چار شعبان المعظم کی وہ شام کس قدر حسین و دلنواز شام تھی جب حضرت علی ابن ابی طالب کےکاشانۂ نور سے قمر بنی ہاشم کے طلوع کی خبر پھیلتے ہی مدینۂ منورہ کے بام و در جگمگا اٹھے حضرت علی علیہ السلام بڑے مشتاقانہ انداز میں گھر کے اندر داخل ہوئے اوراپنی” مستجاب تمنا“ کوآغوش میں بھر لیا بچے کا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا اللہ اکبر کی مترنم آواز کان میں پہنچی تو اسد اللہ کے پسر نے شیر حق کی گود میں انگڑائياں لینی شروع کردی حضرت علی علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے ام البنین کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں اس بچے کا نام عباس قرار دیتا ہوں ۔ اسی وقت قریب کھڑے امام حسین علیہ السلام آگے بڑھے اور باپ سے لے کر اپنے قوت بازو کواپنی باہوں میں سمیٹ لیا ، روایت میں ہے کہ ام البنین کے لال نےابھی تک آنکھیں نہیں کھولی تھیں جیسے ہی اپنے آقا حسین علیہ السلام کی خوشبو محسوس کی آنکھیں کھول دیں اور فرط مسرت و شادمانی سے فاتح کربلا کی آنکھیں چھلک آئيں ۔
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
اک آنکھ ہے مسرور تواک آنکھ ہے باکی
ایثار و وفا کے پیکر ، علی(ع) کی تمنا ، ام البنین (ع) کی آس حسن (ع) و حسین (ع) کے قوت بازو زینب سلام اللہ علیہا و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی ڈھارس، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس(ع) کا یوم ولادت آپ سب کو مبارک ہو ۔
عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین
ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین
زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چين
صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)
ایثار کا امام وفا کا رسول ہے
خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے
شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر
ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر
آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر
قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر
اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے
اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے
اسلامی روایات کی روشنی میں علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خاص اہتمام کے تحت اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے تمنا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں رسول اسلام (ص) کے بیٹےحسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔ 14 سال تک باپ سے فضيلت و کمالات کے جوہر کسب کرتے رہے اور اس منزل پر پہنچ گئے کہ لوگ ثانی حیدر کہنے لگے ۔ شجاعت و فن سپہ گری کے علاوہ معنوی کمالات میں بھی اعلیٰ مدارج طئے کئے زیادہ تر وقت دعا و مناجات اور عبادت میں صرف ہوتا بچوں کی سرپرستی اور کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری حضرت عباس (ع) کا خاص مشغلہ تھا ، باپ کے بعدامام حسن (ع) کے مطیع و فرمانبردار ہے اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے وفادار و علمبردار کہلائے ۔حضرت عباس(ع) مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے بخشش و عطا میں بھی شہرہ حاصل تھا اور اپنے معنوی اثر و رسوخ سے کام لے کر عوام کی فلاح و بہبود اور اصلاح حال کے وسائل فراہم کرتے تھے اسی لئے آپ کوآج بھی باب الحوائج کا لقب حاصل ہے اورکربلائے معلیٰ میں آپ کی بارگاہ آج بھی حاجت مندوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے ۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں محبت و وفاداری کے وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اورچونکہ یہ کمال ان کو باپ دادا سےمیراث میں ملا تھا پروفیسر بدر فیض آبادی کہتے ہیں :
حق میں معصوموں کے عباس ابوطالب تھے
اک پنہ گاہ تھا عابد کے چچا کا دامن
حضرت عباس (ع)کی عمر اس وقت 32 سال کی تھی جب امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا ہے تاریخ کی روشنی میں امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد 72 یازیادہ سے زیادہ سو، سواسو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد کم از کم تیس ہزار تھی مگر حضرت عباس (ع) کی ہیبت پورے لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آنے والے تمام لوگ مرد ، عورت اور بچے سبھی پرچم عباس (ع) کے زیر سایہ سکون و اطمینان کااحساس کرتےتھے ۔ شجاعت ودلیری کے ساتھ شفقت و ہمدردی آپ کا خاصہ تھا اور امام وقت کی اطاعت و پیروی شجاعت و مہربانی ہر چیز پر غالب تھی ۔ جناب عباس (ع) کےعشق و معرفت سے سرشار قلب میں صرف ولایت حسین (ع) کی دھڑکن تھی اوران کی پاکیزہ طبیعت انوار توحید سے شعلہ فشاں تھی ۔ کربلامیں سیکڑوں ایسے موقع آئے جب علی علیہ السلام کے شیر کو غیظ و غضب میں دیکھ کر ”تاریخ“نے کروٹيں لینا چاہا لیکن امام وقت کی نگاہیں دیکھ کر مجسمۂ اطاعت نے اپنی شمشیر غضب کو نیام میں رکھ لیا چنانچہ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔
عباس دست و بازو ئے سلطان کربلا
روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا
جس کے لہو سے سرخ ہے دامان کربلا
جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا
حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو
ٹھکرادیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو