سورہ آل عمران کی ۱۰۷ ویں آیت یہ اعلان کرنا نہیں چاہتی ہے کہ سفید فام نسل کی انسانی قدر و قیمت دوسری نسلوں کی بہ نسبت بلندتر ہے۔ بنیادی طور پر اس قسم کی آیات کا انسانوں کے رنگ و نسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ صرف ایسی اصطلاحوں سے استفادہ کیا جاتا ہے، جو قرآن مجید کی زبان ، یعنی عربی زبان میں رائج ہیں۔ اس زبان میں ، دوسری زبانوں کے مانند نیک انسانوں کو "رو سفید" اور برے لوگوں کو "رو سیاہ" کہا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں ممکن ہے کہ ایک سیاہ فام شخص "رو سفید" شمار ہو لیکن ایک سفید فام شخص "روسیاہ " شمار ہو۔ "قلب سیاہ"، "رات کی سیاہی" وغیرہ جیسی اصطلاحات ہرگز کسی نسل کی برتری بیان کرنا نہیں چاہتی ہیں۔
جس روایت کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ، اس کی کوئی محکم سند نہیں ہے اس کے بعض مطالب قابل تائید نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جاننا چاہئِے کہ جوانی، تندرستی اور خوبصورتی کے مانند اوصاف اس مادی دنیا میں صرف معنوی قدروقیمت کے لحاظ سے نہیں جانے جاتے ہیں کہ بہشتی، جوان صورت میں مکمل تندرستی اور خوبصورت ترین شکل میں بہشت میں داخل ہو جائیں۔
سلام و دعا کے بعد سوال کی ابتداء میں ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ:
اگر ہم ایک تحریر میں پڑھیں کہ " دن کی روشنی {سفیدی} میں رات کی تاریکی کی بہ نسبت مقصد تک بہتر صورت میں پہنچا جا سکتا ہے، تو کیا یہ سیاہ فاموں کے لیے توہین شمار ہوگی؟؛ اور اگر ہم ایک تبلیغاتی پوسٹر کو دیکھیں جس میں یہ لکھا ہو کہ "فلاں دوا استعمال کرنے سے آپ کا چہرہ جوان ہوگا"، تو کیا یہ بوڑھوں کے لیے توہین شمار ہوگا؟ یقیناً ، ایسا نہیں ہے، کیونکہ دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی ، کا انسانوں کے نسلی فرق سے کوئی تعلق نہیں ہے اگرچہ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت ہو، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ایک انسان کی انسانیت اور فضیلت انسان کے رنگ، جسمانی تندرستی اور اس کی ظاہری خوبصورتی پر مبنی نہیں ہے، اور اسی وجہ سے، بہت سے سیاہ فام افراد یا بظاہر معلول اور بدصورت انسان بلند انسانی قدروں کے مالک ہوتے ہیں اور بہت سے سفید فام اور بظاہر خوبصورت اور تندرست انسان اس قسم کی خصوصیات سے عاری ہوتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد ہم اصل سوال کی طرف پلٹتے ہیں اور آپ کے بیان کے پیش نظر قرآن مجید کی جس آیہ شریفہ اور ایک روایت کے بارے میں آپ کو ابہام پیدا ہواہے ، ہم اس کا جواب دو حصوں میں پیش کرتے ہیں:
پہلا حصہ: سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۰۷:
اس سلسلہ میں قابل ذکر ہے کہ اس آیہ شریفہ کے بارے میں آپ کا تصور صحیح نہیں ہے، آپ شاید عربی زبان سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے "سیاہ روئی" کی اصطلاح جو عربی اور فارسی کے علاوہ بہت سی زبانوں میں استعمال ہوتی ہے، کو غلطی سے "سیاہ رنگ" سمجھے ہیں۔ مندرجہ ذیل مطالب پر غور کرنے سے آپ کو اس کی حقیقت سمجھ میں آئے گی:
قرآن مجید میں ایسی بکثرت آیات ملتی ہیں، جن میں انسانوں کے درمیان موجود تمام تفاوتوں کے باوجود ان کا ایک ہی سرچشمہ بیان کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کی برتری اس کے تقوی اور پرہیزگاری پر مبنی ہوگی نہ کہ ان کے جسم، قوم اور نسل کی بنیاد پر۔ ایسی آیات کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
۱۔ "انسانو؛ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے[1]۔"
۲۔ "انسانو؛ اس پروردگار سے ڈرو، جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلائے ہیں[2]۔"
۳۔ "وہی وہ ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے[3]۔"
مذکورہ آیات میں غور و خوض کرنے سے سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان کوئی فرق نہیں ملتا ہے اور پیغمبراسلام{ص} اور ائمہ اطہار{ع} کی تاریخ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ، سیاہ فام اور سفید فام ، دوش بدوش دین اسلام کے لیے کام کرتے تھے۔ بعید ہے کہ کوئی شخص دین اسلام سے واقفیت رکھتا ہو، لیکن سیاہ فام بلال حبشی کو نہ جانتا ہو؛
البتہ، ممکن ہے اس زمانہ میں بھی کچھ افراد ہوں ، جو جاہلیت کے چنگل سے آزاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سیاہ فاموں سے برتر جانتے تھے، لیکن ائمہ اطہار{ع} کی طرف سے اس قسم کے طرز تفکر کی مذمت کی گئی ہے۔
پیغمبراسلام{ص} اپنے پیرووں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اے لوگو؛ آپ کا پروردگار ایک ہے اور آپ سب کے باپ حضرت آدم{ع} ہیں اور خود حضرت آدم{ع} بھی مٹی سے پیدا کیے گیے ہیں، خدا کے پاس آپ میں سے سب سے قابل قدر وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ کوئی عرب ، غیر عرب پر برتری نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ زیادہ پرہیزگار ہو[4]۔"
مولا علی{ع} لوگوں کے درمیان کچھ مال بحصہ مساوی تقسیم فرما رہے تھے کہ اس کے مطابق ہر شخص کے حصہ میں تین دینار آتے تھے۔ انصار میں سے ایک شخص آیا اس نے تین دینار لے لیے اور اس کے بعد ایک سیاہ فام شخص آیا اور اس نے بھی اپنے تین دینار وصول کیے۔
انصاری شخص نے تعجب سے امیرالمومنین{ع} پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: " یہ سیاہ فام کل تک میرا غلام تھا، کیا یہ مناسب ہے کہ میرا اور اس کا حصہ مساوی ہو؟؛ امام{ع} نے جواب میں فرمایا: تمھارے اس اعتراض کی کوئی دلیل نہیں ہے تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے برتر نہیں ہے[5]۔"
اسی قسم کے ایک واقعہ میں ، امیرالمومنین {ع} پر آپ{ع} کے بھائی عقیل کی طرف سے زبردست اعتراض کیا گیا کہ کیا میرا حصہ ایک سیاہ فام کے برابر قرار دیتے ہو؟؛ امام{ع} نے ان کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: صرف اگر تمھاری پرہیزگاری اس سے زیادہ ہو تو تم اس سے برتر ہو ورنہ تم دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے[6]۔
اس بنا پر کوئی انصاف پسند انسان، اسلام کے اس مبارزہ سے انکار نہیں کرسکتا ہے جو اس نے نسلی اور قومی امتیاز کے خلاف کیا ہے اور بعض اعلیٰ طبقہ کے افراد کی اسلام کے سلسلہ میں نامناسب کارکردگی کا سبب یہی امتیازی سلوک سے مبارزہ کرنا تھا اور کبھی اعلیٰ طبقہ کے افراد کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے نچلے طبقہ اور مستضعفین کو نکال باہر کرنے کی شرط رکھی جاتی تھی کہ خداوندمتعال نے ایک آیت کو نازل کر کے پیغمبراسلام{ص} کو ان کے اس ناحق مطالبہ کے قبول نہ کرنے کے بارے میں خبردار کیا ہے[7]۔
اگر آپ پورے قرآن مجید اور اسلامی کتابوں کا مطالعہ کریں گے، تو آپ کو کوئی ایسا واقعہ نہیں ملے گا جس میں ایک سیاہ فام شخص صرف اپنے نسل و رنگ کی وجہ سے مالکیت، ازدواج، شغل، وراثت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے موضوعات سے محروم ہوا ہوبلکہ وہ تمام مواقع میں سفید فاموں کے برابر حقوق کا مالک رہا ہے۔ اس کے علاوہ آپ اس قسم کا کوئی مطلب نہیں پائیں گے جس کے مطابق کسی کے ثواب و عتاب کو ایک خاص نسل سے مخصوص جانا گیا ہوگا اور اعلان کیا گیا ہوگا کہ معنوی مقامات پر فائز ہونے اور بہشت برین میں داخل ہونے کے لیے کسی اعلیٰ طبقہ کی نسل کو زیادہ حق حاصل ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ آپ کے سوال میں ذکر کی گئی آیہ شریفہ سے کیا مراد ہے اور اس میں کیوں قیامت کے دن سفید اور سیاہ رو کا ذکر کیا گیا ہے کہ پہلا گروہ خوش قسمت ہے اور دوسرے کو عذاب کیا جائے گا؟؛
جیسا کہ جواب کی ابتداء میں بیان کیا گیا، "سیاہ رنگ" اور "سیاہ رو" آپس میں فرق رکھتے ہیں ۔ عربی اور فارسی زبانوں میں برے اور آلودہ باطن والے افراد کو "روسیاہ" کہتے ہیں،اگرچہ بظاہر یہ افراد سفید فام ہوں، لیکن اس کے مقابلے میں اس سیاہ فام شخص کو بھی " رو سفید " کہتے ہیں جس کا دل پاک ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
" اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے[8]۔"
ہم جانتے ہیں جہالت کے زمانہ میں عربوں میں لڑکیوں سے نفرت کی جاتی تھی، بظاہر وہ سفید فام تھے اور قطعاً یہ آیہ شریفہ سیاہ فاموں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے۔
اسی ترتیب سے، قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر، پیغمبراسلام{ص} سے خطاب کرکے بیان کیا گیا ہے کہ: " اور تم روز قیامت میں دیکھو گے کہ جن لوگوں نے اللہ پر بہتان باندھا ہے ان کے چہرے سیاہ ہو گیے ہیں۔[9]" ظاہر ہے کہ یہ جھوٹے لوگ ممکن ہے سفید فام یا سیاہ فام ہوں؛
ایک فارسی شعر میں آیا ہے:
تاسیہ روی شود، ہرکہ دراوغش باشد
ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس شعر کا انسان کے رنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کے موارد بکثرت ہیں اور جو کچھ بیان ہوا ، لگتا ہے کافی ہے۔
یہ جاننا دلچسپ ہے کہ کبھی سفید رنگ بھی انسانوں میں نقص کی علامت ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہم قرآن مجید کی آیات میں پڑھتے ہیں کہ یوسف{ع} کے فراق میں روتے روتے ان کے باپ ، حضرت یعقوب{ع} کی آنکھیں سفید ہو چکی تھیں[10]۔
ہم جانتے ہیں کہ یہاں پر "سیاہی" قابل قدر ہے اور "سفیدی" عیب ہے؛
اس بنا پر ایسے مواقع پر سفید اور سیاہ رنگ کا استفادہ کرنا سفید فاموں کی کوئی تمجید اور سیاہ فاموں کی کوئی توہین نہیں ہے ورنہ ہمیں کبھی "دن کی سفیدی اور شب کی سیاہی"، "سفید قلب"، "سیاہ فکر و اندیشہ" کے مانند جملوں کا استفادہ نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ اس سے نسلی امتیاز کی بو آتی ہے۔
سرانجام اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ ، عربستان کے لوگ جو قرآن مجید کی آیات کے براہ راست مخاطب تھے، یورپی لوگوں کے مانند سفید فام نہیں تھے کہ اپنی سفیدی پر ناز کرتے ، بلکہ ان میں سے اکثر کے چہرے سیاہی مائل تھے اور رومیوں کو "بنی الاصفر" یا زرد نسل کہا جاتا تھا، کیونکہ ان کا رنگ ان سے سفید تر تھا۔
اگر سفید فام ہونا خدا کے پاس برتر نسل ہونے کی دلیل ہوتی، تو پیغمبر اسلام کو بھی سفید ترین فرد ہونا چاہئیے تھا، جبکہ آپ{ص} گندمی رنگ کے تھے[11]۔ دوسرے مردان الہٰی بھی سفید فام نہیں تھے، مثال کے طور پر لقمان حکیم، جن کے نام پر قرآن مجید کا ایک سورہ ہے اور اس میں ان کی نصیحتیں ہیں، ایک رویات کے مطابق ایک سیاہ فام غلام تھے اور ان کے ہونٹ موٹے تھے اور ان کا اصلی وطن حبشہ، موجودہ "ایتھوپی" تھا[12]۔
اسی بنا پر قرآن مجید کی آیات میں بیان کی گئی سفیدی اور سیاہی کو سیاہ فاموں کے لیے کوئی توہین نہیں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ان رنگوں سے قیامت کے حقائق بیان کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس میں اس زبان کی اصطلاحات سے استفادہ کیا گیا ہے اور جس طرح بیان کیا گیا کہ اس زبان میں سفید روئی و سیاہ روئی کو نیک و بد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا افراد کے رنگ و نسل سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔
دوسرا حصہ: سوال میں اشارہ کی گئی روایت:
لیکن آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ، بظاہر جس خطیب نے [آپ کے سوال میں اشارہ کی گئی] روایت بیان کی ہے، اس نے پیغمبراکرم{ص} کی ایک روایت سے اپنی بات کی سند قرار دیا ہے کہ اس بنا پر پیغمبراکرم{ص} نے قبیلہ اشبح کی ایک بوڑھی عورت سے فرمایا ہے کہ بوڑھی عورتیں بہشت میں داخل نہیں ہوں گی، وہ عورت ایک کونے میں جا کر رونے لگی۔ بلال حبشی، پیغمبراسلام {ص} کے موذن نے آنحضرت{ص} سے اس سلسلہ میں سوال کیا، پیغمبراکرم{ص} نے جواب میں فرمایا: سیاہ فام بھی بہشت میں داخل نہیں ہوں گے، بلال نے یہ کلمہ سننے کے بعد اس عورت کا ساتھ دیا اور ایک کونے میں جا کر رونے لگے۔ آنحضرت کے چچا حضرت عباس نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ثالثی کی غرض سے پیغمبر{ص} کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن ان کو یہ جواب ملا کہ بوڑھے مرد بھی بہشت میں داخل نہیں ہوں گے اس کے بعد ان سب کو جمع کر کے ان کے دلوں کو جیتتے ہوئے اس مذاق کے اصلی مقصد کو یوں بیان فرمایا کہ:خداوندمتعال تمام افراد کو خوبصورت ترین شکل میں نورانی چہروں کے جوانوں کی صورت میں بہشت میں داخل کرے گا اور اس کے ضمن میں آنحضرت{ص} نے اشارہ فرمایا کہ اہل بہشت کے اضافی بال نہیں ہوں گے یہاں تک کہ داڑھی اور مونچھوں کے بغیر ہوں گے[13]۔
اب ہم، سند اور محتویٰ کے لحاظ سے اس روایت کے بارے میں تحقیق پیش کر رہے ہیں:
۱۔ اس روایت کی سند کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ صحیح روایتیں نقل کرنے والی قابل اعتبار کتابوں میں اس روایت کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور مثال کے طور پر یہ روایت شیعوں کی کتب اربعہ میں موجود نہیں ہے۔
اس کے باوجود پانچویں اور چھٹی صدی کے دانشور ابن شہر آشوب نے اس روایت کو کسی سند [حتی کہ غیر معتبر اور ضعیف سند] کے بغیر اپنی کتاب مناقب میں بیان کیا ہے اور اس کے صدیوں بعد اس روایت کو بحارالانوار اور مستدرک الوسائل میں بھی کسی سند کو بیان کیے بغیر درج کیا گیا ہے۔
اسی وجہ سے یہ روایت مرسل ہے اور اسلامی علماء کی نظر میں استناد کے لحاظ سے قدر و منزلت نہیں رکھتی ہے۔
۲۔ البتہ بعض مرسل روایتوں سے دوسری دینی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے مطابق ہونے کی وجہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور بہ الفاظ دیگر روایت کے مفہوم و محتویٰ اس کی سند کے ضعیف ہونے کی تلافی کر سکتے ہیں ۔
ہم اس روایت کو محتویٰ کے لحاظ سے کیسا پاتے ہیں؟
قابل ذکر ہے کہ اس روایت کا محتویٰ ، کئی حصوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر حصہ کے لیے الگ تجزیہ اور فیصلہ کی ضرورت ہے:
۱-۲ روایت کے پہلے حصہ کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ اس کے محتوی کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ناممکن ہے کہ پیغمبراسلام{ص}، اپنے اخلاق حسنہ کے باوجود جو باایمان افراد کے لیے اسوہ کے عنوان سے اعلان کیا گیا ہے[14]، مذاق کی غرض سے ہی سہی، مختصر مدت کے لیے بھی دوسروں کو اذیت پہنچاتے، یہاں تک کہ مخاطب افراد گریہ و زاری کر کے آنسو بہاتے؛ دوسری جانب آنحضرت{ص} کے چچا عباس بھی سن و سال کے لحاظ سے آنحضرت{ص} سے زیادہ فرق نہیں رکھتے تھے اور وہ تھوڑا سا غور کر کے آنحضرت{ص} کی خدمت میں عرض کر سکتے تھے کہ اگر بوڑھے لوگ بہشت کے مستحق نہیں ہیں تو آپ{ص} اور مجھ میں کیا فرق ہے؟؛ اس بنا پر روایت کے پہلے حصہ کے بارے میں ایسے شواہد و قرائن پائے جاتے ہیں کہ اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔
۲۔۲ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم روایت کے دوسرے حصہ یا اسی مضمون کی ہر روایت کو قبول کریں اور اعتقاد رکھیں کہ بہشتی سب سے بہتر ممکنہ شکل میں بہشت میں داخل ہوں گے، کیونکہ اگر ایک عمر رسیدہ بوڑھا، جوانوں کی شکل میں، بے دست و پا معلول ایک تندرست انسان کی صورت میں یہاں تک کہ ایک سیاہ فام انسان ، سفید اور نورانی صورت میں بہشت میں داخل ہوگا ، تو یہ سب مادی دنیا میں ان افراد کی سابقہ حالت کی توہین نہیں ہے اور بڑھاپے، معلولیت اور رنگ و نسل کے لیے کوئی بے احترامی نہیں ہے۔
ذرا غور کیجئیے کہ اگر اس مادی دنیا میں بھی کچھ لوگ اظہار کرتے ہیں کہ سفید فاموں کی بہ نسبت سیاہ فام انسان قدر و منزلت سے پست تر ہیں، اس لیے انہیں کمتر اجتماعی امکانات فراہم کیے جانے چاہئیں، تو رائے عامہ کی طرف سے ایسے افراد کی مذمت کی جاتی ہے اور جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مانند، وہ زوال و شکست سے دوچار ہوں گے، لیکن یہ کہنا کہ سفید فام، سیاہ فاموں سے خوبصورت تر ہیں ، کسی قسم کی نسل پرستی نہیں ہے، اسی وجہ سے حقوق انسانی کے مدافع اور نسل پرستی کے خلاف کسی بھی کنونشن میں ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کو زیبائی اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایک ہی درجہ پر قرار دیا گیا ہو اور اسی فطری حقیقت کی بنیا دپر ، بعض نسلیں دوسری نسلوں کی بہ نسبت خوبصورت تر ہیں، حتی کہ خود سفید فاموں کے درمیان بھی خوبصورتی ایک ہی قسم کی نہیں ہوتی ہے۔ اس بنا پر اس مِن کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ تمام انسان بہشت میں سفید اور نورانی صورت میں، سفید شکل میں نہیں بلکہ خوبصورت ترین ممکنہ صورت میں اور معلولیت اور بڑھاپے کی علامت کے بغیر اور حتی کہ اضافی بالوں اور انسانی فضلات، بدبودار پسینہ سے پاک و منزہ ہوں گے اور یہ حالت ہر نسل کے انسانوں کی ہوگی اور اس طرح وہ بہشت میں ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔
ظاہر ہے کہ بہشتیوں کی اس قسم کی توصیف مادی دنیا میں ان کی سابقہ حالت کی توہین شمار نہیں کی جا سکتی ہے اور ممکن ہے کہ مادی دنیا کے خوبصورت ترین انسان قیامت میں عذاب سے دوچار ہوں اور بظاہر بدصورت انسان اپنے نیک اعمال کی وجہ سے بہشت کی جاودانی زندگی کے مستحق بنیں۔
[1] حجرات، 13، "يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُم ".
[2]نساء، 1، "يا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْها زَوْجَها وَ بَثَّ مِنْهُما رِجالاً كَثيراً وَ نِساء".
[3]انعام، 98، "وَ هُوَ الَّذي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَة".
[4]تاج الدین الشعیری، جامع الاخبار، ص 183، انتشارات رضی، قم، 1363 ه ش.
[5]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 8، ص 69، ح 26، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ه ش.
[6]ایضاً، ج 8، ص 182، ح 204.
[7]انعام، 52، " وَ لا تَطْرُدِ الَّذينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَداةِ وَ الْعَشِيِّ يُريدُونَ وَجْهَهُ ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْ ءٍ وَ ما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْ ءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمين ".
[8]نحل، 58، "وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيم" ؛ زخرف، 17.
[9]زمر، 60، "وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ تَرَى الَّذينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ".
[10]یوسف، 84، "وَ ابْيَضَّتْ عَيْناهُ مِنَ الْحُزْن ".
[11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 16، ص 144، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ه "عربی زبان مِن گندمی رنگ کے انسان کو "اسمر" کہتے ہیں".
[12]بحار الانوار، ج 13، ص 423.
[13]محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج 8، ص 410، ح 9826، مؤسسة آل البیت، قم، 1408 ه.
[14]احزاب، 21، "لَقَدْ كانَ لَكُمْ في رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثيرا".