حالات پر غوروفکر کرنے سے ہر صاحب نظرکے لئے واضح تھا کہ خلفائے وقت اوردشمنان اہل بیت علیہم السلام جتنا ائمہ ھدیٰ کو جسمانی اذیتیں پہنچا کر نابود کرنے کی کوشش کرتے تھے اوران کے شیعوں سے سختی سے پیش آتے تھے ،اتنا ہی ان کے پیروئوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور ان کا ایمان مزید مستحکم ہوتا جارہا تھا اوردربار خلافت ان کی نظروں میں ایک نجس اور ناپاک دربار سمجھاجاتا تھا ۔
یہ مطلب،ایک باطنی عقیدہ تھا جو ائمہ اطہارعلیہم السلام کے معاصر خلفاء کو ہمیشہ رنج وعذاب میں مبتلا کر رہا تھا اور حقیقت میں انھیں بے بس اور بیچارہ کرکے رکھدیا تھا۔
مامون ،بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا اور حضرت امام رضاعلیہ السلام کا معاصر تھا ۔اس نے اپنے بھائی امین کوقتل کرنے کے بعدخلافت پر اپنی گرفت مظبوط کرلی اور اس فکر میں پڑا کہ اپنے آپ کو باطنی رنج وپریشانی سے ہمیشہ کے لئے نجات دے اور زور وزبردستی اوردبائو کے علاوہ کسی اور راستہ سے شیعوں کو اپنے راستہ سے ہٹادے۔
اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جس سیاست کو مامون نے اختیار کیا ،وہ یہ تھی کہ اپنا ولی عہد ،حضرت امام رضا علیہ السلام کوبنایا تاکہ حضرت کو ناجائز خلافت کے نظا م میں داخل کر کے ،شیعوں کی نظروں میں آپ کو مشکوک کر کے ان کے ذہنوں سے امام کی عصمت وطہارت کو نکال دے ۔اس صورت میں مقام امامت کے لئے کوئی امتیاز باقی نہ رہتا ،جو شیعوں کے مذہب کا اصول ہے ،اس طرح ان کے مذہب کی بنیادخود بخود نابود ہو جاتی۔
اس سیاست کو عملی جامہ پہنانے میں ایک اور کامیابی بھی تھی وہ یہ کہ،بنی فاطمہ کی طرف سے خلافت بنی عباس کو سرنگوں کرنے کے لئے جو پے درپے تحریکیں سراٹھارہی تھیں ،ان کو کچل دیا جاتا،کیونکہ جب بنی فاطمی مشاہدہ کرتے کہ خلافت ان میں منتقل ہوچکی ہے ،تو فطری طورپراپنے خونین انقلابوں سے اجتناب کرتے۔البتہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بعدامام رضاعلیہ السلام کو راستے سے ہٹانے میں مامون کے لئے کوئی حرج نہیں تھا ۔
مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کو پہلے خلافت قبول کرنے اوراس کے بعدولی عہدی کاعہدہ قبول کرنے کی پیش کش کی۔امام نے مامون کی طرف سے تاکید ، اصرار اور دھمکی کے نتیجہ میں آخر کار اس شرط پر ولی عہدی کو قبول کیا کہ حکومت کے کاموں میں جیسے عزل ونصب میں مداخلت نہیں کریں گے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایسے ماحول میں لوگوں کے افکار کی ہدایت کرنے کا کام سنبھالا اور جہاں تک آپ کے لئے ممکن تھا مختلف مذاہب وادیان کے علماء سے بحثیں کیں اوراسلامی معارف اوردینی حقائق کے بارے میں گراں بہا بیانات فرمائے (مامون بھی مذہبی بحثوںکے بارے میں کافی دلچسپی رکھتاتھا ) اسلامی معارف کے اصولوں کے بارے میں جس طرح امیرالمومنین کے بیانات بہت ہیں اوردیگر ائمہ کی نسبت بیش تر ہیں۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ تھی ،کہ آپ کے آباء واجدادکی بہت سی احادیث جو شیعوں کے پاس تھیں ،ان سب کوآپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ کے اشارہ اورتشخیص سے ان میں سے ،دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کی جعل اوروضع کی گئی احادیث کومشخص کرکے مسترد کیاگیا ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ولی عہدی کے طور پر جوسفر مدینہ منورہ سے'' مرو''تک کیا،اس کے دوران ،خاص کر ایران میں عجیب جوش وخروش پیداہوا اورلوگ ہرجگہ سے جوق در جوق زیارت کے لئے آپ کی خدمت میں آتے تھے اور شب وروزآپ کے شمع وجود کے گردپروانہ وار رہتے تھے اورآپ سے دینی معارف واحکام سیکھتے تھے ۔
مامون نے جب دیکھا کہ لوگ بے مثال اورحیرت انگیز طور پر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی طرف متوجہ ہیں تواس کو اپنی سیاست کے غلط ہونے کا احساس ہوا ،اسلئے اس نے اپنی غلط سیاست میں اصلاح کرنے کی غرض سے امام کوزہر دیکر شہید کیا اور اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں خلفاء کی اسی پرانی سیاست پر گامزن رہا ۔
*****