ہم یہاں ان کی صحت یا خطا سے متعلق بات نہیں کر رہے، یہ ابھی تک وضاحت کی جا رہی ہے)
اس تمہیدی اعتراض کے بعد ہم اس نظریے کے بنیادی عناصر کی طرف پلٹتے ہیں کہ جو امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام  کے موقف اور روش کے مابین فرق کو مٹانے اور امام حسین علیہ السلام  کی تحریک سے طاقت کے استعمالاور انقلاب کا تصوّر ختم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہاں کئی اشکالات ہیں:

پہلا اشکال:

روش کا اشکال ہے کیونکہ محترم محقّق اور "جدّت پسندانہ تنقید" (اگر یہ تعبیر درست ہو) کے مکتب کی طرف رجحان رکھنے والے دوسرے محقّقین دینی تفکّر میں تاریخیت (HISTORICISM) پر مکمّل یقین رکھتے ہیں، تاریخیت سے مراد یہ ہے کہ زمانی اور مکانی حالات موقف، آراء اور افکار کے اختلاف کا موجب بنتے ہیں۔ مثلا اس گروہ کی اس چیز کی طرف ہمیشہ توجّہ رہی ہے کہ مثال کے طور پر اگر انسان کو کسی خاص فقہی حکم کا سامنا ہو کہ جو زمانہ حاضر کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ کہتا ہے : یہ فقہی حکم اُسی زمانے کے ساتھ تناسب رکھتا ہے اور لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کسی خاص زمانے یا کسی خاص جگہ یا خاص حالات میں مشکل کو حل کرنے کیلئے صادر فرمایا ہے، اسی وجہ سے یہ حکم زمانہ حاضر کو اس طریقے سے مخاطب نہیں کرتا جیسے ماضی کو کرتا ہے۔
یہ طرز تفکّر موجود ہے اور یہ بذات خود باطل نہیں ہے بلکہ میں نے خود متعدّد مقامات پر اس کا دفاع کیا ہے لیکن فی الحال ہماری گفتگو اس مقام میں اس روش سے استفادہ کرنے کے بارے میں ہے ورنہ اصلِ تفکّر کے تو بعض مسلمان فقہاء بھی قائل ہیں۔
میرے لیے عجیب یہ ہے کہ محترم محقّق نے محل بحث موضوع کو جس ذہنیّت کے ساتھ چھیڑا ہے اس کا تاریخ سے مربوط اس تفکّر کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے یعنی بجائے اس کے کہ وہ تاریخ کی دو مختلف حقیقتوں کا مطالعہ کرتے کہ جن میں سے ایک میں دو متحارب شخصیتوں کے درمیان صلح ہوئی اور دوسری میں تاریخی جنگ اور قتل عام ہوا اور بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے: پہلے اور دوسرے واقعے میں موقف کے اختلاف کا سرچشمہ حالات کا اختلاف ہے، پھر ان حالات کی تحقیق کرتے کہ جن کی وجہ سے موقف میں اختلاف پیدا ہوا؛ (اس کی بجائے) انہوں نے اپنے اس بنیادی طرز تفکّر کو چھوڑ دیا کہ جسے وہ بہت سے دوسرے مقامات پر اپنی سوچ کی بنیاد بناتے ہیں اور فورا اس چیز کی طرف چلے گئے کہ آئمہ علیہم السلام  "نور واحد" ہیں اور ان کے نور واحد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی صورت و سیرت ایک ہے اور گویا تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ کیا یہ طرزِ تفکّر تاریخ کے مطالعے کی اس منطق کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو اس طرز تفکر کا ایک بنیادی رکن ہے اور اس کی بنیاد پر یہ گروہ تاریخی واقعات کا مطالعہ تاریخیت کی نظر سے کرتا ہے؟!
اگر اہل بیت علیہم السلام  ایک نور ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے موقف میں تاریخی حالات بدلنے کی وجہ سے اختلاف پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ محقق ان لوگوں میں سے ہے جو دینی امور میں تنقید پر یقین رکھتے ہیں اس لیے اس کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ واقعات اور افراد کے موقف کا تاریخ کے تناظر میں مطالعہ کیا جائے۔ یہاں کون سی ایسی انہونی ہو گئی تھی جس کے بموجب اس نے تاریخی تناظر والے اس بنیادی عنصر کو ہی چھوڑ دیا کہ جس سے فہم دین کی مباحث میں جگہ جگہ استفادہ کر چکا ہے؟! اور اس محقّق نے اتنی زحمت نہیں کی کہ امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام  کی سیرت کے مابین پائے جانے والے تاریخی امتیازات کا مطالعہ کرتا اور پھر یہ ثابت کرتا کہ یہی تاریخی امتیازات موقف میں اختلاف کا سبب بنے اور یہ امر "سب ایک ہی نور ہیں" کی اصل کیساتھ منافات نہیں رکھتا۔

دوسرا اشکال:

اگر اہل بیت پیغمبر علیہم السلام  ایک نور ہیں تو ہم استاد باقی سے سوال کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام  کی سیرت سے قطع نظر کرتے ہوئے خود امام علی علیہ السلام  اور امام حسن علیہ السلام  کے موقف میں اختلاف کیوں ہے؟
کیونکہ امام علی علیہ السلام  ان سے جنگ کرنے کیلئے بصرہ تشریف لائے تھے اور آپ اپنا دفاع نہیں کر رہے تھے بتائیے وہ امن و آشتی والی منطق کہاں گئی؟ اگر سب ایک نور ہیں تو عمل میں یہ اختلاف کیوں ہے؟
جواب کچھ بھی آئے، نتیجہ یہ ہے کہ "نور واحد" والا نظریہ کہ جس پر محترم مصنف کا بڑا زور ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام  کے سیاسی موقف میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

تیسرا اشکال:

محترم محقّق نے اس چیز کی تصریح کی ہے کہ جنگ ایک عقلائی چیز ہے اور واضح ہے کہ ایسی جنگ طاقت کے توازن کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ چیز امام حسن علیہ السلام  کے واقعے میں نہیں تھی لہٰذا امام حسن علیہ السلام   پیچھے ہٹ گئے اور صلح کر لی اور یہی صورتحال امام حسین علیہ السلام  کے یہاں بھی تھی، کیونکہ طاقت کا توازن نہیں تھا، اس لیے امام حسین علیہ السلام   نے جنگ پر اصرار نہیں کیا، بلکہ کہیں اور چلے جانے کا کہا۔۔۔۔  اگر طاقت کا توازن نہ ہونے والی بات درست ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام   نے بیعت کیوں نہ کر لی اور اس طرح وہ قتل عام تو نہ ہوتا جو ہوا؟! کیا امام حسن علیہ السلام  نے وقت کی مصلحتوں کے پیش نظر اس صلح نامہ پر دستخط نہیں کیے تھے کہ جس پر معاویہ کے مسلمانوں کا حاکم ہونے کی تصریح کی گئی تھی جیسا کہ کہا جاتا ہے؟!
اگر طاقت کا عدم توازن امام حسن علیہ السلام  کو صلح کر کے خلافت، معاویہ بن ابو سفیان کو سونپنے کی اجازت دیتا ہے تو پھر یہی چیز امام حسین علیہ السلام  کو یزید بن معاویہ کی بیعت کرنے کا جواز کیوں نہیں فراہم کرتی؟ اور آپ علیہ السلام  نے آخری لمحے تک انکار پر اصرار کیوں کیا؟ کیا یہ بات غیر عقلی نہیں ہے، جیسا کہ محترم محقّق کی پیش کردہ منطق سے تو یہی استفادہ ہوتا ہے؟!

چوتھا اشکال:

سیاسی تحلیل کی رو سے، جب امام حسین علیہ السلام  کو مکہ مکرمہ میں کوفہ کے سرکردہ اور معروف افراد کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں خطوط موصول ہوئے جن میں امام علیہ السلام  سے کوفہ تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی، تو ان خطوط کی وجہ سے امام علیہ السلام  کی کوفہ آمد کا کیا مطلب تھا؟! کیا اس کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ امام حسین علیہ السلام  نے اس لیے وہاں کا رخ کیا کیونکہ ان لوگوں نے امام علیہ السلام  سے یہ کہا تھا کہ وہ گورنر کو معزول کر کے شام کی مرکزی حکومت کی مرضی کے برخلاف کسی اور کو گورنر مقرّر کریں گے یعنی آج کی اصطلاح کے مطابق وہ ایک علیٰحدہ حکومت تشکیل دیں گے؟! کیا سیاست کی اصطلاح میں یہ مرکزی حکومت کے خلاف اعلان جنگ نہیں ہے؟! اگر یہ اعلان جنگ نہیں ہے تو پھر اعلان جنگ کیا ہوتا ہے؟! اگر ایک  حکومت کے اندر متعدّد برادریوں، قوموں اور نسلوں کے لوگ رہتے ہوں، اور ان میں سے کوئی ایک مرکزی حکومت سے جدائی کا اعلان کر دے، تو کیا یہ معقول ہے کہ مرکزی حکومت خاموش رہے گی؟
عراق سے موصول ہونے والے خطوط میں قبائل اور برادریوں کی تمام نمایاں شخصیات کی جانب سے آپ علیہ السلام  کی پیروی اور کوفہ میں آپ علیہ السلام  کے لیے ماحول سازگار بنانے کا اظہار کیا گیا تھا۔۔۔، میں کہوں گا کہ امام حسین علیہ السلام  کی جانب سے ان خطوط کا مثبت جواب ہی مرکزی حکومت سے علیٰحدگی کا اعلان تھا اور یہ چیز اعلان جنگ کے مترادف ہے، اگر اس طرح کا موقف اعلان جنگ نہیں ہے تو پھر اعلان جنگ کیا ہوتا ہے؟ یا کم از کم یہ اعلان جنگ کا پہلا مرحلہ ہے، پس امام حسین علیہ السلام  نے کیسے اس قسم کا قدم اٹھایا کہ جسے اعلان جنگ سے بیزاری نہیں کہا جا سکتا اور پھر اس کے بعد ہم کیونکر امام علیہ السلام  کے اقدام کو جنگ کے خلاف قرار دے سکتے ہیں؟! کیا ہمارا یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ امام علیہ السلام  کا یہ اقدام علیٰحدگی پسندانہ تھا جس میں آپ علیہ السلام  جنگ کی صورت میں اس کیلئے بھی آمادگی کا اظہار فرما رہے ہیں اور وہ ضرور ہو کر رہے گی جیسا کہ ہم نے دیکھا؟ تو کیا یہ ہستی انہی معنوں میں امن و سلامتی کا داعی ہے جن کا محقّقِ عزیز نے ارادہ کیا ہے؟
پانچواں اشکال: محترم محقّق نے تاریخ طبری اور یعقوبی جیسی تاریخی کتابوں میں منقول روایات پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور وہ پانچ یا چھ روایات ہیں کہ جن میں امام حسین علیہ السلام  فرماتے ہیں : مجھے چھوڑ دو میں اللہ کی زمین میں کہیں اور چلا جاتا ہوں اور بعض کی رو سے آپ علیہ السلام  نے انہیں یہ تجویز دی کہ انہیں یزید کے پاس جانے دیا جائے جیسا کہ سید مرتضٰی نے یہ احتمال دیا ہے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام  کا خیال یہ تھا کہ یزید آپ علیہ السلام  کے ساتھ عبید اللہ بن زیاد کی نسبت کم سختی کرے گا۔ [4]
یہاں ہم ان نصوص کی صحت اور ان کی صحیح تشریح کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم یہ استفسار کرنا چاہیں گے کہ اس محترم محقّق نے یہاں امام حسین علیہ السلام  سے صادر ہونے والی تمام روایات اور تاریخی شواہد کو جمع کر کے ان کے درمیان موازنہ کیوں نہیں کیا، اس لیے کہ آپ علیہ السلام  سے ایسی نصوص وارد ہوئی ہیں کہ جن میں آپ علیہ السلام  انقلابی اقدامات کا اعلان فرماتے ہیں اور حکومت سے علیٰحدگی اختیار کرنے اور مرکزی حکومت سے نبرد آزما ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے اقدامات کی نصوص ہیں جن میں اعلان جنگ کا پہلو موجود ہے پس کیوں ان نصوص کو مدنظر نہیں رکھا گیا؟!
بطور مثال ہم صرف دو نصوص کو ذکر کرتے ہیں:

پہلی نصّ:

جسے طبری نے ابی مخنف سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام  نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «مَنْ رَأَى ىسُلْطَانًاجَائِرًامُسْتَحِلاًلِحرَمِ اللَّهِ،نَاكِثًالِعَهْدِاللَّهِ،مُخَالِفًالِسُنَّةِرَسُولِالله،يَعْمَلُ فِی عِبَادِاللَّهِ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ،فَلَمْ يُغَيِّرْعَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ، أَلا وَإِنَّ هَؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ، وَتَرَكُوا طَاعَةَ الرَّحْمَنِ، وَأَظْهَرُوا الْفَسَادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ، وَأَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ، وَحَرَّمُوا حَلالَهُ، وَأَنَا أَحَقُّ من غیری» [5].
جو شخص ایسے سلطان جابر کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال سمجھنے والا ہو، اللہ کا عہد توڑنے والا ہو، سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مخالف ہو، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور زیادتی والا برتاؤ کرے، پھر اپنے فعل یا قول کے ساتھ کوئی ردّ عمل نہ دکھائے، تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ اس کو اس ظالم کے ٹھکانے(دوزخ) میں ڈال دے، دیکھو! اِن لوگوں نے خود کو شیطان کی پیروی کا پابند کر لیا ہے، رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، فساد کو برملا کر دیا ہے، حدودِ کو معطل کر دیا ہے، [مال غنیمت کو اپنے آپ سے مخصوص کر لیا ہے] اور حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہے، اور میں اپنے غیر سے زیادہ سزاوار ہوں۔[5]
اس نص میں بہت سارے مضامین ہیں جن کی تشریح میں بات لمبی ہو جانے کا امکان ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک فقرہ اس زمانے کی سیاست کے لحاظ سے اپنے معانی اور مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں حکومت کی اقتصادی پالیسی پر اعتراض ہے، تعزیرات اور جرم و سزا کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر اعتراض ہے، ملک میں قائم اس طبقاتی نظام پر اعتراض ہے، اسی طرح حکومت کی جانب سے دستور کو نافذ نہ کرنے پر اعتراض کرتی ہے کیونکہ اس میں آیا ہے کہ انہوں نے حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہے۔۔۔ پھر اس کے بعد فرماتے ہیں : أنا أحق من غیری۔۔۔۔ میں دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں، اگر تاریخِ طبری اور دوسری کتب میں وارد ہونے والی اس نص میں سیاسی منشور، آمنے سامنے ہونے اور (سول) نافرمانی کا اعلان نہیں ہے کہ جس کا حتمی نتیجہ مسلّح جنگ ہوتی ہے تو پھر کون سی نص یہ مطلب ادا کرے گی؟! اور نہیں معلوم کہ جب امام علیہ السلام  اس وقت کی سیاست کو مدّنظر رکھتے ہوئے "فعل" کے ساتھ تبدیلی لانے کا مطالبہ فرما رہے ہیں"فلم یغيّر علیہ بفعل"، تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ یہ جنگ کا اعلان نہ ہو؟!
ان ساری باتوں کا مطلب یہ ہے کہ برسر اقتدار حکومت ناجائز ہے اور صرف میں ہی مشروع حکومت کی نمائندگی کر سکتا ہوں، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام   اپنے اصحاب سے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ علیہ السلام  نبرد آزما نہیں ہونا چاہتے اور آپ علیہ السلام  کی غرض مثلاً پر امن احتجاج ہے؟! اور کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دس محرم کو آپ علیہ السلام  کی جنگ اور شہادت ذاتی دفاع ہے؟!

دوسری نصّ:

اسے بھی طبری نے امام حسین علیہ السلام  سے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام  نے فرمایا: «أَلَاتَرَوْنَ أَنَّالْحَقَّ لَايُعْمَلُ بِهِ وَأَنَّالْبَاطِلَ لَايُتَنَاهَى عَنْهُ،لِيَرْغَبِ الْمُؤْمِنُ فِی لِقَاءِاللَّهِ مُحِقّاً؛فَإِنِّی لَاأَرَى الْمَوْتَ إِلَّاسَعَادَةًوَلَاالْحَيَاةَمَعَالظَّالِمِینَ إِلَّابَرَما»[6]
کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا، چاہئیے کہ مومن اپنے ربّ کی ملاقات میں رغبت کرے حق گوئی کی حالت میں کیونکہ میں موت کو سعادت کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا اور میرے نزدیک ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا ننگ و عار کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جو شخص اللہ کی بستی میں کسی بھی جگہ نکل جانا چاہتا ہو تو وہ موت کے شہادت اور سعادت ہونے پر کیوں زور دے رہا ہے؟!
پس جب ہم امام حسین علیہ السلام  کی سیرت کی تصویر کشی کرنا چاہیں تو ہمارا فرض ہے کہ بعض نصوص پر اکتفا نہ کریں اور بڑے مصادر میں وارد ہونے والی دیگر اساسی نصوص کو چھوڑ دیں، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ جو نصوص یہ کہتی ہیں کہ امام علیہ السلام  نے زمین میں کہیں چلے جانے یا یزید بن معاویہ کے پاس جانے میں رغبت ظاہر کی تو خود ان نصوص کے درمیان تضاد ہے "ہم فی الوقت اس موضوع میں وارد نہیں ہونا چاہتے اور اسے اس عجلت کے ساتھ پیش کرنا ممکن بھی نہیں ہے" اور ان کے درمیان جزوی اختلاف ہے اور تاریخی اعتبار سے ثابت بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض، قدیم تاریخی مصادر میں وارد نہیں ہوئیں اور صرف بعد کے مصادر میں آئی ہیں۔
پس اس مختصر بحث کے بعد میرے لیے یہ تفسیر پیش کرنا درست نہیں ہے کہ امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام  کی تحریک کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اور ان دونوں کا راستہ صلح کا راستہ ہے اور اس کا انقلاب، زور آزمائیاور نبرد کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اس بنا پر امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام  کے راستوں کو الگ الگ کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔  ہمارے نزدیک یہ اور اس جیسی دیگر بہت ساری چیزیں کہ جن کے لیے بڑی فرصت کی ضرورت ہے، استاد باقی کے پیش کردہ تصوّر میں بنیادی شک کرنے کے لیے کافی ہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کا زیادہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہم تاریخ اور دینی مصادر کے مطالعے کو کسی گروہ کو زیر کرنے یا کسی دوسرے گروہ کے ساتھ حساب برابر کرنے کی غرض سے کسی سیاسی جھگڑے (ہماری مراد سیاست کا عام معنی ہے) میں پڑنے کا ذریعہ نہ بنائیں اور زیادہ بہتر یہی ہو گا کہ ہم ان دینی اقدار اور اسی طرح تاریخی دینی اقدار کو ان سیاسی تنازعات سے بلند و بالا رکھیں کہ جن میں سے بعض کم از کم جزوی طور پر سیاسی ہیں اور ہم لاشعوری طور پر انہی جزئی اور چھوٹے چھوٹے سیاسی تنازعات میں دینی اقدار کو مخلوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
و الحمد لله رب العالمین

حوالہ جات

[3] اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ کوئی غیبی خبر یا الزام نہیں ہے بلکہ آپ یہ چیز محل بحث تحقیق میں واضح طور پر دیکھیں گے اور ہم نے تو فقط امام حسین علیہ السلام  سے مخصوص حصہ منتخب کیا ہے وگرنہ ساری کی ساری بحث سیاسی حساب برابر کرنے پر مبنی ہے۔
[4] سید مرتضٰى، تنزیہ الأنبیاء: 229، دار الأضواء، ط2، 1989م.
[5] طبری، تاریخ الأمم والملوک 5: 403؛ اور ابن الأثیر، الکامل فی التاریخ 3: 159.
[6] طبری، تاریخ الأمم والملوک 5: 404. اور یہ نص کچھ نسخوں میں معمولی اختلاف کیساتھ نقل ہوئی ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
خلافت ظاہرى سے شہادت تك 3
حضرت امام حسين عليہ السلام اور اسلامي حکومت

 
user comment