قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔ باطل کبھی اس کے منہ نہیں آسکتا ،نہ سامنے سے نہ پیچھے سے ۔احکام ،عبادات اور عقا"ئد کے بارے میں قرآن مسلمانوں کے لیے مرجع اعلی ہے ، جو اس میں شک کرے یا اس کی توہین کرے اسلام پر پھر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ قرآن کے تقد س ، احترام اور بغیر طہارت کے اس کو چھونے کی ممانعت پر سب مسلمانوں کا انفاق ہے ۔
لیکن اس کی تفسیر اور تاویل کےبارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہے : شیعوں کے نزدیک قرآن کی تفسیر اور تاویل کا حق صرف ائمہ اہل بیت کو ہے ۔جبکہ اہل سنت اس سلسلہ میں یا تو صحابہ پر اعتماد کرتے ہیں یا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک پر ۔
قدرتی طور پر اس صورت حال کی وجہ سے احکام اور بالخصوص فقہی احکام میں اختلاف پیدا ہوا ۔کیونکہ خود اہلسنت کے چاروں مذاہب میں آپسم میں کافی اختلاف ہے ، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ شیعوں اور سنیوں میں اور بھی زیادہ اختلاف ہو ۔
میں نے کتاب کے شروع میں کہا ہے کہ اختصار کے پیش نظر میں شاید چند ہی مثالیں دے سکوں ۔اس لئے جو کوئی مزید تحقیق کا خواہشمند ہے ، اس کے لئے ضروری ہے وہ سمندر کہ تہ میں غوطہ زن ہو تاکہ حسب توفیق کچھ جواہر پارے اس ہاتھ آسکیں ۔
اہل سنّت اور اہل تشیّع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کے سب احکام بتلادیئے ہیں اور اس کی تمام آیات کی تفسیر بیان کردی ہے ،لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کی وفات کے بعد قرآن کی تفسیر
اور تاویل کے لئے کس سے رجوع یا جائے ؟
اہل سنّت کہتے ہیں کہ سب صحابہ قرآن کی تفسیر کے بدرجہ اولی اہل ہیں اور ان کے بعد تمام علماء امت اسلامیہ ۔جہاں تک تاویل کا تعلق ہے تو اہل سنّت کی اکثریت کا کہنا یہ کہ "وما يعلم تاويله الّا الله"
بخز اللہ کے کسی کو اس کی تاویل کا علم نہیں ۔ اس موقع پر مجھے وہ گفتگو یادآگئی جو ایک دفعہ میرے اور تیونس کے مشہور عالم زغوانی کے مابین ہوئی تھیں ۔میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا جو حضرت موسی کے ملک الموت کو تھپڑ مارکر ان کی آنکھ نکال دینے کے بارےمیں بخاری اور مسلم میں آئی ہے (1)
شیخ زغوانی بخاری پڑھانے اور اس کی شرح کے ماہر سمجھے جاتے تھے انھوں نے فورا جواب دیا : جی ہاں ! یہ حدیث بخاری میں موجود ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ بخاری میں جو بھی حدیث ہے اس کی صحت کے بارے میں شک نہیں کیا جاسکتا ۔
میں نے کہا :- میں سمجھا نہیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی تشریح فرمادیں !؟
وہ:-صحیح بخاری کتاب اللہ کی طرح ہے ، جو سمجھ سکتے ہو اسے سمجھ لو ، جو نہیں سمجھ سکتے اسے چھوڑ دو اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد کردو ۔
میں :- صحیح بخاری کس طرح قرآن کی طرح ہے ؟ ہم سے تو قرآن کو بھی سمجھنے کے لئے کہا گیا ہے ؟
وہ : هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ (2)
میں بھی شیخ زغوانی کے ساتھ ساتھ تلاوت کررہا تھا ، میں نے الّا الله کےبعد پڑھا والرّاسخون فی العلم تو انھوں نے چیخ کر کہا ۔
وہ :- ٹھہرو! اللہ کےبعد وقف لازم ہے ۔
میں :- حضرت! واو عاطفہ ہے ، الراسخون فی العلم کا عطف اللہ پر ہے ۔
وہ:- یہ نیا جملہ ہے : والرّاسخون فی العلم يقولون آمنّا به کلّ من عند ربّنا (3) گو وہ اس کی تاویل سےناواقف ہوں ۔
میں :- حضرت! آپ توبڑے عالم ہیں ، آپ کیسے اس مطلب کو تسلیم کرتے ہیں ؟
وہ:- اس لیے کہ صحیح تفسیر یہی ہے ۔
میں :- یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ ،نے ایسا کلام نازل کیا ہو جس کا مطلب صرف وہی جانتا ہے ۔آخر اس میں کیاحکمت ہے ؟ ہمیں تو قرآن پر غور کرنے اور اس کو سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بلکہ قرآن نے تو لوگوں کو للکارا ہے کہ اگر ہوسکے تو اس جیسی کوئی آیت یا کوئی ایک سورت بناکر لے آؤ ۔ اگر اللہ کے سوا کوئی قرآن کو سمجھتا ہی نہیں تو پھر اس چلینچ کا کیا مطلب ہے ؟اس پر شیخ زغوانی ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو مجھے ان کے پاس لیکر گئے تھے اور کہنے لگے :" تم میرے پاس ایسے آدمی کولے کر آئے ہوجو مجھے صرف لاجواب کرنا چاہتا ہے ،وہ کوئی سوال پوچھنا نہیں چاہتا " پھر انھوں نے ہمیں یہ کہتے ہوئے رخصت کردیا ک:" میں بیمار ہوں ، تم میری بیماری بڑھانے کی کوشش نہ کرو"۔ جب ہم ان
کے پاس سے نکلے تومیرے ساتھیوں میں سے ایک تو مجھ سے سخت خفا تھا ،باقی چار میرے طرفدار تھے اور کہہ رہے تھے کہ معلوم ہوگیا کہ بقول شخصی "شیخ بالکل کورے ہیں " اب میں پھر اصل موضوع پر آتا ہوں ۔ قرآن کی تاویل نہ کرنے پر سب اہل سنت کا اتفاق ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کی تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے ۔لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت ع قرآن کی تفسیر اور تاویل دونوں کے اہل ہیں اور راسخون فی العلم سے وہی مراد ہیں اور وہی وہ اہل ذکر ہیں جن سے رجوع کرنے کا اللہ نے ہمیں اس آیت میں حکم دیا ہے :" فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ"(4) اور یہی وہ ہیں جن کو اللہ نے منتخب قراردیا ہے اور اپنی کتاب کے علم کا وارث بنایا ہے ۔ارشاد ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "(5)
اسی مقصد کے لئے رسول اللہ نے انھیں قرآن کا ہمدوش اور ثقینل میں سے ایک قراردیا ہے اور ان سے تمسک کرنےکا سب مسلمانوں ک وحکم دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا :
"تركت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي اهلبيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلّوابعدي ابدا"(6)
میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک تواللہ کی کتاب اور دوسری مر ی عترت ،میرے اہل بیت جب تک تم ان کا دامن تھامے رہوگے ، میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔
مسلم کے الفاظ ہیں :" کتاب اللہ اور میرے اہلبیت ۔ میں تمھیں اپنے اہلبیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں ۔"آپ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے (7)"
سچی بات یہ ہے کہ میرا رجحان شیعہ قول کی طرف ہے کیونکہ وہ زیادہ سمجھ میں آنے والا ہے ۔ قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، اس کی تفسیر بھی ہے اور تاویل بھی ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صرف اہل بیت ع ہی کو اس کے سب علوم سے واقف ہونا چاہیۓ کیونکہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ ، سب لوگوں کو قرآن کی سمجھ عطاکردے ۔اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے :” وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ”۔علمائے اسلام تک میں قرآن کی تفسیر میں اختلاف ہے ، مگر جیسا کہ خود اللہ نے گواہی دی ہے راسخون فی العلم قرآن کی تاویل سے واقف ہیں ۔اس لئے ان کے مابین قرآن کی تفسیر میں اختلاف نہیں ہوسکتا ۔
یہ بھی بالبداہت معلوم ہے کہ اہل بیت سب سے زیادہ عالم ، سب سے زیادہ پرہیزگار ،سب سے زیادہ متقی اور سب سے افضل تھے ۔ فرزدق نے ان کے بارے میں کہا ہے _
وإن عدّأهل التّقى كانواأئمّتهم
وإن قيل من خيرأهل الأرض قيل هم
اگر اہل تقوی کو گنوایا جائے تو یہ ان سب کے امام ہیں ۔ اوراگر پوچھا جائے کہ دنیا میں بہترین لوگ کون ہیں تو کہا جائے گا کہ یہی تو ہیں ۔
میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا جس سے ظاہر ہوجائیگا کہ شیعہ وہی کچھ کہتے ہیں جو قرآن کہتا ہے اور جس کی تائید سنت نبوی سے ہوتی ہے ۔ آئیے یہ آیت پڑھیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌإِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ….."
میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کی جگہ کی ، اور اگر تم سمجھو تم یہ ایک بڑی قسم ہے ۔واقعی یہ ایک قابل احترام قرآن ہے ،ایک خفیہ کتاب میں ، جسے کوئی مس نہیں کرسکتا سوائے ان کے جو پاک کیے گئے ہیں ۔(سورہ واقعہ ۔آیات 75-79)
ان آیات سے بغیر کسی ابہام کے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اہل بیت ع ہی ہیں جو قرآن کے چھپے ہوئے معنی سمجھ سکتےہیں ۔
اگر ہم غور سے دیکھیں تویہ قسم جو ربّ العزت نے کھائی ہے واقعی ایک بڑی قسم ہے بشرطیکہ ہم سمجھیں ، کیونکہ اللہ نے (دوسری سورتوں میں ) قسم کھائی ہے ،عصر کی ، قلم کی ، انجیر کی، زیتون کی ،ان کے مقابلے میں مواقع النجوم یعنی ستاروں کی جگھوں کی یا ستاروں کی منازل کی قسم ، ایک بڑی قسم ہے کیونکہ ستاروں کی منازل اللہ کے حکم سے پر اسرار طور پر کائنات پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب اللہ قسم کھاتا ہے تویہ قسم کسی بات کی ممانعت کے لئے نہیں ہوتی بلکہ کسی بات کی نفی یا اثبات کے لئے ہوتی ہے ۔
قسم کے بعد اللہ سبحانہ زور دے کر کہتا ہے کہ واقعی یہ قابل احترام قرآن ، ایک کتاب مکنون میں ہے اور مکنون خفیہ یا چھپے ہوئے کو کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہے "لا یمسّہ الا المطہرون" اس میں لا نفی کے لیے ہوسکتا ہے کیونکہ قسم کے بعد آیا ہے ۔ یمسّہ کے معنی یہاں درک کرنے اور سمجھنے کے ہیں ، ہاتھ سے چھونے کے نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے ۔ دراصل مسّ او ر لمس دولفظ ہیں اور دونوں کے معنی میں فرق ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے :- " إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ"(8)
دوسری جگہ ارشاد ہے :" الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ"(9)
ان آیات میں مسّ کا تعلق دل ودماغ سے ہے ہاتھ سے چھونے سے نہیں ۔ہم پوچھتے ہیں یہ کیسی بات ہے کہ اللہ سبحانہ ،تو قسم کھا کر کہتا ہے کہ قرآن کو کوئی چھو نہیں سکتا بجز اس کے جو پاک کئے گئے ۔ جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بنی امیہ کے حکمران افلاس ایمانی کے سبب توہین قرآن کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور ولید بن مروان نے تویہاں تک کہاتھا کہ
" تم ہر جابر سرکش کو عذاب سےڈراتا ہے اور میں بھی جابر اور سرکش ہوں، جامحشر میں اپنے رب سے کہہ دینا کہ ولید نے مجھے پھاڑدیا تھا ۔"
ہم نے خود دیکھا ہے کہ جب اسرائیلوں نے بیروت پر قبضہ کیا تو انھوں نے قرآن پاک کو اپنے پیروں تلے روندا اور جلایا ۔ اس کے دل ہلادینے والی تصویر یں ٹیلویژن پر دکھائی گئی تھیں ۔(10)
اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی قسم کھائے اور پھر قسم توڑے ۔البتہ اللہ سبحانہ ،نے اس کی نفی کی ہے کہ قرآن مکنون کے معانی کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ، بجز اس کے ان منتخب بندوں کے جنھیں ان سے چن لیا ہے خوب پاک کیا ہے ۔ اس آیت میں مطہرون اسم مفعول کا صغہ ہے جس کا معنی ہیں :"وہ جو پاک کیے گئے " سورہ احزب میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "
اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ اے اہلبیت تم سے رجس (11) کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک کردے ۔(سورہ احزاب ۔آیت 32)
سوا س آیت میں "لا یمسہ الا مطہرون" کے معنی ہیں کہ "قرآن کی حقیقت کو کوئی نہںہ سمجھتا سوائے اہل بیت کے " اسی لئے رسول اللہ ص نے ان کے بارے میں کہا ہے :
"النّجوم أمان لأهل الأرض من الغرق وأهل بيتي أمان لاُمتي من إختلافٍ فاذاخالفها قبيلةٌ مّن العرب اختلفوا فصاروا حزب الإبليس."ستارے زمین والوں کوڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہلبیت ع میری امت کو اختلاف سے بچاتے ہیں ۔ جب عرب کا کوئی قبیلہ میرے اہلبیت ع کی مخالفت کرتا ہے تو اس قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے اور وہ ابلیس کی جماعت بن جاتا ہے ۔(12)
اس لیے شیعوں کا یہ کہنا کہ قرآن اہلبیت ع ہی سمجھتے ہیں ایسی بات نہیں جیسا کہ اہل سنت دعوی کرتے ہیں کہ شیعہ تو جھوٹ بولتے ہیں اور اہلبیت ع کی محبت میں غلو کرتے ہین کیونکہ شیعوں کی تائید میں دلائل صحاح ستہ میں موجود ہیں ۔
-------------------
(1):- صحیح بخاری جلد 2 ص 163 باب وفات موسی اور مسلم جلد 2 ص 300 باب فضائل موسی ۔
(2):- وہ وہی اللہ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری ۔ اس میں کچھ محکم آیتیں ہیں جن پر اصل کتابکا مدار اور کچھ متشابہ آیتیں ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے ہولیتے ہیں جو متشابہ ہے ۔ ان کا مقصد شورش پھیلانا اور متشابہ آیات کا غلط مطلب نکالنا ہے حالانکہ ان آیات کا صحیح مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور۔۔"(سورہ آل عمران ۔آیت 7)
(3):-اور راسخون فی العلم کہتے : "ہم تو اس پر ایمان لے آئے ۔یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے "
(4):-اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو (سورہ نحل ۔آیت 43 )تفسیر طبری جلد 14 صفحہ 109 ،تفسیر ابن کثیر جلد 2۔
(5):- پھر ہم نے وارث بنایا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔(سورہ فاطر آیت 32)
(6)جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 329 ۔حدیث 3874 مطبوعہ دارالفکر بیروت۔
(7):- صحیح مسلم جلد 2صفحہ 362 باب فضائل علی بن ابی طالب ع
(8):- جو لوگ متقی ہیں جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک سجھائی دینے لگتا ہے ۔ (سورہ اعراف ۔آیت 201)
(9):- جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ(قیامت میں )ایسے اٹھیں گے جیسے وہ اٹھتا ہے جو شیطان کے اثر سے خبطی ہوگیا ہو ۔ (سورہ بقرہ۔ آیت 275)
(10):- پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی مذہبی وسیاسی جھگڑوں میں قرآن جلائے جاتے ہیں اور مسجدوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے جو باعث شرم اور قابل مذمت ہے (ناشر)
(11):- برائی اور بری چیز کو رجس کہتے ہیں ۔رجس کی مختلف اقسام ہیں :- کوئی چیز طبیعی طور پر بری ہوتی ہے مثلا مردار ۔۔یا عقلی طورپر مثلا جوا ۔۔اور یا شرعی طور پر ہی ہوتی ہے مثلا شرک ۔(ناشر)
(12):- یہ حدیث حاکم نے ابن عباس کے حوالے سے مستدرک علی الصحیحین جلد 3 میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں مگر بخاری اور مسلم نے یہ حدیث روایت نہیں کی ۔