عنوان مقالہ:انسان کی مادی ضرورتیں قرآن اور سنت کی روشنی میں
مقالہ نگار:سید محمود مرویان
مترجم:محمد عیسی روح ا۔۔
پیشکش: امام حسین فاؤنڈیشن
بسم الله الرحم الرحیم
دیباچہ از مترجم
قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو خدا نے اپنے رسول کے قلب پر نازل کیا ہے تاکہ رسول اس کے ذریعے نیک عمل کرنے والوں کو جنت کی بشار ت اور برا کام کرنے والوں کو جہنم کی عذاب سے ڈرا سکیں۔ (1) امراض قلبی کے لئے اس میں شفا ہے ، (2)کوئی بھی خشک و تر شئ ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ ہو، (3)اس میں خدا وند عالم آسمان اور زمین کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرما رہا ہے کہ زمین ، آسمان اور ان میں موجود تمام چیزوں کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے، (4)دریا میں موجود کشتیوں سے لیکر نہروں تک کو انسان کے لئے مسخر کیا (5) تاکہ انسان اس سے تازہ گوشت حاصل کریں اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالیں جنہیں وہ پہنتے ہیں۔ (6) یہ سب اس لئے ہے کہ انسان ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریں۔ ساری نعمتیں وسیلہ ہیں کہ انسان کی دونوں زندگیاں سعادت مند ہوں، لیکن اگر ان نعمتوں سے اچھی طرح فائدہ نہ اٹھائیں تو یہ عذاب میں تبدیل ہو گی۔ جیسا کہ خدا خود خبر دے رہا ہے کہ اگر ان نعمتوں کا شکر بجا لائیں تو میں مزید اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کریں گے تو میرا عذاب بھی شدید اور ہولناک ہو گا (7)
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے فاضل محترم جناب سید محمود مرویان نے لکھا تھا اور فصلنامہ حیات کے پہلے شمارے میں چھاپ ہوا تھا الحسنین کے فارسی سایٹ (8) پر بھی موجود ہے۔ حقیر نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر اضافہ اور ترمیم بھی کی ہے۔ اصل مقالہ اور ترجمہ میں جو اساسی فروق ہے وہ درج ذیل ہے:
• کئی ایک جگہوں پر حوالہ دیتے وقت فاضل محترم نے بعد والی کتابیں جیسے بحار وغیرہ کا حوالہ دیا تھا لیکن ہم نے ترجمہ کرتے وقت ان کا قدیمی کتابوں جیسے قرب الاسناد وغیرہ سے حوالہ دیا ہے ۔
• ترجمہ میں موجود احادیث اور قرآں کریم کے متن مرکز تحقیقات کے سافٹ وئیز جامع فقہ اور جامع احادیث سے اخذ کیا ہے۔
• ترجمہ میں موجود آیات کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی تفسیر "بلاغ القرآن " سے لیا ہے۔
مقدمہ مولف
"انسان" اس مدار کا نام ہے جس کے گرد تمام ہستی گومتی ہے۔ انسانی علوم سے آشنائی، انسان شناسی کا مقصد، انسان کی مادی اور معنوی ضرورتوں کاپورا کرنا ہے؛ اسی طرح اس کے بود و باش کی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے۔
انسان ایک جسمانی مخلوق ہونے کے ناطے جسمانی ضرورتوں کا حامل ہے۔وہ زمین پر کسی خاص محدودیت کے ساتھ زندگی کرتا ہے اس لئے انسان سب سے پہلےمادی ضرورتوں سے روبرو ہوتا ہے۔ مادی ضرورتیں وہ ضرورتیں ہیں جو اگر پوری نہ ہو جائیں تو انسانی جسم کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہےجیسے مناسب غذا ، مناسب کپڑا اور مناسب مکان۔
کسی بھی دین کی کامیابی کا راز اس چیز میں چھپا ہوا ہے کہ وہ کس حد تک لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے ۔ اور اس کی زندگی کی کسی بھی ضرورت کو نظر انداز کئے بغیر تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے۔ در اصل دین ایسا ہونا چاہے کہ انسان کو اس کی ضرورتوں کی طرف متوجہ کرے ۔ اسی لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس ذیل میں ہم ان ضرورتوں کی طرف قرآن اور سنت کی روشنی میں اشارہ کریں گے
(ا) غذاکی ضرورت
وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (9)
اور ہر جاندار کو پانی سے قرار دیا ہے
وَ مَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لاَ يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوا خَالِدِينَ (10)
اور ہم نے ان لوگوں کے لئے بھی کوئی ایسا جسم نہیں بنایا تھا جو کھانا نہ کھاتا ہو اور وہ بھی ہمیشہ رہنے والے نہیں تھے
وَ هُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْماً طَرِيّاً (11)
اور وہی وہ ہے جس نے سمندروں کو مّسخردیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاسکو
وَ أَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَ لَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (12)
اور ہم جس طرح کے میوے یا گوشت وہ چاہیں گے اس سے بڑھ کر ان کی امداد کریں گے
فلولا الخبز ما صلّینا و لاصمنا و لاادّینا فرائض ربّنا عزّوجل (13)
اگر روٹی نہ ہوتی تو ہم نہ نماز پڑھتے نہ روزہ رکھتے اور نہ اپنے پررودگار کے واجبات کو انجام دیتے
وَ اعْلَمْ يَا مُفَضَّلُ أَنَّ رَأْسَ مَعَاشِ الْإِنْسَانِ وَ حَيَاتِهِ الْخُبْز (14)
اے مفضل جان لو کہ! انسان کی زندگی کا اساسی سرمایہ روٹی اور پانی ہے۔
اللَّحْمُ مِنَ اللَّحْمِ مَنْ تَرَكَهُ أَرْبَعِينَ يَوْماً سَاءَ خُلُقُهُ كُلُوهُ فَإِنَّهُ يَزِيدُ فِي السَّمْعِ وَ الْبَصَرِ (15)
گوشت گوشت سے ہے اگر کوئی چالیس دن کے لئے گوشت کو ترک کرے تو اس کے اخلاق برے ہوجائیں گے۔گوشت کھائیں کہ یہ قوت سماعت اور بصارت کو بڑھا دے گا۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْوَاسِعِ الْفَاضِلِ الْمُفْضِلِ رِزْقاً وَاسِعاً حَلَالًا طَيِّباً بَلَاغاً لِلْآخِرَةِ وَ الدُّنْيَا هَنِيئاً مَرِيئاً (16)
پروردگارا! میں تیری رحمت واسعہ اور فضل واسع کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے رزق حلال جو دنیا و آخرت دونوں کے لئے پاک و منزہ ہو عنایت کرے۔
نتائج
1- دین کو اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے طاقتور انسانوں کی ضرورت ہے تاکہ فکری عملی دستہ کی شکل میں ابھر آئے سماج میں اپنے اہداف حاصل کرے اور یہ اس وقت پورا ہوگا جب تنگدستی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مشکلات دین پر عمل کرنے سے دور نہ کرے۔ اسی لئے ہےکہ دین میں انسانی جسم کے لئے ضروری کھانوں کے بارے میں برنامہ موجود ہے اور ان کی سفارش بھی ہوئی ہے۔ایک دینی حکومت پر فرض ہے کہ سماج کی اس کم سے کم ضرورت کو پورا کرے۔ اسی لئے ائمہ معصومین کی سیرت میں آیا ہے:
الف: روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے کاندھے پر بعض اثرات دیکھے گئے جب امام سجادعلیہ السلام سے ان کے بارے میں پوچھا گیاکہ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
یہ ان کھانے بھرے گھڈریوں کی وجہ سے ہے جو میرے بابا ہر روز اپنے کاندھے پر اٹھا کر عورتوں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں میں پہنچا دیتے تھے۔(17)
ب: جب رات کے کچھ حصے گزر جاتے تھے تو امام صادق علیہ السلام اس گھڈری کو جس میں روٹیاں، گوشت اور درہم ہوتے تھے اپنے دوش اطہر پر اٹھا کر مدینہ کے فقیروں کے پاس جاتے تھے اور ان میں تقسیم کرتے تھے۔ (18)
ج: امام موسی کاظم علیہ السلام رات کو مدینہ کے فقرا کے پاس جاتے تھے اور ایک تھیلہ بھی ساتھ لے جاتے تھے جس میں پیسہ اور خرما ہوتا تھا اور اسے فقیروں میں تقسیم کرتے تھے انہیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ یہ کہاں سے آتا ہے۔ (19)
2- اسلام کسی بھی طور پر فقر و فاقہ کو پسند نہیں کرتا ہے بلکہ صراحت کے ساتھ اعلان کر رہا ہے کہ معاد اور معاش کے درمیان ظاہری اور باطنی رابطہ ہے، بہت سے عبادتوں جیسے نماز، روزہ اور حج کا روٹی، پانی اور کھانے سے گہرا رابطہ ہے۔
3- اسلام انسان کی مادی زندگی کے لئے کسب معاش اور خوراک کا اہتمام کرتا ہے اور لوگوں کی ضرورتوں کو پوراکرنے کا اہتمام کرنا، جان اور نان کے درمیان موجود رابطے کو بیان کرنا، اسلام میں اقتصادی نظام کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ یعنی اسلام ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جو حیات انسان کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
4- تمام وہ سہولیات جن کی وجہ سے انسان کی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں سماج اور انسانی فطرت میں قدرتا موجود ہیں یہ سب پروردگار کے با حکمت امور میں سے ہیں کہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اتنا اہتمام کرےاگر ان سہولتوں سے منصفانہ فائدہ لیا جائے۔
5- اسلام کی نظر میں معاش اس پل اور مقدمہ کا نام ہے جو عبد کو معبود سے ملا دیتا ہے اور روحانی تکامل میں مدد کرتا ہے پس یہاں ہم اس کو پانچ بنیادی محوروں میں مورد بحث قرار دیتے ہیں
1) معاش کا مادی زندگی سے گہرا رابطہ ہے کہ معاش کی برکت سے فقر و فاقہ ختم ہوجا تا ہے (جیسا کہ حدیث میں ہے کہانما بني الجسد علی الخبز جسم کی بنیاد روٹی پر قائم ہے )
2) معاش کافکری زندگی سے بھی گہرا رابطہ ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے محمد حنفیہ سے فرماتے ہیں
يَا بُنَيَّ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ فَإِنَّ الْفَقْرَ ۔۔۔ مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ دَاعِيَةٌ لِلْمَقْتِ (20)
اپنے فرزند محمد ابن حنفیہ سے فرمایا ! اے فرزند ! میں تمہارے لیے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو؛ کیونکہ فقر و تنگدستی عقل کی پریشانی اور لوگوں کی نفرت کا باعث ہے۔)
3) معاش انسان کی اعتقادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ضامن ہے ( جیسا کہ امیر المومنین اپنے فرزند سے فرماتے ہیں فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدِّينِ (21)کیونکہ یہ دین کے نقص کا باعث ہے)
4) معاش کا انسان کے دینی امور جیسے نماز و روزہ وغیرہ سے بھی رابطہ ہے۔
فَلَوْ لَا الْخُبْزُ مَا صَلَّيْنَا وَ لَا صُمْنَا وَ لَا أَدَّيْنَا فَرَائِضَ رَبِّنَا. (22)
اگر روٹی نہ ہوتی تو ہم نہ نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی پروردگار کے واجبات کو انجام دیتے۔
5) معاش کا انسان کی باطنی اورمعنوی نشو و نما سے بھی گہرا رابطہ ہے:
يَا بُنَيَّ مَنِ ابْتُلِيَ بِالْفَقْرِ فَقَدِ ابْتُلِيَ بِأَرْبَعِ خِصَالٍ بِالضَّعْفِ فِي يَقِينِه (23)
اے میرے بیٹے جو فقر میں مبتلا ہوگا وہ چار خصلتوں کا شکار ہو گا ان میں سے ایک یقین میں کمزوری ہے۔)
6- جوہر حیات اور اس کے آثار سے لذت حاصل کرنے کے لئے قوت اور طاقت کی ضرورت ہے اور قوت کے بغیر زندگی کی بقا ممکن نہیں ہے۔ اس نگاہ سے روٹی اور دوسری اشیائے خورد و نوش کا مزہ صرف کھانے اور زیادہ استعمال میں نہیں ہے بلکہ ائمہ معصومین کی فرمایشات کی روشنی میں مزہ، قوت کے حصول، عمل کی طاقت، چست و چالاک رہنے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں کوشش کرنے کا نام ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
طَعْمُ الْمَاءِ الْحَيَاةُ وَ طَعْمُ الْخُبْزِ الْقُوَّةُ (24)
پانی زندگی کا مزہ ہے اور روٹی قوت کا۔
انسانی نشو و نما کا مزہ مختلف میدانوں میں ظاہر ہو جاتا ہے ۔زندگی کے کھیت پر دوستی، وفاداری، اخلاق انصاف اور تمام اوصاف حمیدہ کےفصلوں کو اگانے کے لئے ماء العقل سے سیراب کرنےسے ہی انسانی فطرت کی لذتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسی زندگی میں وہ عدل و انصاف قائم کرنے اور ظلم سے لڑنےکی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے ضرورت اس بات ہے کہ قوت بخش چیزیں ہمیشہ انسان کی دسترسی میں ہوں اور ترقی و کمال کے مواقع بعض خاص قسم کے افراد تک محدود نہ رہیں۔ کہیں ایسا نہ کہ ایک طرف اسراف اور فضول خرچی اور دوسری طرف فقر و فاقہ اور تنگدستی و ناداری اسلامی معاشرہ کو طبقاتی معاشرہ میں تبدیل کر دے۔
7- مادی سہولتوں اور رفاہ کو انسانی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالی بعض آیتوں میں شکر گزاری، تقوی اور عمل صالح کو انسانی جسم سے منسلک کرتاہے جیسے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَ اشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (25)
صاحبانِ ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکریہ ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو
وَ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلاَلاً طَيِّباً وَ اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ (26)
ایمان والو جن چیزوں کو خدا نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں حرام نہ بناؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو کہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَ اعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (27)
اے میرے رسولو ! تم پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک کام کرو کہ میں تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہوں
ان آیات میں انسان کی جسمانی ضرورتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انسان کی جوہر خلقت کے ساتھ بھی موزون ہیں ۔ اب وہ انسان جو تقوی اختیار کرتا ہواور اپنے پروردگارکا شکر ادا کرتا ہو اس کے لئے زندگی، قوت اور فرحت کی ضرورت ہے تاکہ عمل صالح انجام دے کر متقی بن سکے ، جب تک انسان کھاتا اور پیتا نہیں ہے عمل صالح انجام نہیں دے سکتا ہےاور کھانے پینے کے لئے پیسہ ہونا چاہیئے؛ اسی لئے عمل صالح کا انجام دینا، تقوی اختیار کرنا ، دین اور شریعت کا زندہ رکھنا، حق کو زندہ رکھنا فقر اور تنگدستی کو مٹائے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی جسمانی ضرورتوں من جملہ غذا کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کام کرے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : خدا وند عالم نے انسان کو پیٹ کے ساتھ خلق فرمایا ہے پس کھانااور پینا اس کے لئے ضروری ہے۔ (28)
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں : اگر خدا کی نظر رحمت میری امت کے فقیروں پر نہ ہوتی تو فقر و فاقہ کا انجام کفر بھی ہوسکتا تھا۔ (29)
ب) مکان، لباس، زینت اور آرامش
اسلام زندگی کا دین ہے اور زندگی کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا ہے زندگی کے تمام پہلووں کو ایک جامع نظر سے دیکھتا ہے اورہر پہلو کے لئے ایک خاص حکم صادر کرتا ہے۔ اسلام مادی ضرورتوں کو ایک مقدمہ کے عنوان سے دیکھتا ہے کہ یہ ضرورتیں معنویت اور روحانیت کی طرف سفر کرنے والی شاہراہ پر چلنے کے لئے لازم ہیں۔
کتب حدیث اور منابع روائی میں اس بارے میں کئی ابواب ذکر ہوئے ہیں، مثلا
1- مرحوم کلینی کتاب مستطاب کافی میں ایک باب (الزی و التجمل و المروۃ ) خوبصورتی اور مروت کے بارے میں لکھےم ہیں اور اس باب کے ذیل میں کئی اور ابواب کو بھی جمع کرتے ہیں ان میں سے تجمل اور اظہار نعمت،باب لباس، باب سواد اور وسمہ، باب سرمہ، باب حمام اور باب خوشبو نامی ابواب میں زیبائی اور خوبصورتی کے بارے میں احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
2- شیخ رضی الدین طبرسی نے اپنی مکارم الاخلاق نامی کتاب کو بھی اسی عنوان کے ساتھ مختص کیا ہے اوراس کے ابواب کو اس طرح بنایا ہے :
باب آداب التنظیف و التطیف و التکحل و التدھن و السواک (صفائی کرنے، خوشبو لگانے ، سرمہ لگانے ، سر میں تیل لگانے اور مسواک کرنے کے آداب) (30)
3- علامہ مجلسی نے بحار الانوار کا پورا ایک جلد اسی عنوان کے لئے مختص کیا ہےاور باب التجمل و لبس الثیاب الفاخرۃ و النظیفۃ (تجمل اور صاف ستھرا لباس زیب تن کرنا) و غیرہ (31)
4- علامہ فیض کاشانی نے بھی کتاب الوافی کی بیسویں جلد میں ایک باب (ملابس و تجملات)کو اسی عنوان کے ساتھ مختص کیا ہے۔ (32)
5- شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ ج سوم میں پورے تہتر ابواب کواسی عنوان کے ساتھ مختص کیا ہے (33)
6- مرحوم میرزا حسین نوری نے بھی کتاب مستطاب مستدرک الوسائل کی پہلی جلد میں کئی ابواب اسی عنوان کے ساتھ مختص کیا ہے۔ (34)
اس بنا پر انسان کی دنیوی زندگی کے بھی کچھ تقاضا ہیں ان میں سے خوبصورت لباس پہننا، اپنے ظاہر کو خوبصورت بنانا، سکونت کے لئے ایک مناسب گھر کا ہونا تاکہ اس میں وہ آرام و راحت کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ جسم کی سلامتی کے لئے صفائی کا خاص خیال رکھنا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا اور ہزاروں آداب انسان کی ظاہری زندگی کے لیے ضروری ہیں۔
(مترجم )یہ جو آداب ظاہری کا ذکر کیا ان تمام ظاہری آداب کا باطن کے ساتھ گہرا رابطہ ہے ان میں سے ہر ایک ادب کسی عمل کے انجام دینے میں دخل ہے اسی لئے شرع مقدس نے ان آداب کو نماز روزہ وغیرہ کے لئے مستحب قراردیا مثلا نماز سے پہلے مسواک خوشبو وغیرہ کے استحباب کا تذکرہ۔
1- اہمیت لباس و آرائش آیات کی روشنی میں
لباس کی اہمیت میں خدا وند متعال قرآن کریم میں بنی آدم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے:
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاساً يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَ رِيشاً وَ لِبَاسُ التَّقْوَى ذلِكَ خَيْرٌ ذلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (35)
اے اولادُ آدم ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جس سے اپنی شرمگاہوں کا پردہ کرو اور زینت کا لباس بھی دیا ہے لیکن تقوٰی کا لباس سب سے بہتر ہے یہ بات آیات الٰہیٰہ میں ہے کہ شاید وہ لوگ عبرت حاصل کرسکیں۔
وَ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ (36)
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے ایسے پیراہن بنائے ہیں جو گرمی سے بچاسکیں اور پھر ایسے پیراہن بنائے ہیں جو ہتھیاروں کی زد سے بچاسکیں. وہ اسی طرح اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کردیتا ہے کہ شاید تم اطاعت گزار بن جاؤ۔
وَ اللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَناً وَ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتاً تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ يَوْمَ إِقَمَتِكُمْ (37)
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو وجہ سکون بنایا ہے اور تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں سے ایسے گھر بنادئے ہیں جن کو تم روزِ سفر بھی ہلکاسمجھتے ہو اور روزِ اقامت بھی ہلکا محسوس کرتے ہو
وَ لَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَا تَشْكُرُونَ (38)
یقینا ہم نے تم کو زمین میں اختیار دیا اور تمہارے لئے سامان زندگی قرار دئیے مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (39)
پیغمبر! آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے اور بتائیے کہ یہ چیزیں روزِ قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں .ہم اسی طرح صاحبان علم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ہیں۔
2- اہمیت لباس و آرائش احادیث کی روشنی میں
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ عَشَرَةُ أَقْمِصَةٍ يُرَاوِحُ بَيْنَهَا قَالَ لَا بَأْسَ (40)
اسحاق بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ آدمی جس کے پاس دس کپڑے ہیں کیا ان کو یکی بعد دیگری پہن سکتا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا ہاں اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام فرماتے تھے:
لِيَتَزَيَّنْ أَحَدُكُمْ لِأَخِيهِ الْمُسْلِمِ ، كَمَا يَتَزَيَّنُ لِلْغَرِيبِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَرَاهُ فِي أَحْسَنِ الْهَيْئَة (41)
اپنے مومن بھائی کی خاطر اس طرح خود کو سجائیں کہ جس طرح وہ غیرں کے لئے خود کو آراستہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ غیر اسے بہترین شکل میں دیکھے۔
حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
مَا أَصْبَحَ بِالْكُوفَةِ أَحَدٌ إِلَّا نَاعِماً إِنَّ أَدْنَاهُمْ مَنْزِلَةً لَيَأْكُلُ الْبُرَّ وَ يَجْلِسُ فِي الظِّلِّ وَ يَشْرَبُ مِنْ مَاءِ الْفُرَات (42)
کوفہ والوں کی حالت ٹھیک ہے سب سے کم حیثیت والا انسان بھی گندم کی روٹی کھاتا ہے اس کا اپنا گھر ہے اورآب گوارا سے محظوظ ہوتا ہے
نتائج
1- طبیعت سے فائدہ اٹھانا
قرآن کریم تمام انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کو طبیعت یعنی قدرت سے ایک خاص ہدف کی خاطر فائدہ اٹھانے کی طرف دعوت دیتی ہے؛ ان میں سے ان کاموں کی طرف ترغیب دلاتاہے:
ا- زمین سے فائدہ اٹھانا
متعدد آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ زمین انسان کی خاطر خلق ہوئی ہے
وَ الْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (43)
ور اسی نے مخلوقات کے لیے اس زمین کو بنایا ہے۔
کاشتکاری
حصول رزق کی خاطر زرخیز زمینوں کو کاشت کر کے ان سے روزی کمانے کی ترغیب:
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً وَ سَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلاً وَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى كُلُوا وَ ارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (44)
جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس سے ہم نے مختلف نباتات کے جوڑے اگائے۔تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، صاحبان علم کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔
کسب کی خاطر سفر
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر معیشت کی خاطر سیر و سفر کی ترغیب وارد ہوئی ہے:
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ اذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (45)
پھر جب نماز ختم ہو جائے تو (اپنے کاموں کی طرف) زمین میں بکھر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
قدرتی مواد سے استفادہ
ضرورت کی اشیاء کو وجود میں لانے کے لئے قدرتی مواد سے استفادہ کرنے کی تاکید ہوئی ہے۔ (46)
دریاؤں ، ندیوں، نالوں اور چشموں کے پانی سے فائدہ حاصل کرنے کی بھی تاکید ہوئی ہے:
وَ هُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحماً طَرِيّاً وَ تَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَ لَعَلَّكمْ تَشْكُرُونَ وَ أَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَ أَنْهَاراً وَ سُبُلاً لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (47)
اور اسی نے (تمہارے لیے ) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی چیت جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور نہریں جاری کیں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پاتے رہو۔
2- فلسفہ لباس
لباس زندگی کی ضروریات میں سے ہے یہ لباس کبھی واجب ہے جیسے مردوں کے لئے ستر عورت اور خواتین کے تمام بدن کا ڈھانپنا اور اخلاقی پہلو کا حامل ہے جیسے واجب کے علاوہ باقی لباس، اس کے علاوہ لباس ظاہری خوبصورتی کا بھی باعث ہے اور مومنین کے لئے سزاوار ہے کہ وہ سج دھج کر معاشرے میں زندگی کریں۔ اب یہ کہ لباس کس طرح کا ہونا چاہیئے یہ تو ان کی جیب پر منحصر ہے۔ اگر نادار ہوں تو صرف ضرورت کی حد پر اکتفاء کریں اگر دولت مند ہوں تو اچھا لباس زیب تن کریں اور مولا کا متقین کی توصیف میں فرمانا کہ و ملبسهم الاقتصاد یعنی متقین کا لباس بھی میانہ ہےاس مطلب کی طرف اشارہ ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ متعدد لباس کا ہونا خود ایک قسم کی میانہ روی ہے اور بنیادی طور پر لباس انسان کی سماجی شخصیت پر اثر نداز ہوتا ہے۔
3- مکان کی ضرورت
مکان اور رہنے کی جگہ بھی انسانی کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ ایک معاشرہ میں تمام افراد کے لئے مکان کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام کے دار الحکومت شہر کوفہ میں امام علیہ السلام کی تدبیر اور عدالت کی وجہ سے سب کے سب مکان والے تھے۔بعض روایات میں مکان کی وسعت اور گشادگی کو اہمیت دی گئی ہے اور اسے سعادت میں سے شمار کیا گیا ہے . (48) البتہ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ مکان ایک خاندانی نیک اہداف کے حصول کے لئے وسیلہ بنے ، اس بات کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کئی افرادایک ہی مکان میں ساکن ہوں اس وقت کم سے کم ہر ایک کے لئے کمرے موجود ہوں جن میں وہ آرام کرسکیں مطالعہ کر سکیں وغیرہ تاکہ ایک خاندان کے افراد مختلف نفسیاتی بیماریوں سے بچ سکیں، اس بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے خاص دستورات بھی ہیں۔ (49)
4- نظافت اور صفائی کی ضرورت
اسلام نے متعدد مقامات پر نظافت اور صفائی کی تاکید کی ہے، دین کی نگاہ میں گندگی اور نجاست ایک منفور کام اور خدا کی ناراضگی کا باعث ہے۔نہانا¬(جو کہ کہ صحت کے اسرار میں سے اک سر بھی ہے) کم از کم دو دن میں ایک بار انجام دینے کی تاکید کی ہے (50)دین مقدس اسلام کے بہت سارے احکام معنوی آثار اور برکات کے ساتھ ساتھ ظاہری فوائد کے بھی حامل ہیں جیسے غسل اور وضوءاور ان کےآداب وغیرہ۔پانی اسلام میں پاک کرنے والی چیزوں میں سےایک ہےرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گندہ بدبودار اور غبار آلود انسانوں سے نفرت کرتے تھے۔ جب آپ ص سے غبار آلود اور کثیف انسان سے برتاؤ سے متعلق پوچھا گیا تو آپ ص نے فرمایا:
مِنَ الدِّينِ الْمُتْعَةُ وَ إِظْهَارُ النِّعْمَةِ (51)
اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا اظہار کرنا دینداری ہے۔
اس نظر سے ذاتی اور سماجی نظافت اور صفائی انسان کی ان ضرورتوں میں سے ہے جن میں جسم کی سلامتی، نشاط روحی، نفسیاتی سکون، واجبات دینی کی ادائیگی، سماج کی خدمت کا جذبہ اور دیگر ہزاروں فوائد چھپے ہوئے ہیں۔
5- زینت اور آرائش
انسانی زندگی کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا زینت اور آرائش بھی ہےجن کا تعلق اگر چہ انسان کے بدن اور اشیاء کے ظاہری حصے سے ہے لیکن فلسفہ زینت اس سے کہیں بڑھ کر انسان کی روح اور جان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام کی پاک سیرت میں یہ بھی نظر آتا ہے یہ ہستیاں گھر کے اندر تو سخت اور موٹے کپڑے پہنتی تھیں تاکہ کہیں ناداروں اور فقیروں سے دور نہ جائیں لیکن جب لوگوں میں نمایاں ہوتی تھیں، تو سج دھج کر بہترین کیفیت میں تشریف لاتی تھیں۔ جب آنکھیں، دل اور جان حضرت انسان کی طرف متوجہ ہوں اور ظاہری طور پر آراستہ، تمیز، منظم اور موزون ہو تو اسے دیکھ کر لوگ خوش ہوجاتے ہیں، اور ایک کامل مومن کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے کہ چہرہ حشاش بشاش لباس صاف ستھرا، چال چلن زیبا اور ایک دوسرے سے ملتے ہوئے خوش اخلاق ہوتا ہے۔ لیکن اگر چہرہ ابر آلود، گیسوئیں غبار آلود اور بات کرتے ہوئے غصہ اور ناراضگی کے عالم میں بات کرتا ہو تو لوگوں کا اس دل اٹھ جاتا ہے اور ایک منفی تاثیر دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ اسی لئے خود کو سجانا اور ظاہری طور پر خود کو خوبصورت بنانا سماجی حقوق میں سے ہے۔ ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ اس حق کی رعایت کرے۔
یہ سجنا سجانا ایک مرد کا اپنی بیوی کے سامنے اور ایک عورت کا اپنے شوہر کے سامنے زیادہ اہمیت کا حامل ہے دین مقدس میں اس کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔میاں بیوی جب ایک دوسرے کے لئے خود کو آراستہ کرتے ہیں تو مرد کے لئے زیبا ترین زن اپنی بیوی ہے اور عورت کے لئے زیبا ترین مرد اپنا شوہر ہے لیکن اس کے برعکس اگر عورت اپنے شوہر کے لئے خود کو زیبا نہ کرے یا مرد اپنی بیوی کی خاظر خود کو آراستہ نہ کرے تو بسا اوقات دامن عفت بھی چھوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت پاک میں آیا ہے کہ وہ اپنے بالوں کو رنگ کرتے تھے اور اسے اجر اور ثواب کا وسیلہ قرار دیتے تھے:
عَنْ ذَرْوَانَ الْمَدَائِنِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الثَّانِي ع فَإِذَا هُوَ قَدِ اخْتَضَبَ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدِ اخْتَضَبْتَ فَقَالَ نَعَمْ إِنَّ فِي الْخِضَابِ لَأَجْراً أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ التَّهْيِئَةَ تَزِيدُ فِي عِفَّةِ النِّسَاءِ أَ يَسُرُّكَ أَنَّكَ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَرَأَيْتَهَا عَلَى مِثْلِ مَا تَرَاكَ عَلَيْهِ إِذَا لَمْ تَكُنْ عَلَى تَهْيِئَةٍ؟ قُلْتُ لَا قَالَ هُوَ ذَاكَ قَالَ وَ لَقَدْ كَانَ لِسُلَيْمَانَ ع أَلْفُ امْرَأَةٍ فِي قَصْرٍ ثَلَاثُمِائَةٍ مَهِيرَةٌ وَ سَبْعُمِائَةٍ سُرِّيَّةٌ وَ كَانَ يُطِيفُ بِهِنَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَة (52)
ذروان مدائنی نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن امام ہادی علیہ السلام کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوا، دیکھا کہ آپ نے ابھی خضاب کیا ہے۔ میں نے عرض کیا : میری جان آپ پر قربان ! خضاب کئے ہیں ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں خضاب کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب ہے۔ کیا تم نہیں جانتے ہیں کہ مرد کا خود کو آراستہ کرنا عورت کی عفت اور پاکدامنی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے(جب مرد خود کو آراستہ کرتا ہے تو اس کی بیوی دوسروں کی طرف رغبت نہیں کرے گی) کیا تم پسند کرو گے کہ جب گھر لوٹو تو اپنی بیوی کو غبار آلود اور بری شکل میں دیکھو؟ میں نے عرض کیا : نہیں یابن رسول اللہ ۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا تمہاری بیوی بھی اسی طرح ہے۔ حضرت سلیمان بن داؤدعلیہما السلام کے لئے ایک ہزار عورتیں تھیں کہ ان میں تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں اور آپ ہر شب روز ایک کے پاس جاتے تھے۔
اسی طرح ان ہستیوں کی سیرت میں ہے وہ زیبا اور خوبصورت کپڑے (لوگوں کے لئے) اور اس کے اندر سخت اور موٹے اونی کپڑے (خدا کے لئے) پہنتے تھے:
وَ قَالَ سُفْيَانُ دَخَلْتُ َعلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَيْهِ جُبَّةُ خَزٍّ دَكْنَاءُ وَ كِسَاءُ خَزٍّ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ تَعَجُّباً فَقَالَ لِي يَا ثَوْرِيُّ مَا لَكَ تَنْظُرُ إِلَيْنَا لَعَلَّكَ تَعْجَبُ مِمَّا تَرَى فَقُلْتُ لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لَيْسَ هَذَا مِنْ لِبَاسِكَ وَ لَا ِبَاسِ آبَائِكَ قَالَ يَا ثَوْرِيُّ كَانَ ذَلِكَ زَمَانَ إِقْتَارٍ وَ افْتِقَارٍ وَ كَانُوا يَعْمَلُونَ عَلَى قَدْرِ إِقْتَارِهِ وَ افْتِقَارِهِ وَ هَذَا زَمَانٌ َدْ أَسْبَلَ كُلُّ شَيْ ءٍ عَزَالِيَهُ ثُمَّ حَسَرَ رُدْنَ جُبَّتِهِ فَإِذَا تَحْتَهَا جُبَّةُ صُوفٍ بَيْضَاءُ يُقَصِّرُ الذَّيْلَ عَنِ الذَّيْلِ وَ الرُّدْنَ عَنِ الرُّدْنِ وَ قَالَ يَا ثَوْرِيُّ لَبِسْنَا هَذَا لِلَّهِ تَعَالَى وَ هَذَا لَكُمْ فَمَا كَانَ لِلَّهِ أَخْفَيْنَاهُ وَ مَا كَانَ لَكُمْ أَبْدَيْنَاْهُ (53)
سفیان ثوری نقل کرتا ہے کہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے ایک ایسا خوبصورت کپڑا (جُبَّةُ خَزٍّ دَكْنَاءُ)زیب تن کیا ہوا تھا جو گہرا سیاہ مائل بہ سرخی تھا ، میں تعجب کے ساتھ آنحضرت علیہ السلام کا نظارا کر رہا تھا ، اس وقت آپ علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا : اے ثوری! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تعجب کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : یابن رسول اللہ یہ آپ اور آپ کے آبا و اجداد کے لباسوں میں سے تو نہیں تھا ! امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ثوری ! اس زمانے میں ہر طرف فقر و تنگدستی کا دور دورا تھا لوگ زیادہ تر فقیر تھے تو میرے آبا و اجداد اسی زمانے کے مطابق عمل کرتے تھے لیکن اب وہ زمانہ نہیں ہے نعمتوں کی فراوانی ہے۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے اپنے آستین مبارک کو اوپرکیا تو میں نے دیکھا کہ ایک اونی کپڑا اس کے اندر ہے جس کے آستینیں کوتاہ دامن بھی کوتاہ ہے، اس وقت فرمایا : اے ثوری! یہ ہمارا لباس ہے جو خدا کے لئے پہنتے ہیں اور اوپر والا لباس تم لوگوں کے لئے پہنتا ہوں ، جو خدا کے لئے ہے اسے مخفی کرتے ہیں جو تم لوگوں کے لئے ہے اسے ظاہر کرتا ہوں۔
قرآن کریم بھی انسانوں کو زینتوں اور زیورات سے فائدہ اٹھانے کی طرف دعوت دے رہا ہے اور خدا کی طیبات کو خود پر حرام قرار دینے سے سختی سے منع کر رہا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً(54)
کہہ دیجیے : اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہہ دیجیے : یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں۔
اسی طرح عبادت کے وقت پھولوں کی خوشبو سے استفادہ کرنا، گھر والوں کے رہتے ہوئے خود کو خوشبو لگانا، گھر سے باہر جاتے ہوئے خود کو معطر کرنابھی ایک سماجی، اخلاقی اور انسانی حق ہے یہ دینداری اور خوش اخلاق کی علامت بھی ہے؛ چونکہ زندگی محبتوں اور الفتوں کی بنیاد پر قائم ہے اور ایک فعال انسان سماج کی آبرو ہےاس کے لئے تمام مادی اور معنوی اوصاف سے متصف ہونے کی ضرورت ہےتاکہ سماجی تعلقات اور ایمانی رشتوں میں ایک مثالی انسان بن سکےاس لئے خوشبو لگانے کو پیغمبروں کے اخلاق میں سے شمارکیا گیا ہے۔ (55)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت پاک میں آیا ہے کہ آپ سفر میں عطر سے غفلت نہیں کرتے تھے اسی طرح امام صادق علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ مسجد میں آپ کی جگہ کو آپ کی خوشبو اور جائے سجدہ سے پہچانا جاتا تھا۔ (56)
ج) سہولیات اور فلاح و بہبود کی ضرورت
دین انسان سازی اور انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر آیا ہے۔ جب انسان کو سب چیزیں مل جائیں جو اس کی نشو و نما اور زندگی کو چلانے کے لئے ضروری ہیں اور ان کاموں سے بچ جائے جن کا انجام فقر و ناداری ہے تو وہ اہم کاموں کے بارے میں سوچ سکتا ہے ، اپنی اور دوسروں کی خاطر علمی اور تربیتی ترقی کا سوچ سکتا ہے۔ اسی چیز کا فقدان ہے کہ بہت سے انسان فقیری اور امیری، ناداری اور ثروتمندی کے اتار چڑھاؤ میں اپنی بہت سی صلاحیتوں کو کھو دیتے ہیں اور بری خصلتیں ان کے دل و ماغ میں بس جاتی ہیں ، بسا اوقات قوت فکر مفلوج ہو جاتی ہے اور سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں ۔
اسی لئے مال جمع کرنا اور ضرورت کی سہولتوں کا حاصل کرنا انسانی ضرورتوں میں سے ہےدین اسلام کی تعلیمات میں ان چیزوں کی بہت زیادہ سفارش ہوئی ہے ۔ معاشرہ کے ارباب عقد و حل اور صاحب کرسی و منصب افراد پر ضروری قرار دیا گیاہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ان سہولتوں تک رسائی کو آسان بنائیں۔ کیونکہ جس معاشرے میں فقر و ناداری کی حکمرانی ہو وہ معاشرہ قسم قسم کی بیماریوں اور برائیوں کےلئے جنم گاہ بن جاتا ہے۔
فلاح و بہبود قرآن کی نگاہ میں
وَ يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَ بَنِينَ وَ يَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَ يَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَاراً (57)
وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ اذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (58)
پھر جب نماز ختم ہو جائے تو (اپنے کاموں کی طرف) زمین میں بکھر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
وَ لاَ تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَ ارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَ اكْسُوهُمْ وَ قُولُوا لَهُمْ قَوْلاً مَعْرُوفاً (59)
اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔
وَ تُحِبُّونَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً (60)
اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔
وَ آتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ (61)
اور انہیں اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو۔
فلاح و بہبود روایتوں میں
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَخَلَقَ لَهُمُ اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ مِنْ حَرَكَاتِ التَّعَبِ وَ نَهَضَاتِ النَّصَبِ، وَ جَعَلَهُ لِبَاساً لِيَلْبَسُوا مِنْ رَاحَتِهِ وَ منَامِهِ، فَيَكُونَ ذَلِكَ لَهُمْ جَمَاماً وَ قُوَّةً، وَ لِيَنَالُوا بِهِ لَذَّةً وَ شَهْوَةً وَ خَلَقَ لَهُمُ النَّهارَ مُبْصِراً لِيَبْتَغُوا فِيهِ مِنْ َضْلِهِ، وَ لِيَتَسَبَّبُوا إِلَى رِزْقِهِ، وَ يَسْرَحُوا فِي أَرْضِهِ، طَلَباً لِمَا فِيهِ نَيْلُ الْعَاجِلِ مِنْ دُنْيَاهُمْ، وَ دَرَكُ الْآجِلِ فِي أُخْرَاهُمْ بِكُلِّ ذَلِكَ يُصْلِحُ شَأْنَهُم (62)
چنانچہ اس نے ان کے لیے رات بنائی تاکہ وہ اس میں تھکا دینے والے کاموں اورخستہ کردینے والی کلفتوں کے بعد آرام کریں اور اسے پردہ قرار دیا تاکہ سکون کی چادر تان کر آرام سے سوئیں اور یہ ان کے لیے راحت و نشاط اورطبعی قوتوں کے بحال ہونے اورلذت وکیف اندوزی کا ذریعہ ہو اور دن کو ان کے لیے روشن و درخشاں پیدا کیا تاکہ اس میں (کاروکسب میں سرگرم عمل ہو کر) اس کے فضل کی جستجو کریں اورروزی کا وسیلہ ڈھونڈیں اوردنیاوی منافع اوراخروی فوائد کے وسائل تلاش کرنے کے لیے اس کی زمین میں چلیں پھریں۔ان تمام کارفرمائیوں سے وہ ان کے حالات سنوارتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
نِعْمَ الْعَوْنُ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (63)
دنیا آخرت کے لئے ایک بہترین مددگار اور یاور ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
مِنْ سَعَادَةِ الْمُسْلِمِ سَعَةُ الْمَسْكَنِ وَ الْجَارُ الصَّالِحُ وَ الْمَرْكَبُ الْهَنِي ءُ (64)
(تین چیزیں) مسلمان کے لئے سعادت ہے گھر کا گشادہ اور وسیع ہونا، نیک اور صالح ہمسایہ کا ہونااور بہترین مرکب کا ہونا۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
إن الإنسان إذا ادخر طعام سنته خف ظهره و استراح و كان أبو جعفر و أبو عبد اللَّه ع لا يشتريان عقدة حتى يحرزا طعام سنتهما (65)
انسان جب ایک سال کے لئے کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ کرتا ہے تو اس کا دوش ہلکا ہو جاتا ہے اور اطمئنان کی سانس لیتاہے۔ اسی لئے ہے کہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام جب تک سال کے کھانے کا بندوبست نہیں کرتے تھے تب تک باغ نہیں خریدتے تھے۔
نتائج و استدراک
1- مال و دولت کے متعلق قرآنی دستور
اسلامی اقتصادی نقطہ نظر سے بنیادی اصل تو یہ ہے کہ اموال کا مالک خدا کو جانیں، یہ خود ایمان باللہ کے نتائج میں سے ایک ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس اصل کے متعلق تاکید ہوئی ہے:
وَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطاً (66)
اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کاہے اور اللہ ہر چیز پر خوب احاطہ رکھنے والا ہے۔
اس بعد ان چیزوں کو استعمال کرنے کا امر ہورہا ہے جو پاک اور حلال ہوں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَ لاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِين (67)
"لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے" اس کے بعد نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی ترغیب دلائی جارہی ہے اور شکر کرنے کی پاداش میں مزید نعمتیں بڑھانے کا بھی وعدہ کیا جا رہا ہے:
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلاَلاً طَيِّباً وَ اشْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(68)
پس جو حلال اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی بندگی کرتے ہو۔
(مترجم)
وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (69)
اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا۔
اور پھر حکم دے رہا ہے کہ اسراف نہ کریں ، خرچ کرنے میں تقوی الہی کی رعایت کریں ، طاغوتی راستے کو نہ اپنائیں اور صرف زر اندوزی اور مال جمع کرنے میں نہ رہیں بلکہ مقدس اہداف میں بذل اور انفاق کرنے سے دریغ نہ کریں:
وَ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَ غَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفاً أُكُلُهُ وَ الزَّيْتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهاً وَ غَيْرَ مُتَشَابِهٍكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَ لاَ تُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (70)
اور وہ وہی ہے جس نے مختلف باغات پیدا کیے کچھ چھتریوں چڑھے ہوئے اور کچھ بغیر چڑھے نیز کھجور اور کھیتوں کی مختلف ماکولات اور زیتون اور انار جو باہم مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی پیدا کیے ، تیار ہونے پر ان پھلوں کو کھاؤ، البتہ ان کی فصل کاٹنے کے دن اس (اللہ) کا حق (غریبوں کو) ادا کرو اور فضول خرچی نہ کرو، بتحقیق اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّباً وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (71)
بہرحال اب تم نے جو مال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَ لاَ تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَ مَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى (72)
جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں سرکشی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ (73)
اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو
2- مال خرچ کرنے کا معیار
دین مبین اسلام کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ خدا کی دی ہوئی اموال کو ایک خاص ہدف کی خاطر خرچ کرنا چاہیئے اللہ تعالی کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا مقصد مضبوط زندگی اور معاشرے کو خیر کی طرف لے جانےکی کوشش کرنی چاہیئے اور یہ جان لیں کہ مال خود ہدف نہیں ہے ۔ خدا نے مالداروں کو اسراف و طغیان او ر الہی حدود سے گزرجانے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے تاکہ نعمت سب کو مل جائے اور کوئی اس سے محروم نہ رہے، طمع اور اسراف کا قلع قمع ہو سکے۔ اس کی جگہ سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے مواقع سب کو مل جائیں اور انفاق کی ثقافت معاشرے میں عام ہو سکے۔
3- زمانہ کے ساتھ چلنا
سہولتوں کے مواقع جس طرح بھی ہو ں اچھے ہیں اور انسان کو چاہیئے کہ سہولیات کے حصول کے لئے نیک اور پسندیدہ راستوں کو اپنائے اور جد و جہد کرے ان سے فائدہ اٹھائے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دیکھے کس زمانہ میں جی رہا ہے ائمہ معصومین کی سیرت میں ہمیں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہ ہستیاں اپنے زمانے کے مطابق زندگی گزارتی تھیں جیسا کہ امام علی علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کی طرز زندگی میں تفاوت ہے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
إِنَّ أَهْلَ الضَّعْفِ مِنْ مَوَالِيَّ يُحِبُّونَ أَنْ أَجْلِسَ عَلَى اللُّبُودِ وَ أُلْبِسَ الْخَشِنَ وَ لَيْسَ يَتَحَمَّلُ الزَّمَانُ ذَلِك (74)
میرے تنگ نظر دوستوں کی ِتمنا ہے کہ میں کھر درے فرش پر بیٹھ جاؤں اور سخت کپڑے پہن لوں لیکن زمانے کا تقاضہ کچھ اور ہے۔
یا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو پھل سب کھاتے ہیں وہ اپنے گھر والوں کو بھی دیں۔ (75) یا امام صادق کی وہ سیرت جسے سفیان ثور ی نے نقل کیا ۔ (76)
4- معیار سالانہ بجٹ ہے
قرآن و حدیث کی روشنی میں ضرورتوں اور سہولتوں کا معیار سالانہ حساب ہے ، دینی تعلیمات میں آیا ہے کہ اگر ایک انسان کے پاس ایک سال کا خرچہ ہو تو وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہےاور اسی سکون کے ساِیے میں اس کی مخفی قوتیں اور صلاحیتیں آشکار ہو سکتی ہیں وہ انسان معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے سوچ سکتا ہے۔ اسلام اس معیار کو قائم کرکے ایک سال تک کے لئے سہی فقر و ناداری کو ختم کرنے کے لیے انسانوں کو دعوت دیتا ہے؛ یعنی فقر و ناداری سے مقابلہ کرنے کے لئے کم از کم ایک سال کے لئے نان و نفقہ کا بندوبست ہو جائے۔مسلمان حکمرانوں پر ضروری ہے کہ اس عظیم ہدف کے حصول کے لئے پروگرام بنائیں ۔
وہ شخص جس کے لئے ایک سال کے نان و نفقہ کا بندوبست ہوجائے یا کم از کم پورا کرنے کی راہیں فراہم ہوجائیں مثلا کوئی نوکری یا روزگار مل جائےمالی لحاظ سے اسے کوئی پریشانی لاحق نہ ہوج تو وہ سماج میں عزت والے انسان کے طور پر رہتا ہےگھر میں بھی وہ ہر دلعزیز شخصیت ہوتا ہے، پیش آنے والے حادثات سے بخوبی نپٹ سکتا ہے اپنے بال بچوں اور شریک حیات کے لئے خوشی اور آرامش کا باعث بنتا ہے۔ یہیں سے اخلاقی برائیاں سماج سے مٹ سکتے ہیں، آبرو کی رکھوالی کا سامان فراہم ہو سکتا ہے ۔ شرافت اور عزت کو بنیادی ضرورتوں اور فقر و ناداری پر قربان نہیں کیا جائے گا، طبقاتی فاصلے، ایک دوسرے پر شک و شبہ، ایک دوسرے کی توہین اور حقارت معاشرے میں عام نہیں ہو گی۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا سکتا ہے کہ جناب شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ کا پورا ایک باب اسی سے مخصوص کیا ہے اس باب کا عنوان یہ ہے :
باب جواز اعطاء المستحق من الزکاة ما یغنیه و انّه لاحدّ له فی الکثرة الاّ من یخاف منه الاسراف، فیعطی قدر کفایته لسنته (77)مستحق کو کفایت کی مقدار تک زکات دینا جائز ہے زیادہ دینے کی کوئی حد نہیں جب تک اسراف کا خطرہ نہ ہو ایسی صورت میں اسے ایک سال کی کفایت کی حد تک دی جائے۔
5- مال انسان کی خدمت کے لئے
اس نکتہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ انسان محور اور مرکز ہےتمام اشیاء انسان کی خدمت کے لئے ہیں جتنے بھی وسائل اور ذرائع اس کائنات میں موجود ہیں سب حضرت انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور ساری ہستی انسان کے گرد گومتی ہیں۔ جب کہ سرمایہ داری سوچ کےمطابق مال محور ہے اور انسان توسیع سرمایہ کے لئے ایک آلہ کار ہے۔ اسلامی تعلیمات اس کے برخلاف ہے کہ نظام سرمایہ داری ، اپنے لئے زیادہ کی چاہت، خرچ کرنے میں اسراف کرنا اور مال کے جمع و خرچ کرنے میں پروگرام کے بغیر قدم اٹھانا انسان کے لئے ہلاکت کا با عث بن سکتا ہے، یہ کام معاشرے کو برائی اور فساد کے کنویں میں پھینکنے کے مترادف ہے اس سے سماج میں برائیاں جنم لیتی ہیں، اور بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی بیماریوں کو وجود میں لانے کے لئے پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
وَ اعْلَمُوا أَنَّ كَثْرَةَ الْمَالِ مَفْسَدَةٌ لِلدِّينِ مَقْسَاةٌ لِلْقُلُوب (78)
جان لیں کہ! مال کا زیادہ ہونا دین کی تباہی اور سنگدلی کا باعث ہے
اسلامی معیشت کا فلسفہ مال کے "قوام" ہونے پر مبنی ہے۔ اسی لئے پروردگار اسے بے وقوفوں کے ہاتھوں دینے سے منع کر رہا ہے اور انہیں صرف کھلانے پلانے اور پہنانے کا حکم دے رہا ہے :
وَ لاَ تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَ ارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَ اكْسُوهُمْ وَ قُولُوا لَهُمْ قَوْلاً مَعْرُوفاً (79)
اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔
پس مال قوام زندگی ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب مال بعض خاص لوگوں تک محدود نہ رہے اور سب کے ہاتھوں میں پہنچ جائے کہ اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی زندگی کو مضبوط کریں۔ اگر ایسا نہ ہوجائے تو مال کی افادیت ہی نابود ہو جاتی ہے اسی لئے اسے بے وقوفوں کے ہاتھوں دینے سے منع کیا کیونکہ بے وقوف کے لئے یہ قوام نہیں ہے بلکہ یہ لوگ غلط جگہ خرچ کر کے اس عظیم سرمایہ کو جو کہ زندگی کا قوام اور سہارا ہے، نابود کریں گے۔ اسی لئے امام رضا علیہ السلام نے ربا اور سود کو مال کے ضیاع اور سماجی سہولتوں کی نابودی قرار دیا۔ آپ ع فرماتے ہیں:
وَ عِلَّةُ تَحْرِيمِ الرِّبَا لِمَا نَهَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْهُ وَ لِمَا فِيهِ مِنْ فَسَادِ الْأَمْوَالِ لِأَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا اشْتَرَى الدِّرْهَمَ بِالدِّرْهَمَيْنِ كَانَ ثَمَنُ الدِّرْهَمِ دِرْهَماً وَ ثَمَنُ الْآخَرِ بَاطِلًا فَبَيْعُ الرِّبَا وَ شِرَاؤُهُ وَكْسٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ عَلَى الْمُشْترِي وَ عَلَى الْبَائِعِ فَحَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى الْعِبَادِ الرِّبَا لِعِلَّةِ فَسَادِ الْأَمْوَالِ كَمَا حَظَرَ عَلَى السَّفِيهِأَنْ يُدْفَعَ إِلَيْهِ مَالُهُ لِمَا يُتَخَوَّفُ عَلَيْهِ مِنْ إِفْسَادِهِ حَتَّى يُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدُهُ فَلِهَذِهِ الْعِلَّةِ حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الرِّبَا وَ بَيْعُ الرِّبَا بَيْعُ الدِّرْهَمِ بِالدِّرْهَمَيْنِ وَ عِلَّةُ تَحْرِيمِ الرِّبَا بَعْدَ الْبَيِّنَةِ لِمَا فِيهِ مِنَ الِاسْتِخْفَافِ بِالْحَرَامِ الْمُحَرَّمِ وَ هِيَ كَبِيرَةٌ بَعْدَ الْبَيانِ وَ تَحْرِيمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لَهَا لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ مِنْهُ إِلَّا اسْتِخْفَافاً بِالْمُحَرَّمِ الْحَرَامِ وَ الِاستِخْفَافُ بِذَلِكَ دُخُولٌ فِي الْكُفْرِ وَ عِلَّةُ تَحْرِيمِ الرِّبَا بِالنَّسِيئَةِ لِعِلَّةِ ذَهَابِ الْمَعْرُوفِ وَ تَلَفِ الْأَمْوَالِ وَ رَغْبَةِ النَّاسِ فِي الرِّبْحِ وَ تَرْكِهِمْ لِلْقَرْضِ وَ الْقَرْضُ صَنَائِعُ الْمَعْرُوفِ وَ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنَ الْفَسَادِ وَ الظُّلْمِ وَ فَنَاءِ الْأَمْوَال (80)
اور سود کے حرام ہونے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ اور اس لئے کہ اس میں مال کا نقصان ہے کیونکہ انسان جب ایک درہم کو دو دہموں میں خریدے گا تو ایک درہم تو ایک درہم کی قیمت ہوئی اور دوسرا درہم باطل اور بلا قیمت چلا جاتا ہے تو سود کی خرید و فروخت ہر حال میں نقصان دہ ہے خرید کرنے والے کے لئے بھی اور فروخت کرنے والے کے لئے بھی؛ اس لئے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر سود حرام کردیا کہ بس مال کا نقصان ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے کسی نا سمجھ کو اس کا مال حوالہ کرنا منع ہے کہ کہیں اس کو ضائع نہ کر دے جب تک وہ سمجھدار نہ ہو جائے ۔ تو اسی لئے اللہ تعالی نے سود اور سود کی خرد و فروخت اور ایک درہم کو دو دہم پر فروخت کرنا حرام کردیا ہے اور ان دلیلوں کے بعد سود کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالی کے حکم تحریم کا استخفاف کفر میں داخل کر دیتا ہے اور واضح بیان کے بعد سود لینا یا دینا استخفاف حکم باری تعالی کے سوا کچھ نہیں ہے اور حکم الہی کا استخفاف کفر میں داخل ہونا ہے اور ادھار اور قرض پر سود کی حرمت شاید اس لئے ہے کہ اس سے حسن سلوک ختم ہو جائے گا مال کا اتلاف ہو گا لوگوں کی نفع کی طرف رغبت بڑھے گی اور قرض لینا متروک ہو جائے گا اور قرض دینا خود ایک نیکی اور حسن سلوک ہے اور علاوہ بر این اس سود میں فساد ، ظلم اور مال کا اتلاف بھی ہے۔ (81)
اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَ الْقَوَامُ وَ ضِدَّهُ الْمُكَاثَرَة (82)
امام صادق علیہ السلام لشکر عقل اور لشکر جہل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لشکر عقل میں سے ایک میانہ روی ہے اور اس کے مقابل میں "مکاثرہ"؛ یعنی اپنے لئے زیادہ چاہنا یا زیاد خواہی جہل کے لشکر میں سے ہے
اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کسی معاشرے میں مال اور سہولت کی اشیاء بعض خاص افراد تک محدود نہ رہ جائیں اور تمام لوگوں کی دسترسی میں پہنچ جائیں۔
د) جسمانی توانائی کی ضرورت
اسلامی ثقافت میں دوسری ثقافتوں کے برخلاف جسم انسان کوئی حقیر چیز نہیں ہے۔ اسلام اس بات کا معتقد ہے کہ جسم انسان روح کی ارتقاء اور تکامل کے لئے وسیلہ ہے اور جسم کی توہین شخصیت کی توہین ہے۔ اگر کوئی اس گناہ کا مرتکب ہوا تو وہ سزا کا حقدار ہے۔ اسلام جسمانی صحت و سلامتی کے لئے ایک خاص اہمیت کا قائل ہے۔ ایک طرف سے ایکسرسائز اور تمرین کا انسان کی سلامت کے ساتھ گہرا رابطہ ہے ۔ دینی تعلیمات میں جسم کی سلامتی کا خیال رکھنے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكاً قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَ نَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ وَ اللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (83)
اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے ، کہنے لگے : اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے ، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے۔
وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ اسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْماً وَ عِلْماً وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (84)
اور جب موسیٰ رشد کو پہنچ کر تنومند ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ (85)
ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا: اے ابا! اسے نوکر رکھ لیجیے کیونکہ جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو طاقتور، امانتدار ہو۔
وَ اذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلاَءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون (86)
اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا اور تمہاری جسمانی ساخت میں وسعت دی (تنومند کیا)، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید تم فلاح پاؤ
امام سجاد علیہ السلام ماہ مبارک رمضان کی دعاؤں میں سے کسی ایک دعا میں خدا سے مانگتے ہیں کہ:
اللَّهُمَّ أَعْطِنِي السَّعَةَ فِي الرِّزْقِ …..وَ الصِّحَّةَ فِي الْجِسْمِ وَ الْقُوَّةَ فِي الْبَدَن (87)
اے میرے اللہ! مجھے رزق میں وسعت و برکت، جسم میں صحت و سلامتی اور بدن میں قوت و توانائی عطا کر۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: لَا سَبَقَ إِلَّا فِي حَافِرٍ، أَوْ نَصْلٍ، أَوْ خُفٍّ (88)
مسابقہ اور مقابلہ (جس میں شرط لگائی جائے) صرف تین چیزوں کے علاوہ صحیح نہیں ہے ۔ گھڑ سواری(اور ایسے حیوانات پر سوار ہونا جن کے پاؤں میں سم یعنی نعل لگائی جاتی ہے)، اونٹ سواری (اور ایسے حیوانات پر سوار ہو کر مقابلہ کرنا جن کے پاؤں میں نعل نہیں ہوتی)اور تیر و تلوار وغیرہ (ایسا ہتھیار جو سخت تیز اور کاٹنے والا ہو) کا مقابلہ۔
مرّ النبی صلی الله علیه و آله وسلم برجلین کانا یتصارعان فلم ینکر علیهما (89)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دو آدمیوں سے گزر ہوا یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑ رہے تھے آپ ص نے یہ منظر دیکھ کر انہیں منع نہیں کیا(یعنی آپ نے اپنے اس کام سے ان کی تائید فرمائی)
(مترجم) اسی طرح حسنین علیہما السلام کا ایک دوسرے سے کشتی لڑنے کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ:
أبو غسان، باسناده، أن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله نظر الى الحسن و الحسين عليهما السلام، و هما صبيان صغيران يصرعان، فجعل يقول للحسن: إيها حسن!.فقالت فاطمة عليها السلام: يا رسول اللّه، كأنه أحبهما إليك هو أكبرهما تقول له: إيها.قال: كلا، و لكن هذا جبرائيل عليه السلام يقول: إيها حسين (90)
ابو غسان اپنے اسناد کے ساتھ نقل کر تے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسنین علیہما السلام کی طرف دیکھ رہے تھے کہ دونوں ایک دوسرے سے کشتی لڑ رہے تھے آپ ص نے حسن سے فرمایا حسن! حسین کو گراؤ، اس وقت جناب زہرا سلام اللہ علیہا کہنے لگی یا رسول اللہ ! حسن چونکہ بڑا بیٹا ہے اس لئے آپ اسے زیادہ چاہتے ہونگے اور اس کو تشویق کر رہے ہیں۔ پیغمبر ص کہنے لگے نہیں ایسا نہیں ہے لیکن یہ جبریل ہے جو حسین ع کو تشویق کر رہے ہیں۔(تو میں حسن کو تشویق کرتا ہوں تاکہ برابر ہو جائے۔)
نتائج
1- مشق اور تمرین کا انسان کی سلامتی پر اثر
مشق اور تمرین کا خصوصا اگر روزانہ ٹائم ٹیبل کے ساتھ انجام دیا جائے، انسان کی جسمانی اور نفسیاتی سلامتی پر مثبت اثرہوتا ہے وہ لوگ جو صحیح مشق کرتے ہیں یا بہت زیادہ سنگین کام کرتے ہیں تندرست اور صحت مند رہتے ہیں ، ان کی عمر دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے؛ پس مشق کی تاثیر انسان کی سلامتی میں بہت زیادہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ إِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقّا (91)
تمہارے رب کا تم پر ایک حق ہے،تمہارے جسم کا تم پر ایک حق ہے اور تمہارے اہل و عیال کا تم پر ایک حق ہے (92)
قابل غور بات یہ ہے اس حدیث میں بدن کے حق کو حق اللہ کے ساتھ بیان کیا ہےمن جملہ اگر کوئی خدا اور اہل و عیال کے حقوق کو ادا کرے تو تندرست اور صحت مند رہے گا۔
2- مشق اور تمرین چست و چالاک رہنے کا سبب
تمرین انسان کو شادابی اور چستی بخشتی ہے، انسان کی مخفی قوتوں کو آشکار کرتی ہے ، انسان کا ارادہ مضبوط اور پختہ ہو جاتا ہے عزت نفس کو تقویت ملتی ہے کیونکہ انسان جب مشق کرتا ہے تو وہ صحت مند رہتا ہے اور اپنے ارادے کے مطابق کام کر سکتا ہے لوگوں کی خدمت کر سکتا ہے اس وقت وہ سماج میں ایک اہم شخصیت کے طور پر پہنچانا جاتا ہے
3- تمرین کے ساتھ اخلاق، صفات حمیدہ کا سبب
اگر انسان تمرین کے ساتھ اخلاق حسنہ کا بھی حامل ہو تو اس کے اندر شجاعت کا جذبہ،عفو و در گذر کا جذبہ،ظالم سے مقابلہ اور مظلوم کے دفاع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسے معاشرے میں نیک کردار ادا کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی انسانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔
4- تمرین اور مقابلے جیت کے جذبہ کو بیدار کرنے کا سبب
انسان کے اندر ہمیشہ فوقیت اور برتری کا جذبہ رہتا ہے اگر ایک صاف ستھرے ماحول میں باہمی کھیلوں کا انعقاد کیا جائے تو ہر ایک کو جیتنے کا موقع مل سکتا ہے اور مثبت راستوں سے اس جذبہ کو پورا کرنے کا موقع ملتا ہے اگر کسی معاشرے میں یہ مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو طرح طرح کی برائیاں جنم لے سکتی ہیں بسا اوقات فیملیز کے اندر بے ضابطگیاں اور اختلافات کی آگ شعلہ ور ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
5- بچوں کے لئے ورزش کی ضررت
بچوں کے لئے باقاعدہ ورزش اور جسمانی فعالیت کی ضرورت ہے تاکہ لہو گرم رہے، بچے فطرتا کھیل پسند ہیں اور یہ کام ان کے جسم کو سالم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ ایک دلسوز استاد کھیل میں بچوں کی رغبت دیکھ کر اس کے اندر چھپی قوتوں کا اندازہ لگا سکتا ہے اور ایک مستقل ٹائم ٹیبل بنا کر اسے ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے جیسا کہ نفسیاتی ڈاکٹروں کا کہنا ہے اگر کوئی بچہ بہت زیادہ شرارت کرے تو یہ اس کی غیر معمولی زہانت کی علامت ہے، اسی طرح اگر کوئی بچہ راہ چلتے ہوئے پتھروں کو ٹھوکر مارے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ ایک بہترین فٹبالر بن سکتاہے ، پس ورزش بچے کی صحت و سلامتی کے لئے ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی چھپی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لئے بھی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ بچوں میں ورزش کا ایک اور فائدہ یہ بھی کہ اس سے بچہ چست و چالاک رہتا ہے وقت پر سوتا اور جاگتا ہے سماج میں اس کے لئے ایک مقام بن جاتا ہے وہ ثقافتی، وسیع فکری، آزاد اندیشی اور نفسیاتی طور پر چست و چالاک شخصیت کو طور پر پہچانا جائے گا؛ اسی لئے کھیل اور کھلونوں کا انتخاب اہمیت کا حامل ہے کہ کون کونسی کھیل کھیلیے۔ کن کے ساتھ کھیلے کھلونے کیا ہونے چاہیں وغیرہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اسلام بھی بچوں کے کھیلنے کا مخالف نہیں ہے بلکہ توصیہ کیا جا رہا ہے کہ: بچوں کے پہلے سات سال کھیل کود، نشاط اور بادشاہت کا زمانہ ہے ۔ (93) اسی لیے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے ہاں بچہ ہے تو اس کوچاہیئے کہ خود بھی بچہ بنیں۔ (94) (یعنی ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلیں )
مادی ضروریات سے نمٹنے کے لئے معتدل راستہ
ایسا واضح راستہ جس پر چلنے کا حکم شرع مقدس نے دیا ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید کی ہے معتدل راستہ ہے:
وَ عَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَ مِنْهَا جَائِرٌ (95)
اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں۔
اس آیت میں مادی نعمتوں کے ذکر کے بعد روحانی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فطرت اور شریعت دونوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا سامان فراہم فرمایا۔ فطرت کے ذریعے خود انسان کے وجود، اس کی ساخت و بافت میں ہدایت ودیعت فرمائی:
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت دے دی، پھر ہدایت فرمائی۔ (96) ہم نے اسے راستہ بتایا پھر یا تو وہ شکرگزار ہو یا کافر۔ (97)
چنانچہ امتحان اور استحقاق کے لیے ضروری تھا کہ انسان خود مختار ہو۔ اگر جبری ہدایت منشائے خداوندی میں ہوتی تو سب کی ہدایت ہو جاتی۔ مگر اس جبری ہدایت کی قیمت کچھ نہ ہوتی۔ جیسے بے حس پتھر، جسے آپ جہاں چاہیں رکھ دیں یا ایک گدھا جسے جہاں چاہیں باندھیں۔ (98)
پس معتدل راستے سے مراد وہ راستہ ہے جو معاشرہ اور ذات میں تعادل اور برابری کا باعث بنے ۔
انسان فطرت اور اندرونی اور بیرونی طاقتوں اور رجحانات کے لحاظ سے بعض ایسی خصلتوں کا حامل ہے جو افراط یا تفریط یعنی معتدل راستے سے کم یا زیادہ ہےان کے درمیان انسان کے لئے ضروری ہے کہ معتدل راستے کو پہچان کر اس پر چلے بعض موارد میں اس معتدل راستے کی حد اور بارڈر کو بھی بیا ن کیا ہے جیسے:
وَ لاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَ لاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً (99)
اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔ یعنی افراط اور تفریط دونوں گھاٹے میں جانے وا لا راستہ ہے۔ اسی طرح نماز میں الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ لاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَ لاَ تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَيْنَ ذلِكَ سَبِيلاً (100)
اور آپ اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔
یعنی نمازنہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بہت پست آواز سے، بلکہ آوازمیں اعتدال رکھو۔ عبادت تک میں اعتدال شرط ہے۔
اسی طرح خدا پر امید رکھنے اور توکل میں بھی ایک طرف امید اور دوسری طرف خوف رکھنا ضروری ہے ، اس کی رحمت واسعہ پر امید اور ہولناک عذاب سے خوف، یعنی نہ اپنے کو بہت زیادہ امید وار بنائے کہ اس کی رحمت کے امید میں نیک کام عبادت اور پرستش کرنا ہی چھوڑ دیں اور نہ ہی خودکو اتنا مایوس کرے کہ سوچنے لگے کہ اب کوئی چیز اسے بچا نہیں سکتی ہے بلکہ اپنے عبادتوں پر مغرور نہ ہوں کہ کثرت عبادت انسان کو نجات دلا سکتی ہے۔ اور نہ ہی اپنے گناہوں پر اتنا مایوس ہوجائے کہ اب وہ خدا سے دور ہو چکا ہے بلکہ عبادتیں ضائع بھی ہو سکتی ہے او رگناہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے بخشے جا سکتے ہیں۔
یعنی اگر امید و خوف میں سے کسی ایک کا پلڑا بھاری ہو جائے تو انسان کے ذہن اور ضمیر پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور انسان کو زمین گیر کر دیتی ہے یا اسے طغیان اور سرکشی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (101)
اسی لئے جہاں بھی امید اور توکل سے متعلق بات ہوئی ہے وہاں خوف سے متعلق بھی بات ہوئی ہے:
أُولئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَ يَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَ يَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوراً (102)
جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے۔
مادی ضرورتوں سے نمٹےچ وقت راہ اعتدال سے غافل ہونا انسان کو گمراہ کر دیتا ہےاور اسے لالچ یا غربت میں سے کسی ایک میں مبتلا کر کے تباہ و برباد کرتا ہے۔تکاثر اور لالچ انسان کی اخلاقی اچھائیوں اور نیک خصلتوں کو برباد کر دیتے ہیں، اور اسے اسراف اور طغیان کا دلدادہ بنا دیتے ہیں۔
قرآن کریم نے خدا فراموشی کا سبب تکاثر کو قرار دیتا ہے:
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (103)
ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے، یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو۔
مال و دولت اور افرادی قوت میں کثرت سے ایک دوسرے پر فخر و مباہات نے تم کو اصل مقصد سے غافل کر دیا۔ کثرت مباہات کے سلسلے میں تم قبروں تک کے لوگوں کو شمار کرنے قبرستان پہنچ جاتے ہو۔ دوسری تشریح یہ بھی کی گئی ہے: یہاں تک کہ تم قبروں کے دہانے تک پہنچ جاتے ہو (104)
غربت مانع تکامل
غربت انسان کی شخصیت کا ستیا ناس کرتی ہے غربت کے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے کینہ، اور بغض جیسی لاعلاج بیماریاں پروان چڑھتی ہیں، بسا اوقات ناامید غریب شخص پورے معاشرے پر اپنا بوجھ ڈال دیتا ہے، یہاں پر اہل علم ، دانشوروں، اور صاحب حیثیت افراد کو اپنا کردار پیش کرنا چاہیے کہ وہ اجر پانے ، اور معاشرے کو غربت کے منفی اثرات سے پاک کرنے کیلئے غربت کے خاتمے پر خلوص دل کے ساتھ کام کریں؛ چنانچہ غریب لوگوں کیلئے ملازمتیں پیدا کریں، انہیں اپنی کمپنیوں، کارخانوں میں کام کا موقعہ دیں، انکی صلاحتیوں اور ہنرمندی میں مزید اضافہ کریں، اور انکے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کریں، اس کیلئے فرمانِ الہی سن لیں:
أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْراً وَ أَعْظَمَ أَجْراً (105)
اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں عظیم تر پاؤ گے۔
اسی لئے ہے کہ غربت و افلاس انسان کی صلاحیتوں کو بھی نابود کر دیتی ہے اور آہستہ آہستہ ایک با صلاحیت انسان کو ناکامی کے کنویں میں گرا دیتی ہے اور معاشرہ پر بھی اس انسان کی جانب سے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
غربت سے چھٹکارا
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی میانہ روی اختیار کرتا ہے میں اس کی ضمانت لیتاہوں کہ وہ کبھی فقیر نیںم ہوسکتا ۔اسی طرح امام صادق علیہ السلام فقیری سے بچنے کا علاج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي قُرَّةَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ وَ أَنَا حَاضِرٌ فَقَالَ مَا حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ فَقِيلَ تَرَكَ التِّجَارَةَ وَ قَلَّ شَيْئُهُ قَالَ وَ كَانَ مُتَّكِئاً فَاسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ قَالَ لَهُمْ لَا تَدَعُوا التِّجَارَةَ فَتَهُونُوا اتَّجِرُوا بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ (106)
فضیل ابن ابی قرہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے کسی آدمی کے بارے میں پوچھا گیا اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا ، امام علیہ السلام نے فرمایا "کس چیز نے اسے حج سے روک رکھا ہے؟" کسی نے جواب دیا کہ اس نے تجارت کو ترک کیا ہے تو اس کا مال کم ہو گیا ہے، امام علیہ السلام تکیہ کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھے تھے اب آپ علیہ السلام سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا : "" تجارت کو نہ چھوڑو کہ تم کمزور ہو جاؤ گے بلکہ تجارت کرو کہ تجارت تمیںے لوگوں سے بے نیاز کر دے گی " حتیٰ ذریعہٴ معاش کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے آپ ذریعہٴ معاش کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہی۔
اسباب فقر امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں
کوئی بھی فقیر اپنے معاش سے محروم نھیں ہوتا مگر یہ کہ ایک غنی اس کے مال میں تصرف کرلیتا ہے۔ (107)
جو شخص اپنے کام کی زحمت کو نیںو برداشت کرسکتا وہ فقیری کو تحمل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے۔ (108)
اوقات کو تنظیم نہ کرنا اور کسی وقت جو دل میں آئے وہ کام کرنا (109)
علی (ع) کی نگاہ میں غربت کے اثرات
حقارت ! لوگ فقیر کو فقر کی بناپر حقیر سمجھتے ہیں (110)
فقیر کو بتن چھوٹا سمجھا جاتا ہے اور اس کی بات ان سنی کردی جاتی ہے۔ (111)
فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ہے (112)
جہاں حضرت علی (ع) کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جاےد میں گزری وہیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ہے جس کی ایک وجہ خود ہماری سستی اور کام سے فرار ہوسکتی ہے جب کہ حضرت علی (ع) معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے گریز نیںہ کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت سنوارنے کو خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے۔ (113)
اب یہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا کام ہے کہ آئے اور بیٹھ کر اپنے معاشرے میں فقیری کی وجوہات تلاش کرے اور انیںا حل کرنے کی کوشش کرے اس لئے کہ جب تک یہ مشکل حل نیں ہوجاتی معاشرہ مزید فقر و ناداری کے دلدل میں پھنسا جائے گا۔ ماہرین اقتصادیات کے بقول فقر، فقر پیدا کرتا ہے (114) لذ ا اس کا ایک حل ہونا چاہیئے جب کہ فقیری ضعف ایمان کا باعث بھی ہے (115) اس لئے کہ اگر اس کا حل خود قوم کے افراد نیںک کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا نہ کرے علی (ع) کی آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ جائے جس میں انہوں نے فقراء کی دسترسی اور ان کی دیکھ بھال کے لئے فرمایا:
خدا را خدا را نچلے طبقے کا خیال رکھنا کہ جن کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے ۔ (116)
حمایت، ہمدردی اور حوصلہ
انسان کی مادی ضرورتوں سے نمٹنے والے معتدل راستے کے اصولوں میں سےایک، ایک دوسرے کو حوصلہ دینا ہے ؛ اس لئے کہ اگر انسان کے لئے اس کی بنیادی ضرورتیں میسر ہوں اور دنیا طلب لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے ، تو اس کے دل میں کسی کے لئے کینہ و کدورت نہیں ہو گابلکہ ایک دوسرے کی نسبت محبت اور الفت کا احساس کرے گا اور اس طرح اختلاف، کینہ، حسد اور کدورتیں قلع قمع ہو جائیں گے۔ تب انسان کمال کی طرف جانے کا سوچ سکتا ہے اور اسی لئے کہ معتدل راستے کی معرفت اور اس پر چلنا ضروری ہے ۔
اسی لئے کسی کا کہنا ہے :
انسان کسی دوسرے کے لےر کچھ نہیں کرسکتا، سوائے اس کا حوصلہ بڑھانے کے۔ میں نے جتنے لوگوں کو ٹوٹتے دیکھا ، فقط اس لئے کہ رشتوں اور دوستوں کے ہجوم میں کسی نے ان کو یہ نہیں کہا کہ حوصلہ کر یار، اللہ کرم کرے گا۔ یقین کریں بہت طاقت ہے اس ایک جملے میں۔
جب تک ہم کسی کے ہمدرد نہیں بنتے تب تک درد ہم سے اور اور ہم درد سے جدا نہیں ہوسکتے۔
پس اگر راہ اعتدال سے منحرف ہوجائے تو معاشرے سے امن اور سلامتی چلی جائے گی، الفت بھائی چارگی اور محبت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، انسان ایک دوسرے کے ساتھ حیوانوں جیسی رفتار کرے گا۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَإِنَّمَا أَهْلُهَا كِلَابٌ عَاوِيَةٌ وَ سِبَاعٌ ضَارِيَةٌ يَهِرُّ بَعْضُهَا بَعْضًا وَ يَأْكُلُ عَزِيزُهَا ذَلِيلَهَا وَ يَقْهَرُ كَبِيرُهَا صَغِيرَهَا نَعَمٌ مُعَقَّلَةٌ وَ أُخْرَى مُهْمَلَةٌ قَدْ أَضَلَّتْ عُقُولَهَا وَ رَكِبَتْ مَجْهُولَهَا سُرُوحُ عَاهَةٍ بِوَادٍ وَعْثٍ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ يُقِيمُهَا وَ لَا مُسِيمٌ يُسِيمُهَا سَلَكَتْ بِهِمُ الدُّنْيَا طَرِيقَ الْعَمَىوَ أَخَذَتْ بِأَبْصَارِهِمْ عَنْ مَنَارِ الْهُدَى فَتَاهُوا فِي حَيْرَتِهَا وَ غَرِقُوا فِي نِعْمَتِهَا وَ اتَّخَذُوهَا رَبّاً فَلَعِبَتْ بِهِمْ وَ لَعِبُوا بِهَا وَ نَسُوا مَا وَرَاءَهَا رُوَيْداً يُسْفِرُ الظَّلَامُ كَأَنْ قَدْ وَرَدَتِ الْأَظْعَانُ يُوشِكُ مَنْ أَسْرَعَ أَنْ يَلْحَقَ (117)
دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے اورپھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بھونکتا ہے اور طاقت والا کمزور کو کھا جاتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے ۔یہ سب جانور ہیں جن میں بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض آوارہ جنہوں نے اپنی عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستہ پر لگا سکے اور نہ کوئی چرانے والا ہے جو انہیں چرا سکے۔دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان کی بصارت کو منارہ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کرلیا ہے اوروہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں اورنعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنالیا ہے اوروہ ان سے کھیل رہی ہے اوروہ اس سے کھیل رہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھلا دیا ہے ۔ ٹھہرو! اندھیرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہوگا جیسے قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔
اسراف اور اس کے اثرات
انسانی فطرت پر اصولا جس چیز کی حکمرانی ہونی چاہیئے وہ میانہ روی اور اعتدال ہے اسراف کرنے والا انسان غیر معتدل انسان ہے ۔ یہ انسان ان دوحالتوں میں سے کسی ایک سے خالی نہیں ہے یا تو وہ ذہنی بیماری کا شکار ہے یا مادی مشکلات کی وجہ سے راہ اعتدال سے تجاوز کر گیا ہے ۔اور دونوں حالتیں انسان کو تباہی کے کنویں میں گرا دیتی ہیں۔ خدا بھی فرماتا ہے کہ اسراف کرنے والوں کا انجام تباہی اور بربادی ہے :
وَ أَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ (118)
اور تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔
وَ لَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولاً كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (119)
اور بتحقیق اس سے پہلے یوسف واضح دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے مگر تمہیں اس چیز میں شک ہی رہا جو وہ تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم کہنے لگے: ان کے بعد اللہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کرے گا اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو تجاوز کرنے والے، شک کرنے والے ہوتے ہیں۔
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (120)
اللہ یقینا تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔
قرآن کریم کے مطابق اسراف کا لازمہ فساد اور فتنہ ہے :
وَ لاَ تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَ لاَ يُصْلِحُونَ (121)
اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اسراف کے بعد ہلاکت بھی یقینی ہے ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
من لم یحسن الاقتصاد، یهلکه الاسراف (122)
جو اچھی طرح سے راہ اعتدال پر نہ چلے اسراف اسے ہلاک کرے گا۔پس خرچ کر نے میں راہ اعتدال سے غفلت کا نتیجہ نابودی ہے ۔ نفسیاتی طور پر بھی اسراف گر خرچ کے میدان میں ناکام ہوکر ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور دنیا کی تمنائیں اس کے سرمایے کو راکھ کردیتی ہیں، اسراف گر کبھی بھی اقدار انسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہے اور اسی غفلت کے نتیجے میں وہ اپنے خالق کی نگاہ سے گر جاتا ہے اور اس کی محبت و الفت کے سایے سے محروم ہو جاتا ہے :
وَ لاَ تُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (123)
اور فضول خرچی نہ کرو، بتحقیق اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
غربت کی حقیقت
میانہ روی اور معتدل راستے سے ہٹنے کا نتیجہ غربت و افلاس کے کنویں میں گرنا ہے ۔ غربت اور فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ عام طور پر اس سے تنگ دستی' مفلسی اور ناداری مراد لی جاتی ہے ۔ غربت یہ ہے کہ انسان زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہویا ان سہولتوں سے محروم ہو جن سے انسان ترقی اور تکامل کی منزلوں کو طے کر سکتا ہے ۔
احادیث میں غربت اور فقر کی جو مذمت کی ہے وہ اسی تعریف سے مربوط ہے ، امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
الْفَقْرُ الْمَوْتُ الْأَكْبَرُ (124)
فقر اور غربت سب سے بڑی موت ہے ۔
وَ الْقَبْرَ خَيْرٌ مِنَ الْفَقْرِ (125)
قبر غربت سے بہتر ہے ۔
پس فقر ایک ایسا مرض ہے جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نیںت کیا گیا تو اس کے نتائج بتھ ہی زیادہ سنگین ہونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرہ کی اکثریت غریب ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نیںی کرسکتا۔
غربت تمام آفتوں اور اخلاقی برائیوں کی ماں ہے اور امیر بیان علیہ السلام کے فرمان کے مطابق سب سے کڑوا، حقیقی بد بختی اور خطاء و عصیان کے زیادہ ہونے کا عامل ہے ۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
الفقر مع الدَّین، الشقاء الاکبر. (126)
غربت اور افلاس قرض کے ساتھ سب سے بڑی شقاوت اور بد بختی ہے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
من قول لقمان لابنه يا بنىّ ذقت المرارات كلّها فلم أذق شيئاً أمرّ من الفقر (127)
لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں میں سے ہے اے میرا بیٹا! میں نے تمام تلخیوں کا مز ہ چکھا لیکن غربت جیسی کوئی تلخی نہیں ہے ۔
امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے حسن علیہ السلام سے فرماتے ہیں:
لَا تَلُمْ إِنْسَاناً يَطْلُبُ قُوتَهُ فَمَنْ عَدِمَ قُوتَهُ كَثُرَ خَطَايَاهُ (128)
اس انسان کی ملامت اور سرزنش نہ کرے جو اپنی رزق و روزی کو تلاش کرتا ہے چونکہ جس کے پاس اپنی( اور اپنی گھر والے کے لئے) رزق و روزی نہیں ہے اس کی خطائیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔
غربت سے کفر تک
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غربت کا کفر سے بھی گہرا رابطہ ہے نادار انسان کا اعتقاد بھی کمزور ہوتا ہے اسی طرح انسان کی عبادتوں اور معنوی امور بھی متاثر ہو جاتے ہیں ، اس کا نتیجہ اقدار کی موت ہے ، یہ فقر کا وہ پہلوہے جس کے منفی اثرات انسانی معاشرہ اور سماج کے ہر فرد پر مرتب ہوتے ہیں۔امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ:
كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْراً (129)
قریب ہے کہ فقر کفر میں تبدیل ہو جائے۔
غربت سے وجود میں آنے والے امراض
بہت سے نفسیاتی امراض غریبوں میں پائے جاتے ہیں ، جسم کا کمزور ہونا،توہین اور تحقیر کا شکار ہونا،گھریلو زندگی میں ناکام ہونا، اخلاقی اور جنسی برائیوں کا جنم لینا، معاشرے میں سر نیچا ہونا، اداسی کا احساس کرنا، صلاحیتوں کا ضائع ہونا، سیاسی میدانوں سے انہیں دور رکھنا، سیاسی میدانوں کو مالداروں کے کھلا چھوڑنےجیسی بیماریاں غربت اور افلاس سے جنم لیتی ہیں۔
اس کے برعکس اسلام کا ذاتی اور سماجی برائیوں سے مقابلے کی تاکید کرنا اس بات کا گواہ ہے کہ اسلام کس طرح اس مسئلے کی طرف توجہ دیتا ہے ۔اسلام کا ہمیشہ سے سماجی انصاف اور اجتماعی عدالت پر تاکید ہے کہ معاشرے سے اقربا پروری تعصب اور اسراف جیسی بیماریاں ختم ہوں اور ایک معتدل نظام حاکم ہو جس میں مال کو اس کی صحیح جگہ خرچ کیا جائے اور اپنے لئے زیادہ مانگنے والوں کے ساتھ سخت انداز میں پیش آ سکے۔
مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پروگرام کی ضرورت
اقتصاد اور معیشت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم زندگی میں اندازہ اور تخمینہ ہے کہ جس کے مطابق انسان پروگرام بناتا ہے ، اقتصادی تربیت ، نظم و ضبط کے ساتھ خرچ کرنے ، مادی اصول و قوانین کا لحاظ کرنے اور اقتصادی نظم و ضبط ان چیزوں میں سے ہیں جن پر اسلام میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے ۔
ان پروگراموں اور تربیتوں کی تاثیر اس قدر زیادہ ہے کہ انسان ان پر عمل پیرا ہوکر اپنی معاشی حالت اور روز مرہ کی ضرورتوں کے پورا کرنے والے امور کو مضبوط کر سکتا ہے ۔
تخمینہ لگانا
اب روز مرہ کے امور ،در آمدات اور بر آمدات میں صحیح اورمناسب اندازہ اور تخمینہ لگانا انسان کو غربت ، افلاس اور فقر جیسی بیماریوں سے نجات دلا سکتا ہے ۔ ان کاموں کے انجام دینے سے انسان ذلت کے ساتھ کسی کے آگے جھک جانے سے بچ سکتا ہے ۔ اسی طرح اسے اپنے برآمدات کا اگر صحیح اندازہ ہوگا تو برآمدات میں اسی حساب سے وہ خرچہ کرے گا، بہت سے لوگوں کو اپنی درآمد کا صحیح اندازہ نہیں ہے تو یہ لوگ بر آمد میں غلطی کر جاتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو اپنے ماہانہ انکم کا بھی صحیح پتہ نہیں ہے لیکن اندھادھند خرچہ کرتے ہیں اس وقت غربت اور افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں ؛ جیسے کسی کا انکم اگر 15 ہزار روپیہ ہو اور وہ 25 ہزار روپیہ والے کے برابر خرچہ کرے تو بہت جلد فقیر ہو جائے گا۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ
ہمارے معاشرے میں ہم اکثر مشاہدہ کرتے ہیں بعض لوگوں کے پاس پیسہ کم ہے لیکن بعض اوقات وہ مالداروں کے دوشا دوش یعنی ان کے ساتھ برابر چلنے کی خاطر کسی نہ کسی طریقے سے خود کو ان کے برابر لانے کی کوشش کرتے ہیں مثلا کسی کے پاس شادی کے لئے پانچ لاکھ روپیہ نہیں ہے لیکن یہ اس مالدار سے خود کو برابر لانے کے لئے کہ جس نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی میں پانچ لاکھ خرچ کیا تھا یہ بھی کسی نہ کسی طریقے سےپانچ لاکھ خرچ کرتا ہے اس سے وہ مختصر مدت بعد فقیر ہو جاتا ہے ؛ اسی لئے کسی نے کیا خوب کہا:
"کہ ایک فضول خرچ انسان فالتو چیزیں خریدتے خریدتے اس نوبت پر پہنچ جاتاہے کہ اسے اپنی ضروری اشیاء آخر میں بیچنی پڑ جاتی ہیں سو دھیان سے خرچ کرو اور بے جا خرچ نہ کرو یعنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاو جتنی حثیت اور اوقات ہے اتنا خرچ کرو وڈے ابے نہ بنو نہ ہی تم حاتم طائی بننے کی کوشش کرو جیب میں جتنا مال ہے اسی کو دیکھ بھال کر استعمال میں لاو (130)
اسی لئے ہے کہ غیر ضروری چیزوں کا خریدار بالآخر ضروری چیزوں کی فروخت پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاو والا ضرب المثل صرف ذاتی اور فردی زندگی میں نہیں ہے بلکہ سماج سےلے کر گورنمنٹ تک کو اس کا خیا رکھنا ضروری ہے ۔
اس قانون کی پاسداری اور اس کا لحاظ کرنے سے نہ صرف انسان کی معیشت مضبوط ہو سکتی ہے بلکہ وہ اقتصادی میدان میں ترقیاں بھی سمیٹ لے گا۔ خدا وند عالم قرآن کریم میں انہی لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ (131)
ان میں(یہودیوں اور نصاریٰ) سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے ۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَ مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ وَ التَّقْدِيرُ نِصْفُ الْعَيْشِ (132)
جس نے میانہ روی کی وہ فقیر نہ ہوگا اور اندازہ لگانا ادھی عیشی ہے یا آدھی معیشت ہے ۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
وَ التَّقْدِيرُ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ (133)
درست اندازہ اور صحیح تخمینہ لگانا اقتصاد کا آدھا ہے ۔
لَا يَذُوقُ الْمَرْءُ مِنْ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى يَكُونَ فِيهِ ثَلَاثُ خِصَالٍ: ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَ حُسْنُ التَّقْدِيرِ فِي الْمَعَاشِ (134)
آدمی اس وقت تک حقیقت ایمان کی لذت کو نہیں چکھے گا جب تک اس میں تین خصلتیں نہ ہوں ۔۔۔۔۔ معیشت میں صحیح اندازہ لگانا۔
یعنی معیشت میں صحیح اندازہ لگانا حقیقت ایمان کو درک کرنے کے لئے ضروری ہے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : معیشت کا ستون صحیح تخمینہ لگانا ہے ، اور صحیح تخمینہ اچھی تدبیر سے پتہ چلتا ہے ۔
اسی طرح امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
الْكَمَالُ كُلُّ الْكَمَالِ التَّفَقُّهُ فِي الدِّينِ وَ الصَّبْرُ عَلَى النَّائِبَةِ وَ التَّقْدِيرُ فِي الْمَعِيشَةِ (135)
کمال اور کل کمال یہ ہے انسان دین میں تفقہ کریں، مصائب میں صبر اور معیشت میں صحیح اندازہ لگائے۔
نتیجہ
1- ضروریات زندگی کا پورا کرنا بھی ایک واجب حکم ہے ۔
2- غربت ایک مذموم صفت ہے اس سے بچنے کے لئے اسلام نے میانہ روی، راہ اعتدال اور کسب و کار کا حکم دیا۔
3- صحیح اندازہ لگانا انسان کو بہت خطرناک مواقع سے بچاتاہے ۔
------------------------
1 : سورہ بقرہ : 97 اور سورہ شعراء : 194۔
2: سورہ یونس : 57۔
3: سورہ انعام : 59۔
4: سورہ حج : 65۔
5: سورہ ابراہیم : 32۔
6: سورہ نحل : 14
7: سورہ ابراہیم : 7۔
8: سایٹ کا ایڈریس : http://alhassanain.org/persian/?com=content&id=1862
9: انبیاء : 30 ۔
10: انبیا, : 8۔
11: نحل : 14۔
12: طور : 22۔
13: بروجردى، آقا حسين طباطبايى، جامع أحاديث الشيعة؛ ج22، ص: 226۔
14: مفضل بن عمر، توحيد المفضل، ص87۔
15: برقى، ابو جعفر، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن (للبرقي)، ج2، ص: 464۔
16: راوندى، قطب الدين، سعيد بن عبداللّٰه، دعوات الراوندي - سلوة الحزين، ص: 117
17: وُجِدَ عَلَى ظَهْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ يَوْمَ الطَّفِّ أَثَرٌ فَسَأَلُوا زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ هَذَا مِمَّا كَانَ يَنْقُلُ الْجِرَابَ عَلَى ظَهْرِهِ إِلَى مَنَازِلِ الْأَرَامِلِ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ. (مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج 44 ؛ ص190)۔
18: وسایل الشیعه، ج6، ص278 فاضل مولف نے یہی حوالہ دیا ہے۔
19: بحارالانوار، ج49، ص97۔
20: نهج البلاغة کلمات قصار 319۔
21: ایضا۔
22: كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي ج 5 ؛ ص73۔
23: شعيري، محمد بن محمد، جامع الأخبارص 110۔
24: ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله ص370۔
25: بقرہ : 172۔
26: مائدہ : 88۔
27:مومنون : 51۔
28: کافی، ج6، ص278۔
29:بحار الانوار، ج72، ص47۔
30:طبرسى، حسن بن فضل، مكارم الأخلاق ص 40-45۔
31: مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج 79۔
32: فيض كاشانى، محمد محسن بن شاه مرتضى، الوافي، ج20، ص 691-784۔
33: شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة، ج3۔
34: نورى، حسين بن محمد تقى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج1، ص 375- 442۔
35: :سورۂ اعراف : 26۔
36: :سورۂ نحل : 81۔
37: :سورۂ نحل : 80۔
38: :سورۂ اعراف : 10۔
39::سورۂ اعراف : 32۔
40: الكافي؛ ج 6 ؛ ص443۔
41:الكافي ج 13 ؛ ص11۔
42: مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب) ؛ ج 2 ؛ ص99۔
43::سورۂ رحمان : 10۔
44: :سورۂ طہ : 53-54۔
45: :سورۂ جمعہ : 10۔
46: :سورۂ بقرہ : 26۔
47: :سورۂ نحل : 14-15۔
48: وسایل الشیعه، ج3، ص558۔
49: مکارم الاخلاق، ص256۔
50: کافی، ج6، ص496۔مترجم: (البتہ دون دن میں ایک بار نہانا اس زمانے کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک طرف زمین کے اندر سے نکاس آب کا انتظام نہیں تھا دوسری طرف سردی اور گرمی میں معقول نظام نہیں تھا وگرنہ ہمارے زمانے میں یہ کام مشکل نہیں ہے)
51:ایضا، ص439۔
52: مكارم الأخلاق؛ ص79۔
53: اربلى، على بن عيسى، كشف الغمة في معرفة الأئمة ج 2 ؛ ص157۔
54: :سورۂ اعراف : 32۔
55: الكافي، ج 5 ؛ ص567۔
56: کافی، ج5، ص73۔
57: :سورۂ نوح : 12۔
58::سورۂ جمعہ:10۔
59::سورۂ نساء:5۔
60::سورۂ فجر:20۔
61::سورۂ نور:33۔
62:صحیفہ سجادیہ دعائےششم۔
63:الأصول الستةعشر(ط-دارالحديث)؛؛ص263۔
64:ابن بابويه،محمدبن على،الخصال،.ج 1،ص:184۔
65:فيض كاشانى،محمدمحسن بن شاه مرتضى،الوافي،الوافي؛ج 17؛ص93۔
66::سورۂ نساء:126۔
67:سورہ ٔبقرہ:168۔
68:سورہ ٔنحل:114۔
69::سورۂ ابراہیم:7۔
70:سورہ ٔانعام:141۔
71::سورۂ انفال:۔69
72::سورۂ طہ:81۔
73::سورۂ بقرہ:254۔
74:مکارم الاخلاق،ص98۔
75:الکافی ج5،ص512۔
76:ایضاص514۔
77:وسائل الشیعہ،ج9ص258،باب24۔
78:ابن شعبه حرانى،حسن بن على،تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه وآله،النص؛ص199۔
79::سورۂ نساء:5۔
80:ابن بابويه،محمدبن على من لايحضره الفقيه؛ج 3؛ص566۔ح4934۔
81:سیدامداحسن۔ترجمہ من لایحضره الفقیه۔ج3۔ص358۔حدیث نمبر4934۔
82:برقى،احمدبن محمدبن خالد،المحاسن ج 1؛ص197۔
83::سورۂ بقرہ:247۔
84::سورۂ قصص:14۔
85::سورۂ قصص:26۔
86::سورۂ اعراف:69۔
87:طوسى،محمدبنالحسن،مصباح المتهجّدوسلاح المتعبّد،ج 2؛ص595۔
88:حميرى،عبدالله بن جعفر،قرب الإسنادص:88۔
89: اس واقعے کو بہت زیادہ ڈھونڈنے کے باوجود معتبر حدیث کی کتابوں میں نہیں ملا ۔ا گر چہ فاضل مولف نے اسے بحار الانوار کا حوالہ دیا ہے صرف بحار الانوار لکھا ہے نہ جلد اور نہ صفحہ اس کا مطلب ہے کہ ان کو بھی نہیں ملا ہےہاں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے کشتی لڑنے کا واقعہ موجود ہے۔
90:ابن حيون،نعمان بن محمد،شرح الأخبارفي فضائل الأئمةالأطهارعليهم السلام ج 3؛ص79۔
91:ورامبن أبي فراس،مسعودبن عيسى،تنبيه الخواطرونزهةالنواظرالمعروف بمجموعةورّام ج 1؛ص2۔
92: فاضل مولف نے اسے کتاب بحار الانوار سے نقل کیا ہے اوررسول خدا ص کی طرف نسبت دی ہے، جبکہ صاحب بحار نے اسے مجموعہ ورام سے نقل کیا ہے حقیر نے بھی مجموعہ ورام سے اسے نقل کیا ورام سے پہلے والے کتابوں میں اسی عنوان سے نہیں کئی اور عنوانات سے ذکر ہے اما جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ مجموعہ ورام میں اس قول کو سلمان فارسی کی طرف نسبت دی ہے کہ سلمان فارسی نے ابودرداء سے فرمایا ہے اور بعد میں رسول اکرم ص نے سلمان کی بات کی تائید کی ہے۔
93:مستدرکوسایل،ج2،ص100۔یہاںپربھی فاضل مولف نےمستدرک کاحوالہ دیاہےلیکن مذکورہ ایڈریس پرنہیں ملا۔
94:وسایلالشیعه،ج15،ص203۔
95::سورۂ نحل:9۔
96:طٰہٰ:50۔
97:دہر:3۔
98: نجفی، محسن علی، بلاغ القرآن، سورۂ نحل کی آیت نمبر 9 کے ذیل میں۔
99::سورۂ اسراء:29۔
100::سورۂ اسراء:110۔
101:طبرسی،مجمعالبیان،ج5،ص199۔
102::سورۂ اسراء:57۔
103::سورۂ تکاثر:1،2۔
104:بلاغ القرآن،:سورة تکاثر۔
105::سورۂ مزمل:20۔
106:الكافي ج5،ص:149۔
107: مامنع فقیر الاّ متّع به غنی علامة محمد تقی جعفری شرح نهج البلاغة، ج10، ص 26 ۔
108:الحیات،ج4،ص319۔
109:الحیات،ج4،ص33۔
110:الحیات،ج4،ص32۔
111:الحیات،ج4،ص284۔
112:الحیات،ج4،ص319۔
113:علامہ تقی جعفری،شرح نہج البلاغہ،ج9،ص25۔
114:نگاھی بہ فقرزدائیازدیدگاہ اسلام ص34۔
115:الحیات،ج4،ص309۔
116:نھج البلاغہ مکتوب53۔
117:نہج البلاغہ،صفین سےواپسی پرامام علی علیہ السلام کاامام حسن علیہ السلام کےنام خط کاایک حصہ ذکرکیاہے۔
118::سورۂ انبیا:9۔
119::سورۂ غافر:34۔
120::سورۂ غافر:28۔
121::سورۂ شعراء:151–152۔
122:غررالحکم،ص274۔
123::سورۂ انعام:141۔
124:نہج البلاغہ،حکمت154۔
125:كلينى،ابوجعفر،محمدبن يعقوب،الكافي(ط-الإسلامية)،ج8،ص:21۔
126:غررالحکم،ص28.۔
127:بروجردى،آقاحسين طباطبايى،جامع أحاديث الشيعةج22،ص:238۔
128:ج13،ص:14نورى،محدث،ميرزاحسين،مستدركالوسائلومستنبطالمسائل۔
129:الكافي ج 2؛ص307۔
130:آئی ٹی قلم ڈاٹ کام پرموجودہےایڈردسwww.t.itqalam.com۔
131:سورہ ٔمائدہ:66۔
132:حلّى،رضي ا لدين،على بن يوسف بن مطهر،العددالقويةلدفعالمخاوفليومية،ص:150۔
133:طوسى،ابوجعفر،محمدبن حن،الأمالي ص614۔
134:حميرى،عبدالله بن جعفر،قرب الإسنادص95۔
135:مغربى،ابوحنيفه،نعمان بن محمدتميمى،دعائم الإسلام ج2ص255۔