جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے بڑے بڑے دانشوروں،حکما اورعلما سے یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ واقعہ کربلا نے حق وباطل میںتمیز پیدا کردی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے ایک فارسی نظم ”درمعنی حریت اسلامیہ وسرحادثہ کربلا“ کے موضوع کے تحت کہی ہے۔ اس میں وہ ارشاد فرماتے ہیں:
موسیٰ وفرعون وشبیر ویزید
این دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است
تاقیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ اوچمن ایجاد کرد
بہر حق درخاک وخون غلطیدہ است
پس بنائے لا الہٰ گردیدہ است
یہ موضوع چونکہ بہت سنجیدہ ہے اس لئے عالم اسلام کے اہل فکر ودانش ہمیشہ اس کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہیں۔ہماری رائے میں خود اسلام کی ماہیت جس قدر کسی پر آشکار ہوگی اُسی قدر وہ اس امر کی حقیقت کو جانچ سکے گا۔ جس کے ذہن میں دین کا تصورمحدود فقہی احکام کے توسط سے اُبھرتا ہے وہ مسئلے کوکسی اورنظر سے دیکھتا ہے اور جو شخص دین کی سیاسی تعبیر ہی کو اُس کا سب کچھ سمجھتا ہے وہ اس معاملے کو کسی اورانداز سے دیکھتا ہے۔ یہی حال دیگر نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کا ہے۔ ہمارے خیال میں دین اسلام ایک مکمل اورہمہ گیر انسانی تہذیب کا نام ہے۔ امام حسین(ع) کی نہضت اورتحریک کو اس حوالے سے دیکھنے سے اس کا اصل جوہر سامنے آتا ہے۔ انسانی تہذیب کو جامع، مشرق اور کمال پذیر بنانے کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہوتی ہے دین انہی سے عبارت ہے۔ اسلام کا نظامِ عبادات ہو یا نظامِ اخلاق، اس کی سیاسی تعلیمات ہوں یا سماجی احکام سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔کسی ایک پہلو کو جدا کرکے دیکھنے سے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کی مثال انسان کے لئے جسم وروح کے جُدا جُدا تصور سے دی جاسکتی ہے۔ جسم کے کمال کو کمال روح اور روح کے تکامل کو تکامل جسم سے جدا کرنا انسان کے ناقص فہم کا نتیجہ ہے۔
بظاہر تو امام حسین(ع) کو شہید کرنے والے مسلمان تھے، نماز پڑھتے تھے اورآپ کے نانا بزرگوار کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کے باعث بعض لوگ قاتلانِ حسین(ع) کی ماہیت سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ وہ تمام بنیادی اصطلاحات جو عمومی زندگی میں مسلمان استعمال کرتے ہیں وہ امام حسین(ع) کے مخالفین استعمال کرتے تھے۔ وہ یزید اورابن زیاد کی اطاعت کے لئے امت کے مرکز اورامت کے اتحاد کے تصور کا سہارا لیتے تھے۔ ابن زیاد کی اطاعت کو اطاعتِ امیر اوریزید کی اطاعت کو اطاعتِ امیرالمومنین قرار دیتے تھے۔ نماز کا پڑھنا دین کے بارے میں ان کے فقہی تصور کی نشاندہی کرتا ہے اوراطاعت امیر کا بیان اُن کے سیاسی تصور کا عکاس ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سب کچھ بیان کرنے میں وہ کس حد تک سنجیدہ تھے اورکہاں تک اُن کا طرز عمل اُن کے حقیقی مقاصد کا ترجمان ہے۔
بات کو آگے بڑھانے کے لئے کربلا میں موجود دونوں گروہوں کے امتیازات اور فرق کو جاننا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم تفہیم مطلب کے لئے چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
امام حسین(ع) کا قافلہ جب کربلا کے قریب پہنچا تو اسے روکنے کے لئے حرابن یزید ریاحی کی قیادت میں کوفہ سے ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر آن پہنچا۔ اسے فوری طور پر حرکت کا حکم دیا گیا تھا اس لئے اپنے لئے پانی کا مناسب ذخیرہ ساتھ نہیں لاسکا تھا۔ یہ لشکر جب قافلہ حسینی کے پاس پہنچا تو اس کے سپاہی اورگھوڑے پیاس سے نڈھال ہورہے تھے۔ قافلہ حسینی کے پاس پانی کا مناسب ذخیرہ موجود تھا۔ امام حسین(ع) نے حکم دیا کہ مخالف لشکر کے سپاہیوں اوراُن کے گھوڑوں کو پانی پلایا جائے۔ دوسری طرف یزیدی لشکر نے امام حسین اوران کے ساتھیوں پر پانی بند کردیا۔ یہاں تک کہ امام حسین(ع) کے چھ ماہ کے ننھے سے پیاسے بچے کو بھی پانی طلب کرنے کے جواب میں تیر مار کر شہید کردیا۔
امام حسین(ع) نے مخالف لشکر میں موجود افراد کے نام لے لے کر پوچھا کہ کیا تم نے مجھے خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت نہیں دی تھی۔ اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں تیری باتیں سمجھ نہیں آرہیں۔“
امام حسین(ع) نے فرمایا کہ کیا تم تک میرے نانا کا میرے بھائی اورمیرے بارے میں یہ فرمان نہیں پہنچا کہ حسن اورحسین جو انانِ جنت کے سردار ہیں۔ مزید براں انھوں نے ان اصحابِ رسول کے نام بتائے جو ابھی زندہ تھے اورفرمایا کہ مجھ پراعتبار نہیں تو اُن سے پوچھ لو۔ پھر پوچھا کہ کیا تم پھر بھی مجھے قتل کرو گے؟ امام حسین(ع) کی ایسی کسی حجت کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیںتھا۔
شب عاشور کے بارے میں مورخین کا بیان ہے کہ قیام حسینی سے ذکر الٰہی اورتلاوت قرآن کی آواز یوں آرہی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتے سے بھنبھناہٹ کی آواز آتی ہے۔ اس سے امام حسین(ع) کے ساتھیوں کا ذکر وفکر الہیٰ سے گہرا عشق ظاہر ہوتا ہے۔ تاریخ نے ایسی کوئی گواہی مخالف گروہ کے بار ے میں نہیں دی۔
امام حسین(ع) اوران کے ساتھیوں کی مظلومانہ شہادت میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا اس کے باوجود مخالف لشکرکا ایک اہم کمانڈر حرریاحی اسے چھوڑ کر امام حسین(ع) سے آملا۔ یہ واقعہ یزید کے لشکر کی اپنے مقصد اورہدف میں کمزوری اورامام حسین(ع) کی صداقت کے لئے ایک برہان سے کم نہیں ہے۔ جبکہ امام حسین(ع) نے شب عاشور اپنے ساتھیوں سے اپنی بیعت کا قلادہ اتار دیا اورانھیں چلے جانے کی اجازت دے دی یہاں تک کہ چراغ گل کردیا ۔یہی نہیں اُن کی شفاعت کا وعدہ بھی کیا لیکن وہ آپ کا ساتھ چھوڑ کرجانے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔
مورخین کا اس امر پراتفاق ہے کہ یزیدی فوج کا سپہ سالار عمروابن سعد جنگ سے گریزاں تھا۔ وہ امام حسین(ع) کو برحق جانتا تھا اس لئے جنگ کے معاملے سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا تھا لیکن دوسری طرف اُسے”رے“ کی حکومت کا پروانہ مل چکا تھا۔ اسے حکم دیا گیا کہ پہلے امام حسین(ع) کا سامنا کرے اورپھر رے کی حکومت سنبھالے۔ اُسے یہ حکومت نہایت عزیز تھی۔ وہ گو مگو کا شکار ہوگیا۔ یہاں تک کے شمر ابن ذوالجوشن کے اکسانے پر ابن زیاد نے اسے نہایت سخت حکم بھیجا اورواضح طور پر لکھا کہ یا تم فوج کی کمان چھوڑ دو یا حسین(ع) سے جنگ کرو۔ اس مرحلے پر آکر حکومت اورمنصب کی محبت کا جذبہ غالب آگیا اوراس نے پہلا تیر امام حسین(ع) کے لشکر کی طرف پھینکا اوراپنی فوج سے کہا:گواہ رہنا پہلا تیر میں نے چلا یا ہے۔ دوسری طرف امام حسین (ع)اپنا مقصدِ قیام مختلف جملوں میں یوں بیان کرتے ہیں :
1۔ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص ایسے سلطان کو دیکھے جو خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھتا ہو،خدا سے کیے ہوئے عہد توڑتا ہو، سنت رسول کی خلاف کرتا ہواوروہ اس کے خلاف نہ اٹھے تو اُس کا انجام بھی اُسی کے ساتھ ہوگا۔
2۔ میں نے اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے۔
3۔ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قیام کیا ہے۔
4۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اورباطل سے بچا نہیں جا رہا۔ایسے میں مومن کوخدا سے ملاقات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
5۔ میں موت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں اورظالموں کے ساتھ جینا مجھے ناگوار ہے۔
کہاں یہ عظیم مقاصد اورکہاں چند روزہ منصبِ حکومت جس کے لئے امام حسین(ع) نے عمرو ابن سعد کومخاطب کرکے پیش گوئی فرما دی تھی کہ یہ تمھیں نصیب نہیں ہوگی۔
امام حسین(ع) کی کریم النفسی کی ایک مثال تو ہم نے پہلے ذکر کردی ہے کربلا کے واقعے میں مزید کئی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن آپ کے مخالفین کو بھی دیکھ لیا جائے انھوںنے درندگی اوروحشت کے ایسے نمونے پیش کیے کہ انسانیت انگشت بدنداں رہ گئی۔ اپنے رسول کی آل کو انھوںنے قتل ہی نہیں کیا بلکہ قتل حسین(ع) کے بعد اُن کے خیموںکو آگ لگا دی جن میں مخدرات عصمت اوربچے موجود تھے۔ امام حسین(ع) کے بیمار فرزند امام زین العابدین(ع) بھی اُن میں موجودتھے۔ انھوں نے لباس لوٹے۔ امام حسین(ع) کی ننھی بچی کے کانوں سے گوشوارے چھینے۔ امام حسین(ع) کی انگشتری اتارنے کے لئے آپ کی انگلیاں کاٹ دیں۔ آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑائے۔ سرکاٹ کر نیزوں پرچڑھائے۔ بیبیوں کی چادریں چھینیں اورپالانوں کے بغیراونٹوں پرانھیں سوار کیا اورپھر ان اونٹوںکو مار کر یوں چلاتے تھے کہ بیبیوں کو زیادہ اذیت ہوتی تھی۔ کئی ننھے بچے صحراﺅں میں گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امام حسین(ع) کو ایسے مخالفین کا سامنا تھا جن کے پاس دلیل نہیں تھی وحشت ہی وحشت تھی، ظلم ہی ظلم تھا۔
یہاں پر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرامام حسین(ع) قیام نہ کرتے اورایسے لوگوں کی اطاعت قبول کرلیتے جن کا پیشوا یزید تھا توپھریزید اوراُس کے ساتھی ہی دین اسلام کے ترجمان ہوتے۔ امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے اعلان کیا کہ پیغمبراسلام کا خاندان یزید کے اسلام کو قبول نہیںکرتا اوریزید کو اسلامی حکومت کے لئے اہل نہیں سمجھتا۔ سوچیے اگر امام حسین(ع) بھی یزید کی بیعت کرلیتے تو پھردین وہی کچھ سمجھا جاتا جویزید اوراس کے حواری پیش کرتے۔
اس مقام پر ہم ایک اورپہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں اوروہ یہ کہ نبی کریم کی زندگی میں آپکے گرم وسرد تمام معرکے کفروکافرین کے ساتھ ہوئے لیکن قرآن حکیم نے جس تیسرے گروہ کا تذکرہ فرمایا ہے وہ زیادہ کھل کرسامنے نہیں آسکاتھا اوروہ گروہ ہے منافقین کا۔ظاہر ہے کہ سرزمین عرب سے کفروشرک کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اب اس طرف سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا تھا۔ اب خطرہ تیسرے گروہ ہی کی طرف سے تھا۔ اب اس گروہ کی ماہیت کو آشکار کیا جانا ضروری تھا۔ یاد رہے کہ منافق اُس کو کہتے ہیں جو اپنے کفر کو اسلام کے پردے میں چھپائے۔ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر ہی موجود ایسے گروہ سے لڑنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ بظاہر تو یہی سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں اسلام کی حقیقت وماہیت کا تحفظ اوراُسے اسلامی معاشرے کے رگ وپے میں اتارنے کا اہتمام بھی نبی کریم اپنی زندگی میں فرما گئے تھے۔ آپ نے حضرت علی(ع) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے علی! جیسے میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے تم تاویل قرآن پرجنگ کرو گے۔
تنزیل قرآن کی جنگ کفار کے خلاف تھی۔ تاویلِ قرآن کا معاملہ تو مسلمان معاشرے کے داخل ہی میں پیش آنا تھا۔
اسی پس منظر میں امام حسین(ع) کے بارے میں آنحضرت کایہ فرمان سمجھنے کی ضرورت ہے:
حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں۔
گویا نبی کریم کے دین کی بقا کا ضامن امام حسین(ع) کو بننا تھا۔ اس حوالے سے جب ہم کربلا پر نظرڈالتے ہیں توحقیقت سامنے آجاتی ہے۔ امام حسین(ع) کی ہمشیرہ حضرت زینب کے خطبات تحریک حسینی میں چھپے ہوئے اس گہرے شعورکی ترجمانی کرتے ہیں۔ اُن کے مطالب پر عمیق غوروفکر کی ضرورت ہے۔ آئیے چند جملے ملاحظہ کرتے ہیں:
اے یزید!اگرآج ہمیںجنگی قیدی بنا کر تو سمجھ رہا ہے کہ کچھ حاصل کر لیا۔ تو یاد رکھ کل تجھے اس کے مقابلے میں سخت نقصان اُٹھانا پڑے گا! اور یہ بات نہ بھولنا۔۔۔ کہ تو اپنے اعمال کی صورت میں جو بھیجے گا بس وہی پائے گا ۔نیز رب العالمین اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ہم اللہ کے سوا نہ کسی سے اپنا حال کہتے ہیں اورنہ کسی کے پاس فریاد لے جاتے ہیں! صرف اسی کی ذات پر ہمارا بھروسہ ہے اوروہی ہم سب کا مرکزِ اعتماد ہے۔ اے یزید! تیرے پاس مکرو فریب کا جتنا ذخیرہ ہے اسے جی کھول کر کام میں لے آ۔ہر طرح کی سعی وکوشش میں بھی کوئی دقیقہ نہ اُٹھا رکھنا۔اپنی سیاسی جدوجہد کومزید تیزکردے اورہاں ساری حسرتیں نکال لے۔ تمام آرزوئیں پوری کرلے۔۔۔!مگر اس کے باوجود تو، نہ تو ہماری شہرت کو کم کر سکتا ہے اورنہ ہی اس موقف میں ہے کہ ہمیں جو مقبولیت حاصل ہے اسے متاثر کر سکے! پھر یہ بھی تیرے بس میں نہیں کہ ہماری فکرکو پھیلنے اورہماری پیغام کونشرہونے سے روک دے! نیز تو ہمارے مقصد کی گہرائی تک پہنچنے اورغرض وغایت کی گہرائی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔
محرم الحرام میں امام حسین کی یاد مناتے ہوئے ہمیں اُن کے مقاصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے نیز اپنی زندگی میں بھی حسینی روش اختیار کرنا چاہیے۔امام حسین کا نام لینا ،اُن کی محبت کا دم بھرنا اوراُن کی یاد میں آنسو بہانا ہی کافی نہیں۔علاوہ ازیں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امام حسین پر کسی گروہ ، کسی فرقے یا کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ،حسین ساری انسانیت کا سرمایہ ہیں۔آپ دنیا کے تمام حریت پسندوں ،حق پرستوںاوراقتدار انسانی کے پاس داروںکے امام ہیں۔