اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حدیث ثقلین کی تحقیق(اول)

حدیث ثقلین کی تحقیق(اول)

یقیناحدیث ثقلین (جو کہ فریقین کے درمیان مورد ارفاق ھے) نے واضح بیان کے ساتھ یہ بات روشن کردیا ھے کہ نبی گرامی نے اپنی رحلت کے بعد امت اسلامی کو بے سر پرست نھیں چھوڑا اور اسلام و مسلمین کو اپنے حال پر نھیں چھوڑا ھے بلکہ قرآن وعترت کے مقام ومنزلت کو بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ پر ان دونوں سے تمسک کو واجب قرار دیا ھے۔ اور قرآن و عترت سے تمسک رکھنے والوں کو انحراف و گمراھی سے محفوظ رھنے کی ضمانت بھی لی ھے۔ ([1])
اور اس بات پر تاکید فرمائی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کو ثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس بیان کے ذریعے قرآن کی عترت کے ساتھ اور عترت کی قرآن کے ساتھ ھمراھی کو واضح اور روشن کردیا ھے۔ ([2])
دوسری بات یہ کہ (صراحت کے ساتھ اپنے بعد) امت کی سیاسی اور علمی مر جعیت کو معین فرما دیا ھے۔
اب تک جو کچھ بیان کیا جا چکا ھے اس سے ہٹ کر ھم کو اس بات کی طرح توجہ رھے کہ حدیث ثقلین کی افادیت کسی زمانے سے مخصوص نھیں ھے۔ بلکہ ان دونوں (قرآن و عترت) سے تمسک تمام افراد پر ھر وقت ھر مقام پر ھمیشہھمیشہ واجب ھے۔
ھماری اب تک کی گفتگو اور آئیدہ بحث سے جو غقریب آپ ملا حظہ فرمائیں گے یہ بات روشن ہوجائے گی کہ اس حدیث (ثقلین ) میں غور و فکر اور بحث ان اھم مسائل میں سے ھے جو ھماری اور دوسرے برادران اسلامی کے لئے فائدہ مند ھیں اور اس سے بھت سارے باطل نظریات اور خیالی باتیں (جوکہ اخلاف وتقرقہ کا باعث ہوتی ھیں ) ختم ہو جائے گی۔

سند حدیث ثقلین

حقیقت امریہ ھے کہ حدیث ثقلین تمام مسلمانوں کے نزدیک مورد اتفاق ھے۔ علماء اسلام اور مفکرین نے جومع، سنن، تفاسیر اور تاریخی کتابوں میں اس کو بھت سے طریقوں، معتبراور صحیح سندوں کے ساتھ ذکر کیا ھے۔
کتاب غاتیہ المرام میں انتالس اھل سنت سے اور بیاسی حدیث علماء شیعہ کے حوالے سے درج ھیں۔ ([3])
علامہ سید حامد حسین ھندی (صاحب عبقات ) نے مذھب اربعہ کے علماء میں سے ایک سو نوں ایسے افراد کا تزکرہ کیا ھے جو دوسری صدی ھجری سے لیکر تیرہویں صدی ھجری کے آخر تک کے علماء ھیں۔ ([4])
سید محقق عبدالعزیز طبا طبائی نے دوسری صدی ھجری سے لیکر چودھویں صدی ھجری تک کے مزید ایک سو اکیس علماء کا ذکر کیا ھے۔ ([5]) اس طرح علماء اھل سنت کی تعداد جنھوں نے حدیث ثقلین کو نقل کیا ھے تین سو گیارہ (۳۱۱) ہو جاتی ھے۔ ([6])
بھر کیف موردا عتماد اور مشہور و معروف کتابوں نے اس حدیث کو نقل کیا ھے ان اھم کتابوں میں سے بطور نمونہ ان کتابوں کو پیش کیا جاسکتا ھے صحیح مسلم۔ سنن ترمذی۔ سنن الدارمی۔ مسند احمد بن حنبل۔ خصائص نسائی۔ مستدرک الحاکم۔ اسد الغابہ۔ العقد الفرید۔ تذکرة الخواص۔ ذخائر العقبیٰ۔ تفسیر ثعبلی وغیرہ۔۔۔ ([7])
یہ وہ سنی کتب ھیں کہ جن کو حدیث ثقلین کی سند کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ھے جبکہ شیعہ کتب اس کے علاوہ ھیں۔ ([8]) مرد و عورت اصحاب رسول کی ایک کثیر تعداد نے حدیث ثقلین کی روایت کی ھے۔
ابن حجر نے صواعق محرقہ میں کھا ھے کہ حدیث تمسک (بہ قرآن و عترت ) کی سند کے بھت سارے طریقے ھیں۔ بیس (۲۰)سے زائد اصحاب نے اس کی روایت کی ھے۔ ([9])
عبقات الانوار میں مرد و عورت مل کر چوتیس (۳۴) اصحاب نے اس کو نقل کیا ھے۔ اور ان سب کے اسماء اھل سنت کی کتابوں سے لے گئے ھیں۔ ([10])
چنانچہ (احقاق الحق و غاتیہ المرام ) وغیرہ میں مذکورہ روایتوں اور سندوں کو اس میں بڑھا دیا جائے تومردو زن راوی اصحاب کی تعداد پچاس (۵۰)سے اوپر ہو جاتی ھے۔
ان کے اسماء حسب ذیل ھیں۔
(۱) امیر المومنین(ع) عليه السلام ، (۲) امام حسن عليه السلام ، (۳) سلمان فارسی ،(۴) ابوذر غفاری ،(۵) ابن عباس
(۶) ابو سعد خدری ، (۷) عبد اللہ ابن حنطب ، (۸) جیربن مطعم ، (۹) براء بن عاذب ، (۱۰) انس بن مالک ،(۱۱) طلحہ بن عبد اللہ تمیمی ،(۱۲) عبد الرحٰمن بن عوف ،(۱۳) جابربن عبد اللہ انصاری ،(۱۴) ابوھشیم فرزند تیھان ،(۱۵) ابورافع صحابی رسول اکرم (ص) ، (۱۶) حذیفہ ابن یمانی ،(۱۷) حذیفہ ابن اسید غفاری، (۱۸) حذیفہ ابن ثابت ذوالشھاد تین ،
(۱۹) ذید بن ثابت ، (۲۰) ابوھر یرہ ،(۲۱) ابولیلیٰ انصاری ،(۲۲) ضمیرہ اسلمی ،(۲۳) عامر بن لیلیٰ ، (۲۴) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ رعلیھا ، (۲۵) ام سلمہ ، (۲۶) ام ھانی ، (۲۷) زید بن ارقم ، (۲۸) ابن ابی دنیا ، (۲۹)حمزہ سلمی
(۳۰) سعد ابن ابی وقاص ، (۳۱) عمرو بن عاص ، )۳۲(سھل بن سعد انصاری ، (۳۳) عدی بن حاتم ، (۳۴) عبقہ بن عامر
(۳۵) ابو ایوب انصاری ، (۳۶) ابو شریخ خزاعی ، (۳۷) ابو قدامہ انصاری ، (۳۸) بریرہ ، (۳۹) جشی بن جنادہ ، (۴۰) عمر بن خطاب ، (۴۱) مالک بن حویرث ، (۴۲) جیب بن بدیل ، (۴۳) قیس بن ثابت ، (۴۴) زید شراحیل ، (۴۵) عائشہ بنت سعد
(۴۶) عفیف بن عامر ، (۴۷) عبد بن حمید ، (۴۸) محمد بن عبد الرحمٰن بن فلاد ، (۴۹)ابو طفیل عامر بن واثلہ ،(۵۰) عمرو بن مرّہ ، (۵۱) عبد اللہ بن عمر ، (۵۲) اُبی بن کعب ، (۵۳)عمّار
جو کچھ اب تک بیان کیا جا چکا ھے اس پر غور فرمائیں مذکورہ رادیوں کے مستقلاً روایت کرنے کے ساتھ ساتھ جس کا سنی و شیعہ کتب میں تذکرہ موجود ھے۔
یہ حدیث غدیر خم رسول اللہ کے خطبے میں بیان کی گئی ھے۔ اسی بناپر غدیر کی سند حدیث ثقلین کی بھی سند شمار ہوتی ھے۔
اور حدیث غدیر کو سو (۱۰۰) سے زائد اصحاب نے نقل کیا ھے انھیں اسناد پر حضرت امیر المومنین(ع) علیہ اسلام کے اس استدلال کا اضافہ کرتے ھیں۔ جو آپ نے حدیث ثقلین کے بارے میںایسے مجمع کے سامنے بیان فرمایا تھا جس میں اصحاب رسول بھی تھے اور اکثر صحابہ نے اس حدیث کے (رسول خدا) سے صادر ہونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔ ([11])
اس کے علاوہ حدیث ثقلین کو ان افراد نے نقل کیا ھے کہ جھنوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں یہ بات لکھی ھے کہ ھم نے اپنی کتاب میں معتبر کتابوں سے صرف صحیح احادیث کو جمع کیا ھے۔ جیسے ([12]) ملا محمد مبین (فرھنگی محلی) لکھنوی ([13]) ولی اللہ لکھنوی۔ ھیشمی نے بھی اس بات کی صراحت کی ھے کہ جن افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے وہ ثقہ اور مورد اطمنان افراد ھیں۔ ([14])
مذکورہ مقامات کے علاوہ دوسرے بھت سارے ایسے شواھد ھیں جو اس حدیث کی صحت اور تواتر دلالت کرتے ھیں۔ چنانچہ ایک گروہ نے اس کے تواتر کا ذکر کیا ھے ان میں سے ایک صفانی ھیں جوابحاث المسدّدہ کے ملحقات میں یور قمطراز ھیں۔ اس حدیث کے لئے روایات تواتر معنوی پر مشتمل ھیں۔ ([15])
بھر کیف حدیث ثقلین علماء اھل سنت و شیعہ کے نزدیک متفق علیہ حدیث ھے اور اس کا پیغمبر اسلام سے صادر ہونا قطعی ھے۔
 

حوالہ جات:

[1] ان تمسکتم بھمالن تضلوا ابدا وانھمالن یفتر قاحتی یردا علی الحوض۔
[2] قرآن و عترت ایک دوسرے کی ضرورت نھیں ھے اور ھدایت خلق میں ایک دوسرے کے ممدّ و معاون ھیں۔ کسی ایک سے دوسرے کے بغیر انحراف و گمراھی ھے۔
[3] غاتیہ المراض ۲۱۱ طبع بیروت دررالقاموس الحدیث
[4] نفحات الازھارفی خلاصة عبقات الانوار۔ ص۔۲۱۰۔۲۱۹ طبقع اولی ۴۱۴ (عبقات الانوار، ج۔ ۱ طبع اول ص ۱۳۹۸ طبقع قم از صفحہ ۱۳ تا صفحہ ۲۵
[5] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ طبقع قاھرہ (مصر) طبقع دوم ۱۹۶۵ صفحہ ۲۲۸
[6] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲صفحہ ۱۵۰ طبقع قاھر(مصر) طبع دوم
[7] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ صفحہ ۱۵۰ طبقع قاھر(مصر) طبع دوم
[8] حدیث ثقلین تواتر کے ساتھ ذکر ھیں۔
[9] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ طبع قاھرہ (مصر) طبع دوم ۱۹۶۵ صفحہ۔ ۲۲۸
[10] نفحات الازھار جلد ۲ صفحہ ۲۲۷۔۲۳۶
[11] غاتیہ المرام صفحہ ۲۳۱
[12] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ ۴۹۱
[13] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ۴۹۳
[14] یہ بات فیض الغد یر میں جلد ۲ صفحہ ۱۵ پر ان کے حوالے سے نقل کی گئی ھے۔
[15] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی
با کمال توتا سفير بھائي کے ساتھ

 
user comment