توسل قرآن کی نظر میں
قرآن مجید انسانی فطرت کے مطابق نازل ھوا ھے،اسی وجہ سے (توسل) کے موضوع کو ھدف اور توحید تک پھنچنے کے لئے ایک مسلم راستے کے عنوان سے تعارف کرایا ھے۔
اس لئے اصل توسل کا انکار حقیقت میں عالم طبیعت کے اصل اصول کے انکار کرنے کے برابر ھے اور قوانین فطرت کو نادیدہ شمار کرنا ھے۔
( قُرب خدا)عبودیت و بندگی کی راہ میں انسان کے لئے قرب خدا ایک عالی ترین اور شریف ترین کمال ھے جس کی قرآن نے نشان دھی کی ھے ،ارشاد ھوتا ھے:
"یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیہِ الوَ سِیْلَةَ وَ جَاھِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ"[3]
اے ایمان لانے والو! تقوی الہٰی اختیار کرو اور اللہ تک پھنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جھاد کرو شاید تم نجات پا جاوٴ۔
اور اسی طرح دوسری جگہ ارشادھوتا ھے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَایَملِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُم وَ لَا تَحْوِیلاً اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّھُم اَقْرَبُ وَ یَرجُونَ رَحْمَتَہُ وَ یَخَافُونَ عَذَابَہُ اِنَّ عَذَاْبَ رَبِّکَ کَانَ مَحذُوراً ۔[4]
"یہ لوگ جن کی مشرکین(اپنا خدا سمجھ کر) عبادت کرتے ھیں ،وہ خود اپنے پروردگار کی قُربت کے ذریعہ ڈھونڈتے پھر تے ھیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کو ن زیادہ قربت رکھتا ھے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ھیں، ا س میں کوئی شک نھیں کہ تیرے پروردگار کا عذا ب ڈرنے کی چیز ھے"۔
یہ آیات شریفہ اس بات کی نشاندھی کرتی ھیں کہ تمام موجودات ، فرشتے اور پیامبران یا دوسری مخلوقات اللہ کے علاوہ سب کے سب اس سے کسب فیض (وسیلہ کی تلاش) کرتے ھیں، چاھے وہ اضطراری حالت میں ھو یا اختیاری حالت میں ، ھر طرح سے اس کی رحمت سے قریب اور عذاب کو دو رکرنے میں وسیلہ کی تلاش کرتے ھیں، تاکہ اس سے اور زیادہ قریب ھو جائیں :
"یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّہُم اَقرَبُ"
رسول اللہ(ص) سے روایت کی گئی ھے کہ:آنحضرت(ص) نے فرمایا:
"اِسْئَلُُوا اللّٰہَ لِی بِالوَسِیلَةِ فَاِنَّہَا دَرَجَةٌ فِی الجَنَّةِ لاَیَنَالُہَا اِلاّٰ عَبدٌ وَ احِدٌ اَرجُو اَن اَکُونَ اَنَا ہُوَ"
میرے لئے اللہ سے وسیلہ کی دعا کرو کیونکہ جنت میں وسیلہ ایک ایسا درجہ ھے جو ایک بندہ کے علاوہ کسی کو نھیں مل سکتا میں امید کرتا ھوں کہ وہ ایک بندہ میں ھوں۔
اسی طرح رسول اللہ(ص) سے اذان سننے کے وقت کی دعا میںنقل ھوا ھے: "۔۔۔ آتِ مُحَمَّداً الوَسِیلَةَ۔۔۔۔" اے اللہ رسول اللہ(ص) کو درجہٴ وسیلہ پر فائز کر۔
حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کے لئے دعا کرتے وقت یہ فرماتے ھیں :"وَشَرِّفْ عِندَکَ مَنزِلَتَہُ وَ آتِہِ الوَسِیلَةَ۔۔۔" اے خدا اپنے نزدیک رسول اسلام(ص) کی منزلت کو بزرگ قرار دے اور ان کو درجہٴ وسیلہ سے سرفراز فرما۔۔۔
غرض یہ کہ تمام کائنات یھاں تک کہ اشرف موجودات میں سے خود رسول اعظم(ص) ھیں وہ بھی خدا سے تقرب حاصل کرنے میں "ابتغاء وسیلہ" یعنی وسیلہ تلاش کرتے ھیں یہ اور بات ھے کہ آنحضرت(ص) کا وسیلہ دیگر ممکنات جھان کے وسیلہ سے بہت مختلف ھے اوروہ وسیلہ ھماری سعی اور کوشش سے بڑھ کر ھے۔
اسی لئے تمام موجودات جھان اپنے حدود کے دائرے میں رہ کر سب کے سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جیسا کہ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا: " یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ"یعنی وسیلہ کی تلاش میںر ھیں تاکہ اپنے پروردگار کا قرب حاصل کریں ، ھاں بس اسی لئے ھے کہ کائنات میں کوئی بھی موجود یہ صلاحیت نھیں رکھتاکہ رب حقیقی بن سکے یا مستقلاً مشکلات کو رفع کرسکے یامستقل طور پر کسی کو فیضیاب کرسکے۔
جبکہ معبودیت اور استقلال رحمت کے افاضہ کے لئے ، حکم عقل کے مطابق، قدرت مستقلہ اور موجود کے خصائص کی شان "قائم بذات" ھے اور وہ بھی ذات اقدس حضرت "حق " جل شانہ میں منحصر ھے اور بس۔
اور تمام موجودات جو کہ بذات خود فاقد ھستی و کمالات ھیں ضروری ھے کہ مبداٴ ھستی و منبع کمال سے "ابتغاء وسیلہ" کی راہ پر گامزن رھکر طلب فیض کریں "اِتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیہِ الْوَسِیلَةَ"۔
اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ لغت میں "وسیلہ" کے مختلف معانی بیان کئے گئے ھیں ان میں مناسب ترین معنی گذشتہ دو آیات ( آیت ۳۵ سورہٴ مائدہ و آیت ۷۵ سورہٴ اسراء )میں سیاق کلام کے لحاظ سے وہ وھی پانچواں معنی ھے، یعنی "ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ھوا جاسکے"
مخصوصاً پھلی آیت میں کہ اولاً حکم "ابتغاء وسیلہ" کے بعد، راہ خدا میں جھاد کا حکم دیا گیا ھے اور ثانیاً "تقویٰ" و "ابتغاء وسیلہ" اور "جھاد" کے نتیجہ کو "فلاح" و کامیابی ، جملہٴ "لعلکم تفلحون" کے ذریعہ بیان کیا جا رھا ھے۔
اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ فلاح و کامیابی ،وھی خدا کے قرب کا پا جانا ھے اور چونکہ "مقصد" اور "نتیجہ" میں مغایرت ھونی چاھیئے ضروری ھے کہ "وسیلہ" ایسی چیز ھوکہ آدمی کے لئے ممکن ھوسکے کہ اس کے ذریعہ "قرب خدا" و "منزلت" اور اس "درجہ" تک رسائی ھوسکے اور وہ وھی "فلاح" اور کامیابی ھے جو اس تک پھونچ سکے۔
اور اسی طرح جھاد کا حکم حقیقت میں اس کے درپے وسیلہ کا حکم ھے (چاھے جھاد کو کفار کے ساتھ قتال کے معنی میں لیں، یا مطلقاً راہ خدا میں کوشش و سعی کے معنی میں لیں) پھر بھی وسیلہ اس کے اھم مصداق میں سے ھے اور چونکہ یہ مسلّم ھے کہ خود "جھاد" قرب خدا کے لئے عینی و خارجی تحقق نھیں ھے بلکہ "قرب" کے لئے ایک سبب و مقدمہ ھے تو پھر اس کا مطلب یہ ھوا کہ "وسیلہ" اس مذکورہ آیت میں "قرب" و"درجہ" اور "منزلت" و "چارہ جوئی" جو کہ وسیلہ کے لغوی معنی ھیں، نھیں ھے۔
بلکہ صحیح و مناسب معنی اس آیہٴ شریفہ کا وھی ھے جو پانچواںمعنی بیان کیا گیا ھے یعنی "ھر وہ چیز جس کے ذریعہ خدا تک رسائی ھوسکے"
اور اس وجہ سے بھی کہ کلمہٴ "وسیلہ" آیہٴ شریفہ میں مطلق اور کسی قید و تقیید کے بغیر آیا ھے اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ اس کے معنی میں وسعت و گستردگی ھے اور ھر طرح کا اعتقاد و عمل اور ھر چیز و ھر شخص جو کہ خدا سے "قرب" کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں، اطلاق ھوتا ھے، بطور مثال، ایمان ، پروردگار کی وحدانیت کا اعتقاد اور پیغمبروں کی رسالت کا اعتقاد و ایمان ،اور اسی طرح رسول اسلام(ص) کی پیروی و اطاعت ، واجبات کا انجام دینا مثلاً نماز، روزہ، حج، زکات و جھاد اور نادان لوگوں کو صلہٴ رحم کی ھدایت کرنا ، مریض کی عیادت کرنا وغیرہ نیک اور خداپسند اعمال یہ تمام کے تمام قرب خدا کے وسائل و اسباب ھیں۔
جیسا کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
"اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِہِ المُتَوَسِّلُونَ اِلٰی اللّٰہِ سُبْحَانَہُ ، اَلاِیمَانُ بِہِ وَ بِرَسُولِہِ وَ الجِہَادُ فِی سَبِیْلِہِ... وَ کَلِمَةُ الاِخْلاَصِ ...وَ اِقَامِ الصَّلوةِ ...وَ اِیتَاءِ الزَّکَوةِ ...وَ صَوْمِ شَھرِ رَمَضَان...َ وَ حَجُّ البَیتِ وَ اِعتِمَارُہ ُ...وَ صِلَةُ الرَّحم...ِ وَ صَدَقَةُ السِّرِّ وَصَدَقَةُ العَلَانِیَّةِ ...وَ صَنَائِعُ المَعرُوفِ"
بیشک وسیلہ تلاش کرنے والوں کے لئے بہترین وسیلہ خدا تک رسائی کی خاطر ، اللہ پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کی راہ میں جھاد، کلمہٴ اخلاص، اقامہٴ نماز، اداء زکات، رمضان المبارک کا روزہ، حج بیت اللہ اور عمرہ، صلہٴ رحم ، اللہ کی راہ میں مخفی اور علناً طریقے سے صدقہ دینا، اور دیگرنیک اور خداپسند اعمال سب کے سب خدا تک پھونچنے کے وسیلہ ھیں۔
اور اسی طرح انبیاء کی ذوات مقدسہ، اولیا خدا و مقربین بارگاہ خداوندی، ان کی معرفت اور ان لوگوں سے محبت کرنا، دعا و شفاعت طلب کرنا ان کے ذریعہ تقرب تلاش کرنا، یا ان سے منسوب چیزوں کی تجلیل کرنا، کسی بھی طریقے سے کیوں نہ ھو، مراقد مطھرہ کی زیارت کرنا اور ان کی قبور شریفہ جو کہ مسلّم مصداق "تعظیم شعائر اللہ" ھے اور بندگان خدا سے محبت و مودت کی روشن ترین دلیل اور ھادیان راہ حق کی تعالیم و مکتب کو عظمت دینے کے برابر ھے۔
روشن ھے کہ یہ تمام مذکورہ چیزیں کلمہٴ "وسیلہ" کے "اطلاق" کے لحاظ سے سب کی سب اس وسیع و عام مفھوم میں داخل ھیں،یعنی ان تمام امور پر، یہ عنوان صدق آتا ھے "مَا یَتَقَرَّبُ بِہِ اِلٰی اللّٰہِ" یعنی جس کے ذریعہ اللہ سے قریب ھوا جاسکے اور اس کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرسکیں۔
اس بنا پر کوئی ھمارے پاس دلیل یا سبب نھیں ھے کہ کلمہٴ وسیلہ کے "اطلاق" سے چشم پوشی کریں اور اس کے مفھوم کو ایک یا چند مفھوم کے لئے مخصوص کریں جیسا کہ "ابن تیمیہ" اور اس کے پیروکار "وھابیوں" نے بغیر کسی دلیل کے تقیید و تخصیص کی ھے۔
۱) رسول خدا(ص) پر ایمان اور آنحضرت(ص) کی پیروی ۔
۲) پیامبر اکرم(ص) کا دعا و شفاعت کرنا وہ بھی فقط دنیوی زندگی کے دوران اور روز قیامت میں۔
اور کبھی اس آیت کی تفسیر واجبات اور مستحبات کے لئے کرتے ھیں،اطلاق کے علاوہ آیہٴ شریفہ جیسا کہ ھر طرح کی تقیید سے خالی ھے اسلامی احادیث (چاھے شیعہ حضرات کے ذریعہ حدیث نقل ھوئی ھو یا اھل سنت کے ذریعہ) توسل کے عنوان پر روایات بہت زیادہ ھیںجو کمال ِوضاحت کے ساتھ وھی عام وسیع معنی کوثابت کرتی ھیں اور خدا سے تقرب جوئی و منبع و مرکز فیض سے اخذ برکات، صلحاء و مقربین بارگاہ خداوندی سے استغاثہ و استمداد چاھے کسی بھی حالت میں ھو، چاھے کسی بھی عنوان سے ھو، تائید اور تصدیق کرتی ھیں [5] بحث طولانی ھونے کی وجہ سے ھم یھاں پر ان روایات کو ذکر کرنا نھیں چاہتے، اس سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو کتب روائی اور کتب سیرت و کتب تاریخ اھل سنت اور اسی طرح کتاب "وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ" نوشتہٴ سمھودی کے مطالعہ کی دعوت دیتے ھیں۔