اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

زکات

ب۔ زکات:

نماز انسان کا خالق سے اور زکات انسان کا مخلوق سے رابطہ ھے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میںزکات کا تذکرہ  نماز کے ساتھ کیا گیا ھے ((عن اٴبی جعفر و اٴبی عبداللّٰہ علیھما السلام قالا:فرض اللّٰہ الزکاة مع الصّلاة))[27]

 انسان مدنی الطبع ھے۔ مال، مقام، علم و کمال میں سے جو کچھ بھی اس کے پاس ھے، سب معاشرتی روابط کی بدولت ھے اور کیونکہ جس معاشرے میں زندگی بسر کر رھا ھے وہ اس کی مادی و معنوی کمائی میں حقدار ھے، لہٰذا ضروری ھے کہ معاشرے کا قرض ادا کرے۔

اور اسلام کے زکات و صدقات سے متعلق قوانین پر عمل کے ذریعے، ھر فرد معاشرے کا قرض ادا کرسکتا ھے۔

اسلام میں زکات، صدقات و انفاقات کا سلسلہ اتنا وسیع ھے کہ اگر اس پر صحیح عمل هو تو معاشرے میں کوئی ضرورت مند باقی نہ رھے، جس کے نتیجے میں دنیا آباد هو جائے اور ضرورت مندوں و بھوکوں کی سرکشی و طغیان کے وجود سے مطمئن هوکر امن و امان کے تمدن کا گهوارہ بن جائے۔

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں: ((إن اللّٰہ عزوجل فرض للفقراء فی مال الاٴغنیاء مایسعھم، ولوعلم اٴن ذلک لایسعھم لزادھم اٴنھم لم یؤتوا من قبل فریضة اللّٰہ عزّوجلّ لکن اٴوتوا من منع من منعھم حقّھم لا ممّا فرض اللّٰہ لھم ولواٴنّ الناس اٴدّواحقوقھم لکانوا عائشین بخیرٍ))[28]

اور محتاجوں کو نہ ملنے کے مفسدہ کی اھمیت کے پیش نظر فرمایا <وَالَّذِیْنَ ےَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اٴَلِیْمٍ>[29]

عطا و بخشش کے اثر کے ذریعے معاشرے سے فقر کی بنیادوں کو نابود کرنے، انسان کے سخاوت و کرم سے آراستہ هونے اور فرد و معاشرے کی سعادت میں اس کے کردار کی اھمیت کے باعث رسول اکرم(ص)  نے سخاوت مند مشرک کو امان عطا کر دی [30] اور اسی سخاوت کی بدولت اسے اسلام کی ھدایت نصیب هوئی۔ روایت میں ھے کہ حضرت موسیٰ(ع) کو پروردگار عالم نے وحی فرمائی کہ سامری کو قتل نہ کرو [31]کیونکہ وہ سخاوتمند ھے۔

فقراء کی دیکھ بھال کی اھمیت اتنی زیادہ ھے کہ کسی فقیر کو پیٹ بھر کر کھلانے، لباس پھنانے اور ایک خاندان کو سوال کی شرمندگی سے بچا کر ان کی آبرو کی حفاظت کرنے کو ستر بار حج بیت اللہ سے افضل قرار دیا گیا ھے ۔ [32]

صدقہ و احسان کا دائرہ اتنا زیادہ وسیع ھے کہ امام محمد باقر(ع) نے فرمایا:((إن اللّٰہ تبارک و تعالیٰ یحّب إبراد الکبدالحرّی و من سقی کبداً حرّی من بھیمة وغیرھا اٴظلّہ اللّٰہ یوم لاظل إلّاظلہ))[33]

اسلام میں صدقات کے آداب معین ھیں۔ ان میں سے ایک ادب، صدقے کو چھپا کر دینا ھے، تا کہ صدقہ لینے والے کی حیثیت و آبرو محفوظ رھے، [34] جتنا بھی زیادہ هو اسے کم جانے  [35] کیونکہ صدقہ و احسان جتنا بھی زیادہ هو، لینے والا ان سے زیادہ بڑا ھے [36]۔

اس پرا حسان نہ جتائے[37] بلکہ اس کا شکر گذار هو کہ وہ اس کے مال و جان کی طھارت کا وسیلہ بنا ھے۔ اس کے سوال و درخواست کرنے سے پھلے عطا کرنے میں جلدی کرے، کہ امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:”کسی کے سوال کرنے کے بعد جو تم نے اسے عطا کیا ھے وہ اس کی عزت و آبرو کے مقابلے میں ھے۔“[38]، اپنے چھرے کو اس سے مخفی رکھے[39] صدقہ لینے والے سے التماس دعا کھے[40]اور جس ھاتھ میں صدقہ دے اس ھاتھ کا بوسہ لے اس لئے کہ بظاھر لینے والے کو صدقہ دے رھا ھے اور حقیقت میں لینے والا خدا ھے [41]<اٴَلَمْ یَعْلَمُوْا اٴَنََّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہ وَ یَاٴْخُذُ الصَّدَقَاتِ>[42]

اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اتنی توجہ کی کہ ایثار کا دروازہ کھول دیا اور ارشاد هوا: <وَیُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ اٴَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ> [43] اور ایثار کو کمال کے اس درجے تک پھنچاتے هوئے کہ جس کے بعد کوئی اور درجہ قابل تصور نھیں ،فرمایا: <وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّ اٴَسِیْراًة  إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَاشَکُوْرًا> [44]

دین اسلام نے انفاق و صدقے کو فقط مال تک محدود نھیں کیا بلکہ کمزور کی مدد اور نابینا کی راھنمائی کو بھی صدقہ قرار دیا ھے۔ اعتبار و حیثیت کی بدولت کسی کی مشکلات حل کرنے کو جاہ و مقام کی زکات قرار دیا۔ فقط حوائج مادی پوری کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فرمایا:<وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ> [45] اور  ھر وہ چیز انسان کا رزق ھے جس پر زندگی کا دارومدار هو اسی لئے فرمایا:((و ممّا علمناھم یبثون))[46]۔

جو کچھ بیان کیا گیا وہ زکات و صدقات سے متعلق مختصر طور پر اسلام کی حکمت کا تذکرہ تھا۔ اسلام نے اس مقدس قانون کے ذریعے اغنیاء کے نفوس کو بخل، حرص اور طمع کی کدورت اور زنگ سے بچایا اور ان کے اموال کو فقراء کے حقوق، جو ان کے خون کے مترادف ھیں، کی آلودگی سے پاک کیا ۔ اور اس طرح سے غنی و فقیر کے رشتے کو مستحکم کیا  اور ان دو طبقات، جن سے معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل پاتا ھے، کے درمیان تمام فاصلے مٹاکر کدورت کو الفت میں تبدیل کر دیا اور ان قوانین و آداب کی برکت سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کیا بلکہ ان کی عزت نفس، آبرو، شرافت اور عظمتِ انسانی کی حفاظت فرمائی۔

غنی کو بخشش،کے بعد فقراء کا احسانمند اور شکر گذار هونے کا حکم ،ایسی باران رحمت کی مانند ھے جس کے ذریعے خداوند تعالیٰ نے فقراء کی آتش حسد کو بجھایا، اموالِ اغنیاء کو، جن کا معاشرے کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنا ضروری ھے تاکہ امت کے معاشی نظام کی حفاظت هوتی رھے، زکات و صدقات کے حصار میں بیمہ کر دیا۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ھیں:((و حصّنوا اٴموالکم بالزکاة))[47]

کیا اغنیاء کے مال اور دانشوروں کے علم کی اس کمیّت و کیفیت کے ساتھ عطا و بخشش کے ذریعے معاشرے سے مادی و معنوی فقر کی بنیادوں کو نھیںڈھایا جاسکتا؟!

یہ فرد و معاشرے کی سعادت کے لئے نماز و زکات کی حکمت و اثر کا نمونہ تھا۔ لہٰذا جس دین نے ھر حرکت وسکون اور فعل و ترک میں انسان کی کچھ ذمہ داریاں معیّن کی هوں جو واجبات، محرمات، مستحبات، مکروھات اور مباحات کے مجموعے کو تشکیل دیتی ھیں اور افراد کی جان، عزت و آبرو  اور مال کی حفاظت کے لئے جو قوانین، حقوق اور حدود معیّن کئے گئے ھیں، ان پر عمل کرنے سے کیسا مدینہ فاضلہ تشکیل پاسکتا ھے؟

 مثال کے طور پر وہ حیوان جس سے انسان کام لیتا ھے، اس کے حقوق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح وروشن هو جاتی ھے کہ اس دین مبین میں انسانی حقوق کی کس طرح ضمانت دی گئی ھے۔

جس جانور پر انسان سوار هوتا ھے، اس کے حقوق یہ ھیں: منزل پر پھنچنے کے بعد، اپنے کھانے کا انتظام کرنے سے پھلے، اس کے لئے چارہ مھیا کرے، جب کھیں پانی کے پاس سے گزرے اسے پانی پلائے تا کہ پیاسا نہ رھے، اس کے منہ پر تازیانہ نہ مارے، اس کی پیٹھ پر میدان جھاد میں ضرورت کے وقت کے علاوہ، کھڑا نہ هو، اس کی طاقت سے زیادہ سنگین وزن نہ لادے اور کام نہ لے، اسے بُرا بھلا نہ کھے، اس کے چھرے کو بدصورت نہ بنائے، خشک زمین پر تیز اور علف زار میں آھستہ چلائے اور اس کی پیٹھ پر گفتگو کی محفل نہ جمائے۔

اور اگر دریا کے کنارے دسترخوان لگائے، باقی بچنے والی غذا کو پانی میں ڈال دے تا کہ دریائی جانور اس کی ھمسائیگی سے بے بھرہ نہ رھیں۔

اور جس زمانے میں پانی میں موجود خوردبین سے نظر آنے والے جانداروں کی کسی کو خبر تک نہ تھی، حکم دیا کہ پانی میں پیشاب نہ کریں کہ پانی کی بھی کچھ مخلوق ھے۔

حیوانات کے بعض حقوق اور ان کے بارے میں انسانی ذمہ داریوں کو ذکر گیا گیا، جس سے اجتماعی عدالت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں دین اسلام کا آئین واضح هوتا ھے۔

دین ِ اسلام کا مقصد دنیا و آخرت کو آباد کرنا اور انسان کے جسم و جان کو قوت و سلامتی عطا کرنا ھے <رَبَّنَا آتِنَا فِیِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَاعَذَابَ النَّارِ>[48]

دنیا و آخرت اور جسم و روح کی ایک دوسرے سے وابستگی اور عدل و حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی مادی و معنوی زندگی میں سے ھر زندگی کی جتنی اھمیت و ارزش تھی ،اتنی ھی اس کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا:<وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَالْآخِرَةَ وَلَا تَنْسِ نَصِےْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا> [49]

دنیا کو آباد کرنے اور انسان کی آسودگی و آرام پر مکمل توجہ رکھی،دنیا وآخرت کو ان کی خلقت کے تقاضے کے مطابق بالترتیب ثانوی و طفیلی اور بنیادی و مرکزی حیثیت دیتے هوئے، دنیا و آخرت میں نیکی و حسنات کو انسان کی درخواست اور دعا قرار دیا کہ کلام امام معصوم(ع) میں دنیا کے حسنہ کو رزق و معاش میں وسعت اور حسنِ خلق، جبکہ آخرت کے حسنہ کو رضوان خدا و بھشت بتلایا گیا ھے۔اقتصادی ترقی بالخصوص زراعت و تجارت کو اھمیت دی اور <وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ> [50] کے حکم کے مطابق مؤمن کو سخاوت اور بے نیازی کی بدولت عزیز جانا۔ امام جعفر صادق (ع)سے روایت نقل هوئی ھے:((و ما فی الاٴعمال شیٴ اٴحب إلی اللّٰہ من الزراعة)) [51]۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع)  نخلستان میں کاشتکاری و آبیاری کیا کرتے تھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جہاد کرنے والوں کا درجہ
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
زکات
انسانی زندگی میں انفرادی ذمہ داریاں
غیرمسلموں کی نظر میں مہدی (عج )کا تصور
خلقت ميں حسن اور قبح ساتھ ساتھ کيوں؟
عالم آخر ت کی خصو صیا ت (آخرت کی پہنچان)
عقل کیا ہے اور اس کے وجود کی کیا دلیل ہے؟
صفات ذاتی وصفات فعلی
توسل قرآن کی نظر میں

 
user comment