اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

نماز میں تجوید کی رعایت کرنا کس قدر واجب هے؟

میں نماز کا عاشق هوں لیکن یه نهیں جانتا هوں که اسے کسی طرح٬ پڑھوں٬ میں رساله عملیه اور استفتاآت میں مندرجه ذیل مطالب پڑھ کر پریشان هوا هوں میری مدد کیجئے٬ ضمناً میں حضرت آیت الله صانعی کی تقلید کرتا هوں ـ
1ـ استفتاآت کے حصه میں ایک شخص نے سوال کیا تھا (سوال نمبر 120) حروف کے تلفظ کے طریقه اور مخارج کے بارے میں که کیا نماز میں حروف کو اپنے حقیقی مخرج سے ادا کرنا واجب هے؟
ج ـ حمد و سوره اور قرآن مجید کو مسلمانوں کے طریقے سے پڑھنا جائز هے ـ
ایک اور شخص نے حرف "ضاد" کے تلفظ کے طریقه کے بارے میں سوال کیا تھا (سوال نمبر 789) که کیا "المغضوب"٬ "الضالین" جیسے الفاظ میں "ض" کے لئے زبان کو نچلے دانتوں کے کناروں کی طرف لے جانا٬ جائز هے؟
ج: انشاء الله صحیح هے ـ
کیا "ضاد" کے تلفظ کے لئے زبان کو اوپر والے آخری دانتوں کی طرف کھینچنا نهیں چاهئے؟
رساله عملیه (مسئله 975) میں آیا هے که: اگر انسان سوره حمد یا سوره کے الفاظ میں سے ایک کو نهیں جانتا هو٬ یا عمداً اسے نه پڑھے یا کسی حرف کی جگه پر کسی دوسرے حرف کو پڑھے٬ مثلاً "ض" کی جگه پر "ظ" کهے یا جهاں پر زیرو زبر کے بغیر پڑھنا چاهئے وهاں پر زیر و زبر سے پڑھے یا تشدید کو نه کهے٬ تو اس کی نماز باطل هے ـ
ایک اور مسئله (مسئله نمبر 977) میں آیا هے که اگر انسان کسی لفظ کی زیر و زبر (اعراب) کو نهیں جانتا هو٬ اسے سیکھنا چاهئے٬ لیکن اگر کسی لفظ کو آخر پر وقف کرنا جائز هے٬ همیشه وقف کرے تو اس کی زیر و زبر کو سیکھنا ضروری نهیں هے اور اسی طرح نهیں جانتا هو که کوئی لفظ "س" یا "ص" سے شروع هوتا هو اور اسے سیکھنا چاهئے٬ اور اگر دو صورتوں یا اس سے زیاده صورتوں میں پڑھے٬ مثال کے طور پر "اھدنا الصراط المستقیم" میں "مستقیم" کو ایک بار "سین" سے اور ایک بار "صاد" سے پڑھے٬ تو اس کی نماز باطل هے٬ مگر یه که دونوں صورتوں میں قرائت صحیح هو اور "حقیقت تک پهنچنے کی نیت سے پڑھے ـ
اگر مخرجوں کی رعایت کرنا ضروری نهیں هے تو صحیح پڑھنے کا مراد کیا هے؟ اور "ص" اور "س" کے درمیان کیسے فرق کیا جائے گا؟
مهربانی کرکے مکمل طور پر وضاحت کیجئے که نماز میں حمد اور سوره میں قرائت کے سلسله میں کس قدر قواعد کی رعایت کی جانی چاهئے٬ کیونکه مجھے حقیقت میں یه مطلب سمجھـ میں نهیں آرها هے که جس طرح مسلمان پڑھتے هیں وهی صحیح هے کے کیا معنی هیں٬ کیونکه میرے آس پاس میں رهنے والے تمام مسلمان مخرجوں کی رعایت نهیں کرتے هیں اور کچھـ هی٬ لوگ صحیح پڑھتے هیں اور یه که حضرت امام نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا هے: س: چونکه حرف "ص" کے تلفظ کے لئے تجوید میں چند اقوال هیں٬ آپ کس قول پر عمل کرتے هیں؟ ایک قول کے مطابق: زبان کی نوک ڈاڑھ والے دانتوں سے لگنی چاهئے٬ اور ایک قول کے مطابق زبان کی جڑ ڈاڑھ والے دانتوں سے لگنی چاهئے؟
ج: حروف کے مخرجوں کا علمائے تجوید کے قول کے مطابق جاننا واجب نهیں هے٬ بلکه هر حرف کا تلفظ اس طرح هونا چاهئے که جو عرف کے مطابق هو ـ کیا حضرت آیت الله صانعی کا نظریه بھی یهی هے ؟
مهربانی کرکے وضاحت فرمایئے که صحیح پڑھنے کا مراد کیا هے اور مخارج کی کس حد تک رعایت کی جانی چاهئے؟
کیا تمام مواقع کا تلفظ من جمله نماز میں حمد و سوره اور قرآن مجید کی تلاوت اور عربی دعائیں٬ تعقیبات اور نماز کے اذکار اسی طرح پڑھے جا سکتے هیں٬ جیسا که هم گفتگو کرتے هیں اور صرف علائم کی رعایت کرنی چاهئے؟
مهربانی کرکے میری راهنمائی فرمایئے٬ حقیقت میں٬ میں نهیں جانتاهوں که مجھے کس طرح نماز پڑھنی چاهئے اور میں اب قرآن نهیں پڑھتا هوں٬ کیونکه میں ڈرتا هوں که غلط پڑھوں گا اور اسی طرح میں نے مفاتیح میں درج دعاؤں اور نمار کی تعقیبات پڑھنا بھی چھوڑ دیا هے٬ کیونکه میں نهیں جانتا هوں که انھیں کسی طرح پڑھنا چاهئے ـ

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment