انسان جن چیزوں کے با رے میں تجربہ نہیں رکھتا اور جنکو باطنی دلیلوں اور علم حضور ی کے ذریعہ نہیں سمجھ سکتا، یا پھر اپنے احسا سا ت کی روشنی میں سے در ک نہیں کرسکتا ، اس کے بارے میں شنا خت کا مل حاصل کرن اس کے لئے محال ہے لہٰذا اس نکتہ کی طرف تو جہ کر تے ہو ئے ہمیں اس با ت کی تو قع نہیں رکھنی چا ہیے کہ ہم آخر ت اور اس میں رو نما ہو نے والے حوا دث کو صحیح معنوں میں پہچا ن سکتے ہیں یا ان کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں، بلکہ ایسے مسا ئل میں صر ف عقل ور و ایا ت کے ذریعہ ثا بت شد ہ اوصا ف اور مسلما ت پر اکتفا کر لینا ضروری ہے اوراس سے اُوپر پر وا ز کر نا منا سب نہیں ہے ۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض افرادنے یہ سمجھا نے کی لا حا صل کوشش کی ہے کہ آخر ت بھی اسی دنیا کے مانند ہے اور اس بارے میں یہا ں تک آگے بڑھ گئے ہیں کہنے لگے بہشت اسی دنیا میں آسمان کے کسی کرّے یا سیارے میں ہے جدید علمی ترقی کے ذریعہ ایسے وسائل ایجاد کئے جا سکتے ہیں کہ جن کی مدد سے وہاں منتقل ہوا جا سکتا ہے جہاں نہا یت راحت و آرام کے سا تھ زندگی گذا را ی جا سکتی ہے ۔
اور دوسری جا نب بعض لو گ تو سر ے سے ہی آخر ت کا انکا ر کر بیٹھے ہیں اور انکے تصو ر میں آخر ت اور جنت صر ف اخلا قی قدر و منز لت کا نام ہے یعنی قو م و ملت کے خد مت گذا ر اور نیک افراد اُس سے لو لگا ئے ہیں اور ان کی نظر میں دنیا و آخر ت کے درمیان فر ق صر ف فا ئدے اور قدر و منز لت کی بنیا د پر ہے ۔
ایسی صو رت میں ہم سب سے پہلے گروہ اول سے سوال کرتے ہیں کہ بہشت آخراگر آسمان کے کسی سیّارے پر ہے اور آنے والی نسل وہاں پہنچے گی تو قیا مت کے دن انسانوں کا دو بارہ زند ہ ہو نا، اور ایک جگہ پر جمع ہونا جس کی قرآن مجید نے بھی تصر یح فر ما ئی ہے اس کے کیا معنی ہو ں گے ؟اور کیسے گذشتہ قو موں کے اعما ل کی جزا اور سزا وہاں دی جا ئے گی ؟ دوسرے گر وہ سے بھی ہمارا یہی سوال ہے کہ جب جنت صر ف اخلا قی اہمیت و ضرو رت کا نام ہے تو جہنم بھی خلا ف ِاخلا قی چیزو ں کے علا وہ کو ئی دو سر ی شے نہیں ہو گی اور ایسی صو رت میں قرآن مجید نے جو قیا مت کے وقوع پر اورانسانوں کے دو با رہ زندہ ہو نے پر اتنی تا کید کی ہے اس کا کیا ہو گا؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ انبیا ء ٪قیا مت اور آخر ت کے اسی مفہوم کو صراحت کے سا تھ بیان کر دیتے تا کہ اپنے اُوپر ہونے والے تمام اعتر اضا ت اور تہمتوں سے محفو ظ رہتے اور ان پر دیوانگی اور افسانہ گو ئی وغیر ہ کے الزا ما ت نہ لگتے ؟
ان سب با تو ں اور بحثو ں کے بعد اختلا فا ت اور منا ظرات جو فلا سفہ اورمتکلمین کے درمیان واقع ہو ئے ہیں کہ آیا معا د ( قیا مت میں دو با رہ زندہ ہو نا اور حساب و کتا ب ہو نا)جسمانی ہے یا رو حا نی؟ کیا یہ ما دی دنیا با لکل فنا ہو جا ئے گی یا نہیں؟ کیا یہ اخروی جسم ، وہی دنیاوی جسم ہے یا اس کے مثل و مانند کوئی دوسری شی ہے ؟ اگر چہ یہ عقلی اور فلسفی کو ششیں حقیقت جوئی کی راہ میں قا بل داد و تحسین ہیں اور انھیں کے سا ئے میں ضعیف و قوی نظر یا ت بھی سامنے آئے ہیں لیکن ہمیں اس با ت کی توقع نہیںرکھنی چا ہیے کہ ان بحثو ں سے ہم ابدی زندگی کی تہہ تک پہنچ جا ئیں گے اور اصل حقیقت ہمارے لئے اس طر ح رو شن ہوجا ئے گی کہ گویا ہم نے اسے پالیا ہے ۔
وا قعاً کیا ابھی تک اسی دنیا ئے فا نی کے تمام حقا ئق پو ری طرح سے کشف ہو گئے ہیں ؟ کیا سا ئنس والوں نے اس حقیقت کو کشف کر لیا ہے کہ ما دہ کیا چیز ہے؟ انر جی کیا ہے؟ یا مختلف مو جود طا قتیں اور قوتیں کیااور کیسی ہیں ؟کیا اس دنیا کے مستقبل کے سلسلے میں کو ئی یقینی پیشین گو ئی کر سکتے ہیں ؟ کیا انھیں یہ معلوم ہے کہ اس دنیا کی مقنا طیسی کیفیت ختم کر دی جا ئے الکٹر ون ذرا ت اپنی حر کت سے رک جا ئیں تو کیا ہو گا ،یا ان چیز وں کا وا قع ہو نا ممکن ہے یا نہیں ؟
کیا فلسفیوں نے اس دنیا سے متعلق سا رے عقلی مسا ئل کو یقینی طور سے حل کر لیا ہے ؟اور کیا جسمی اور نو عی صو رتیں جسم و روح کے در میان رابطے کے سلسلے میں مزید حقائق جاننے کی تحقیقات کی ضر ور ت نہیں ہے ؟
لہذا ہم اپنے ان نا قص علوم اور محدود علم و دا نش کے ذریعہ اس دنیا کے حقا ئق تک کیسے پہچانیں جب کہ ہما رے پاس اس کے با رے میں کو ئی تجربہ بھی نہیں ہے انسان کے علم کے ناقص ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے وہ قطعاً کسی چیز کو پہچا نتا ہی نہیں، یا اس را ہ میں اس کی تما م تر کو ششیں بیکا ر ہیں ۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اس خدا داد عقل کے ذریعہ بہت سے اسرارِ طبیعت اور راز خلقت کو کشف کر سکتے ہیں، البتہ ہمیں اپنے علوم اور تجر با ت کو بڑھانے کے لئے علمی اور فلسفی روش اور طر یقوں سے مدد لینی چا ہیے، لیکن اس کے سا تھ سا تھ لازم ہے کہ اپنی عقلی طا قت کی حد اور سا ئنسی تجر با ت کی سطح کو ملحوظ رکھیں اور اپنی حد سے زیا دہ پر واز کرنے کی کو شش نہ کریں،اور اس اصول کو بھی قبو ل کریں
(وَ ماَ أُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلّا قَلِیْلا ً)(١)
اور تم کو بہت تھو ڑا علم دیا گیا ہے ۔
………………………………
١۔ بنی اسرائیل۔ آیت٨٥
ہا ں، کبھی کبھی عا لما نہ اور عمیق نظر، حکیما نہ تو ا ضع وا نکسا ری اور ذمہ دا را نہ دینی احتیا ط کے پیش نظر ہمیں قیا مت کے حقا ئق کے متعلق یقینی رائے دینے، غیب کی با تیں اور بے جا تا ویلا ت سے پر ہیز کر نا ا ہیے، سو ائے ان حقا ئق کے جنکے با رے میں خدا وند عالم اور عقلی دلیلوں نے ہمیں اجا زت دی ہے ۔
بہر حا ل مو منین کے لئے کا فی ہے کہ جو پر ور دگا ر نے نا زل فر مایا ہے اسے صحیح تسلیم کر تے ہو ئے اس پر ایما ن رکھے جن کے بارے میں صحیح تشخیص نہیںدے سکتا جن کی خصو صیا ت سے وا قف نہیں ہو سکتا خصو صاًوہ امو ر جن کے با رے میںہما رے علم و تجر بے نا قص ہیں ۔
اب ہم اس با ت کی کو شش کر تے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس حد تک ہم آخر ت کی خصو صیا ت اور دنیا و آخر ت کے فر ق کو عقل کی رو شنی میں بیان کر سکتے ہیں ۔
عقل کی روشنی میں آخرت کی خصو صیا ت۔
قیامت کی ضرورت کے سلسلے میں جو دلائل ہم نے بیان کئے ہیں انھیں کے پیش نظر آخرت کی خصوصیات کو بیان کریں گے،ان میں سے چند اہم خصوصیات یہ ہیں،
١۔آخرت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اسے ابدی اور جاودانی ہو نا چاہیے،کیونکہ ہم نے پہلی دلیل میں ابدی حیات کے امکان اور انسانی فطرت کے مطابق ہونے سے بحث کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ حیات ابدی حکمت الٰہی کا تقاضہ ہے،
٢۔دوسری خصوصیت جو دونوں ہی دلیلوں سے ثابت ہے اور دلیل اول میں اس کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ عالم آخرت کا نظام ایسا ہو کہ جس میں آخرت کی تمام نعمتیں اور رحمتیں بالکل خالص اور بغیر کسی رنج و زحمت کے حاصل ہوں تاکہ ایسے افراد جو کسی گناہ اور معصیت میں مبتلا ہوئے بغیر انسانی کمال کے اہم درجات تک پہنچے ہیں اس سعادت سے لطف اندوز اور نعمتوں سے سرفراز ہوں۔
دنیا کے بر خلاف کہ جہاں ایسی خالص سعادت ممکن ہی نہیں ہے بلکہ د نیاوی خوشبختی نسبی ہے جو ہمیشہ رنج ومعصیت کے ساتھ ہوتی ہے۔
٣۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جہانِ آخرت کے کم از کم دو الگ الگ حصے ہونے چاہیے تاکہ نیک اور بد یا مومن وکافر ایک دوسرے سے جُد ا رہیں اور دونوں اپنے اپنے اعمال و کردار کے لئے تلافی کریں اور یہ دونوں مقام اور منزلیں شریعت الہٰی کی زبان میں جنت و جہنم کے نام سے موسوم ہیں۔
٤۔چوتھی خصوصیت جو برہانِ عدالت سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابدی جہان کو اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ جس میں تمام انسانوں کو ان کے نیک اور برے اعمال کی جزا وسزا دینے کی گنجائش ہو،مثلاً اگر کسی نے لاکھوں انسانوں کو ناحق قتل کیا ہے تو اسے وہاں اس کی سزا ملے اور اگر کسی نے لاکھوں انسانوں کی حیات اور زندگی بچائی ہے تو اسے اس کی جزا ملنے کا امکان ہو۔
٥۔سب سے مہم خصوصیت جو اسی برہان عدالت سے ثابت ہوتی ہے اس کا ذکرپہلے بھی ہو چکا ہے کہ آخرت صرف جزا وسزا کا مقام ہے نہ اعمال وکردار کا ۔
توضیح:دنیاوی زندگی ایک چیز ہے جس کا دار ومدار متضاد خواہشات اور آرزؤوں پر ہے اور ہمیشہ یہ خواہشات زندگی کے دوراہے پر ٹھہر جاتی ہیں اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور یہی انتخاب ان کے عمل کے راستے کو ہموار کرتا ہے اور عمر کے آخری لمحہ تک اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور حکمت وعدالتِ الٰہی کا تقا ضا یہی ہے کہ اس کے اوامر پر عمل کرنے والوں کو جزا اور اس سے منحرف افراد کو سزا کا مستحق قرار دے۔
اب ایسی صورت میں اگر ہم یہ فرض کریں کہ عالم آخرت بھی عمل انجام دینے کی جگہ ہے تو رحمت الٰہی اور اس کی فیاضی کا تقا ضا یہ ہے کہ ان اعمال کی انجام دہی میں مانع نہ ہو اور انسان کو اتنا موقع دے کہ وہ اپنے راستے کا انتخاب خود کرے،تو ایسی صورت میں ضرورت پیش آئیگی کہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی عالم ہو جس میں ان اعمال پر جزا و عقوبت قرار دی جائے،پس ہم نے جس دنیا کو آخرت فرض کیا تھا وہ آخرت نہیں بلکہ دوسری دنیا شمار ہوگی اور آخرت صرف آخری جہان کو کہا جائے گا جہاں اعمال پر ثواب اور عقاب مترتب ہوں اور وہاں اعمال بجالانے کی گنجائش نہ ہو۔
بس یہیں سے دنیا اور آخرت کا اساسی اور بنیادی فرق سامنے آتا ہے یعنی دنیا اسے کہتے ہیں جہاں انسان کی آزمائش اور امتحان ہو اور اچھے یا برے اعمال بجالائے اور آخرت اس ابدی زندگی کا نام ہے جہاں صرف اپنے کئے کی اچھی یا بری جزا یا سزا ملے ۔
(وَاِنَّ الْےَوْمَ عَمَل وَلَا حِساب وَغَداً حِساب وَلَا عَمَل (١)
………………………
١۔ نہج البلا غہ خطبہ ٤٢
source : http://www.shianet.in