اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نہیں حل ہو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ہو جائے جہاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ثقافتی اوراق//
بقلم:سید نجیب الحسن زیدی
قافلہ انسانی آج جس تیزی سے یکے بعددیگرے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہو، اسکے عزم و ارادہ کے آگے ہر چیز بے بس ہے اس وسیع کائنات کی کوئی شے اسکے قلمروِ اختیار سے باہر نہیں، پوری کائنات میں اسی کے اختیار و عمل کا سکہ چلتا ہے ۔
یہ سائنس کی ہنر نمائیاں ،یہ علم و حکمت کی جولانیاں ، یہ ترقی و کامیابی کی شہنائیاں، سب کے سب انسانیت کے شاندار مستقبل کی تعمیر کا عندیہ دے رہی ہیں ۔
نظر اٹھا کر تو دیکھیں ہرطرف کامیابیوںکی شہنائیاں بج رہی ہیں ، خوشیوں کے میلے ہیں ،انسانی خواہشات کے وسیع سمندر میں تکمیلِ آرزو کے سفینے رواں دواں ہیں، مسرتوں کی دل آویزیوں کے ساتھ ہرسو رونقوں کے دیپ جل رہے ہیں، انسان کی رنگ برنگی آرزوئیں تتلیوں کی طرح دنیاوی نعمات کے پھولوں سے لپٹی عرق تسکین تلاش کر رہی ہیں ، ہر طرف انسان کی ہنر نمائیوں کی چراغانی ہے۔
آج نہ صرف پانی ہوا ،فضا اور خلا انسان کے قبضہ میں ہے بلکہ انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمال کی چوٹیوں کو طے کرنے کے لئے کمر ہمت باندھ لے تو اقالیم سبعہ اسکے قدموں میں سجدہ ریز نظر آئیں گے ۔
بقول شہید مطہری ''انسان کی علمی اور فنی طاقت کے لئے کوئی قلعہ نا قابل تسخیر نہیں ہے سوائے ایک قلعہ کے اور وہ ہے انسانی روح اور اسکے نفس کا قلعہ ۔
پہاڑ ، سمندر ، خلا ، زمین ، آسمان ، یہ سب کے سب اسکی علمی اور فنی جولانیوں کے سامنے بے بس ہیں واحد وہ مرکز جو اسکی عمل داری سے باہر ہے وہ وہی چیز ہے جو خود انسان سے سب سے نزدیک ہے لیکن اسے فتح کرنا آسان نہیں بقول مولانا رومی :
کشتن اين کار عقل و هوش نيست
شیر باطن سخرئہ خرگوش نیست ۔ (١)۔
اب یہ اتفاق ہی ہے کہ انسان کے آرام و سکون ، امن و عدالت ، آزادی و مساوات اور انسان کی فلاح و کامیابی کا سب سے خطرناک دشمن خود اسی کے قلعہ میں چھپاہے اور اسکی گھات میں بیٹھا ہوا ہے ''اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا وہ نفس ہے جو تمہارے پہلو میں ہے ،، ٢
سب سے بڑے دشمن سے بے خبری ہی کا نتیجہ ہے کہ کائنات کو تسخیر کر لینے کے بعد بھی انسان اپنے سرکش نفس کو قابو کرنے میں ناکام ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشما سازیوں اور ہنر آفرینیوں کے باوجود آج انسانی اقدار انسانیت کا ماتم کرتے نظر آ رہے ہیں اسکی مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اقتصادی اور مالی و رفاہی اعتبار سے دنیا میں سر فہرست ہیں ۔انکی جیسی ٹکنالوجی کسی کے پاس نہیں ، انکے جیسے جنگی آلات کسی کے پاس نہیں انکا جیسا مضبوط مواصلاتی نظام کسی کے پاس نہیں، انکے جیسے ذرائع ابلاغ کسی کے پاس نہیں وہ رفاہی اور مالی اعتبار سے آج مثال بننے کے باوجود اپنے عوام کو سکون مہیہ کرانے میں ناکام ہیں اور ماہرین نفسیات جب بھی سروے کرتے ہیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ بے چینی اور depression)(میں بھی سب سے آگے یہی ممالک ہیں۔ معتبر رپورٹوں کے مطابق سب سے زیادہ خود کشی کی شرح بھی انہیں ممالک میں پائی جاتی ہے ۔
خود کشی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ جب انہیں سکون نصیب نہیں ہوتا اور زندگی بیزار سی لگنے لگتی ہے تو اس بیزاری کاآخری حل خود کشی کے طور پر سامنے آتا ہے اور نہ صرف خود کشی بلکہ تدریجی اور خاموش موت کے ذمہ دار بھی یہی ممالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ''افغانستان ''اور'' کولمبیا ''جیسے منشیات کی پیداوار کے ممالک کا سب سے بڑا بازار بھی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں دنیا کی سب سے زیادہ منشیات سپلائی ہوتی ہے ۔
اگر یہ باتیں افریقا کے قحط زدہ علاقوں، ہندوستان ،پاکستان بنگلا دیش، یا دیگر غریب و فقیر ممالک کے لئے کہی جاتیں تو بات کچھ سمجھ یں آ سکتی تھی کہ فقیری ، غربت یا بیکاری سے تنگ آ کر لوگ منشیات کا استعمال کر رہے ہیں یا خود کشی کے ذریعہ خود کو ہلاک کر رہے ہیںمگرطرہ تو یہ ہے کہ جس طرح کی منشیات یہ ترقی یافتہ ملک استعمال کرتے ہیں ان کو استعمال کا سوچ کرہی غریب آدمی کوہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے کیونکہ انکی قیمت بھی ایک عام آدمی اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ادا نہیں کر سکتا ۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ غربت یا فقیری منشیات کے استعمال اور خود کشی کی علت نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ کچھ اور ہے۔
ان ممالک کے تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مادیت کی چکا چوند میںیہ بھول گئے ہیں کہ جس طرح انسان کے جسم کو رشد و نمو کے لئے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بغیر غذا کے رشد و نمو حاصل نہیں کر سکتی اورروح اس وقت تک پرسکون نہیں ہو سکتی جب تک اسکے معنوی تقاضوںکو پورا نہ کیا جائے۔
انہوں نے جسمانی تقاضوں کی تسکین کے وسائل پر تو افراط کی حد تک توجہ کی لیکن روح کے تقاضوں کو بھول گئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ مادی اعتبار سے تو بہت آگے ہیں لیکن روحی اعتبار سے قحط زدہ علاقوں میں بسنے والے ننگے بھوکوں سے بھی زیادہ بھوکے ہیں یہ اپنی روحانیت کی بھوک مٹانے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتے ہیں اور جب کہیں سکون نہیں ملتا تو موت سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں ہماری اس بات کا ثبوت وہ جدید تحقیقات ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شراب اور دوسری منشیات کا استعمال مذہبی افراد میں دوسروں سے کم ہے ۔
آج تیزی کی ساتھ ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن قافلہ انسانی گرچہ ظاہری ترقی کے زیورروں سے خود کو آراستہ کئے ایک دلفریب نظارہ پیش کر رہاہے اور اپنے حسن و جمال ،اپنی رعنائیوں اور دلربا ادوائوں سے ہر ایک کو مسحور کئے ہوئے انسانی ذہن کی کرشماتی صلاحیتوں کے بل پر داد تحسین حاصل کر کے خود میں مست مگن اپنی ظاہری کامیابیوں پر ناز کرتا نظر آرہا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے ز خم ہیں جو اس انسانی قافلہ کی زخمی روح میں پھیلتے چلے جا رہے ہیں اور اسے انکی خبر بھی نہیں، مادیت کے جھلماتے حسین اور دبیز پردوں نے اسکی آنکھوں کے پتلیوں میں ایسا جال تان دیا ہے کہ یہ چاہ کر بھی حقیقتوں کا سامنا نہیں کر سکتا ۔
یہ چاہتے ہوئے بھی مچلتی ہوئی روح کے زخموں سے رستا ہوالہو نہیں دیکھ سکتا، یہ چاہتے ہوئے بھی نالہ و شیون کرتی ہوئے انسانی اقدار کی چیخ پکار کو نہیں سن سکتا ۔یہ بھوک و افلاس سے تڑپتے ہوئے ناداروں کو دیکھتا ہے تو اسکی روح بے چین ہو جاتی ہے لیکن ایک ہی لمحے میں منظر بدل جاتا ہے ،پردہ ذہن پر بننے والی بے یارو مدد گار ننگے بھوکے دو روٹی کے محتاج لوگوں کی تصویر ابھی اس کے قرطاس دل پر ٹھہر نہیں پاتی کہ موسیقی کے دھن پر تھرکتے ہوئے بدن اسکے ذہن و دل و دماغ پر مسلط ہو کر اسے بھی زمانے کے ساتھ تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، جذبہ ہم دردی سسکیاں لے کر دم توڑ دیتا ہے بے یار و مددگار فقیر و نادار لوگ اپنی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل لئے پیٹ پر پتھر باند کر سو جاتے ہیں اور یوںروح کے تقاضوںکا گلا گھونٹ کر روح و جسم کے ما بین متضاد خواہشات کا طلاطم تھم جاتا ہے ۔
یہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے یتیم ،لاوارث غریب ،پسماندہ اور ناتواں لوگوںکی فریادوں کو سنتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ اسکی انسانیت ،اسکا ضمیر انکے لئے کچھ کرنے پر وادار کرے چھلکتے جاموں کی کنھکھناہٹ اور کیف و سرور میں مدہوش نغموں کی مترنم آزوازیں اسے اپنے ساتھ اتنی دور لے جاتی ہیں جہاں یہ خود اپنی روح کی چیخ پکار بھی نہیں سن پاتا جو انسانیت کی دہائی دے کر اسے من مانی کرنے سے روکتی ہے لیکن یہ ہر حد کو پار کرتے ہوئے حیوانیت و درندگی کاپجاری بن جاتا ہے اور جب حیوانیت کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ کر اٹھاتا ہے تو اسکے نس نس میں درندگی جاگ اٹھتی ہے ۔
اب یہ ظاہر میں تو انسان ہوتا ہے لیکن حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی اس لئے اندر سے خنزیر بن جاتا ہے، اپنے پیٹ کے لئے ہر ایک سے لڑتا ہے ظاہر میں انسان ہوتا ہے لیکن اندر سے سگ آوارہ بن جاتا ہے، مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور کوئی روکے ٹوکے تو بھونکتا ہوا کاٹنے ڈوڑتا ہے، چھین جھپٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، ظاہری طور پر تو انسان نظرآتا ہے لیکن اندر سے بھیڑیا بن جاتا ہے یہ کہیںسانپ ،کہیں بچھو، کہیں گرگٹ بنتا ہے لیکن انسان کہیں نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہیں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑاتا ہے تو کہیں بہن بھائی کے تقدس کو سر بازار نیلام کرتا ہے ۔
مختصر یہ کہ جو انسان چاند اور سورج پر کمندیں ڈال رہا تھا اگر اسکے پاس واضح اور روشن اخلاقی نمونے نہ ہوں تو وہ خود اپنے وجود کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا بلکہ جتنا زیادہ دنیاوی علم و ٹکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے اتنا ہی زیادہ بڑی تباہی کو بھی وجود میں لاتا ہے ۔
دنیا چاہے جتنا بھی قافلہ انسانی کی ترقی کے گن گائے لیکن یہ بات کسی بھی صاحب بصیرت کی نظروں سے پوشیدہ نہیں کہ جتنا علم و صنعت کی کرشما سازیاں انسانیت کو بام عروج پر پہونچا رہی ہیں اتنا ہی انسانیت اخلاق و معنویت کے بحران میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے ۔
دنیا میں تمام تر ترقیوں کے باوجود ، جرائم ، فساد، تباہی ، قتل ، خود کشی ، کی شرحوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمنائوں کے ہجوم اور آرزووں کے حصول کے سیلاب میں کوئی بھی ایسا ساحل امن نہیں جہاں انسانیت خود کومحفوظ سمجھ سکے ۔
انسان کی سرکش روح جب سرکشی پر آمادہ ہو جائے اور اسکی بلا خیز تمنائوں میں جب طغیانی آ جائے تو علم وصنعت کی یہ روز افزوں ترقی بھی تخریب میں تیزی کا باعث بن جاتی ہے اور آج یہی ہو رہا ہے۔ شہید مطہریرح نے سالہا سال پہلے انسانیت کے درد کو سمجھتے ہوئے انہیں باتوں کے پیش نظر کہا ہوگا : '' اسی لئے آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رہا ہے ،یہ کیوں نالہ کناں ہے ؟ اس میں کس پہلو سے کمی اور نقص پایا جاتا ہے ؟ کیا اخلاق و عادات اور انسانیت کے بحران کے علاوہ بھی اس میں کوئی کمی پائی جا رہی ہے ؟ آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے، سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اسکی شاگردی کا اعزاز قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن روحانیت و اخلاق اور عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ہونے سے زیادہ نہیں ہے اگرچہ ا نسان نے حتی الامکان اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے لیکن اپنے آپ کو اور اپنے انداز فکر کو اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نہیں کر سکا آج کے انسان کی مشکلات کی جڑ اسی جگہ تلاش کرنا چاہیے ٣
آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام ترکرشمہ ساز ترقیوں کے باوجود آدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے بلکہ وہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے'' .. ٤ سوال یہ ہے کہ اس انسان کو اسکے تاریک دور سے واپس آج کی دنیا میں کیسے لایا جائے ؟ علامہ اقبال اسکا حل یوں بیان کرتے ہیں ''انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ، دنیا کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور دنیا پر اثر انداز ہونے والا ایسابنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سماج کے کمال تک پہونچنے کی نھج اور اسکے مبنا کو بیان کر سکے'' ٥ ۔
یہ تینوں چیزیں صرف دین کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہیں ''مختلف مکاتب ، ادیان اور مذاہب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے٦
آج انسانیت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ معنویت اور اخلاق ہے ۔ در حقیقت انسان اپنے گم شدہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جو بغیر اخلاق و معنویت کے متصور نہیں ہے ،انسان کی پیاسی روح کو شدت کے ساتھ الہامی تعلیمات کے ان برستے بادلوںکی ضرورت ہے جو ذہن و دل و دماغ کی مرجھائی کلیوں کے ہونٹوں پر بھی زندگی کی مسکراہٹ بکھیر دیں اور یہ کام عقل محض کے خشک جھلستے بیابانوں میں صحرا نوردی سے ممکن نہیں ، چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: '' شک نہیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی نظام مدون کئے ۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقل محض کے رستہ حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نہیں ہو سکتی جو صرف الہام سے ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی اثر نہیں ڈالا جبکہ دین ہمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشرے میں تبدیلی کا باعث رہا ہے اسی لئے یورپ کی کارگزاریوں کا نتیجہ ایک حیران '' میں '' کی صور ت میں سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناہم آہنگ جمہوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں سرگرداں ہے،میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ' (٧) وہ ساحل نجات جہاں یہ'' میں '' دریائے حیرت میں غوطہ ور ہونے سے بچکر ابدی سکون سے ہم کنار ہو سکتا ہے وہ''ایمان ''ہے، اگر زندگی کو کوئی چیز حسین بنا سکتی ہے تو وہ ایمان ہے ۔جسکے پاس ایمان نہیں وہ با مقصد و با معنی زندگی کے مفہوم سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا اس لئے شہید مطہری کے بقول '' ا یمان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے خواہ وہ عقل ہو یا علم ،ہنر ہو یا صنعت، قانون ہو یا کچھ اور!یہ سب انسان کی جبلی خواہشات کی تسکین اور انکی تکمیل کے لئے اسکے ہاتھ میں آلہ کار ہیں، صرف قوت ایمانی وہ چیز ہے جو روح کو نئی زندگی دیتی ہے ۔
اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نہیں حل ہو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ہو جائے جہاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔
آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاق اور معنویت کے بحران سے کیسے مقابلہ کیا جائے ایسے میں ضرورت ہے اس اخلاق کے پیکر کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جس نے جاہلی رسموں اور خود ساختہ سماجی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس عرب کے جاہلی سماج کی علم و اخلاق و تہذیب کے بل پر تعمیر کر کے جینے کے لائق بنا دیا جو فتنہ و فساد کی آگ میں جل رہا تھا، خرافات اور اوہام پرستی کی خار دار جھاڑیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا جھلستے ہوئے بیابانوں ، لق و دق صحرائوں اور ریگزاروں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان اخلاق و معنویت کانمونہ بن جانا قبائلی نظام میں اخلاقی انحطاط و تنزلی کے باوجود اسی نظام کے اندر سے اخلاق و معنویت کے نمونوں کو پیش کرنا معمولی کارنامہ نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جاہلیت کی سر زمین کو قیصر و کسری و روم کے لئے قابل رشک بنانے والی ذات کو قرآن کریم نے پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا
''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' اور انسانیت کے لئے اس ذات کو نمونہ عمل بنایا ''ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ''
اسلام کے ظہور کو چودہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا اسی قدر اسکی تعلیمات کی محتاج ہے جتنا روز اول تھی ۔ جس دن ان ضروریات کا احساس عام ہو جائیگا اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوگا'' ٨۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تعلیمات کو کس طرح عام کریں جنکی تشنگی آج ہرمعاشرہ محسوس کر رہا ہے ۔
کل اگر بدو عرب پیغمبر اسلامۖ کی شخصیت سے حاصل ہونے والے دروس کے سرچشمہ سے فیضیاب ہو کرانسانی اقدار پر مشتمل سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینا آج بھی ہم پوری دنیا میںتعلیمات نبی رحمت ۖ کی روشنی پھیلا کر انسانیت کے مستقبل کے خطوط کو روشن کر سکتے ہیں۔
پروردگارا! اس معنویت کے موجودہ بحران میں، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مسعود موقع پر ہمیں بہتر سے بہتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور سمجھ کر اس پر عمل کے ساتھ دوسروں تک اس سیرت طیبہ کے ان مختلف گوشوں کو منتقل کرنے کی توفیق عنایت فرما جنکی چھائوں میں انسانیت کو سکون ملتا ہے ، جسکے سایہ میں آ کر انسان حقیقت انسانیت سے روشناس ہوتا ہے
آمین یا رب العالمین ۔
حواشی :
١۔ مفہوم یہ ہے'' اسکو مارنا اور اس سے نبٹ پانا عقل و ہوش کے بس کا کام نہیں ہے کہ نفس کا شیر خرگوش کا تر نوالہ یا اسکا مذاق نہیں ہے ، مولانا رومی ،حکایت نخچیران و شیر، مثنوی معنوی، دفتر اول ۔
٢۔ شہید مطہری ، سیری در سیرہ نبوی مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٤
٣۔ سیری در سیرئہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ۔ ص، ٢٧ ۔
٤۔ سیری در سیرہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٥
٥۔احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٦۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧
٧۔ احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٨۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،