جیسا کھ برادران اھل سنت و الجماعت کی ان روایات میں، جو حضرت امام حسین علیھ السلام کے قیام کے بارے میں وارد ھوئی ھیں، آیا ھے کھ ایک سقّا حضرت امام حسین علیھ السلام کے پاس آیا اور کھا: اے ابو عبد اللھ! میں آپ کے لئے تھوڑا سا پانی لے آیا ھوں تا کھ آپ سیراب ھوجائیں، حضرت امام حسین علیھ السلام نے انھیں اپنی ھتیلی دکھائی جس سے ایک چشمے کی طرح پانی بهه رھا تھا اور پھر امام علیھ السلام نے فرمایا: میرے پاس پانی ھے، جس کو پانی کی ضرورت ھے ان تک پھنچادو ، امام کا مقصد اس عمل سے کیا تھا، جب کھ وه اپنے آپ کو سیراب کر سکتے تھے۔ لیکن امام حسین علیھ السلام نے ایسا کیوں نھیں کیا؟
ایک مختصر
اس سوال کے جواب میں بعض نکات قابل توجھ ھیں:
۱۔ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام ھمیشھ اپنی طبیعی طاقت کو استعمال کرتے تھے۔ نھ کھ خدا کی طرف سے عطا کی ھوئی خاص طاقت۔ کیوں کھ اگر وه الھی طاقت سے اپنی زندگی کو بنا لیتے تو اس صورت میں دوسروں کیلئے نمونھ نھیں بن پاتے۔
۲۔ ا طرح کی روایت کا موجود ھونا (اگرچھ اھل سنت ھی کے منابع میں ھو) واضح نھیں۔
۳۔ یھ روایت ( اگر چھ موجود بھی ھو) بعض دلائل کی بنا پر مخدوش ھے ، اولا: امام حسین علیھ السلام نے عاشورا کے دن (متعدد روایات کی بنا پر) دشمنوں سے جنھوں نے ساحل فرات پر قبضھ کیا تھا، پانی مانگا لیکن انھوں نےپانی دینے سے انکار کیا۔
ثانیا: یھ کھ عاشور کے دن اھل بیت علیھم السلام کے خیام دشمن کے محاصرے میں تھے ، یھ شخص کس طرح امام تک پھنچ گیا۔
پس نتیجھ یھ نکلتا ھے کھ یھ روایت اور اس طرح کی روایات جو امام حسین علیھ السلام کی تشنگی کو امام کی چاھت کے مطابق پھچنواتی ھیں۔ اور بیان کرتی ھیں کھ امام حسین اور ان کے اھل بیت علیھم السلام پانی کے لحاظ سے کسی بھی طرح کی تنگی میں نھیں تھے۔ یھ روایات قابل قبول نھیں ،کیوں کھ یھ روایات دوسرے دلائل اورعاشورا کے بارے میں وارد شده دوسری روایات کے ساتھه متناقض ھیں۔ بلکھ اس طرح کی روایات جعلی ھیں جن سے اسلام کے دشمنوں کے جرم کی پرده پوشی کی کوشش کی گئی ھے۔
تفصیلی جوابات
اس سوال کے جواب مین بعض نکات کی جانب اشاره کرنا ضروری ھے۔
۱۔ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام پابند تھے کھ وه اپنے ظاھری علم اور طاقت کا استعمال نھ کریں ۔ اور وه معجزه اور خلاف عادت کام کو انجام نھ دیں ، مگر یھ کھ خاص خاص جگھوں پر جھاں خدا کا اذن ھو اور خدا کے دین کی مصلحت اور لوگوں کی ھدایت کا مسئلھ سامنے آتا ھو۔
۲۔ حضرت امام باقر علیھ السلام نے فرمایا: اسم اعظم ۷۳ حروف ھیں ، " آصف برخیا کے پاس ایک حرف تھا جس کو استعمال کرنے سے اس نے بلقیس کے تخت کو حاضر کیا اور ھمارے پاس " ۷۲" اسم اعظم کے حروف ھیں۔ [1]
۳۔ ھاں امام حسین علیھ السلام بھی اسم اعظم کے حامل تھے اور مستجاب الدعوۃ (جن کی دعا قبول ھوتی ھے ) بھی ھیں۔ وه آسانی سے زمین سے ایک خوشگوار چمشمھ نکال سکتے تھے۔ اور اپنے علاوه اپنے اصحاب کو بھی سیراب کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نھیں کیا ، کیوں کھ انھیں ظاھری اسباب کے ذریعے اپنی ذمھ داری کو نبھانا تھا۔
۴۔ اگر ائمھ اطھار علیھم السلام الھی علم اور طاقت ،(جسے انھوں نے خدا سے حاصل کیا تھا) اپنی زندگی گزارتے، اور اپنی ضروریات کو پورا کرتے، تو اس صورت میں ، ان کی زندگی دوسروں کیلئے نمونه نھیں بن سکتی ۔ اگر وه سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں صبر و تحمل اور فدا کاری سے کام نھ لیتے تو انسانی اقدار میں دوسروں کیلئے نمونه نھیں ھوتے۔
۵۔ عاشورا کا واقعھ ، امام حسین علیھ السلام کی ظلم کے خلاف جنگ، انحرافات اور بدعتوں کے مقابلے میں قیام کرنے کا ایک نمونه ھے جو ھر زمانے میں خدا کے احکام اور قوانین کی حفاظت کیلئے پیش ھوسکتا ھے۔ اس صورت میں سب مسلمانوں اور عام انسانوں کے لئے ضروری ھے کھ ان بدعتوں کے خاتمے کے لئے قیام کریں۔ اگر امام حسین علیھ السلام اس اھم ذمھ داری کو معجزے کی طاقت اور تکوینی ولایت کی قوت سے انجام دیتے تو پوری انسانیت کیلئے ھر زمانے میں زنده نمونھ نھ بنتے۔
۶۔ معتبر روایات میں آیا ھے کھ امام حسین علیھ السلام نے اپنے اصحاب کی تشنگی بجھانے کیلئے حضرت علی اکبر کو شب عاشورا میں کچھه سواروں کے ھمراه پانی لانے کیلئے مقرر کیا ، اور خود بھی حضرت امام حسین علیھ السلام نے حضرت عباس علیھ السلام کی شھادت کے بعد اپنی پیاس بجھانے کیلئے اپنے آپ کو فرات کے کنارے پھنچانے کی کوشش کی لیکن وه پانی لانے میں کامیاب نھیں ھوئے ۔[2]
۷۔ اسی طرح اور بھی معتبر روایات میں ھے، کھ عاشور کے دن حضرت امام حسین علیھ السلام حضرت علی اصغر علیھ السلام کو دشمنوں کے مقابلے میں لائے اور فرمایا:" اے لوگو ! اگر میرے اوپر رحم نھیں کرتے ھو تو اس بچے پر رحم کرو! ، لیکن حرملھ نے ایک تیر سے اس بچے کو شھید کردیا" [3]
۸۔ جب حضرت امام حسین علیھ السلام نے دشمنوں سے پانی مانگا ، تو کس طرح اپنی خواھش اور عقیدت سے امام کیلئے پانی لانے والے آدمی کے پانی کو ٹھکرادیتے۔
۹۔ عبید اللھ ابن زیاد کے لشکر نے عاشور کے دن حضرت کے خیام کا محاصره کر لیا تھا۔ اور ھر طرح کی آمد و رفت کو قابو کر رکھا تھا۔ انھوں نے اتنے بڑے لشکر کو اس غرض سے مقرر کیا گیا تھا کھ حضرت امام حسین علیھ السلام کو پانی سے محروم کرکے انھیں سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کریں۔ اب یھ سوال اٹھتا ھے کھ اس سقا نے کس طرح دشمن کا محاصره توڑ کر اپنے آپ کو امام تک پھنچادیا؟ کیا اس طرح کا سقا انسان تھا یا ایک غیبی فرشتھ جو مادی مخلوقات سے مافوق تھا۔
نتیجھ یھ کھ یھ روایت اور اس جیسی روایتیں جو حضرت امام حسین علیھ السلام اور انکے با وفا اصحاب اور اھل بیت علیھم السلام کی تشنھ کامی پر سوال کی انگلی اٹھاتی ھیں اور یھ ظاھر کرنے کی کوشش کرتی ھیں کھ امام علیھ السلام پانی کے لحاظ سے کسی طرح کی تشنگی میں نھیں تھے۔ وه امام کی مظلومیت اور دشمنوں کے جرم کو چھپانے کی کوشش کرتی ھیں تا کھ اس طریقے سے امام کے قیام اور دشمنوں کی غیر انسانی حرکتوں کے رنگ کو ھلکا کردیں۔
[1] کلینی ، محمد بن یعقوب ، اصول کانی ، ج ص ۲۳۰ ، ح ۱۔
[2] محمود ، شریفی و دیگران، فرھنگ جامع سخنان امام حسین علیھ السلام ، ترجمھ ، علی مؤیدی۔
[3] ایضاً ، ص ۵۳۴۔