تاريخی مناسبت
ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے. انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے:
لا تخذلا و انصرا ابن عمكما
إخی لامی من بينهم و إبی(1)
[بیٹو] اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کرو
کہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے.
1. معروف عصر:
جناب ابو طالب (ع) اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے.
2. ان کی قابل قبول روایتیں:
انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تأئید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام «قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہؤا۔ (3)
نيكوان رفتند و سنت ہا بماند
و زلئيمان ظلم و لعنت ها بماند
نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ
لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا
3. بندہ خدا:
ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں «بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ (ص) کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔ (4)
4. کفر کے خلاف جدوجہد:
وہ اپنے والد ماجد «حضرت عبدالمطلب» کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے.
5. ان کے ایمان کے دلائل:
ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں.
6. خلوص قلب:
ویسے تو بہت ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے. مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ:
اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکهہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور "خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں"ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں «چاند سا» لڑکا بھی تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی. بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی.
وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور نہ تھا (5) جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی. حضرت ابوطالب علیہ السلام اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:
و أبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للارامل
-----
وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں
وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “
هركسی اندازه روشن دلی
غيب را بيند به قدر صيقلی
هركه صيقل بيش كرد او بيش ديد
بيشتر آمد بر او صورت پديد
گر تو گويی كان صفا فضل خداست
نيزاين توفيق صيقل زآن عطاست
--------
ہر کوئی اپنی روشن دلی کی سطح مطابق
غیب کو دیکھتا ہے اپنے قلب کی صفا و خلوص کی حد تک
جس نے جتنا دل کو زیادہ خالص کیا اس نے زیادہ ہی دیکھا
اس کے لئے زیادہ سے زیادہ صورتیں نمودار ہوئیں
اگر تو کہے کہ وہ صفا و خلوص فضل خداوندی ہے
تو یہ تزکیہ و صیقل دل بھی اسی عطا کا حصہ ہے
7. رؤيائے صادقہ (سچا سپنا):
حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعيل» میں ایک سچا خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی طرف ایک دروازہ کھل گیا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشنی نیچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہی ہے.
بس عجب در خواب روشن می شود
دل درون خواب روزن می شود
آنچنان كہ يوسف صديق را
خواب بنمودی و گشتش متكا
---------
پس عجب ہے کہ خواب میں ہی روشن ہوتا ہے
خواب کے اندر دل دریچہ بن جاتا ہے
جیسا کہ یوسف صدیق کو خواب دکھائی دیا
اور یہی خواب ان کے لئے سہارا بن گیا
ابوطالب علیہ السلام اٹھے اور خواب تعبیر کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کی تفصیل بیان کی.
مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ایک نہایت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی رحمة اللہ علیہ نے الکافی میں روایت کی ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشخبری سنائی؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھی ان کو علی علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری سنائی.(6)
8. رسول خدا(ص) کی سرپرستی:
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں میں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقیات کے مالک تھے؛ ان کی روش دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ شائستہ تھی؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہایت عمیق عقیدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کیا.
9. رسول خدا(ص) کی تربیت اور نگہداشت:
حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا. (7)
10. شریک حیات کو ہدایت:
سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: «یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں.(8)
11. مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار:
مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب (ع) میں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے.(9)
12. رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:
ایک دفعہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مین نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کیا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہؤا کیا ہے؟
رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنایا. ابوطالب (ع) نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرم (ص) بھی ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قریش نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل لیں. حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا. اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔(10)
یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے.
13. بیٹے کو ہدایت:
جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا «میں رسول اللہ (ص) پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی: «بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نھیں بلاتے اور تم ہر حال میں آپ (ص) کے ساتھ رہو».(11)
14. واضح و روشن حمایت:
جب آیت «وانذر عشيرتك الاقربين» (12) نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہیں اپنے دین کی دعوت دی تو ان کی مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا: «یا رسول اللہ (ص)! آپ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہی زیادہ محبوب اور مقبول و پسندیدہ ہے؛ میں آپ کی خیرخواہی کی طرف متوجہ ہوں اور آپ کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہوں؛ جائیں اور اپنی مأموریت اور الہی فریضہ سرانجام دیں؛ خدا کی قسم میں آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھی بھی آپ سے جدائی پر راضی نہ ہونگا.(13)
15. تہديد دشمنان رسول خدا(ص):
ایک روز رسول اللہ (ص) گھر سے نکلے تو واپس نہیں ائے. حضرت ابوطالب علیہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکین قریش نے کہیں آپ (ص) کو قتل ہی نہ کیا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کیا اور ان سب کو حکم دیا کہ : تیزدھار ہتھیار اپنے لباس میں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤ اور تم میں سے ہر مسلح ہاشمی شخص قریش کے کسی سردار کے قریب بیٹھ جائے اور جب میں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قریش کے سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارو.
ہاشمیوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام میں داخل ہوکر قریش کے سرداروں کے قریب بیٹھ گئے مگر اسی وقت زید بن حارثہ نے ان کو خبر دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہیں پہنچی ہے اور بلکہ آپ (ص) مسلمان کے گھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گیا مگر مؤمن قریش ہاشمی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کو رسول اللہ (ص) کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میرا بھتیجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو چنانچہ میں نے تمہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر انہوں نے ہاشمی نوجوانوں کو حکم دیا کہ اپنے ہتھیار انہیں دکھا دیں. قریش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کیا تم واقعی ہمیں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمایا: اگر رسول اللہ کو تمہاری جانب سے کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو میں تم میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑتا اور آخری سانس تک تمہارے خلاف لڑتا.(14)
واستان از دست ديوانه سلاح
تا ز تو راضی شود عدل و صلاح
چون سلاح و جهل، جمع آيد به هم
گشت فرعونی جهان سوز از ستم
----
دیوانے کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لو
تا کہ عدل و صلاح تم سے راضی ہوجائے
جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائیں
ظلم و ستم کے ذریعے جہان کو جلادینے والا فرعون جنم لیتا ہے
16. دین اسلام کے مبلغین کے حامی:
سنی عالم و مورخ و ادیب ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
ولولا ابوطالب علیہ السلام وابنہ
لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوی وحامی
وھذا بیثرب جس الحماما
اگر ابوطالب (ع) اور ان کا بیٹا (علی (ع)) نہ ہوتے
مکتب اسلام ہرگز باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا
ابوطالب (ع) مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور
علی (ع) یثرب (مدینہ) میں حمایت دین کی راہ میں موت کے بھنور میں اترے“
کثیر تعداد میں متواتر اخبار و روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام دین مبین کی ترویج کے سلسلے میں رسول اللہ (ص) کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ (ص) کی حمایت اور پیروی کی دعوت دیا کرتے تھے.
«عثمان بن مظعون» جو سچے مسلمان تھے ایک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے. قریش کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے عثمان پر وار کیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنكھ زخمی ہوئی.
حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اطلاع ملی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائی کہ : جب تک اس قریشی نوجوان سے قصاص نہ لوں چین سے نہ بیٹھوں گا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا. (15)
17. حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی قدردانی:
جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کی پذیرائی کی اور ان کی حمایت و سرپرستی کہ اور قریش کے نمائندے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف کرنے میں ناکام ہوئے.
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو بھی تقوائے الہی اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق و روزی عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا.(16)
از ره پنهان كه دور از حس ماست
آفتاب چرخ را بس راه هاست
-----
ہمارے حس سے دور خفیہ راستے سے
آفتاب فلک کے لئے بہت سے راستے ہیں ابوطالب علیہ السلام کو ایک الہی فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ ایسی عظیم شخصیت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہیں اور انبیاء کے سردار ہیں اور خدا کے بعد ان سے کوئی بڑا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دین کی ترویج بھی ان کی ذمہ داری تھی اور جو لوگ اس راستے میں آپ (ص) کی مدد و نصرت کرتے تھے ان کی قدردانی کو بھی وہ اپنا فرض سمجهتے تھے چنانچہ جب نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تو محسن اسلام نے ان کے حق میں اشعار لکھ کر روانہ کئے. نجاشی کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب (ع) کی قیادت میں حبشہ میں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام میں اضافہ کیا اور ان کی پذیرائی دو چند کردی.
18. رسول خدا (ص) کی حفاظت و حمایت:
قریش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابی طالب (ع) میں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کیا اور شعب ابی طالب (ع) میں ان کی ناکہ بندی کردی. یہ ناکہ بندی معاشی، سماجی اور سیاسی ناکہ بندی تھی. شعب ابی طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ایک درہ تھا. یہ ناکہ بندی شدید ترین اقدام کے طور پر قریش کی طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی تھی اور اس دوران پیغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ دیگر مسلمان و مؤمنین صرف حرام مہینوں اور ایام حج میں بیت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسی دوران تبلیغ اسلام بھی کیا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو پیغمبر کی حفاظت کرتے اور رات بهر جاگتے اور نبی اکرم (ص) کے سونی کے مقام کو تبدیل کرکے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹایا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبی (ص) کی بجائے علی قربان ہوجائیں اور ایسا عمل صرف مؤمن قریش ہی کے بس میں تھا جو اپنے ایمان کی بنیاد پر بیٹے کو بآسانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے مگر علی علیہ السلام بھی اس قربانی پر سمعاً و طاعتاً راضی و خوشنود تھے. قریش نے ایک میثاق تحریر کی تھی جس پر ناکہ بندی کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور یہ عہدنامہ کعبہ کی دیوار پر ٹانکا گیا تھا جسے ایک دیمک نے نیست و نابود کردیا تو ابوطالب علیہ السلام نماز شکر بجالانے بیت اللہ الحرام میں حاضر ہوئے اور وہیں انہوں نے مشرکوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالفین کو بددعا دی اور ان پر نفرین کردی.(17)
19. كلام نور میں ابو طالب کا مقام:
امام سجاد (ع) نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں شک کرنیے والے افراد کے جواب میں فرمایا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول (ص) نے غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار دیا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا – جو سابقین مسلمین میں سے ہیں - حضرت ابوطالب علیہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد میں رہیں".
کسی نے امام باقر(ع) کو بعض جھوٹی محدثین کی یہ جعلی حدیث سنائی کہ "ابوطالب (ع) [معاذاللہ] آگ کی کھائی میں ہیں!"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر ایمان ابوطالب (ع) ترازو کے ایک پلڑے میں رکها جائے اور ان سب لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (ع) کا ایمان ان سب پر بهاری نظر آئے گا".
"ابان بن محمود" نامی شخص نے امام رضا علیہ السلام کو خط میں لکها کہ "میں آپ پر قربان جاؤں! میں ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں شک و تردید میں مبتلا ہوا ہوں".
امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا
جو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پیغمبر (ص) کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے سوا کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے ہم اسے اسی راستے پر لے چلیں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت ہی بری جگہ ہے"(18) اما بعد جان لو کہ اگر تم ایمان ابوطالب کا یقین نہیں کروگے تو تم بھی آگ کی طرف لوٹا دئیے جاؤگے.(19)
20. ابو طالب علیہ السلام علی علیہ السلام کے والد ماجد:
ابوطالب (ع) کو اللہ تعالی نے ایک ایسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترین فرزند تھے. اس فرزند کی ولادت بھی ایسی ہوئی جس کی مثال اس سے پہلے کبھی بھی نظر نہیں آئی اور بعد میں میں بھی نظر نہیں آئے گی. اسی بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکهتے تھے. بعثت نبی (ص) سنہ 40 عام الفیل کو واقع ہوئی اور اس وقت علی علیہ السلام کی عمر شریف کے صرف دس برس بیت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سب ان کے ایمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتی ہیں. انہوں نے ایک شعر کے ضمن میں فرمایا: «علی کی ولادت کے ساتھ ہی کفر کی کمر خم ہوئی اور اس کی شمشیر کے ذریعے اسلام کی بنیادیں استوار اور مستحکم ہو جائیں گی" حضرت ابوطالب (ع) نے خداوند متعال سے اپنے بیٹے کے لئے نام منتخب کرنے کی درخواست کی تھی اور اسی درخواست کی بنا پر آسمانوں سے ایک «لوح لطیف» نازل ہوئی اور ابراہیم خلیل علیہ و علی نبینا و آلہ السلام کے وارث و جانشین حضرت ابوطالب علیہ السلام کی آغوش میں آپڑی. اس لوح پر لکهی ہوئی تحریر کے ذریعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد علیہما السلام کو پاک و برگزیدہ فرزند کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تھی اور اس فرزند کا نام «علی» رکها گیا تھا.(20)
21. غم ہجران:
شعب ابی طالب (ع) میں ناکہ بندی کے دوران مؤمن قریش کو شدید صعوبتیں جهیلنی پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس کو حضرت ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نی بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہؤا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. میت اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی محسن اسلام کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے.(21)
مآخذ :