اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے وجود پر عقلی اور منقولہ دلایل

امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے وجود پر عقلی اور منقولہ دلایل

رسول خدا(ص) کی فریقین سے مروی اس روایت کے مطابق کہ جو شخص اس دنیا میں اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاھلیت کی موت ھے[1]، اگر چہ امام زمانہ(ع) کی تفصیلی معرفت تو میسر نھیں ھے لیکن اجمالی معرفت کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارھا ھے۔
ھر زمانے میں امامِ معصوم کی ضرورت، عقلی ونقلی دلائل کے ذریعہ بحث ِ امامت میں ثابت ہو چکی ھے۔


عقلی نقطہ نگاہ سے

عقلی دلائل کا اجمالی طور پر خلاصہ یہ ھے کہ نبوت ورسالت کا دروازہ پیغمبر خاتم(ص) کے بعدھمیشہ ھمیشہ کے لئے بند ہو چکا ھے۔ لیکن قرآن کو سمجھنے کے لئے، جو آ نحضرت(ص) پر نازل ہوا ھے اور ھمیشہ کے لئے انسان کی تعلیم وتربیت کا دستور العمل ھے، معلم ومربی کی ضرورت ھے۔ وہ قرآن، جس کے قوانین مدنی البطع انسان کے حقوق کے ضامن تو ھیں لیکن ایک مفسراور ان قوانین کو عملی جامہ پھنانے والے کے محتاج ھیں۔
بعثت کی غرض اس وقت تک متحقق نھیں ہو سکتی جب تک کہ تمام علوم قرآنی کا معلم موجود نہ ہو۔ایسے بلند مرتبہ اخلاقی فضائل سے آراستہ ہو کہ جو ((انما بعثت لاٴتمم مکارم الاٴخلاق))[2] کا مقصد ھے۔نیز ھر خطا و خواھشات نفسانی سے پاک ومنزہ ہو جس کے سائے میں انسان اس علمی و عملی کما ل تک پھنچے جو خدا وند تعالیٰ کی غرض ھے۔[3]
مختصر یہ کہ قرآن ایسی کتاب ھے جو تمام انسانوں کو فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات سے نکال کر عالم نور کی جانب ھدایت کرنے کے لئے نازل ہوئی ھے [4]
اس غرض کا حصول فقط ایسے انسان کے ذریعے ممکن ھے جو خود ظلمات سے دور ہو اور اس کے افکار، اخلاق و اعمال سراپا نور ہوں اور اسی کو امام معصوم کہتے ھیں۔
اور اگر ایسا انسان موجود نہ هوتو تعلیم کتاب وحکمت اور امت کے درمیان عدل کا قیام کیسے میسر هو سکتا ھے ؟ اور خود یھی قرآن جو اختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل هوا ھے، خطاکار افکار اور هویٰ و هوس کے اسیر نفوس کی وجہ سے، اختلافات کا وسیلہ وآلہ بن کر رہ جائے گا۔
آیا وہ خداجو خلقت ِانسان میں احسن تقویم کو مدنظر رکھتے هوئے انسان کی ظاھری خوبصورتی کے لئے بھنوں تک کا خیال رکھ سکتا ھے، کیا ممکن ھے کہ مذکورہ ھدف ومقصد کے لئے کتاب تو بھیج دے لیکن بعثت انبیاء اور کتب نازل کرنے کی اصلی غرض، جو سیرت انسان کو احسن تقویم تک پہچانا ھے، باطل کر دے ؟!
اب تک کی گفتگو سے رسول خدا ا(ص) کے اس کلام کا نکتہ واضح وروشن هو جاتا ھے کہ جسے اھل سنت کی کتابوں نے نقل کیا ھے ((من مات بغیر إمام مات میتة جاهلیة))[5]اور کلام معصومین علیھم السلام کا نکتہ بھی کہ جسے متعدد مضامین کے ساتھ شیعی کتب میں نقل کیا گیا ھے۔مثال کے طور پر حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) نے شرائع دین سے متعلق، مامون کو جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ھے ((وإن الارض لا تخلو من حجة اللّٰه تعالی علی خلقه فی کل عصر واٴوان و إنهم العروة الوثقیٰ))یھاں تک کہ آپ(ع) نے فرمایا ((ومن مات ولم یعرفهم مات میتة جاهلیة))[6]
اب جب کہ اکمال ِدین واتمام ِنعمت ِھدایت میں ایسی شخصیت کے وجود کی تاثیر واضح هو چکی، اگر اس کی عدم موجودگی سے خدا اپنے دین کو ناقص رکھے تو اس عمل کی وجہ یا تویہ هو گی کہ ایسی شخصیت کا وجود ناممکن هو یا خدا اس پر قادر نھیں اور یا پھر خدا حکیم نھیں ھے اور ان تینوں کے واضح بطلان سے امام کے وجود کی ضرورت ثابت ھے۔
حدیث تقلین جس پر فریقین کا اتفاق ھے، ایسی شخصیت کے وجود کی دلیل ھے جو قرآن سے اور قرآن جس سے، ھر گز جدا نہ هوں گے اور چونکہ مخلوق پر خدا کی حجت، حجت بالغہ ھے، ابن حجر ھیثمی جس کا شیعوں کی نسبت تعصب ڈھکاچھپا نھیں، کہتا ھے((والحاصل اٴن الحث وقع علی التمسک بالکتاب وبالسنة وبالعلماء بهما من اٴهل البیت ویستفاد من مجموع ذلک بقاء الاٴمور الثلاثه إلی قیام الساعة، ثم اعلم اٴن لحدیث التمسک بذلک طرقاً کثیرةً وردت عن نیف وعشرین صحابیا))[7]
ابن حجر اعتراف کر رھا ھے کہ حدیث ثقلین کے مطابق، جسے بیس سے زیادہ اصحاب نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا ھے، پوری امت کو کتاب، سنت اور علماء اھل بیت سے تمسک کا حکم دیا گیا ھے اور ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ یہ تینوں قیامت کے دن تک باقی رھیں گے۔
اور مذھب حق یھی ھے کہ قرآن کے ھمراہ اھل بیت علیھم السلام سے ایسے عالم کا هونا ضروری ھے جو قرآن میں موجود تمام علوم سے واقف هو، کیوںکہ پوری امت مسلمہ کو، بغیر کسی استثناء کے، کتاب،سنت او راس کی پیروی کا حکم دیا گیا ھے، اور ھر ایک کی ھدایت کا دارومدار اسی تمسک پر ھے۔


روائی نقطہ نگاہ سے:

بارهویں امام(ع) کے متعلق شیعوں کا اعتقاد اور آپ کا ظهور معصومین علیھم السلام سے روایت شدہ متواتر نصوص سے ثابت ھے، جواثبات ِامامت کے طریقوں میں سے ایک ھے۔
قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ھیں، جنھیں شیعہ وسنی کتب میں امام مھدی (ع)کی حکومت کے ظهور سے تفسیر کیا گیا ھے۔ ان میں سے بعض کو ھم یھاں ذکر کرتے ھیں :
۱۔[8]
ابو عبد اللہ گنجی کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان(ع) “ میں کہتا ھے کہ :”اور بالتحقیق، مھدی کی بقا کا تذکرہ قرآن وسنت میں هوا ھے۔ قرآن میں یوں کہ سعید بن جبیر قرآن میں خداوند متعال کے اس فرمان کی تفسیر میں کہتے ھیں:((هو المهدی من عترة فاطمة علیها السلام))“[9]
۲۔[10]
فخر رازی کہتا ھے:”بعض شیعوں کے عقیدے کے مطابق غیب سے مراد مھدی منتظر (ع)ھے، کہ جس کا وعدہ خدا نے قرآن اور حدیث میں کیا ھے۔ قرآن میں یہ کہہ کر اورحدیث میں قول پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کے مطابق ((لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّٰه ذلک الیوم حتی یخرج رجل من اٴهل بیتی یواطی اسمه اسمی وکنیته کنیتی، یملاٴ الاٴرض عدلا وقسطا کما ملئت جورا وظلما))[11]، اس کے بعد یہ اشکال کرتا ھے کہ بغیر دلیل کے مطلق کو تخصیص دینا باطل ھے۔“[12]
فخر رازی نے ، حضرت مھدی موعود(ع) کے بارے میں قرآن وحدیث پیغمبر خدا(ص) کی دلالت کو تسلیم کرنے اور آپ(ع) کی غیب میں شمولیت کے اعتراف کے بعد، یہ سمجھا ھے کہ شیعہ، غیب کو فقط حضرت مھدی(ع) سے اختصاص دینے کے قائل ھیں، جب کہ فخر رازی اس بات سے غافل ھے کہ شیعہ امام مھدی(ع) کو مصادیقِ غیب میں سے ایک مصداق مانتے ھیں۔
۳۔[13]
ابن حجر کے بقول :”مقاتل بن سلیمان اور اس کے پیروکار مفسر ین کہتے ھیں کہ یہ آیت مھدی کے بارے میں نازل ہوئی ھے۔“[14]
۴۔[15]
اس آیت کو امام مھدی(ع) او رآپ کی حکومت سے تفسیر کیا گیا ھے۔[16]
۵۔[17]
اس آیت میں لفظِ((آیة)) کی تفسیر، حضرت مھدی(ع) کے ظہور کے وقت دی جانے والی ندا کو بتلایا گیا ھے، جسے تمام اھل زمین سنیں گے اور وہ ند ایہ ہوگی ((اٴلا إن حجة اللّٰه قد ظهر عند بیت اللّٰه فاتبعوه فإن الحق معه وفیه))[18]
۶۔[19]


امیر المومنین(ع) فرماتے ھیں :” یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ھماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ھے۔“ اس کے بعد مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔[20]
۷۔[21]
اس آیت کو امام مھدی(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب کے بارے میں تفسیر کیاگیا ھے۔[22]اور اس آیت کا مضمون، یعنی زمین پر صالح افراد کی حکومت، زبور ِ حضرت ِ داود(ع) میں موجود ھے :
کتاب مزامیر۔ زبور حضرت داود (ع)،سینتیسویں مزمور کی انتیسویں آیت میں ھے:”اور نسل شریر منقطع ہوجائے گی اور صالح افراد زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ابد تک رھیں گے، صالح دھان حکمت کو بیان کرے گا اور اس کی زبان انصاف کا تذکرہ کرے گی۔ اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہو گی۔ لہٰذا اس کے قدم نہ لڑکھڑائیں گے۔“
کتاب مزامیر کے بہترویں مزمور کی پھلی آیت:”اے خدا بادشاہ کو اپنا انصاف اور اس کے فرزند کو اپنی عدالت عطا کر اور وہ تیری قوم کے درمیان عدالت سے فیصلہ کرے گا اور تیرے مساکین کے ساتھ انصاف کرے گا۔ اس وقت پھاڑ، قوم کے لئے سلامتی کا سامان مھیا کریں گے اور ٹیلے بھی۔ قوم کے مساکین کے درمیان عدالت برقرار کرے گا، فقراء کی اولاد کو نجات دلائے گا او ر ظالموں کو سرنگوں کرے گا اور جب تک سورج اور چاند اپنے سارے طبقات کے ساتھ باقی ھیں وہ تجھ سے ڈریں گے۔ وہ کٹے ہوئے سبزہ زار وں پر برسنے والی بارش کی طرح برسے گا اور زمین کو سیراب کرنے والی بارشوں کی طرح اس کے دور میں صالح افراد خوب پھلے پھولیں گے اور سلامتی ھی سلامتی ہو گی، یھاں تک کہ چاند نابود ہو جائے گا، ایک سمندر سے دوسرے سمندر اور نھر سے دنیا کے آخری کونے تک اس کی حکومت ہو گی، اس کے سامنے صحرا نشین گردنیں جھکائیں گے اور اس کے دشمن خاک چاٹیں گے۔“
آپ(ع) کے بارے میں فریقین کی کتابوں میں تواتر کی حد تک روایات موجود ھیں۔ ابوالحسن ابری،جو اھل سنت کے بزرگ علماء میں سے ھے، کا کھنا ھے :”راویوں کی کثیر تعداد نے حضرت محمد مصطفی(ص) سے مھدی کے بارے میں روایت کی ھے جو متواتر ومستفیض ھیں اور یہ کہ وہ اھل بیت پیغمبر(ص) سے ھے، سات سال حکومت کرے گا، زمین کو عدل سے پر کر دے گا، حضرت عیسی(ع) خروج کریں گے اور دجال کو قتل کرنے میں آپ(ع) کی مدد کریں گے۔ امت کی امامت مھدی(ع) کرائیں گے جب کہ عیسیٰ(ع) آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔“[23]
شبلنجی نور الابصار میں کہتا ھے:”پیغمبر اکرم(ص) سے متواتر احادیث ھیں کہ مھدی(ع) آنحضرت(ص) کے اھل بیت سے ھے اور زمین کو عدل سے پر کر دے گا۔“[24]
ابن ابی حدید معتزلی کہتا ھے :”فرقہ ھائے مسلمین کا اس بات پر اتفاق ھے کہ دنیا اور دینی ذمہ داریاں حضرت مھدی(ع) پر ختم ہوں گی ۔“[25]
زینی دحلان کے بقول :”جن احادیث میں مھدی(ع) کے ظہور کا ذکر ہوا ھے وہ بہت زیادہ اور متواتر ھیں۔“[26]
آپ(ع) کی خصوصیات اور شمائل کو تو اس مختصر مقدمے میں تحریر نھیں کیا جاسکتا، لیکن پھر بھی شیعہ اور سنی کتب میں مذکور چند خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ھیں :


۱۔نماز جماعت میں افضل کو تقدم حاصل ھے، جیسا کہ یہ مطلب سنی اور شیعہ روایات میں ذکر ہوا ھے :

((امام القوم وافدهم فقدموا اٴفضلکم ))[27] آپ(ع) کے ظہور اور حکومت حقہ کے قیام کے وقت عیسیٰ بن مریم(ع) آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور سنی اور شیعہ روایات کے مطابق آپ(ع) کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔[28]
وہ ایسی ھستی ھیں کہ کلمة اللہ، روح اللہ اور مردوں کو حکم خدا سے زندہ کرنے والے اولوالعزم رسول سے افضل ھیں اور آپ کی وجاہت اور قرب، خدائے ذوالجلال کے نزدیک زیادہ ھے ۔وقت ِ نماز، جو خدا کی طرف عروج کا وقت ھے، عیسیٰ بن مریم آپ کی اقتداء کریں گے اور آپ کی زبان مبارک کے ذریعے خدا سے ھم کلام ہوں گے۔
گنجی نے البیان میں نماز وجھاد میں آپ کی امامت کے بارے میں مروی روایات کے صحیح ہونے اور اس تقدم وامامت کے اجماعی ہونے کی تصدیق کے بعد، مفصل بیان کے ذریعے ثابت کیا ھے کہ اس امامت کو معیار قرار دیتے ہوئے آپ (ع)، عیسی ٰ سے افضل ھیں۔[29]
عقدالدرر، باب اول میں سالم اشل سے روایت نقل کی ھے کہ وہ کہتا ھے: ”میں نے ابی جعفر محمد بن علی الباقر (علیھما السلام) کو فرماتے سنا کہ: موسی (ع)نے نظر کی تو پھلی نظر میں وہ کچھ دیکھا جو قائم آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونا تھا، پس موسیٰ نے کھا: اے پروردگار !مجھے قائم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرار دے۔ ان سے کھا گیا : کہ وہ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت سے ھے۔ دوسری بار بھی اس کی مانند دیکھا اور دوبارہ وھی درخواست کی اور وھی جواب سنا، تیسری بار بھی اسی کو دیکھا اور سوال کیا تو تیسری بار بھی وھی جواب ملا۔“[30]
باوجود اس کے کہ حضرت موسی بن عمران(ع) خدا کے اولوالعزم پیغمبر وکلیم اللہ ھیں [31] اور خدا نے انھیں نو آیات کے ساتھ مبعوث فرمایا [32] اور مقرب درگاہ باری تعالی ھیں [33]۔ حضرت مھدی(ع) کے لئے وہ کیا مقام و منزلت تھی جسے دیکھنے کے بعد پانے کی آرزو میں حضرت موسی(ع) نے خدا سے تین مرتبہ درخواست کی۔
حضرت موسی بن عمران کا آپ(ع) کے مقام کو پانے کی آرزو کرنا ایسی حقیقت ھے جس کے لئے کسی اور حدیث وروایت کی ضرورت نھیں، اس لئے کہ حضرت عیسیٰ (ع)جیسے اولو العزم پیغمبر کا آپ(ع) کی
اقتدا میں نماز پڑھنا اس مقام کی حسرت وآرزو کے لئے کافی ھے۔ اس کے علاوہ عالم وآدم کی خلقت کا نتیجہ اور آدم سے لے کر خاتم تک تمام انبیاء(ع) کی بعثت کا خلاصہ ان چار نکات میں مضمر ھے:
الف۔ معرفت وعبادت خدا کے نور کا ظہور، جو ساری دنیا کو منور کردے [34]
ب۔ کائنات کو علم وایمان سے بھر پور زندگی عطا ہونا جو [35] کا بیان ھے۔
ج ۔باطل کے زوال او رحق کی حکومت کا قائم ہونا جو [36]کی تجلّی ھے۔
د۔تمام انسانوں کا عدل وانصاف کو اپنانا،جو تمام انبیاء ورسل کے ارسال اور کتب کے نزول کی علت غائی ھے[37]
ان تمام آثار کا ظہور قائم آل محمد(ص)کے ھاتھوں ہوگا ((یملاٴ اللّٰه به الاٴرض قسطا وعدلا بعد ما ملئت جورا وظلما))[38] اور یہ وہ مقام ھے جس کی حسرت و آرزو آدم سے لے کر عیسیٰ تک تمام انبیاء نے کی ھے۔


۲۔سنی اور شیعہ روایات میں آپ(ع) کو خلیفة اللہ کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے ((یخرج المهدی وعلی راٴسه غمامة فیها مناد ینادی: هذا المهدی خلیفة اللّٰه فاتبعوه))[39]

 اللہ جیسے مقدس اسم کی طرف اضافے کا تقاضا یہ ھے کہ آپ(ع) کا وجود تمام اسماء حسنی کی آیت ھے۔


۳۔آپ(ع) کے مقام کی عظمت وبلندی آپ کے اصحاب کے مقام ومنزلت سے روشن ہوتی ھے، جس کا ایک نمونہ روایات اھل تشیع میں یہ ھے کہ :”آپ(ع) کے اصحاب کی مقدار، اھل بدر کی تعداد کے برابر ھے[40]اور ان پر تلواریں ھیں کہ ھر تلوار پر ایک کلمہ لکھا ہوا ھے جو ہزار کلمات کی کنجی ھے ۔“[41]
اور روایات اھل سنت میں بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ایک صحیح روایت کا کچھ مربوط حصہ، جسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک اور ذھبی نے تلخیص میں نقل کیا ھے، یہ ھے

((لا یستوحشون إلی اٴحد ولا یفرحون باٴحد یدخل فیهم علی عدة اٴصحاب بدر لم یسبقهم الاٴولون ولا یدرکهم الآخرون وعلی عدة اٴصحاب طالوت الذین جاوزوا معه النهر))[42]


۴۔رسول اکرم(ص)اور حضرت مھدی میں خاتمیت کی مشترکہ خصوصیت اس بات کی متقاضی ھے کہ جس طرح نبوت آپ(ص)پر ختم ہو ئی اسی طرح امامت حضرت مھدی پر ختم ہوگی ۔نیز کار دین کا آغاز آنحضرت(ص)کے دست مبارک سے ہوا اور اختتام حضرت مھدی کے ھاتھوں ہوگا۔اسی نکتے کی جانب شیعہ اور سنی روایات میں اشارہ کیا گیا ھے کہ آنحضور(ص)نے فرمایا:(( المهدی منا یختم الدین بنا کما فتح بنا)) [43]آپ(ع) میں خاتم کی جسمانی، روحانی اور اسمی تمام خصوصیات جلوہ گر ھیں۔
دو مختلف شخصیات، یعنی خاتم النبین وخاتم الوصیین کا کنیت، اسم، سیرت وصورت کے اعتبار سے ایک ہونا یعنی ابوالقاسم محمد پر دین کا افتتاح واختتام، اھل نظر کے لئے ایسے مافوق ِادراک مقام ومرتبے کی حکایت کرتا ھے جو ناقابل بیان ھے۔

اس بارے میں بطور خاص وارد شدہ بعض روایات ملاحظہ ہوں :


الف۔رسول خدا(ص) سے روایت ھے کہ آپ(ص)نے فرمایا:”میری امت میں ایسا فرد ظہور کرے گا کہ اس کا نام میرا نام اور اس کا اخلاق میرا اخلاق ھے، زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہو گی۔“[44]


ب۔ایک صحیح روایت کے مطابق جسے جعفر بن محمد علیھما السلام نے اپنے آباء واجداد اور انہوں نے رسول خد ا(ص) سے نقل کیا ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا: ” مھدی میری اولاد سے ھے جس کا نام میرا نام اور اس کی کنیت میری کنیت ھے۔ خَلق وخُلق میں مجھ سے سب سے زیادہ شباہت رکھتا ھے۔ اس کے لئے ایسی غیبت اور حیرت ھے کہ لوگ دین سے گمراہ ہوجائیں گے، پھر اس کے بعد وہ شھاب ثاقب کی مانند ظہور کرے گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔“[45]


ج۔ صحیح نص کے مطابق چھٹے امام جعفر بن محمد علیھما السلام نے اپنے آبا ء اور انہوں نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا:”جو میری اولاد میں سے قائم کا انکار کرے، یقینا اس نے میرا انکار کیا ھے۔“ [46]


د۔شیخ صدوق ا علی اللہ مقامہ نے دو واسطوں سے احمد بن اسحاق بن سعد الاشعری سے، جو نھایت ھی بزرگ ثقہ افراد میں سے ھیں، نقل کیا ھے کہ انہوں نے کھا:”میں حسن بن علی علیھما السلام کی خدمت میں ان کے بعد ان کے جانشین کے متعلق سوال کرنے کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس سے پھلے کہ میں سوال کرتاآپ(ع) نے فرمایا :”اے احمد بن اسحاق !خداوند تبارک وتعالیٰ نے جب سے آدم کو خلق کیا ھے زمین کو اپنی حجت سے خالی نھیں رکھا اور نہ ھی اسے قیامت تک اپنی حجت سے خالی رکھے گا۔ وہ اپنی حجت کے ذریعے اھل زمین سے بلاوٴں کو دور کرتا ھے، اس کے وسیلے سے بارش برساتا ھے اور اس کے وجود کی بدولت زمین سے برکات نکالتا ھے۔“
احمد بن اسحاق کہتے ھیں، میں نے پوچھا : ”یا بن رسول اللہ ! آپ کے بعد امام وخلیفہ کون ھے؟“
حضرت امام حسن عسکری(ع) اٹھے، تیزی سے گھر میں داخل ہوئے اور جب باھر تشریف لائے تو آپ(ع) اپنے شانے پر ایک تین سالہ بچے کو لئے ہوئے تھے جس کا چھرہ چودہویں کے چاند کی طرح دمک رھا تھا، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا :”اے احمد بن اسحاق !اگر تم خدا اور اس کی حجتوں کے لئے محترم نہ ہوتے تو تمھیں اپنے بیٹے کی زیارت نہ کراتا، یہ پیغمبر خدا(ص) کا ھمنام اور ھم کنیت ھے۔ یہ وہ ھے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔
اے احمد بن اسحاق !اس امت میں اس کی مثال خضر وذوالقرنین کی ھے۔ خدا کی قسم، اس کی غیبت ایسی ہوگی کہ ھلاکت سے اس کے سوا کوئی نہ بچ سکے گا جسے خدا اس فرزند کی امامت پر ثابت قدم رکھے اور جسے خدا نے دعائے تعجیل فرج کی توفیق عنایت کی ہو۔“
پھر احمد بن اسحاق کہتے ھیں کہ میں نے پوچھا:”اے میرے آقا !کیا کوئی علامت ھے جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے ؟ “
اس بچے نے فصیح عربی میں کھا :

((اٴنا بقیةا للّٰه فی اٴرضه والمنتقم من اعدائه)) میں اس زمین پر بقیةاللہ اور دشمنان خدا سے انتقام لینے والا ہوں۔ اے احمد بن اسحاق! دیکھنے کے بعد طلب ِ اثر نہ کرو۔“
احمد بن اسحاق کہتا ھے کہ میں مسرور وخوشحال باھر آیا اور اگلے دن امام(ع) کی خدمت میں جا کر عرض کی:”یابن رسول اللہ! آپ(ع) نے مجھ پر جو احسان فرمایا اس سے میری خوشی میں بے انتھا اضافہ ہوا ھے۔ اس بچے میں خضر وذوالقرنین کی صفت کو بھی میرے لئے بیان فرمائیے ؟“
امام(ع) نے فرمایا:”غیبت کا طولانی ہونا، اے احمد۔“
عرض کی :”یا بن رسول اللہ !اس بچے کی غیبت طولانی ہوگی ؟“
امام(ع) نے فرمایا : ھاں، خدا کی قسم ایسا ھی ہوگا۔ غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ اکثر غیبت کے ماننے والے بھی انکار کرنے لگیں گے اور سوائے ان کے کوئی نہ بچے گا جن سے خداوند متعال ھماری ولایت کا اقرار لے چکا ھے او رجن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا ھے اور اپنی روح کے ساتھ جن کی تائید فرمائی ھے۔اے احمد بن اسحاق! یہ امر خدا میں سے ایک امر، رازِ خدا میں سے ایک راز اور غیب خدا میں سے ایک غیب ھے۔
میں نے جو کچھ دیا ھے اسے لے لو، اسے چھپا کر رکھو اور شاکرین میں سے ہوجاوٴ تاکہ قیامت کے دن ھمارے ساتھ علیین میں سے ہوسکو۔“[47]


۴۔سنی اور شیعہ روایت کے مطابق آپ(ع) کا ظہور خانہ کعبہ سے ہوگا۔آپ(ع) کے دائیں جبرئیل اور بائیں میکائیل ہوں گے۔ چونکہ حضرت جبرئیل(ع) انسان کے حوائج معنوی یعنی افاضہ علوم اور معارف الھیہ کا واسطہ، اور حضرت میکائیل(ع) مادی ضروریات یعنی افاضہٴ ارزاق کا واسطہ ھیں، بنا بر ایں علوم وارزاق کے خزائن کی کلید آپ(ع) کے اختیار میں ھے۔[48]سنی او رشیعہ روایت میں ظہور کے وقت آپ(ع) کی صورت مبارک کو کوکب درّی سے تشبیہ دی گئی ھے[49] اور ((لہ ہیبة موسیٰ وبہاء عیسی وحکم داوود وصبر ایوب ))[50]،امام علی رضا(ع) کی حدیث کے مطابق ایسے لباس میں ملبوس ہوں گے کہ ((علیه جیوب النور تتوقد من شعاع ضیاء القدس))[51]


۵۔الغیبة میں شیخ طوسی اور صاحب عقدالدرر کی روایت کے مطابق آپ(ع) عاشور کے دن ظہور فرمائیں گے[52] تاکہ [53]کی تفسیر ظاھر ہو۔ اور امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ خون سے آبیاری شدہ اسلام کا شجرہ طیبہ آپ کی برکت سے ثمر بخش بنے اور یہ آیت کریمہ [54]اپنے عالی ترین مصداق سے منطبق ہو۔


امام زمانہ (علیہ السلام) کی طولانی عمر

ممکن ھے کہ طول عمر، سادہ لوح افراد کے اذھان میں شبھات ایجاد کرنے کا سبب ہو لیکن یہ جاننا ضروری ھے کہ ایک انسان کی عمر کا ہزاروں سال تک طولانی ہونا، نہ تو عقلی طور پر محال ھے او رنہ ھی عادی اعتبار سے، کیونکہ محال ِعقلی یہ ھے کہ دو نقیضین کے اجتماع یا ارتفاع کا سبب ہو، مثا ل کے طورپر جیسا کہ ھم کھیں کہ کوئی بھی چیز یا ھے یا نھیں ھے، یا مثلاًعدد یا جفت ھے یا طاق، کہ ان کا اجتماع یا ارتفاع عقلا محال ھے اور محال عادی یہ ھے کہ عقلی اعتبار سے تو ممکن ہو، لیکن قوانینِ طبیعت کے مخالف ہو مثال کے طور پر انسان آگ میں گر کر بھی نہ جلے۔
انسان کا ہزار ھا سال طول عمر پانا، اور اس کے بدن کے خلیات کا جوان باقی رھنا نہ تو محال عقلی ھے اور نہ محال عادی، لہٰذا اگر حضرت نوح علی نبینا وآلہ وعلیہ السلام کی عمر اگر نو سو پچاس سال یا اس سے زیادہ واقع ہوئی ھے تواس سے زیادہ بھی ممکن ھے اور سائنسدان اسی لئے بقاء ِحیات ونشاط ِجوانی کے راز کی جستجو میں تھے اور ھیں۔ جس طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے مختلف دھاتوں کے خلیات کی ترکیب میں تبدیلی سے انھیں آفات اور نابود ہونے سے بچایا جاسکتا ھے اور لوھے کو کہ جسے زنگ لگ جاتا ھے اور تیزاب جسے نابود کر دیتا ھے، آفت نا پذیر طلائے ناب بنایاجا سکتا ھے، اسی طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے ایک انسان کی طولانی عمر بھی عقلی وعملی اعتبار سے ممکن ھے، چاھے ابھی تک اس راز سے پردے نہ اٹھے ہوں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ امام زمان(ع) پر اعتقاد، خداوند متعال کی قدرت مطلقہ، انبیاء کی نبوت اور معجزات کے تحقق پر ایمان لانے کے بعد کا مرحلہ ھے، اسی لئے جو قدرت ابراھیم(ع) کے لئے آگ کوسرد اور سالم قرا ر دے سکتی ھے، جادوگروں کے جادو کو عصائے موسی کے دھن کے ذریعے نابود کر سکتی ھے، مردوں کو عیسیٰ کے ذریعے زندہ کر سکتی ھے اور اصحاب کہف کو صدیوں تک بغیر کھائے پیئے نیند کی حالت میں باقی رکھ سکتی ھے ، اس قدرت کے لئے ایک انسان کو ہزاروں سال تک جوانی کے نشاط کے ساتھ اس حکمت کے تحت سنبھال کر رکھنا نھایت ھی سھل اور آسان ھے کہ زمین پر حجت باقی رھے اور باطل پر حق کے غلبہ پانے کی مشیت نافذ ہو کر رھے [55]
اس واقعے کو زیادہ عرصہ نھیں گزرا کہ شھرری میں شیخ صدوق کی قبر ٹوٹی اور آپ کے تر وتازہ بدن کے نمایاں ہونے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آ پ کے جسم پر قوانین ِطبیعت کا کوئی اثر نھیں ہوا اور بدن کو فاسد کرنے والے تمام اسباب وعوامل بے کار ہو کر رہ گئے۔ اگر طبیعت کا عمومی قانون امام زمانہ(ع) کی دعا سے پیدا ہونے والے شخص کے بارے میں ٹوٹ سکتا ھے، جس نے آپ(ع) کے عنوان سے ”کمال الدین وتمام النعمة “ جیسی کتاب لکھی ھے، تو خود اس امام(ع) کے بارے میں قانون کا ٹوٹناجو نائب خدا اور تمام انبیاء واوصیاء کا وارث ھے، باعثِ تعجب نھیں ہونا چاہئے۔

 

امام زمانہ (علیہ السلام) کے کچھ معجزات

شیخ الطائفہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں فرماتے ھیں:”غیبت کے زمانے میں آپ(ع) کی امامت کو ثابت کرنے والے معجزات قابل شمارش نھیں“[56]۔ اگر شیخ طوسی کے زمانے تک، جنہوں نے ۴۶۰ھجری میں وفات پائی ھے، معجزات کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل تھا تو موجودہ زمانے تک معجزات میں کتنا اضافہ ہو چکاہو گا؟!
لیکن اس مقدمے میں ھم، دو مشہور روایتیں پیش کرتے ھیں، جن کا خلاصہ علی بن عیسی اربلی،[57]جو فریقین کے نزدیک ثقہ ھیں، کی روایت کے مطابق یہ ھے کہ :”امام مھدی(ع) کے متعلق لوگ ما فوق العادة خبریں اور قصے نقل کرتے ھیں جن کی شرح طولانی ھے۔ میں اپنے زمانے میں واقع ہونے والے دو واقعات، جنھیں میرے دوسرے ثقہ بھائیوں کے ایک گروہ نے بھی نقل کیا ھے، ذکر کرتا ہوں:


۱۔حلہ میں فرات او ردجلہ کے درمیان آبادی میں اسماعیل بن حسن نامی شخص رہتا تھا، اس کی بائیں ران پر انسان کی مٹھی کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ حلّہ اور بغداد کے اطباء اسے دیکھنے کے بعد لا علاج قرار دے چکے تھے۔ لہٰذاوہ سامرہ آگیا اور دو ائمہ حضرت امام ھادی اور امام عسکری علیھما السلام کی زیارت کرنے کے بعد اس نے سرداب میں جاکر خدا کی بارگاہ میں دعا و گر یہ وزاری کی اور امام زمانہ(ع) کی خدمت میں استغاثہ کیا، اس کے بعد دجلہ کی طرف جاکر غسل کیا اور اپنا لباس پھنا۔ معاًاس نے دیکھا کہ چار گھڑسوار شھر کے دروازے سے باھر آئے۔ ان میں سے ایک بوڑھا تھا جس کے ھاتھ میں نیزہ تھا، ایک جوان رنگین قبا پھنے ہوئے تھا، وہ بوڑھا راستے کی دائیں جانب اور دوسرے دو جوان راستے کی بائیں جانب اور وہ جوان جس نے رنگین قبا پھن رکھی تھی ان کے درمیان راستے پر تھا۔
رنگین قبا والے نے پوچھا :”تم کل اپنے گھر روانہ ہو جاوٴ گے ؟“
میں نے کھا:”ھاں۔“ اس نے کھا:”نزدیک آوٴ ذرا دیکھوں تو تمھیں کیا تکلیف ھے ؟“
اسماعیل آگے بڑھا، اس جوان نے اس پھوڑے کو ھاتھ سے دبایا اور دوبارہ زین پر سوار ہوگیا۔ بوڑھے نے کھا:”اے اسماعیل ! تم فلاح پا گئے، یہ امام(ع) تھے۔“
وہ روانہ ہوئے تو اسماعیل بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، امام(ع) نے فرمایا:”پلٹ جاوٴ۔“
اسماعیل نے کھا:” آپ سے ھر گز جدا نھیں ہوں گا۔“ امام(ع) نے فرمایا:”تمھارے پلٹ جانے میں مصلحت ھے۔“ اسماعیل نے دوبارہ کھا:”آپ سے ھر گز جدا نھیں ہوسکتا۔“ بوڑھے نے کھا:”اسماعیل !تمھیں شرم نھیں آتی، دو مرتبہ امام نے فرمایا، پلٹ جاوٴ او رتم مخالفت کرتے ہو؟“
اسماعیل وھیں رک گیا، امام چند قدم آگے جانے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جب بغداد پھنچو گے، ابو جعفر یعنی خلیفہ مستنصر باللہ، تمھیں طلب کرے گا۔ جب اس کے پا س جاوٴ اور تمھیں کوئی چیز دے، اس سے نہ لینا اور ھمارے فرزند رضا سے کھنا علی بن عوض کو خط لکھیں، میں اس تک پیغام پھنچا دوں گا کہ جو تم چاہو گے تمھیں عطا کر ے گا۔“
اس کے بعد اصحاب کے ساتھ روانہ ہو گئے اور نظروں سے اوجھل ہونے تک اسماعیل انھیں دیکھتا رھا۔ غم وحزن اور افسوس کے ساتھ کچھ دیر زمین پر بیٹھ کر ان سے جدائی پر روتا رھا۔ا س کے بعد سامرہ آیا تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوکر پوچھنے لگے کہ تمھارے چھرے کا رنگ متغیر کیوں ھے ؟ اس نے کھا: کیا تم لوگوں نے شھر سے خارج ہونے والے سواروںکو پہچانا کہ وہ کون تھے ؟ انہوں نے جواب دیا: وہ باشرافت افراد ھیں، جو بھیڑوں کے مالک ھیں۔ اسماعیل نے کھا: وہ امام(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب تھے اور امام (ع)نے میری بیماری پر دست ِشفا پھیردیا ھے۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ زخم کی جگہ کوئی نشان تک باقی نھیں رھا، اس کے لباس کو بطور تبرک پھاڑ ڈالا۔ یہ خبر خلیفہ تک پھنچی، خلیفہ نے تحقیق کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔
اسماعیل نے رات سرداب میں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے ھمراہ سامراء سے باھر آیا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل دیا، جب قنطرہ عتیقہ پھنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا ھجوم جمع ھے اور ھر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچھ رھے ھیں۔نشانیوں کی وجہ سے اسے پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پھاڑ کر لے گئے۔
تحقیق پر مامور شخص نے خلیفہ کو تمام واقعہ لکھا۔ اس خبر کی تصدیق کے لئے وزیر نے اسماعیل کے رضی الدین نامی ایک دوست کو طلب کیا۔ جب دوست نے اسماعیل کے پاس پھنچ کر دیکھا کہ اس کی ران پر پھوڑے کا اثر تک باقی نھیں ھے، وہ بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد اسماعیل کو وزیر کو پاس لے گیا، وزیر نے اس کے معالج اطباء کو بلوایا اور جب انہوں نے بھی معائنہ کیا او رپھوڑے کا اثر تک نہ پایا تو کھنے لگے :”یہ حضرت مسیح کا کام ھے“، وزیر نے کھا : ”ھم جانتے ھیں کہ کس کا کام ھے۔“
وزیر اسے خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے اس سے حقیقت حال کے متعلق پوچھا، جب واقعہ بیان کیا تو اسے ہزار دینار دئیے، اسماعیل نے کھا: میں ان سے ایک ذرے کو لینے کی جراٴت نھیں کرسکتا۔ خلیفہ نے پوچھا: کس کا ڈر ھے ؟ اس نے کھا: ”اس کا جس نے مجھے شفا دی ھے، اس نے مجھ سے کھا ھے کہ ابو جعفر سے کچھ نہ لینا۔“ یہ سن کر خلیفہ رونے لگا۔
علی بن عیسیٰ کہتے ھیں: میں یہ واقعہ کچھ لوگوں کے لئے نقل کر رھا تھا، اسماعیل کا فرزند شمس الدین بھی اس محفل میں موجود تھا جسے میں نھیں پہچانتا تھا، اس نے کھا: ”میں اس کا بیٹا ہوں۔“ میں نے اس سے پوچھا :” کیا تم نے اپنے والد کی ران دیکھی تھی جب اس پر پھوڑا تھا؟“ اس نے کھا:”میں اس وقت چھوٹا تھا لیکن اس واقعے کو اپنے والدین، رشتہ داروں او رھمسایوں سے سنا ھے اور جب میں نے اپنے والد کی ران کو دیکھا تو زخم کی جگہ بال بھی آچکے تھے۔“
اور علی بن عیسیٰ کہتے ھیں :”اسماعیل کے بیٹے نے بتایا کہ صحت یابی کے بعد میرے والد چالیس مرتبہ سامراء گئے کہ شاید دوبارہ ان کی زیارت کر سکیں۔“


۲۔علی بن عیسیٰ کہتے ھیں:” میرے لئے سید باقی بن عطوہ علوی حسنی نے حکایت بیان کی کہ ان کے والد عطوہ امام مھدی(ع) کے وجود مبارک پر ایمان نہ رکھتے تھے اور کھا کرتے تھے :”اگر آئے اور مجھے بیماری سے شفا دے تو تصدیق کروں گا۔“ اور مسلسل یہ بات کھا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ نماز عشاء کے وقت سب گھر والے جمع تھے کہ والد کے چیخنے کی آواز سنی، تیزی سے ان کے پاس گئے۔ انہوں نے کھا:”امام(ع) کی خدمت میں پھنچو کہ ابھی ابھی میرے پاس سے باھر گئے ھیں۔“
باھر آئے تو ھمیں کوئی نظر نھیں آیا، دوبارہ والد کے پاس پلٹ کر آئے تو انہوں نے کھا: ”ایک شخص میرے پاس آیا اور کھا: اے عطوہ، میں نے کھا: لبیک، اس نے کھا : میں ہوں مھدی، تمھیں اس بیماری سے شفا دینے آیا ہوں اس کے بعد اپنا دست مبارک بڑھا کر میری ران کو دبایا او ر واپس چلے گئے۔“
اس واقعہ کے بعد عطوہ ھرن کی طرح چلتے تھے ۔


زمانہ غیبت میں امام زمانہ (علیہ السلام) سے بھرہ مند هونے کا طریقہ:

اگر چہ امام زمانہ(ع) ھماری نظروں سے غائب ھیں اور اس غیبت کی وجہ سے امت اسلامی آپ(ع) کے وجود کی ان برکات سے محروم ھے جو آپ(ع) کے ظہور پر متوقف ھیں، لیکن بعض فیوضات ظہور سے وابستہ نھیں ھیں۔
آپ(ع) کی مثال آفتاب کی سی ھے، کہ غیبت کے بادل پاکیزہ دلوں میں آپ(ع) کے وجود کی تاثیر میں رکاوٹ نھیں بن سکتے، اسی طرح جیسے سورج کی شعاوٴں سے اعماق ِزمین میں موجود نفیس جواھر پروان چڑھتے ھیں اور سنگ و خاک کے ضخیم پردے اس گوھر کو آفتاب سے استفادہ کرنے سے نھیں روک سکتے۔
جیسا کہ خداوند متعال کے الطاف ِخاصّہ سے بھرہ مند ہونا دوطریقوں سے میسر ھے۔
اول۔جھاد فی اللہ کے ذریعے، یعنی خدا کے نور عنایت کے انعکاس میں رکاوٹ بننے والی کدورتوں سے نفس کوپاک کرنے سے۔
دوم۔اضطرار کے ذریعے جو فطرت اور مبدء فیض کے درمیان موجود پردوں کو ہٹاتا ھے[58]
اسی طرح فیض ِالٰھی کے وسیلے سے استفادہ کرنا جو اسم اعظم ومَثَلِ اعلیٰ ھے، دو طریقوں سے ممکن ھے :


اول۔فکری،ا خلاقی اور عملی تزکیہ کہ ((اٴما تعلم اٴن اٴمرنا هذا لاینال إلا بالورع))[59]


دوم۔اضطرار اوراسباب مادی سے قطع تعلق کے ذریعے کہ اس طریقے سے بہت سے افراد جن کے لئے کوئی چارہ کار نہ بچا تھا اور جو بالکل بے دست وپا ہو کر رہ گئے تھے، امام(ع) سے استغاثہ کرنے کے بعد نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آخر میں ھم ساحت مقدس امام زمانہ(ع) کے حضور میں اپنے قصور وتقصیر کا اعتراف کرتے ھیں۔آپ(ع) وہ ھیں جس کے وسیلے سے خدا نے اپنے نور اور آپ(ع) ھی کے وجودِ مبارک سے اپنے کلمے کو پایہ تکمیل تک پھنچایا ھے، کمالِ دین امامت سے ھے اور کمال ِامامت آپ(ع) سے ھے اور آپ (ع)کی ولادت کی شب یہ دعا وارد ہوئی ھے ((اللّٰهم بحق لیلتنا هذه ومولودها وحجتک وموعودها التی قرنت إلی فضلها فضلک، فتمّت کلمتک صدقاً و عدلاً، لا مبدّل لکلماتک و لا معقّب لآیاتک، و نورک المتعلق و ضیائک المشرق و العلم النور فی طخیاء الدیجور الغائب المستور جلّ مولده و کرم محتده، و الملائکة شَهدَه واللّٰه ناصره و موٴیّده إذا آن میعاده، والملائکة امداده، سیف اللّٰه الذی لا ینبو، و نوره الذی لا یخبو، و ذو الحلم الذی لا یصبو…))۔[60]
-------------------------------------------------------------------------------
[1] رجوع کریں آئندہ صفحہ حاشیہ نمبر۲۔
[2] بحار الانوار ج۱۶ ص۲۱۰(فقط مبعوث ہوا ہوں اس لئے کہ مکارم الاخلاق کو پایہ تکمیل تک پھنچا سکوں۔
[3] سورہٴ فاطر، آیت۱۰۔” پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ھیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ھے“۔
[4] سورہٴ ابراھیم، آیت۱۔”الٓر یہ کتاب ھے جسے آپ کی طرف نازل کیا ھے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں“۔
[5] ”جواس حال میں مر جائے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جھالت کی موت مرے گا“۔مسند الشامیین، ج۲، ص۴۳۷، المعجم الکبیر، ج۱۹، ص ۳۸۸۔
مسند احمد بن حنبل، ج۴، ص۹۶ اور دوسری کتابیں۔
[6] عیون اخبار الرضاعلیہ السلام،ج۲، ص۱۲۲۔”زمین حجت خدا سے کسی زمانہ میں خالی نہ ہوگی اور یہ حجت مستحکم وسیلہ ھیں یھاں تک کہ فرمایا جو مرجائے اور ان کو نہ پہچانتا ہو وہ جھالت کی موت مرتا ھے“۔
[7] صواعق محرقہ، ص۱۵۰۔
[8] سورہٴ توبہ، آیت۳۳۔”وہ خدا وہ ھے جس نے اپنے رسول کو ھدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاھے مشرکین کو کتنا ھی ناگوار کیوں نہ ہو“۔
[9] البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف،ص۵۲۸(کتاب کفایة الطالب میں)
[10] سورہٴ بقرہ، آیت۳۔”جوغیب پر ایمان رکھتے ھیں ۔پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ھیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ھیں“۔
[11] ” اگر دنیا کے ختم ہو جانے میں ایک دن بھی باقی رہ جائے تو خدا اس کو اتنا طولانی کر دے گا کہ میرے اھل بیت(ع) میں سے ایک شخص قیام کرے جو میرا ھم نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی جو زمین کو عدل وانصاف سے ویسا بھر دے گا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوگی“۔
[12] تفسیر کبیر، فخر رازی،ج۲، ص۲۸۔
[13] سورہٴ زخرف، آیت۶۱۔”اور بے شک یہ قیامت کی واضح دلیل ھے لہٰذا اس میں شک نہ کرو اور میرا اتباع کرو کہ یھی سیدھا راستہ ھے“۔
[14] صواعق محرقہ، ص۱۶۲۔
[15] سورہٴ نور، آیت ۵۵۔”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ھے کہ انھیں روئے زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پھلے والوں کو بنایا ھے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ھے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وھی لوگ فاسق اور بدکردار ھیں“۔
[16] تفسیر کبیر،، فخر رازی، ج۲، ص۲۸۔غیبة نعمانی، شیخ طوسی ، ص۱۷۷؛ تفسیر القمی، ج۱، ص ۱۴، اور دیگر منابع۔
[17] سورہٴ شعراء، آیت۴۔”اگر ھم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساتھ جھک جاتیں“۔
[18] ینابیع المودة، ج۳، ص ۲۹۷۔ ”آگاہ ہو جاوٴکہ خدا کی حجت کا ظہور خانہ خدا میں ہوگیا ھے تو اس کی پیروی کرو کیونکہ حق اس کے ساتھ ھے اس کی ذات کے اندر ضم ھے“۔
[19] سورہٴ قصص، آیت۵۔”اور ھم یہ چاہتے ھیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیاگیا ھے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرا ر دیدیں“۔
[20] نھج البلاغہ،شمارہ۲۰۹،از حکمت امیر المومنین علیہ السلام۔
[21] سورہٴ انبیاء، آیت۱۰۵۔”اور ھم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ھے کہ ھماری زمین کے وارث ھمارے نیک بندے ھی ہوں گے“۔
[22] بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۷، نمبر۶۔
[23] تہذیب التہذیب، ج۹،ص ۱۲۶، (محمد بن خالد جندی کے ترجمہ میں)
[24] نو ر الابصار، ص۱۸۹۔
[25] شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۰، ص۹۶۔
[26] الفتوحات الاسلامیہ، ج۲، ص۳۳۸۔
[27] ”ھر قوم کا امام وہ ہوتا ھے جو سب سے پھلے خدا پر وارد ہوتا ھے تو تم لوگ بھی افضل کو آگے کرو“۔ بغیة الباحث عن زوائد مسند الحارث، ص۵۶، نمبر۱۳۹۔ وسائل الشیعہ، کتاب الصلاة، ابواب الجماعة، باب۲۶، ج۸، ص۳۴۷۔
[28] الصواعق المحرقہ، ص ۱۶۴، فتح الباری، ج۶، ص ۳۵۸،اور اسی کے مشابہ صحیح بخاری، ج۴، ص۱۴۳؛ صحیح مسلم، ج۱، ص۹۴؛سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۱۳۶۱؛عقد الدرر، دسواں حصہ،اور اھل سنت کی دوسری کتابیں۔
الغیبة نعمانی، ص۷۵۔بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۷۲ اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔
[29] البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، ص۴۹۸۔
[30] عقد الدرر، پھلا حصہ،ص۲۶، الغیبة نعمانی، ص۲۴۰۔
[31] سورہٴ نساء، آیت ۱۶۴۔ ”اور موسی سے خدا نے کلام کیا جو حق کلام کرنے کا تھا“۔
[32] سورہٴ اسراء، آیت۱۰۱۔”اور ھم نے موسیٰ کو نو کھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں
[33] سورہٴ مریم، آیت۵۲۔”اور ھم نے انھیںکوہ طور کے داھنے طرف سے آواز دی اور راز ونیاز کے لئے اپنے سے قریب بلا لیا“۔
[34] سورہٴ زمر، آیت۶۹۔”اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگااٹھے گی“۔
[35] سورہٴ حدید، آیت۱۷۔”یاد رکھو کہ خدازندہ کرتا ھے زمین کو اس کی موت کے بعد“۔
[36] سورہٴ اسراء، آیت۸۱۔”اورکہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل ھر حال فنا ہونے والا ھے“۔
[37] سورہٴ حدید، آیت۲۵۔”بے شک ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں“۔
[38] ”خدا زمین کو اس کے ذریعہ عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے ظلم و جور سے پر تھی“۔ بحار الانوار، ج۳۸، ص۱۲۶۔اسی مضمون سے ملتی ہوئی عبارت البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، ص۵۰۵،(کتاب کفایة الطالب)
صحیح ابن حبان، ج۱۵، ص۲۳۸۔ مستدرک صحیحین، ج۴، ص۵۱۴ ۔مسند احمد بن حنبل، ج۳، ص۳۶، مسند ابی یعلی، ج۲، ص۲۷۴ نمبر۹۸۷ اور دوسری کتابیں۔
[39] بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۱۔ ”مھدی اس حال میں خروج کرے گا کہ اس کے سر پر ایک ابر ہوگا جس میں ایک منادی ندا دے گا یہ مھدی ھے جو خدا کا خلیفہ ھے بس اس کی اتباع کرو“۔
عنوان خلیفة اللہ مستدرک صحیحین ، ج۴، ص۴۶۴ میں
سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۱۳۶۷ مسند احمد بن حنبل، ج۵، ص۲۷۷
نور الابصار،ص۱۸۸۔
عقد الدرر الباب الخامس، ص۱۲۵ اور دوسری کتابوں میں آیاھے۔
[40] بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۷۔
[41] بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۸۶۔
[42] مستدرک صحیحین ، ج۴، ص۵۵۴(ان کو خوف نھیں کہ کسی سے مدد حاصل کریں اور نہ کسی سے خوش ہوتے ھیں کہ ان میں داخل ہوجائیں ان کی تعداد اصحاب بدر کے برابر ھیں نہ ان سے کوئی سبقت لے پایا ھے اور نہ ہوئی ان تک پہونچ سکتا ھے ان کی تعداد طالوت کے اس لشکر کے جتنی ھے جس نے طالوت کے ساتھ نھر کو پار کیا تھا۔
[43] صواعق محرقہ، ص۱۶۳۔اسی مضمون سے ملتی ہوئی عبارت المعجم الاوسط میں، ج۱، ص۵۶ میں ھے۔
عقد الدرر الباب السابع، ص۱۴۵، اور اھل سنت کی دوسری کتابیں۔
بحار الانوار، ۵۱، ص۹۳ اور شیعوں کی دوسری کتابیں میں آیاھے۔
[44] صحیح ابن حبان، ج۸، ص۲۹۱،ح ۶۷۸۶ اور دوسری کتابیں۔
[45] کمال الدین وتمام النعمة، باب۲۵، رقم۴، ص۲۸۷۔
[46] کمال الدین وتمام النعمة، باب۳۹، رقم۸، ص۴۱۲۔
[47] کمال الدین وتمام النعمة، ص۳۸۴و ینابیع المودة،ص۴۵۸۔
[48] عقدالدرر الباب الخامس وفصل اول الباب الرابع،ص۶۵؛ الامالی للمفید، ص ۴۵۔
[49] فیض القدیر، ج۶، ص۳۶۲، نمبر۹۲۴۵۔کنزالعمال، ج۱۴، ص۲۶۴، نمبر۳۸۶۶۶۔
ینابیع المودة، ج۲، ص ۱۰۴، ج۳، ص۲۶۳، اور اھل سنت کی دوسری کتابیں
بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۱۷، ۲۲۲وج۵۱،ص۸۰ اور دوسرے موارد اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔
[50] بحار الانوار،ج۳۶، ص۳۰۳۔
[51] بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۲۔”اس پر نور کے اس طرح لباس ھیں جو قدس کی روشنی سے روشن رہتے ھیں“۔
[52] الغیبة، ص۴۵۲ و۴۵۳، عقدالدرر الباب الرابع، فصل اول ، ص۶۵۔
[53] سورہٴ صف، آیت ۸۔”یہ لوگ چاہتے ھیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ھے چاھے یہ بات کفار کو کتنی ناگوار کیوں نہ ہو“۔
[54] سورہٴ اسراء، آیت ۳۳۔”جو مظلوم قتل ہوتا ھے ھم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ھیں“۔
[55] سورہٴ یس، آیت۸۲۔”اس کا صرف امر یہ ھے کہ کسی شئے کے بارے میں یہ کھنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جااور وہ شئے ہوجاتی ھے“۔
[56] الغیبةشیخ طوسی، ص۲۸۱۔
[57] کشف الغمة، ج۲، ص۴۹۳۔
[58] سورہٴ نمل، آیت ۶۲۔”بھلا وہ کون ھے جو مضطر کی فریا د کو سنتا ھے جب وہ اس کو آواز دیتا ھے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ھے“۔
[59] بحار الانوار، ج۴۷، ص۷۱۔”کیا تم نھیں جانتے کہ ھمارے امر تک نائل نھیں ہوسکتے مگر تقویٰ کے ذریعہ“۔
[60] مصباح متھجد، ص۸۴۲۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

منتظرين کو کيا کرنا چاہئے 2
ظہور مہدي (عج) اور حجازيوں کا رد عمل!
امام مہدی (عج) کا انقلابی اورسیاسی طرز عمل
ولادت امام (عج) اور شيعہ اور سني محدثين کا اختلاف
المہدی منی یقضوا اثری ولا یخطئ
تيسري حتمي علامت آسماني چيخ
انتظار احادیث كی روشنی میں
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
کا شتکاری کے نتیجوں میں برکت
منتظرين کے فرائض

 
user comment